بادشاہی کا شوق سب کو ہے سخت
پر میسر کسی کسی کو ہے تخت
زندگی‘ موت ‘غم‘ خوشی ‘چاہت
سب کو حاصل مگرمطابقِ بخت
ایک پل کا بھی ہم کو کیا احساس
بس گزرتا ہی جا رہا ہے وقت
"نازکی ان کے لب کی کیا کہیئے"
گفتگو یکدم ان کی ہائے کرخت
خوش ہوں غمگین ہوں ‘پہ بھُولا ہوں
وقت محدود ہے ، ہے نرم کہ سخت
کوئی...
مفہوم کی وضاحت کے مطالبے پر:
لوگ مل کر رشتوں میں بدل گئے لیکن دلوں کی کدورتیں ویسی کی ویسی ہی ہیں' گو خاموش ہیں
الفاظ بدل کر شعر یوں دیکھ لیجئے:
لوگ مل کر رشتوں میں ڈھلتے گئے
دل میں داخل گندگی خاموش ہے
پہلے مصرعوں کی اغلاط کا حل دیکھئے
1) ظلمتوں کی شب کوئی بتلائے کیا
"کیا ہوئی تابندگی؟‘ خاموش ہے"
2) بُت تھا میں حیرت سےٗ سمجھے وہ (یا)
سن کے حالِ دل مرا وہ غیر سے
"باعثِ شرمندگی خاموش ہے"
شکریہ
قوافی واقعی غور طلب ہیں
بندگی، ندی اور گندگی الگ قوافی ہیں اور زندگی، تابندگی ، شرمندگی الگ
کوشش کر کے اس غلطی کو درست کیا جا سکتا ہے
کوشش کر تا ہوں
میرے خیال سے باقی ٹھیک ہے
نالہ ہے یا بندگی خاموش ہے
نغمہ ہائے زندگی خاموش ہے
ظلمتوں کا مارا کوئی کیا کہے
کیا ہوئی تابندگی؟‘ خاموش ہے
بُت تھے حیرت سے ہم اور سمجھے یہ وہ
باعثِ شرمندگی خاموش ہے
ہوں قفس میں بند پنچھی کی طرح
آنکھوں سے بہتی ندی خاموش ہے
باتوں سے رشتے بنے‘ دل میں مگر
زیرِ پردہ گندگی خاموش ہے
بولنے کے ہم...