کسی رنگ ساز کی ماں نے کہا بیٹا اُٹھو نا۔۔ ناشتہ کرلو
کہ قسمت میں لِکھے دانوں کو چُگنے کے لئے بیٹا
پرندے گھونسلوں سے اُڑ چکے ہیں تم بھی اُٹھ جاؤ
خُمارِ نیند میں ڈُوبا ہوا بیٹا تڑپ اُٹھا
ارے ماں آج چُھٹی ہے ذرا سی دیر سونے دے
مِر ی آنکھوں کے تارے کون سی چُھٹی بتا مُجھ کو۔۔؟؟
ارے ماں!! آج دُنیا بھر...
چونکہ آپ کا کام صرف امریکی سرکاری موقف کو پھیلانا ہے، اس لیے آپ سے کسی عقلی دلائل کی توقع رکھا تو بیکار ہے کیونکہ آپ نے اپنی عقل کا استعمال تو کرنا نہیں صرف جس موقف کی تشہیر کے آپ کو پیسے ملتے ہیں وہی بیان کرنا ہے۔ باقی آپ کی نمازوں سے مجھے کچھ لینا دینا نہیں اور نا ہی میرے سوال کا مقصد وہ تھا۔
فواد صاحب پہلے تو آپ یہ واضح کریں کہ آپ جو کچھ یہاں لکھ رہے ہیں یہ امریکیوں(جن کے آپ تنخواہ دار ملازم ہیں) کا سرکاری موقف ہے یا آپ کی ذاتی آراہ ہیں؟؟
تا کہ اس کے مطابق بات کی جا سکے۔ یہ سوال کئی وجوہات کی وجہ سے اہم ہے مثلا اگر یہ امریکی سرکاری موقف ہے تو آپ پر اسلامی دلائل کارگر نہیں ہو سکتے...
آپ نے جو اتنا لمبا مضمون پیسٹ کیا اس میں کام کے الفاظ صرف درج ذیل ہیں جو کوئی دلیل دے رہے ہیں۔
"انہوں نے خود کش حملوں کو حلال ثابت کرنے کے لیے ٣ روایات کیں، مگر یہ تین روایات کسی بھی طرح خود کش حملوں میں معصوم شہریوں کو مارنے کے متعلق نہیں بلکہ صرف میدان جنگ مسلحہ حربی کفار سے لڑنے سے متعلق...
عابی مکھنوی ہریپور (ہزارہ) کے قریب ایک گائوں مکھناں کے رہنے والے ہیں اور مجھے ان کا دوست ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔
انتہائی اچھے انسان ہیں۔ شاعری کے ساتھ، کبھی کبار نثر بھی لکھتے ہیں اور کیا کمال لکھتے ہیں۔ ان شا اللہ وقتا فوقتا ان کا مزید کلام بھی شامل محفل رہے گا۔
عمر (رضی اللہ عنہ) اب کیوں نہیں آتا
شاعر: عابی مکھنوی
بیاد ”سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں آنکھیں جو ذرا کھولوں
کلیجہ منہ کو آتا ہے
سڑک پر سرد راتوں میں
پڑے ہیں برف سے بچے
دسمبر لوٹ آیا ہے
عمر (رض) اب بھی نہیں آیا
کسی کی بے رِدا بیٹی
لہو میں ڈوب کر بولی
کوئی پہرہ نہیں...
نوے کی دہائی کا آغاز تھا۔ گجرات سے جنم لینے والا انڈسٹریل کوآپریٹیو بینک اپنی پوری آب و تاب سے چل رہا تھا۔ اچانک شہر میں افواہ پھیلی کہ بینک بند ہو رہا ہے۔ صبح سویرے اس بینک کی برانچوں کے باہر لوگوں کی لائنیں لگی ہوئی تھیں جو اپنی رقوم نکالنا چاہتے تھے۔ چند ایک تو کیش ہوئے پھر بہانے شروع ہو...
بڑی دلچسپ بریکنگ نیوز ہے۔ ہمارے کئی دانشور جو ہر قسم کے ’طالبان‘ سے مذاکرات کے مخالف تھے کہ ۔۔۔ ’’دہشت گردوں سے مذاکرات کے کیا معنی؟‘‘۔۔۔ اب وہ ’افغان طالبان‘ سے مذاکرات کے حامی ہوگئے ہیں۔کیوں نہ ہوں؟ افغانستان کے طالبان کے ساتھ بارہ تیرہ برس سے جنگ کر کر کے ’’عسکری اور اقتصادی سطح پر زخم زخم‘‘...