میں جنّت سے اِس پر نکالا گیا تھا
مِرے منہ میں بس اک نوالا گیا تھا
تُو وہ بات ہے دب کے جو رہ گئی ہے
میں وہ قِصّہ ہوں جو اُچھالا گیا تھا
دھماکا ہُوا تھا اندھیرے میں جس دم
بڑی دُور تک پھر اُجالا گیا تھا
مِری آستیں دیکھ کر لگ رہا ہے؟
کہ اس میں کوئی سانپ پالا گیا تھا
بڑے سانحے تھے مِری زد میں...
کیوں اُس کو سمجھ میں یہ اشارے نہیں آتے
گر خُشک ہوں تالاب، پرندے نہیں آتے
سج دھج کے مِرے دل میں اُترتے ہو سرِ شام
ویران گھروں میں کبھی ایسے نہیں آتے!
اک ساتھ سبھی کچھ تو نہیں ملتا یہاں پر
پھل آئیں جو حِصّے میں تو سائے نہیں آتے
تاریخ نے بھی زور محبت پہ دیا ہے
یہ بات الگ مجھ کو حوالے نہیں آتے...