آخری شعر
خسرو تو جانتا ہے کس کے ملنے کی امید میں بیٹھا ہے؟ جس کی یاد نے تجھ ہر چیز سے بیگانہ بنا دیا ہے
میرا من اسی کی یادوں میں مست رہتا ہے کہ کوئی یار کا رازداں ملے تو اسے کہوں کہ میرے محبوب تک میری عرضی پہنچا دینا۔
آخری شعر
خسرو تو جانتا ہے کس کے ملنے کی امید میں بیٹھا ہے؟ جس کی یاد نے تجھ ہر چیز سے بیگانہ بنا دیا ہے
میرا من اسی کی یادوں میں مست رہتا ہے کہ کوئی یار کا رازداں ملے تو اسے کہوں کہ میرے محبوب تک میری عرضی پہنچا دینا۔