ہمارا عشق بھلا لازوال تھوڑی ہے
تمہارے پیار کا ملنا، کمال تھوڑی ہے
وہ پوچھتا ہے کہ کیوں نہ جدا رہیں اب ہم
میں جانتا ہوں اسے، یہ سوال تھوڑی ہے
جو وہ بھی رویا تو مجھ کو یقین آنے لگا
ہجر کا میں نے ہی پالا وبال تھوڑی ہے
یہ تیرےعشق میں ضبط طلب کی منزل ہے
یہ مت سمجھ کہ وفا اب کے سال تھوڑی ہے
اب...
دل بے کل کو آرزو کیا ہے؟
تو نہیں گر تو روبرو کیا ہے؟
شب ہجراں ذرا بتا تو سہی
نالئہ شب کی آبرو کیا ہے؟
تو نہیں گر تو دامن دل کو
اب کوئی حاجت رفو کیا ہے؟
میرے گلشن کی خبر لو یارو
اک دھواں سا یہ چار سو کیا ہے؟
اپنی آنکھوں میں سجاتے کیوں ہو
مجھ میں ایسا بھی خوبرو کیا ہے؟
زرد پتوں کی سرسراہٹ میں...
شکریہ۔ آپ کی ترمیم سے قدرے مختلف مگر خوبصورت مفہوم نکلتا ہے۔ میرے شعر میں پیشگی احتیاط نہیں، بے خیالی ، وارفتگی اور دیوانہ پن اور پھر کچھ فرزانگی۔ آپ کی ترمیم میں خرد کا دامن شروع سے تھاما ہوا ہے۔ خوب ہے!
تمہارے چاہنے والے میری حالت سمجھتے ہیں
اگر ہم دل نہیں دیتے تو واللہ جان سے جاتے
ذرا سا فرق تھا باقی محبت اور عبادت میں
وفا میں اور جو بڑھتے تو پھر ایمان سے جاتے
-
طارق سعید