اُلجھے ہوئے لفظوں کے معانی کی طرح ہوں
میں شہرِ محبت میں کہانی کی طرح ہوں
اُتری ہے کوئی شام مضافاتِ بدن میں
دوچار گھڑی لمحہء فانی کی طرح ہوں
دریا میں بہاؤ ہے مِرا آب کی صورت
صحرا میں سرابوں کی روانی کی طرح ہوں
تجھ کو بھی کوئی کام نہیں حُسنِ عمل سے
اور میں بھی تِری شعلہ بیانی کی طرح ہوں...
اُلجھے ہوئے لفظوں کے معانی کی طرح ہوں
میں شہرَ محبت میں کہانی کی طرح ہوں
اُتری ہے کوئی شام مضافاتِ بدن میں
دوچار گھڑی لمحہء فانی کی طرح ہوں
دریا میں بہاؤ ہے مِرا آب کی صورت
صحرا میں سرابوں کی روانی کی طرح ہوں
تجھ کو بھی کوئی کام نہیں حُسنِ عمل سے
اور میں بھی تِری شعلہ بیانی کی طرح ہوں...
یونہی بے ساختہ دیکھو کہ شعوری صاحب
زندہ رہنے کو ہیں کچھ خواب ضروری صاحب
میں تو خود نکلا تھا جنت سے ، بہانہ کر کے
مجھ کو بھاتی ہی نہ تھی خاک سے دوری صاحب
میں کھلونا ہوں ، پرانا بھی ، بہت نازک بھی
میری میعاد تو کب کی ہوئی پوری صاحب
روشنی دے گی کسی روز ستارہ بن کر
غور سے دیکھو ، مِری مٹی ہے نوری...
یونہی بے ساختہ دیکھو کہ شعوری صاحب
زندہ رہنے کو ہیں کچھ خواب ضروری صاحب
میں تو خود نکلا تھا جنت سے ، بہانہ کر کے
مجھ کو بھاتی ہی نہ تھی خاک سے دوری صاحب
میں کھلونا ہوں ، پرانا بھی ، بہت نازک بھی
میری میعاد تو کب کی ہوئی پوری صاحب
روشنی دے گی کسی روز ستارہ بن کر
غور سے دیکھو ، مِری مٹی ہے...
چراغ جان کے یونہی جلا لیا گیا تھا
ہمیں بھی طاق کی زینت بنا لیا گیا تھا
تمہارے لمس سے محظوظ کس طرح ہوتے
کہ ہم کو خواب سے باہر بلا لیا گیا تھا
اِسی لیے تو ابھی تک میں نامکمل ہوں
ادُھورا چاک سے مجھ کو اُٹھا لیا گیا تھا
اُتر ہی جاتے کسی ساحلِ مراد پہ ہم
ہمیں ہوا کے بھنور میں پھنسا لیا گیا...
دوستی اُس کی اگرچہ ہے پرانی مجھ سے
پھر بھی دریا نے طلب کی ہے نشانی مجھ سے
میں کہ ڈوبا ہوں تو سینے پہ لیے پھرتی ہے
کتنی مانوس ہے لہروں کی روانی مجھ سے
اُڑتے بادل مِری آنکھوں میں اُتر آتے ہیں
اور دریا بھی طلب کرتا ہے پانی مجھ سے
میرے لہجے میں تھی تاثیر کچھ ایسی شب بھر
وقت سُنتا ہی رہا...