سرائیکی وسیب

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
السلام علیکم!
سرائیکی زبان دنیا کی قدیم ترین زندہ زبانوں میں سے ایک ہے، اور یہ سب سے زیادہ حروفِ تہجی رکھنے والی زبان کا اعزاز بھی رکھتی ہے
اللہ تعالیٰ کی سرائیکی وسیب پر ایک خاص کرم نوازی یہ بھی ہے کہ سرائیکی بولنے والا، دنیا کی کوئی بھی زبان اہلِ زبان کے لہجے میں بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ پاکستان کی میٹھی زبان کہلائی جاتی ہے
میں نے کچھ عرصہ قبل وارث بھائی کے ذریعے ایک درخواست بھجوائی تھی اس محفل کے کرتا دھرتاؤں کے پاس، کہ جیسے متفرقات کے زمرے میں ذیلی فورم ، پنجابی، سندھی، پشتو فورم ہیں، ایسے ہی ایک سرائیکی فورم بھی تشکیل دیا جائے۔ اس کا ہر گز کوئی لسانی تعصب سے متعلقہ مقصد نہیں ہے، بلکہ یہ مقصد ہے کہ دنیا کی قدیم ترین زبان کا شاہکار ادب اور عارفانہ کلام کا عظیم ذخیرہ جو کہ حضرت خواجہ غلام فرید ؒ، حضرت سچل سرمست ؒ ، حضرت شاہ حسینؒ وغیرہ کے صوفیانہ کلام کی صورت میں موجود ہے اسے انٹرنیٹ پر احباب ذوق کی تسکین کیلئے پیش کیا جائے۔ اس سلسلے میں میری کوشش ہوگی کہ سرائیکی سے اردو ترجمہ بھی کر دیا جائے تا کہ سرائیکی سے نا بلد احباب بھی اس کی چاشنی اور سحر انگیز لذت سے محروم نہ رہ جائیں
جتنے بھی سرائیکی بولنے والے دوست احباب اردو ویب کے اراکین ہیں، ان سے درخواست ہے کہ وہ یہاں شرکت فرمائیں، اور اس تھریڈ کو کامیاب بنائیں تاکہ اردو محفل پر سرائیکی فورم کیلئے راہ ہموار ہو سکے

خیر اندیش:۔ خاکسار چھوٹا غالبؔ
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
حضرت خواجہ غلام فریدؒ
(ایک مختصر تعارف)​
برصغیر پاک و ہند کے عظیم بزرگ ،صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید 26 ذیقعد 1261ھ بمطابق 1843 ء کو ضلع رحیم یارخان کے قصبہ چاچڑاں شریف میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام خورشید عالم تھا اور آپ کے آباو اجداد ایران سے سندھ ، اور پھر سندھ سے ملتان اور ملتان سے چاچڑاں شریف آباد ہوئے ۔ آپ کے والدخواجہ خدا بخشؒ وقت کے کامل بزرگ تھے۔ آپ نے آٹھ سال کی عمر میں اپنے چچا تاج محمود ؒ کی شاگردی میں قرآن مجید حفظ کیا ۔ آپ 1875 ء میں حج کے ارادے سے براستہ ملتان ، لاہور ، دہلی ، اجمیر پہنچے۔جہاں پر خواجہ خواجگاں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کے مزار پر آپ کی دستار بندی ہوئی، اور بمبئی کے راستے بذریعہ بحری جہاز حجازِ مقدس پہنچے۔​
خواجہ غلام فرید ؒ ایک آفاقی شاعر تھے۔ آپ کو اپنی دھرتی اور دھرتی کے لوگوں سے بہت پیار تھا۔ آپ نے سرائیکی کے علاوہ فارسی، سندھی، عربی اور اردو میں شاعری کی۔272 کافیوں پر مشتمل "دیوانِ فریدؒ" اور اردو شاعری کے دیوان کے علاوہ نثر میں شرح لوائح جامی، حاشیہ لوائح جامیشرح گلشن زار ، مناقبِ محبوبیہ اور فوائدِ فریدیہ سمیت فارسی شاعری کا کلام کتابی صورتوں میں موجود ہے۔ آپ کی سرائیکی شاعری کےانگریزی ، فارسی ،عربی، پنجابی، بنگالی سمیت دیگر کئی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں ۔ آپ نے اپنی شاعری میں علاقائی ثقافت ، بجھارتوں ، وسیب کی رسموں کو خصوصی رنگ دیا ، جس کی وجہ سے آپ کی شاعری کو منفرد مقام حاصل ہو ا۔​
حضرت خواجہ غلام فریدؒ نے 7 ربیع الثانی 1319ھ بمطابق 1901ء کو وفات پائی ۔ اس وقت آپ کی عمر 58 برس تھی۔ اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو کوٹ مٹھن شریف میں دفن کیا گیا۔صوفی شاعری کے حوالے سے آپ کا نام بہت معتبر ہے۔ اور پورے سرائیکی وسیب میں حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا یومِ پیدائش اور یومِ وصال نہایت عزت و احترام سے منایا جاتا ہے​
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
گھر گھر جھیڑے جھگڑیں دے نِت بلدے بٹھ ڈہداں میں
وت وی جیندن لوک نمانے، لوکاں دے ہٹھ ڈہداں میں
سیندھ سوہیندے یا لتڑیندے، پیراں ہیٹھ خدا جانے
جو کجھ تھیسی ڈٹھا ویسی، پیار دے پُھل پٹھ ڈہداں میں
ہاں دے اندھے کھوہ دے اندر، بے سیتی دے ٹھکر پِن
اکھ دی لوٹی کروی کروی ، دل بھوندی لٹھ ڈہداں میں
(ثاقب قریشی)​
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
کلام حضرت شاہ حسینؒ
میں وی جانا، جھوک رانجھن دی
نال میرے کوئی چلے
میں نے بھی رانجھن کے گاؤں جانا ہے، کوئی تو میرے ساتھ چلے
صوفیا کی اصطلاح میں حسنِ مطلق اور محبوبِ حقیقی کیلئے "رانجھن" مستعمل ہے، جیسے کہ حضرت بابا بھلے شاہ سرکار ؒ نے بھی ایک مصرعے میں فرمایا ہے" میرا رانجھن ہن کوئی ہور نی سیو"(سہیلیو! اب میرا محبوب کوئی اور ہے)​
اور رانجھن دی جھوک جانے سے یہاں حضرت شاہ حسینؒ کی مراد موت ہے، کیونکہ صوفیا اللہ اور روح کے درمیان رکاوٹ زندگی کو قرار دیتے ہیں ، اور موت کو وصال کا پیغام اور آزادی کا پروانہ سمجھا جاتا ہے۔​
جیسے کسی صوفی شاعر سے کسی نے پوچھا:۔ "عید ہوسی کڈن؟" (عید کب ہوگی؟)​
اس اللہ کے بندے نے جواب دیا:۔ "یار ملسی جڈن"(جب یار ملے گا)​
دوبارہ سوال ہوا:۔ "یار ملسی کڈن" (یار کب ملے گا)​
جواب ملا:۔ "موت آسی جڈن"(جب موت آئے گی)​
لہذا سمجھا جا سکتا ہے کہ شاہ حسین ؒ نے ایک طرح سے اپنی دیدارِ یار کی خواہش کو بیان کیا ۔ اور ساتھ ہی انسانی فطرت کا ایک پہلو بھی بتا دیا ، کہ انسان اکیلے پن سے گھبراتا ہے ، اس لیے وہ کوئی ہم سفر ڈھونڈ رہے ہیں "نال میرے کوئی چلے" کہہ کر​
پیریں پوندی، منتاں کردی،
جانڑاں تاں پیا کلھے
پاؤں بھی پڑتی رہی ، اور منتیں بھی کرتی رہی، مگر آخرکار مجھے اکیلے ہی جانا پڑا
یہاں بھی زندگی کی ایک کڑوی سچائی بیان ہوئی ہے ، کہ انسان چاہے کتنا ہی ہر دلعزیز یا پیارا کیوں نہ ہو، ہر کسی کو اپنی موت آپ مرنا پڑتا ہے ، کوئی کسی کی آئی نہیں مرتا، اور نہ ہی روح کے اس سفر میں کوئی کسی کا ساتھ دے سکتا ہے۔انسان ساری زندگی اسی تگ ودو میں لگا رہتا ہے ، جسے پاؤں پڑنے اور منتیں کرنے سے تشبیہ دی گئی ہے، اور میرے خیال میں اس سے خوبصورت اور موزوں تشبیہ کوئی اور نہیں ہو سکتی۔انسان کو پتا ہی نہیں کہ وہ خواہ مخواہ میں پاؤں پڑنے اور منتیں کرنے کے بے فائدہ اور لاحاصل عمل میں الجھ کر اپنے اصل مقصد سے دور ہوتا جاتا ہے​
نیں وی ڈونگھی، تُلہ پرانا
شینہاں پتن ملے
دریا بھی بہت گہرا ہے ، اور تُلہ بھی پرانا ہے(یعنی ناقابلِ اعتبار ہے)
اور ببر شیر دریا کے دوسرے کنارے (پتن) پر گھات لگائے بیٹھے ہیں
نیں دراصل سرائیکی میں گہری ندی کو کہا جاتا ہے ، میرے خیال میں اس سے مراد قبر ہے​
کیونکہ قبر چھ فٹ گہرائی سے شروع ہوتی ہے،​
اس طرح اس کا مطلب بنے گا کہ قبر بہت گہری ہے ، اور انسانی جسم بہت ہی پرانا اور بوسیدہ ہے ، یعنی اس لحاظ سے ناقابلِ اعتبار ہے کہ نجانے یہ بوسیدہ جسم منزل تک پہنچنے کے سفر میں ساتھ دے پائے گا یا نہیں ۔اور ببر شیروں سے مراد منکر نکیر نامی دو فرشتے ہیں ، جو کہ قبر میں حساب کتاب کیلئے آتے ہیں اور احادیث شریف کے مطابق ان کی شکل انسان کے اعمال کے مطابق ہوگی ، یعنی نیک لوگوں کیلئے وہ خوبصورت پیکر میں آئیں گےاور برے لوگوں کیلئے ان کی صورت خوفناک اور دہشت ناک ہوگی۔​
انسان ساری زندگی جسم پالنے میں لگا رہتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ جسم نے اسی دنیا میں رہ جانا ہے ، جبکہ اگلی دنیا کا سفر روح کو طے کرنا ہے، اور نادان بجائے روح کو مضبوط کرنے کے الٹا جسم کی فکر میں لگا رہتا ہے۔ اور اس بات سے بھی بے پرواہ ہے کہ محشر میں تو حساب کتاب ہونا ہے مگر قبر میں بھی حساب ہوگا​
جے کوئی متراں دی خبر لے آوے
ہتھ دے ڈیندی آں چھلے
اگر کوئی محبوب کی خیر خبر لے آئے ، تو میں اسے اپنے ہاتھ کے چھلے تک دینے کو تیار ہوں
یہ ایک اور نادر تشبیہ ہے، عورت کیلئے سب سے عزیز ترین متاع اس کا زیور ہوتا ہے ، اور یہاں اپنا زیور اسے دینے کی بات کی جارہی ہے جو محبوب کی خبر لا کر دے گا۔ یعنی کہ زیور سے بھی زیادہ اہم محبوب کا احوال اور اس کی خبر ہے۔​
اس سے دو چیزیں ثابت ہوتی ہیں ۔ ایک تو محبوب کی تلاش اور اس کی خیر خبر رکھنا کتنا لازمی ہے ، جس کیلئے اپنے ہاتھ میں پہنے چھلے تک دئیے جا سکتے ہیں​
اور دوسری آپ خود سوچ سکتے ہیں ، میں نے لکھ دی تو مجھ پر لعن طعن شروع ہو جائے گی​
رانجھن یار طبیب سُنیدا
مین تن درد ، اولے
ایک رانجھن نام کے طبیب کی مشہوری سنی ہے
میرے جسم میں بھی عجیب و غریب درد ہیں
اس شعر میں وہی بات ہوئی ہے جو غالبؔ نے" ڈبویا مجھ کو ہونے نے" میں بیان کی ہے​
کہ عشق کے مریض کا علاج صرف ا ور صرف محبوب سے وصال ہے، جدائی اور دوری درد کو بڑھا دیتے ہیں​
کہے حسین فقیر نمانا
سائیں سنیہوڑے گھلے
بے چارا حسینؒ فقیر عرض کرتا ہے ، کہ اب سائیں (مالک) بلاوا بھیجے
اس شعر میں بھی اسی خواہش کا اظہار ہوا ہے۔ کہ اب مالک ہمیں اپنے پاس بلا لے، کہ یہ جدائی کا درد سہنا مشکل سے مشکل ہوتا جا رہا ہے​
اور اب مزید یہ درد سہنے کی طاقت نہیں رہی​
یہ ترجمہ اور تشریح سراسرفدوی کی اپنی کاوش ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ کہیں ترجمے میں یا تشریح میں غلطی ہو گئی ہو
جس کیلئے خاکسار پیشگی معذرت خواہ ہے :)
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب ترجمہ و تشریح کی ہے غالب صغیر جی
تُلہ یہاں کشتی کے معنوں میں ہے ۔ ؟

 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
بہت خوب ترجمہ و تشریح کی ہے غالب صغیر جی
تُلہ یہاں کشتی کے معنوں میں ہے ۔ ؟
جی نہیں تُلہ در اصل دریا یا سمندر کے کچھ اندر تک بنے لکڑی کے پل کو کہتے ہیں
جو کنارے سے گہرے پانی میں کھڑی کشتی تک پہنچنے کیلئے رابطہ ہوتا ہے
ساحل سمندر پر اس کی عام مثالیں مل جاتی ہیں
 

نایاب

لائبریرین
نیں وی ڈونگھی، تُلہ پرانا شینہاں پتن ملے
ندی بہت گہری ہے ۔ کشتی بھی پرانی خستہ ہے ۔ اور ساحل پر شیروں نے قبضہ جما رکھا ہے ۔
یہاں تلہ پل کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا میرے محترم
 

مہ جبین

محفلین
زبردست سلسلہ ہے ، بہت لطف آیا یہ عارفانہ کلام پڑھ کر۔۔۔۔۔ یقیناً اس کے ترجمے میں بڑی محنت کی ہے تم نے بھائی چھوٹاغالبؔ ۔۔۔۔ سدا شاد آباد رہو !
اللہ پاک ہم سب کو اولیاء اصفیاء کا فیضان عطا فرمائے آمین
 

یوسف-2

محفلین
بہت خوب اویس بھائی!
محبت سے پُر سرائیکی کلام اور اس کا ترجمہ پیش کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ یہ ایک اہم ادبی اور قومی خدمت بھی ہے کہ اس طرح تمام پاکستانی اپنے وطن کے علاقائی ادب سے آشنا ہوکر ایک دوسرے سے مزید قریب آئیں گے۔ ان شاء اللہ
لیکن
ایسے خوبصورت دھاگوں کے پیش کار کی جانب سے مقطع (دستخط) میں سخن گسترانہ بات :grin: سے آگ لگانے کی شرارت چہ معنی دارد؟ اسے فوراً سے پیشتر تبدیل کردو ورنہ ؟؟؟ :eek:
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
نیں وی ڈونگھی، تُلہ پرانا شینہاں پتن ملے
ندی بہت گہری ہے ۔ کشتی بھی پرانی خستہ ہے ۔ اور ساحل پر شیروں نے قبضہ جما رکھا ہے ۔
یہاں تلہ پل کے معنوں میں استعمال نہیں ہوا میرے محترم
آپ کی بات سر آنکھوں پر:notworthy:
مگر نہ تو لغوی معنی کشتی کا ہے نہ ہی اصطلاحی معنی کشتی بنتا ہے:ROFLMAO:

شیر قبضہ نہیں کرتے، شیر گھات لگایا کرتے ہیں (شکاریات کی معمولی شدھ بدھ رکھنے والا بھی یہ سمجھ سکتا ہے):grin:
اگر شیروں کے قبضہ والی بات مانی جائے تو تو تشریح کیا ہوگی؟:?:
کیا منکر نکیر قبر میں قبضہ کرکے بیٹھتے ہیں؟:?:

باقی جیسے آپ کی مرضی، "سر تسلیم خم ہے";)
 

نایاب

لائبریرین
آپ کی بات سر آنکھوں پر:notworthy:
مگر نہ تو لغوی معنی کشتی کا ہے نہ ہی اصطلاحی معنی کشتی بنتا ہے:ROFLMAO:

شیر قبضہ نہیں کرتے، شیر گھات لگایا کرتے ہیں (شکاریات کی معمولی شدھ بدھ رکھنے والا بھی یہ سمجھ سکتا ہے):grin:
اگر شیروں کے قبضہ والی بات مانی جائے تو تو تشریح کیا ہوگی؟:?:
کیا منکر نکیر قبر میں قبضہ کرکے بیٹھتے ہیں؟:?:

باقی جیسے آپ کی مرضی، "سر تسلیم خم ہے";)
میرے محترم بھائی
آپ کے ترجمے پر اعتراض میری جہالت کا عکاس تھا ۔
جب وارث بھائی جیسی استاد علم و فن ہستی آپ کے ترجمے پر " لاجواب زندہ باد"
کی مہر لگا چکی تو مجھ ان پڑھ کے سب اعتراضات بے معنی ٹھہرے ۔ بہت معذرت
جزاک اللہ خیراء
" خم نہیں سر اٹھا کے جیو "
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے محترم بھائی
آپ کے ترجمے پر اعتراض میری جہالت کا عکاس تھا ۔
جب وارث بھائی جیسی استاد علم و فن ہستی آپ کے ترجمے پر " لاجواب زندہ باد"
کی مہر لگا چکی تو مجھ ان پڑھ کے سب اعتراضات بے معنی ٹھہرے ۔ بہت معذرت
جزاک اللہ خیراء
" خم نہیں سر اٹھا کے جیو "

یہ بھی خوب کہی نایاب صاحب۔ سرائیکی مجھے بالکل بھی نہیں آتی، سو جو بھی ترجمہ ہوگا میرے لیے وہ لاجواب ہی ہوگا کہ مجھے کلام کی سمجھ آ گئی، ہاں جن دوستوں کو سرائیکی آتی ہے اور اس پر عبور حاصل ہے وہ ترجمے کے محاسن و عیوب کا بخوبی ادراک بھی کر سکتے ہیں اور ابلاغ بھی :)
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
میرے محترم بھائی
آپ کے ترجمے پر اعتراض میری جہالت کا عکاس تھا ۔
جب وارث بھائی جیسی استاد علم و فن ہستی آپ کے ترجمے پر " لاجواب زندہ باد"
کی مہر لگا چکی تو مجھ ان پڑھ کے سب اعتراضات بے معنی ٹھہرے ۔ بہت معذرت
جزاک اللہ خیراء
" خم نہیں سر اٹھا کے جیو "
اب کیا شرمندہ کر کے رہیں گے؟:shock:
خیر مزید بات چیت "حلقہ رندان خاکسار" میں کرتے ہیں
تاکہ اس تھریڈ کے تسلسل میں مزید خلل نہ پڑے:)
 
زبردست۔۔۔لیکن ایک ضمنی سا سوال ہے۔ وہ یہ کہ آپ نے شاہ حسین کا جو کلام پیش کیا ہے (نال میرے کوئی چلّے)، کیا یہ سرائیکی ہے؟۔۔۔مجھے تو پنجابی لگتی ہے :)
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
زبردست۔۔۔ لیکن ایک ضمنی سا سوال ہے۔ وہ یہ کہ آپ نے شاہ حسین کا جو کلام پیش کیا ہے (نال میرے کوئی چلّے)، کیا یہ سرائیکی ہے؟۔۔۔ مجھے تو پنجابی لگتی ہے :)
جی سر
یہ سرائیکی کا کلام ہے

لفظ

شینھ ، تلہ، ، کلھے

قدیم سرائیکی کے الفاظ ہیں

اور یہ مصرعہ دیکھیں

ہتھ دے ڈیندی آں چھلے


مگر آپ کا شک بھی بالکل فطری ہے:thumbsup:
کیونکہ ڈونگھی، اور گھلے کے الفاظ تو واقعی پنجابی کے الفاظ ہیں

لیکن ایک زمانہ تھا

جب دریائے سندھ کے میدانوں میں سرائیکی بولی جاتی تھی
پوٹھوہاری، ہندکو اور سندھی زبانیں تو سننے میں سرائیکی کی بہنیں لگتی ہیں
اسی طرح پنجابی تو قریبی بہن ہوئی، کچھ نہ کچھ الفاظ تو مشترکہ ہوں گے ناں جناب:)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم!
سرائیکی زبان دنیا کی قدیم ترین زندہ زبانوں میں سے ایک ہے، اور یہ سب سے زیادہ حروفِ تہجی رکھنے والی زبان کا اعزاز بھی رکھتی ہے
اللہ تعالیٰ کی سرائیکی وسیب پر ایک خاص کرم نوازی یہ بھی ہے کہ سرائیکی بولنے والا، دنیا کی کوئی بھی زبان اہلِ زبان کے لہجے میں بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے، یہ پاکستان کی میٹھی زبان کہلائی جاتی ہے
میں نے کچھ عرصہ قبل وارث بھائی کے ذریعے ایک درخواست بھجوائی تھی اس محفل کے کرتا دھرتاؤں کے پاس، کہ جیسے متفرقات کے زمرے میں ذیلی فورم ، پنجابی، سندھی، پشتو فورم ہیں، ایسے ہی ایک سرائیکی فورم بھی تشکیل دیا جائے۔ اس کا ہر گز کوئی لسانی تعصب سے متعلقہ مقصد نہیں ہے، بلکہ یہ مقصد ہے کہ دنیا کی قدیم ترین زبان کا شاہکار ادب اور عارفانہ کلام کا عظیم ذخیرہ جو کہ حضرت خواجہ غلام فرید ؒ، حضرت سچل سرمست ؒ ، حضرت شاہ حسینؒ وغیرہ کے صوفیانہ کلام کی صورت میں موجود ہے اسے انٹرنیٹ پر احباب ذوق کی تسکین کیلئے پیش کیا جائے۔ اس سلسلے میں میری کوشش ہوگی کہ سرائیکی سے اردو ترجمہ بھی کر دیا جائے تا کہ سرائیکی سے نا بلد احباب بھی اس کی چاشنی اور سحر انگیز لذت سے محروم نہ رہ جائیں
جتنے بھی سرائیکی بولنے والے دوست احباب اردو ویب کے اراکین ہیں، ان سے درخواست ہے کہ وہ یہاں شرکت فرمائیں، اور اس تھریڈ کو کامیاب بنائیں تاکہ اردو محفل پر سرائیکی فورم کیلئے راہ ہموار ہو سکے

خیر اندیش:۔ خاکسار چھوٹا غالبؔ

السلام علیکم

بہت عمدہ بھائی ، بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ۔ میں اگر غلطی پر نہیں تو یہاں بہت سے ایسے اراکین ہوں گے جو سرائیکی جانتے ہوں گے یا کم از کم شناسائی رکھتے ہوں گے ، سرائیکی فورم کے لیے راہ یقینا بن سکے گی اگر اس حوالے سے کام کیا جائے ۔ اس ذیل میں ایک تجویز کہ مختلف اور متنوع عنوانات کے تحت دوسرے سلسلے (دھاگے) بھی کھولے جا سکتے ہیں ، تفریحی ، علمی ، تحقیقی ، سنجیدہ اور عام بول چال کے موضوعات وغیرہ ، اس طرح اراکین کی دلچسپی بڑھے گی ۔
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
السلام علیکم

بہت عمدہ بھائی ، بہت اچھا سلسلہ شروع کیا ۔ میں اگر غلطی پر نہیں تو یہاں بہت سے ایسے اراکین ہوں گے جو سرائیکی جانتے ہوں گے یا کم از کم شناسائی رکھتے ہوں گے ، سرائیکی فورم کے لیے راہ یقینا بن سکے گی اگر اس حوالے سے کام کیا جائے ۔ اس ذیل میں ایک تجویز کہ مختلف اور متنوع عنوانات کے تحت دوسرے سلسلے (دھاگے) بھی کھولے جا سکتے ہیں ، تفریحی ، علمی ، تحقیقی ، سنجیدہ اور عام بول چال کے موضوعات وغیرہ ، اس طرح اراکین کی دلچسپی بڑھے گی ۔
وعلیکم السلام آپی جی:)

انشاءاللہ
آپ کی تجویز بہت زبردست ہے:thumbsup:
ارادہ تو میرا بھی کچھ ایسا ہی ہے
مگر میں اکیلا؟؟؟؟:sad:
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
وعلیکم السلام آپی جی:)

انشاءاللہ
آپ کی تجویز بہت زبردست ہے:thumbsup:
ارادہ تو میرا بھی کچھ ایسا ہی ہے
مگر میں اکیلا؟؟؟؟:sad:

جی بھائی ، دراصل بس پہلا قدم ہی اکیلے اٹھانا ہوتا ہے پھر کارواں بننا شروع ہو جاتا ہے ۔ آپ کے ذہن میں جو تجویز ہو آپ اسے عملی شکل دیں ۔ میں بھی سوچتی ہوں کچھ ۔
 
Top