Recent content by حسیب بسمل

  1. حسیب بسمل

    اشعار برائے اصلاح

    جی شکریہ۔۔ جناب کا۔۔
  2. حسیب بسمل

    اشعار برائے اصلاح

    سمجھ گیا۔۔۔شکریہ۔۔۔ تقطیع پر در اصل سرسری نظر تھی۔۔۔ البتہ میں شعر لکھ کر۔۔۔ عروض کی ویب سائاٹ سے دیکھ لیتا یوں۔۔۔ اب لگتا ہے شاید وہ بھی درست نہیں
  3. حسیب بسمل

    اشعار برائے اصلاح

    فیض احمد فیض کا کلام۔ ستم سکھلائے گا رسمِ وفا، ایسے نہیں ہوتا صنم دکھلائيں گے راہِ خدا، ایسے نہیں ہوتا
  4. حسیب بسمل

    اشعار برائے اصلاح

    یہ بحر ہزج مثمن سالم ہے۔
  5. حسیب بسمل

    اشعار برائے اصلاح

    شاہد شاہنواز صاحب۔۔۔ یہ بحر ہزج مثمن سالم ہے۔
  6. حسیب بسمل

    تعارف تعارف

    جی بالکل۔۔ نسنے واسطے اسی وی نہی آئے۔۔ بس نظر ثانی کردے رویا جے۔ مہربانی۔۔ جناب دی۔
  7. حسیب بسمل

    غزل برائے اصلاح

    محمد ابوعبدالہ صاحب! آپ نے کیا فرمایا۔۔ ذرا وضاحت کیجے۔
  8. حسیب بسمل

    تعارف تعارف

    فقیر شکیب احمد صاحب۔۔ آپ کی دعا سے میں اپنی پوری کوشش کروں گا کہ آپ کی توقع پر پورا اتروں!
  9. حسیب بسمل

    تعارف تعارف

    آپ سب کا نہایت مشکور ہوں۔
  10. حسیب بسمل

    تعارف تعارف

    میں نے اصلاح کے واسطے 2 غزلیں چھوڑی ہیں ۔ احباب سے گزارش ہے ناقص کے ناقص کلام پر نظر کریں۔ شکریہ۔
  11. حسیب بسمل

    تعارف تعارف

    شکریہ کا طالب ہوں۔۔ خدا آپ سب کو لمبی عمریں عط۔ا فرمائے۔ آمین۔
  12. حسیب بسمل

    تعارف تعارف

    اسلام و علیکم! و دامت و براکاتہم میرا نام عبدالحسیب ہے۔ میں بی۔ اے کا طالب علم ہوں۔ مجھے شاعری کا شروع ہی سے بڑا شوق رہا اور شاعر بننے کی آرزو بھی۔ ابھی کچھ عرصہ/ دن پہلے ہی انٹر نیٹ سے عروض سیکھنے کا آغاز کیا ہے۔ اس کام کے لئے مجھے ایک دائمی اور مستقل طور پر ایک استاد کی ضرورت درپیش ہوتی ہے۔...
  13. حسیب بسمل

    اشعار برائے اصلاح

    اےپاگل دل! عطا تجھ کو بصورت ہی یہ ممکن تھی وہ کافر در تھا، تُو بھی، بن کہ واں کافر گیا ہوتا کہاں لے گے ہو ساقی دورِ لطفِ جام تم مجھ سے نظر کا جام تیرا ، میرا ساغر بھر گیا ہوتا کی جس سے تُو نے بسمؔل! دل لگی ہی کی ہو گی آخر جو تُو نے عشق کیا ہوتا ، ابھی تک مر گیا ہوتا
  14. حسیب بسمل

    غزل برائے اصلاح

    میں وعدے سبھی عشق کے، جو تھے وہ نبھا چکا ہوں کھا کے چوٹ اس دل پہ, اپنے سب آزما چکا ہوں جاناں شبِ آخر، عنایت جو مجھ پہ تم نے کی تھی وہ ہی یاد ہے اب تلک ، باقی سب بُھلا چکا ہوں بن کر عشق کا سائل، آیا ہے بے مروّت! نِکل! باقی کچھ...
Top