تیرے ہاتھ سے لکھا وہ مجھے خط اب بھی میرے پاس ہے
پڑھ کر اکثر جس کو جاناں طبیعت میری اداس ہے
میں تجھے دیکھنے کو ہر پل ترسا خواہش رہی بات کروں
ہجر کے مارے دل کو تیرے آنے کی اب تک آس ہے
آج تو گھر سے نکلتے ہی پوچھا میرا ادس رہنے کا سبب
میرے آنگن کا وہ بوڑھا شجر بھلا کا غم شناس ہے
وہ کئی بارہمارے پہلو...
بھری محفل میں اس نے کل، یوں بانہوں میں سمویا تھا
میں نازاں تھا عنایت پر ،مجھے سینے لگایا تھا
کسی وہ غیر کی خاطر، یوں ایسے مضطرب ہو کر
نہ پوچھوں ہم پہ کیا گزری ،گلے مل کے جو رویا تھا
بھلا تھی کیسی مجبوری، بچھڑنے والے کو لیکن
یہ میرا ضبط تھا گویا، اسے سینے لگایا تھا
میں اس کو یاد آتا ہوں ،مرے دل...
تری چاہتوں سے نکھر جاوں گا
تری نفرتوں سے بکھر جاوں گا
ترے شہر میں اب ترے روبرو
جوپوچھے ترا میں مکر جاوں گا
بچھڑ جائیں گے ہم یہ طے ہو گیا
جو بچھڑا تو ممکن ہے مر جاوں گا
کبھی تو نے سوچا مرے بارے میں
ترا ساتھ چھوٹا کدھر جاوں گا
تری چاہتوں سے نکھر جاوں گا
تری نفرتوں سے بکھر جاوں گا
ترے شہر میں اب ترے روبرو
جوپوچھے ترا میں مکر جاوں گا
بچھڑ جائیں گے ہم یہ طے ہو گیا
جو بچھڑا تو ممکن ہے مر جاوں گا
کبھی تو نے سوچا اے جانے والے
ترا ساتھ چھوٹا کدھر جاوں گا
تری چاہتوں میں نکھر جاوں گا
جو بچھڑا تو ممکن ہے مر جاوں گا
ترے شہر میں یوں ترے روبرو
جوپوچھے ترا میں مکھر جاوں گا
کیا یاد ازبر اسے ہم نے تو
ترا ساتھ چھوٹا کدھر جاوں گا
بچھڑ جائیں گے ہم یہ طے ہو گیا
بھلا کون ہوں جو مکھر جاوں گا
متدارک مثمن سالم
فاعِلن فاعِلن فاعِلن فاعِلن
بخت ہم کو بھی ایسے نرالے ملے
چاہتوں میں تھے جتنے خسارے ملے
بات اس نے جو کی تھی مرے نام سے
کو با کو پھر تو چرچے ہمارے ملے
اپنا احساس مجھ کو دلانے کے وہ
بن کےانجان احباب سارے ملے
اس محبت نے چھوڑا کہیں کا جسے
نام کے میرے سب کو حوالے ملے
یہ بھی سچ...