یہ تو نہیں کہ غم نہیں
ہاں میری آنکھ نم نہیں
تم بھی تو تم نہیں ہو آج
ہم بھی تو آج ہم نہیں
اب نہ خوشی کی ہے خوشی
غم کا بھی کوئی غم نہیں
موت اگرچہ موت ہے
موت سے زیست کم نہیں
(فراق گورکھپوری)
اے خدا ریت کے صحرا کو سمندر کر دے
یا چھلکتی آنکھوں کو بھی پتھر کر دے
تجھ کو دیکھا نہیں محسوس کیا ہے میں نے
آ کسی دن میرے احساس کو پیکر کر دے
اور کچھ بھی مجھے درکار نہیں ہے لیکن
میری چادر میرے پیروں کے برابر کردے
راز الفت سکھا گیا کوئی
دل کی دنیا پہ چھا گیا کوئی
تا قیامت کسی طرح نہ بجھے
آگ ایسی لگا گیا کوئی
وقت رخصت گلے لگا کر کوئی
ہنستے ہنستے رلا گیا کوئی
(داغ دہلوی)
یہی حالات ابتدا سے رہے
لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے
بے وفا تم کبھی نہ تھے
یہ بھی سچ ہے کہ بے وفا سے رہے
ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا
کیوں گلہ پھر ھمیں ہوا سے رہے
بحث شطرنج شعر موسیقی
تم نہیں رہے تو یہ دلاسے رہے
زندگی کی شراب مانگتے ہو
ہم کو دیکھو کہ پی کے پیاسے رہے
فراز اب کوئی سودا کوئی جنوں بھی نہیں
مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں
لب و دہن بھی ملا گفتگو کا فن بھی ملا
مگر جو دل پہ گزرتی ہے کہ سکوں بھی نہیں
میری زباں کی لکنت سے بد گماں نہ ہو
جو تو کہے تو تجھے عمر بھر ملوں بھی نہیں
فراز جیسے کوئی دیا تربت ہوا چاہے ہے
تو پاس آئے تو ممکن...
یہ کیسا ابر دل پر چھا گیا ہے
اداسی روح تک برسا گیا ہے
ذرا یہ برف کا کہسار دیکھو
کہ جیسے آئنیہ پتھرا گیا ہے
ذرا یہ سوختہ اشجار دیکھو
کوئی غم ہے جو ان کو کھا گیا ہے
بس اب یہ دوستی ہے عمر بھر کی
وہ مجھ سے ہی مجھے ملواگیاہے