دل کے سارے غم و الم نکلے
اب کہ پتھر تلک صنم نکلے
ان کی آنکھوں نے میزبانی کی
ہم بھی محفل میں محترم نکلے
کیتلی پر نگاہ ان کی ہو
کیسے چائے کا پھر نہ دم نکلے
ان کے ہاتھوں سے پی کے ایسا لگا
دل سے عمروں کے جیسے غم نکلے
بے یقینی سی بے یقینی ہے
منہ سے ہر بات پہ قسم نکلے
اک عمر تک چلا تو پہنچا ہوں...