پہلی تصویر
دہلی کی جامع مسجد ۔ روزہ دار افطار کے بعد باہر نکلتے ہوئے
دوسری تصویر
اسلام آباد کی مسجد فیصل ، شب قدر کے موقع پر بقعہ نور بنی ہوئی
// تصویر بشکریہ : روزنامہ منصف ، حیدرآباد ، 17 سپٹمبر
جبھی تو سوچ رہا ہوں مولانا آج کیوں مجھے بعد مغرب موکدہ اور غیرموکدہ کی بحث میں الجھائے رکھا کئے؟ یقیناَ آج انہوں نے بعد عصر کسی اور سے افضل اور واجب والی بحث چھیڑ لی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آخر رات کے سناٹے میں
گھنٹہ گھر نے
تین بجائے
اور وہ چونک پڑی
" میرے خدا ۔۔۔!
یہ کیا ؟
اک گاہک بھی نہیں ؟
صبح تو عید کا دن ہے
میرے بچے نے کہا ہے مجھے ٹوپی کیلئے ۔"
// جبار جمیل
میں تو سایہ ہوں گھٹاؤں سے اُترنے والا
ہے کوئی پیاس کے صحرا سے گزرنے والا
تو سمجھتا ہے مجھے حرف مکرر لیکن
میں صحیفہ ہوں ترے دل پہ اُترنے والا
تو مجھے اپنی ہی آواز کا پابند نہ کر
میں تو نغمہ ہوں فضاؤں میں بکھرنے والا
اے بدلتے ہوئے موسم کے گریزاں پیکر
عکس دے جا کوئی آنکھوں میں ٹھہرنے...
سب کو نیزوں پہ اُچھالو یارو
کوئی اخبار نکالو یارو
دلِ شاعر کی دعا لو یارو
گرتے مصرعے کو اُٹھا لو یارو
بزم کا دیکھو تماشہ چپ چاپ
رنگ میں بھنگ نہ ڈالو یارو
گرنے والے تو سنبھل جاتے ہیں
اپنی عزت کو سنبھالو یارو
عقل سے کوئی چلا کر چکر
سوئی تقدیر جگا لو یارو
اپنی ٹوٹی ہوئی تلواروں...
ممکن ہے کہ آپ نے غور سے نہ پڑھا ہو، ورنہ جو تین ہندی الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کے معنی بھی قوسین میں ساتھ ہی درج کر دئے گئے ہیں۔
ویسے وہ عام الفاظ نہیں ہیں بلکہ ہندوؤں کے تین دیوتاؤں کے نام ہیں۔
ہم انسان ہیں !
لے کر تو کچھ آئے نہیں تھے نہ کچھ لے کر جائیں گے ہی ۔۔۔ لیکن ایک دوسرے کو کچھ دے لینے میں کیوں بخل سے کام لیں ؟
اسی لئے تو میں تم سے آج صرف محبت کی باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔ فی الوقت تم بھی اس حقیقت کو بھول جاؤ۔ میں بھی اس حقیقت سے آنکھیں چرا لوں کہ ہم اپنی محبت کی باتیں ختم کر...