ناقص رائے کی جسارت :
حقیقت خیال تھا ۔۔۔۔ کے بجائے
وہ سراپا خیال تھا پہلے
اُس کا ملنا محال تھا پہلے
اب جو صورت بہت ہے بھولی سی
حسنِ کافر وبال تھا پہلے
ایک مُدت ہوئی نہیں ملتے
سہل کتنا وصال تھا پہلے
زخمِ دل ہی مری گواہی ہیں
دستِ قاتل کمال تھا پہلے
بہت شکریہ توجہ اس جانب مبذول کرانے کا ۔۔۔
اسے اگر یوں کہا جائےتو کیا صحیح رہے گا
شیدا جوترے حیدرِ کرار نہ ہوتے
ہم جامِ شہادت کے طلبگار نہ ہوتے
نیز باقی اشعار کے بارے میں بھی فرمایئے گا کہ درست ہیں یا ابھی گنجائش ہے مزید درست کرنے کی۔
حمایت علی شاعر کے مصرعہ پر تین اشعار پیش ہیں برائے اصلاح۔
مولا جو مرے حیدرِ کرار نہ ہوتے
ہم جامِ شہادت کے طلبگار نہ ہوتے
ہوتا جو نہیں ہم کو عطا درسِ حُسینی
یوں سینہ سپر آج سرِ دار نہ ہوتے
ماتم یوں بپا قوم سرِ عام نہ کرتی
’’دل سے جو ترے غم کے پرستار نہ ہوتے‘‘
بہت شکریہ عاطف بھائی
دراصل یہ شعر کینیڈا کی ایک ادبی تنظیم تقدیسِ ادب کینیڈا کے بینر کے لئے کہا ہے اس لئے تقدیس کا لفظ ضروری ہے، ہاں البتہ قضا کے حوالے سے میں فرض ادا ہو جائے کا بھی سوچ رہا تھا اسی لئے یہاں پیش کیا ہے آپ سے کی رائے کے لئے۔
واہ عمدہ کہاہے۔۔۔
بس اس شعر کومزیددیکھ لیجئے
توُ تو بے باک تھی، نڈر تھی توُ
تُو بھلا کیسے ڈر گئی جاناں؟
شاید
تُونڈرتھی ، یہی تو حیرت ہے
تو بھلا کیسے ڈر گئی جاناں ؟
باقی اساتذہ پر چھوڑتا ہوں ۔۔۔
میں طلب کی آخری منزل پہ ہوں
شیخ صاحب جی پهسل جاتے ہیں لوگ
÷÷ لیکن اس کا مفہوم کچھ مختلف بلکہ دو لخت ہو جاتا ہے۔ مزید ’شیخ جی یا شیخ صاحب بہتر ہو گا،
اسے اگر یوں کہیں تو کیسا رہے گا
جب طلب کی آخری منزل پہ ہوں
ناصحا پھر کیوں پھسل جاتے ہیں لوگ
شہر میں ایک مشاعرہ ہے مصرعہ طرح حمایت علی شاعر کا ہے
’’نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ‘‘
ہم سے کیوں پہلو بدل جاتے ہیں لوگ
چھوڑ کر محفل نکل جاتے ہیں لوگ
یاں گِلہ کوئی رقیبوں سے نہیں
حلقہء یاراں سے جل جاتے ہیں لوگ
ساقیا آؤ کبھی شہرِ سُخن
دیکھنا کیسے مچل جاتے ہیں لوگ
اُس بُتِ کافر کا جلوہء...