خدارا ہمیں یوں نہ تڑ پائیے
لحد پر ہی تشریف لے آئیے
ہے الجھی ہوئی زندگی کی لڑی
مرے چارہ گر آکے سلجھائیے
نہیں سہہ سکوں گا جدائی کا غم
خدارا نہ اتنے قریب آئیے
بناتے ہیں کندن یہ انسان کو
غموں سے نہ ہرگز بھی گھبرائیے
کٹھن ہیں بہت عشق کے مرحلے
جوانی پہ اپنی ترس کھائیے
دبی راکھ میں ہیں جو چنگاریاں...
سر الف عین صاحب! آپ کی ہدایا ت کے مطابق:
کچھ وحشی لوگوں کے ہاتھوں
غزہ کے اک مسمار ہوئے
گھر کے ملبے پر سہمی سی
اک لڑکی اپنی آنکھوں میں
جھر جھر بہتے آنسو لے کر
اپنے مسلم غم خواروں کو
سب مومن روزہ داروں کو
آہیں بھر کے یہ کہتی ہے
تم کو یہ عید مبارک ہو
یہ ملبہ در دیواروں کا
گارے مٹی کا ڈھیر نہیں...
سر الف عین صاحب دوبارہ کوشش کی ہے۔ نظرثانی کی درخواست ہے۔
خدارا نہ میت کو تڑ پائیے
لحد پر ہی تشریف لے آئیے
ہے الجھی ہوئی زندگی کی لڑی
مرے چارہ گر آکے سلجھائیے
خطا کار ہوں آپ کے پیار کا
ذرا بھی تکلف نہ فرمائیے
خزاؤں سے ڈرتے ہوں خورشید تو
چمن کو گلوں سے نہ مہکائیے
نظم پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
ظالم، غاصب کی وحشت سے
غزہ کے اک مسمار ہوئے
گھر کے ملبے پر سہمی سی
اک لڑکی اپنی آنکھوں میں
جھر جھر بہتے آنسو لے کر
اپنے مسلم غم خواروں کو
سب مومن روزہ داروں کو
آہیں...
غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
خدارا ہمیں یوں نہ تڑ پائیے
مری جان تشریف لے آئیے
الجھ سی گئی ہست کی ڈور ہے
مرے چارہ گر آکے سلجھائیے
نہیں سہہ سکوں گا جدائی کا غم
خدارا نہ اتنے قریب آئیے
بناتے ہیں...
شکریہ جناب محمد ریحان قریشی صاحب ! آپ کی رائے اور استاد الف عین صاحب کی مہرِ تصدیق کو سامنے رکھتے ہوئے غزل دوبارہ پیشِ خدمت ہے نظر ثانی کی درخواست کے ساتھ۔
بہت غم ہیں تُو نے دیے، جا رہا ہوں
میں آنکھوں میں آنسو لیے جا رہا ہوں
سبب زندگی کا نہیں اور کوئی
تصور میں اُن کے جیے جا رہا ہوں...
مختصر غزل پیش ِخدمت ہے۔ اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ
بہت غم ہیں تُو نے دیے۔ جا رہا ہوں
میں آنکھوں میں آنسو لیے۔ جا رہا ہوں
وجہ اور جینے کی کوئی نہیں ہے
تصور میں اُن کے جیے جا رہا ہوں
کٹورا سے نینوں میں الفت کی مے...
سر الف عین صاحب! نظر ثانی کی درخواست ہے۔
اسیرانِ محبت تیرے شر سے
اسیری سے رہا ہونے لگے ہیں
سر ! شعر میں گھٹن سے بھاگ کر نشے میں ڈوبنا ہے۔
گھٹن سے بھاگ کر ڈوبے نشے میں
وہ کیا تھے اور کیا ہونے لگے ہیں
اگر کسی قوم کےلوگوں نےایک سر کی ردا بھی بیچ دی تو قوم کی شرم و حیا بیچ دی۔
امامانِ مسجد شاید زیادہ سخت الفاظ ہیں۔
ہسپتالوں میں بیٹھے ڈاکٹر
ہیں نورانی چہرے ہیں دستاریں سر پر
مگر سائلوں کو دعا بیچتے ہیں
چہرہ نورانی سر پر دستار سجائے۔پیرومرشد کی وضع قطع ایسی ہی ہوتی ہے۔ کچھ لوگ پیرومرشد کا روپ...