اپنے سبکدوش ہونے والے مہربان اور شفیق پروفیسر کے لئے کچھ اشعار لکھے ہیں ، اصلاح کے لیے پیش کرتا ہوں
وہ ہے شجاعت کا استعارا، بہت نڈر ہے
وہ رہروانِ رہِ صداقت کا راہبر ہے
میں جانتا ہوں وہ ساتھ دے گا تو صرف سچ کا
کسی قِسم کا کوئی سحر اس پہ بے اثر ہے
الجھ پڑا ہے وہ سب سے تنہا، تمہیں خبر کیا
وہ کتنے...
پیچھے جانے کتنے دکھ، کتنے افسانے چھوڑ آیا ہوں
کل میں اپنے خواب پرانے، ترے سرہانے چھوڑ آیا ہوں
خود خوابوں کا پیچھا کرتے، میں پردیس میں آ پہنچا ہوں
چبھتی ہوئی کچھ یادیں گھر میں، تجھے ستانے چھوڑ آیا ہوں
آنکھ کھلی تو تمہیں مری تنہائی کا احساس رہے گا
آدھی رات کو میزوں پہ خالی پیمانے چھوڑ آیا ہوں
جان...
جنت سے بے سبب تو نکالا نہیں گیا
مجھ سے ہی اپنا آپ سنبھالا نہیں گیا
کہتے ہیں زندگی میں مری کچھ کمی نہیں
ان تک ابھی تمہارا حوالہ نہیں گیا
تجھ کو جھلک دکھا کے گئے، عمر ہو گئی
آنکھوں سے تیرے نور کا ہالہ نہیں گیا
ہم تو بیان کرتے ہیں اپنی ہی سر گزشت
ہم سے کسی کا درد اچھالا نہیں گیا
معلوم تھا یہ قرض...
آداب۔ آخری بار مشاعرے میں شرکت آج سے پچیس سال پہلے میڈیکل کالج میں کی تھی۔ اس کے بعد ادب سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ پھر چند برس پہلے انٹرنیٹ پر اردو محفل کی صورت میں اصلاح سخن کا ایک ذریعہ میسر آیا۔ اور پھر آپ اساتذہ کی موجودگی میں شعر پڑھنے کی سعادت بھی نصیب ہوگئی۔ راہ نمائی کے لیے سب کا تہہ دل سے...