غزل برائے اصلاح

سید ذیشان

محفلین
ہوتی ہے نام رب سے ہر اک شے کی ابتدا​
ہیں مطلع کلام یہی ہستی و سما​
دیکھی جو چشم دل سے یہ تصویر کائنات​
ادراک کے پنچھی پہ یوں رضواں کا در کھلا​
ہے ہستیء برہنہ کی ہر شے میں جلوہ گر​
پوشیدہء نظر نہیں ہر سو ہے آئینہ​
توحیدکےگو سب ہی ہیں تکوین میں قائل​
گرچہ کہ شورشیں ہیں بظاہر یہاں بپا​
حسن و زر و جلال وحکومت کی شکل میں​
ہر اک نے اپنے واسطے ہیں گھڑ لئے خدا​
عزم بلال سہہ نہ سکا گرم ریگزار​
اب بھی سنائی دیتی احد کی ہے واں صدا​
کعبہ کے شہر میں ہے کیا ساعت سعید​
ہر آنکھ دیکھتی ہے سوئے دار آمنہ​
تھا صبح خوش نصیب کا وہ جن کو انتظار​
خورشیدِ فخرِ چرخِ نبوت لو آ گیا​
ہیں نین میرے فرقت دیدار سے یوں نم​
پر دل ازل سے ہے مرامحبوب آشنا​
عاصی ہوں مگر آس ہے وہ شافع ہنگام​
اک جام جو نصیب ہو کوثر کے حوض کا​
حیرت زدہ قلوب پہ کفار کے ہوں میں​
مہتاب کا جگر ہوا اک نظر سے پارہ​
ہے شوق دل میں منقبت بو تراب کا​
الفاظ پر ہیں رکھتے نہیں قوت وفا​
وہ حوصلہء علم علی رکھتے ہی نہیں​
سینہ تبھی ہے چاک یاں ہر اک چاہ کا​
منصوب تیرے نام سے یاں پر ہے جو کوئی​
سنتے ہیں کہ واں ان کا ہے افلاک میں بھی چرچہ​
ہے آج تک لب جاں یوں صحرا کا ہر ذرہ​
مظلوم تشنہ لب ہے کیا اور کوئی مارا​
یاور کوئی نہیں ہے نہ غمخوار کوئی ہے​
ہر سو یوں دیکھتے ہیں شہ ارض کربلا​
کرنے دو ان کو ظلم کہ ہم آزمائیں گے​
دیکھی ہے کربلا میں شقاوت کی انتہا​
 
بحر پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔۔اساتذہ سے رہنمائی کی درخواست کے ساتھ
بحر غالبآ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ہے۔۔۔۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
لو کل دن بھی یہی کام کیا، بلکہ پرسوں رات سے۔ سب اصلاحوں کا بیڑا پار کر دیا۔

پہلے دو ایک اشعار سے محسوس ہوا کہ یہ حمدیہ نظم ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ نعتیہ اشعار بھی ہیں۔ اور تم نے محض غزل کا نام دیا ہے۔ بہر حال اصلاح حاضر ہے۔
ہوتی ہے نام رب سے ہر اک شے کی ابتدا
ہیں مطلع کلام یہی ہستی و سما

//ذکر خدا کا ہے یا ہستی و سما کا؟ ہستی سے مراد؟ شعر سمجھ میں نہیں آ سکا۔

دیکھی جو چشم دل سے یہ تصویر کائنات
ادراک کے پنچھی پہ یوں رضواں کا در کھلا
//دوسرا مصرع بحر سے خارج، بلکہ مختلف بحر میں۔ یہ دونوں بحور بے حد کنفیوزنگ ہیں۔ تمہاری نظم کے زیادہ تر
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن/فاعلات
میں ہیں۔ اس مصرع کے ارکان ہیں
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
یوں کیا جا سکتا ہے۔
ادراک کے پرند پہ رضواں کا در کھلا

ہے ہستیء برہنہ کی ہر شے میں جلوہ گر
پوشیدہء نظر نہیں ہر سو ہے آئینہ
// ہے ہستیِ برہنہ ہر اک شے میں جلوہ گر
بہتر ہوگا۔ تمہارے الفاظ کی صورت میں ’جلوہ گری‘ کی ضرورت ہے۔

توحیدکےگو سب ہی ہیں تکوین میں قائل
گرچہ کہ شورشیں ہیں بظاہر یہاں بپا
//پہلا مصرع دوسری بحر میں آ گیا ہے۔ دوسرے ’میں قائل‘ نہیں ہوا جاتا، ‘کا‘ ہوا جاتا ہے۔یوں کیا جا سکتا ہے۔
گو سب ہی ہیں توحید کے، تکوین کے قائل

حسن و زر و جلال وحکومت کی شکل میں
ہر اک نے اپنے واسطے ہیں گھڑ لئے خدا
//درست

عزم بلال سہہ نہ سکا گرم ریگزار
اب بھی سنائی دیتی احد کی ہے واں صدا
//درست

کعبہ کے شہر میں ہے کیا ساعت سعید
ہر آنکھ دیکھتی ہے سوئے دار آمنہ
//درست

تھا صبح خوش نصیب کا وہ جن کو انتظار
خورشیدِ فخرِ چرخِِ نبوت لو آ گیا
//’جن کو‘ سے مراد کن کو؟
کیا یوں کیا جا سکتا ہے؟
جس خوش نصیب صبح کا تھا سب کو انتظار

ہیں نین میرے فرقت دیدار سے یوں نم
پر دل ازل سے ہے مرامحبوب آشنا
’نین‘ جیسے ہندی الفاظ اردو غزل میں اس وقت تو قبول کئے جا سکتے ہیں جب مکمل غزل ایسی ہی اصل اردو میں ہوں، آرزو لکھنوی کی ۔ اس طرح کر دیں پہلا مصرع
گو آنکھ نم ہے فرقت دیدار سے مری

عاصی ہوں مگر آس ہے وہ شافع ہنگام
اک جام جو نصیب ہو کوثر کے حوض کا
//پہلا مصرع مختلف بحر میں ہے۔ ’شافع ہنگام‘ یا ’شافعِ ہنگام‘ سے مراد؟
عاصی ہوں اور اس کا بھی آسی ہوں، روزِ حشر

حیرت زدہ قلوب پہ کفار کے ہوں میں
مہتاب کا جگر ہوا اک نظر سے پارہ
//شعر میرے ’اوپر سے نکل‘ گیا۔
دوسرا مصرع دونوں بحور سے خارج ہے۔
محاورہ ’پارہ پارہ‘ ہوتا ہے۔
دوسرا مصرع یوں کر دو
بس اک نگہ سے چاند بھی دو نیم ہو گیا

ہے شوق دل میں منقبت بو تراب کا
الفاظ پر ہیں رکھتے نہیں قوت وفا
//پہلا مصرع بھی ردیف و قافیے کا حامل ہو گیا ہے۔ اس کو بدل دو۔ دوسرے مصرع میں ’قوت وفا‘ سے مراد؟ بہر حال اس کو فی الحال نہیں بدل رہا ہوں۔
دل میں تو بو تراب کی مدحت کا شوق ہے
الفاظ میں نہیں ہے مگر قوتِ وفا

وہ حوصلہء علم علی رکھتے ہی نہیں
سینہ تبھی ہے چاک یاں ہر اک چاہ کا
//پہلا لفظ ’حوصلائے‘ تقطیع ہو رہا ہے، جو غلط تلفظ ہے۔ ویسے بھی یہاں حوصلہ کا محل سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لئے فی الحال اصلاح نہیں کر رہا ہوں۔
دوسرے مصرع میں ’ایک‘ کا محل ہے ’اک‘ کا نہیں۔

منصوب تیرے نام سے یاں پر ہے جو کوئی
سنتے ہیں کہ واں ان کا ہے افلاک میں بھی چرچہ
//منصوب یا منسوب؟ دونوں الگ الگ الفاظ ہیں۔
دوسرا مصرع دونوں بحور سے خارج۔
یوں کر دیں
منسوب جو کوئی ہے یہاں تیرے نام سے
سنتے ہیں ان کا چرچا ہے افلاک میں بپا

ہے آج تک لب جاں یوں صحرا کا ہر ذرہ
مظلوم تشنہ لب ہے کیا اور کوئی مارا
//دونوں مصرع بھی بحر سے خارج ہیں، اور مطلب بھی میری ناقص عقل سے باہر ہے۔ اس لئے اصلاح سے قاصر ہوں۔

یاور کوئی نہیں ہے نہ غمخوار کوئی ہے
ہر سو یوں دیکھتے ہیں شہ ارض کربلا
//درست

کرنے دو ان کو ظلم کہ ہم آزمائیں گے
دیکھی ہے کربلا میں شقاوت کی انتہا
//درست۔ لیکن اس کا کچھ قرینہ لانا ضروری ہے کہ پہلا مصرع اللہ تعالیٰ کا بیانیہ ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
بہت بہت شکریہ استادِ محترم۔ آپ کی رائے کا شدت سے انتظار تھا۔ ابھی میں اس کو غور سے پڑھتا ہوں اور تبدیلیاں کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 

سید ذیشان

محفلین
پہلے دو ایک اشعار سے محسوس ہوا کہ یہ حمدیہ نظم ہے، لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ نعتیہ اشعار بھی ہیں۔ اور تم نے محض غزل کا نام دیا ہے

میں نے غزل کا نام اس لئے دیا ہے کہ اس میں ردیف نہیں ہے۔ کیا ردیف کے بغیر بھی نظم کہلائی جا سکتی ہے؟

۔ بہر حال اصلاح حاضر ہے۔
ہوتی ہے نام رب سے ہر اک شے کی ابتدا
ہیں مطلع کلام یہی ہستی و سما

//ذکر خدا کا ہے یا ہستی و سما کا؟ ہستی سے مراد؟ شعر سمجھ میں نہیں آ سکا۔

بستی و سما زیادہ مناسب رہے گا۔ کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ کائنات کی ہر چیز کی اللہ کے نام سے ابتدا ہوتی ہے۔ اللہ کے کلام(یعنی تخلیق بزریعہ "کن") کا مطلع یہی زمین و آسمان ہیں۔ (دوسرا مصراع پہلے کی توضیح ہے۔)



دیکھی جو چشم دل سے یہ تصویر کائنات
ادراک کے پنچھی پہ یوں رضواں کا در کھلا
//دوسرا مصرع بحر سے خارج، بلکہ مختلف بحر میں۔ یہ دونوں بحور بے حد کنفیوزنگ ہیں۔ تمہاری نظم کے زیادہ تر
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن/فاعلات
میں ہیں۔ اس مصرع کے ارکان ہیں
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
یوں کیا جا سکتا ہے۔
ادراک کے پرند پہ رضواں کا در کھلا



ًکےپنچھی پہً کو میں نے فاعلات تقطیع کیا تھا۔ جس طرح کچھ ہندی الفاظ میں "ن" کی آواز "ں" میں تبدیل ہو جاتی ہے تو کیا پنچھی کیساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے؟ یعنی (پ چی)

ہے ہستیء برہنہ کی ہر شے میں جلوہ گر
پوشیدہء نظر نہیں ہر سو ہے آئینہ
// ہے ہستیِ برہنہ ہر اک شے میں جلوہ گر
بہتر ہوگا۔ تمہارے الفاظ کی صورت میں ’جلوہ گری‘ کی ضرورت ہے۔

ہے ہستیء برہنہ کی ہر شے میں جلوہ گر

اس سے مراد یہ تھی کہ اگر ہم اس ہستی کا مطالع کریں تو یہ ہمیں برہنہ نظر آئے گی کیونکہ اس کی ہر شے میں اللہ کی ذات جلوہ گر ہے۔


توحیدکےگو سب ہی ہیں تکوین میں قائل
گرچہ کہ شورشیں ہیں بظاہر یہاں بپا
//پہلا مصرع دوسری بحر میں آ گیا ہے۔ دوسرے ’میں قائل‘ نہیں ہوا جاتا، ‘کا‘ ہوا جاتا ہے۔یوں کیا جا سکتا ہے۔
گو سب ہی ہیں توحید کے، تکوین کے قائل

گو سب ہی ہیں توحید کے، تکوین میں قائل

"کے" کی جگہ "میں" نہیں ہونا چاہیے؟ کیونکہ تکوین سے مراد پیدائش یا تخلیق ہے۔ یعنی پیدائشی طور پر سب موحد ہیں۔



تھا صبح خوش نصیب کا وہ جن کو انتظار
خورشیدِ فخرِ چرخِ نبوت لو آ گیا
//’جن کو‘ سے مراد کن کو؟
کیا یوں کیا جا سکتا ہے؟
جس خوش نصیب صبح کا تھا سب کو انتظار

جن کو سے مراد وہ لوگ ہیں جو انجیل میں حضور(ص) کے آنے کی پیشنگوئی پڑھ چکے تھے اور ان کے ظہور کا انتظار کر رہے تھے۔
سب کو بھی ٹھیک رہے گا۔



ہیں نین میرے فرقت دیدار سے یوں نم
پر دل ازل سے ہے مرامحبوب آشنا
’نین‘ جیسے ہندی الفاظ اردو غزل میں اس وقت تو قبول کئے جا سکتے ہیں جب مکمل غزل ایسی ہی اصل اردو میں ہوں، آرزو لکھنوی کی ۔ اس طرح کر دیں پہلا مصرع
گو آنکھ نم ہے فرقت دیدار سے مری

جی کر دیا۔




عاصی ہوں مگر آس ہے وہ شافع ہنگام
اک جام جو نصیب ہو کوثر کے حوض کا
//پہلا مصرع مختلف بحر میں ہے۔ ’شافع ہنگام‘ یا ’شافعِ ہنگام‘ سے مراد؟
عاصی ہوں اور اس کا بھی آسی ہوں، روزِ حشر

کر دیا۔ ہنگام سے مراد محشر ہی ہے۔


حیرت زدہ قلوب پہ کفار کے ہوں میں
مہتاب کا جگر ہوا اک نظر سے پارہ
//شعر میرے ’اوپر سے نکل‘ گیا۔
دوسرا مصرع دونوں بحور سے خارج ہے۔
محاورہ ’پارہ پارہ‘ ہوتا ہے۔
دوسرا مصرع یوں کر دو
بس اک نگہ سے چاند بھی دو نیم ہو گیا

کر دیا۔
مراد یہ ہے کہ چاند تو ایک اشارے سے دو نیم ہو گیا لیکن کفار کے دل اتنے سخت تھے کہ ان پر وعظ و نصیحت کا کچھ اثر نہ ہوا۔


ہے شوق دل میں منقبت بو تراب کا
الفاظ پر ہیں رکھتے نہیں قوت وفا
//پہلا مصرع بھی ردیف و قافیے کا حامل ہو گیا ہے۔ اس کو بدل دو۔ دوسرے مصرع میں ’قوت وفا‘ سے مراد؟ بہر حال اس کو فی الحال نہیں بدل رہا ہوں۔
دل میں تو بو تراب کی مدحت کا شوق ہے
الفاظ میں نہیں ہے مگر قوتِ وفا

یعنی الفاظ منقبت سے وفا نہ کر سکیں گے۔ (انکی تعریف کے لئے الفاظ کافی نہیں)



وہ حوصلہء علم علی رکھتے ہی نہیں
سینہ تبھی ہے چاک یاں ہر اک چاہ کا
//پہلا لفظ ’حوصلائے‘ تقطیع ہو رہا ہے، جو غلط تلفظ ہے۔ ویسے بھی یہاں حوصلہ کا محل سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لئے فی الحال اصلاح نہیں کر رہا ہوں۔
دوسرے مصرع میں ’ایک‘ کا محل ہے ’اک‘ کا نہیں۔

اس شعر کو میں نکال رہا ہوں فی الوقت۔


منصوب تیرے نام سے یاں پر ہے جو کوئی
سنتے ہیں کہ واں ان کا ہے افلاک میں بھی چرچہ
//منصوب یا منسوب؟ دونوں الگ الگ الفاظ ہیں۔

منسوب لکھنا چاہ رہا تھا غلطی سے منصوب لکھا گیا۔

دوسرا مصرع دونوں بحور سے خارج۔
یوں کر دیں
منسوب جو کوئی ہے یہاں تیرے نام سے
سنتے ہیں ان کا چرچا ہے افلاک میں بپا

جی کر دیا۔



ہے آج تک لب جاں یوں صحرا کا ہر ذرہ
مظلوم تشنہ لب ہے کیا اور کوئی مارا
//دونوں مصرع بھی بحر سے خارج ہیں، اور مطلب بھی میری ناقص عقل سے باہر ہے۔ اس لئے اصلاح سے قاصر ہوں۔

اس شعر کو بھی نکال رہا ہوں۔


کرنے دو ان کو ظلم کہ ہم آزمائیں گے
دیکھی ہے کربلا میں شقاوت کی انتہا
//درست۔ لیکن اس کا کچھ قرینہ لانا ضروری ہے کہ پہلا مصرع اللہ تعالیٰ کا بیانیہ ہے۔

یہ پچھلے مصرعے سے متصل ہے۔ یعنی واقعہ کربلا کا ذکر ہو رہا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
اب پوری غزل اسطرح سے ہےۛ


ہوتی ہے نام رب سے ہر اک شے کی ابتدا​
ہیں مطلع کلام یہی بستی و سما​
دیکھی جو چشم دل سے یہ تصویر کائنات​
ادراک کے پرند پہ رضواں کا در کھلا​
ہے ہستیء برہنہ کی ہر شے میں جلوہ گر​
پوشیدہء نظر نہیں ہر سو ہے آئینہ​
گو سب ہی ہیں توحید کے، تکوین میں قائل​
گرچہ کہ شورشیں ہیں بظاہر یہاں بپا​
حسن و زر و جلال وحکومت کی شکل میں​
ہر اک نے اپنے واسطے ہیں گھڑ لئے خدا​
عزم بلال سہہ نہ سکا گرم ریگزار​
اب بھی سنائی دیتی احد کی ہے واں صدا​
کعبہ کے شہر میں ہے کیا ساعت سعید​
ہر آنکھ دیکھتی ہے سوئے دار آمنہ​
تھا صبح خوش نصیب کا وہ جن کو انتظار​
خورشیدِ فخرِ چرخِ نبوت لو آ گیا​
گو آنکھ نم ہے فرقتِ دیدار سے مری​
پر دل ازل سے ہے مرامحبوب آشنا​
عاصی ہوں اور اس کا بھی آسی ہوں، روزِ حشر​
اک جام جو نصیب ہو کوثر کے حوض کا​
حیرت زدہ قلوب پہ کفار کے ہوں میں​
گر اک نگہ سے چاند بھی دو نیم ہو گیا​
ہے شوق دل میں منقبتِ بو تراب کا​
الفاظ پر ہیں رکھتے نہیں قوتِ وفا​
منسوب جو کوئی ہے یہاں تیرے نام سے​
سنتے ہیں ان کا چرچا ہے افلاک میں بپا​
یاور کوئی نہیں ہے نہ غمخوار کوئی ہے​
ہر سو یوں دیکھتے ہیں شہِ ارضِ کربلا​
کرنے دو ان کو ظلم کہ ہم آزمائیں گے​
دیکھی ہے کربلا میں شقاوت کی انتہا​
 

الف عین

لائبریرین
میں نے غزل کا نام اس لئے دیا ہے کہ اس میں ردیف نہیں ہے۔ کیا ردیف کے بغیر بھی نظم کہلائی جا سکتی ہے؟
ردیف کے بغیر غزل بھی کہی جا سکتی ہے،نظم کے لئے تو فارم کی پابندی ہی ضروری نہیں۔ نظم مسلسل ایک بیانیہ ہوتا ہے، ایک ہی بات تفصیل سے کہی جاتی ہے۔ یہ بہر حال غزل ہے۔

بستی و سما زیادہ مناسب رہے گا۔ کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ کائنات کی ہر چیز کی اللہ کے نام سے ابتدا ہوتی ہے۔ اللہ کے کلام(یعنی تخلیق بزریعہ "کن") کا مطلع یہی زمین و آسمان ہیں۔ (دوسرا مصراع پہلے کی توضیح ہے۔)
بستی ہندی النسل لفظ ہے۔ اس کے ساتھ واو عطف یا اضافت وغیرہ نہیں لگائی جا سکتی۔

ًکےپنچھی پہً کو میں نے فاعلات تقطیع کیا تھا۔ جس طرح کچھ ہندی الفاظ میں "ن" کی آواز "ں" میں تبدیل ہو جاتی ہے تو کیا پنچھی کیساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے؟ یعنی (پ چی)
نہیں۔ یہ نون معلنہ ہے۔اس نون کا ’باندھو‘ قسم کے ہندی الفاظ سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہاں واضح تلفظ اخفا کا ہے۔

گو سب ہی ہیں توحید کے، تکوین میں قائل
"کے" کی جگہ "میں" نہیں ہونا چاہیے؟ کیونکہ تکوین سے مراد پیدائش یا تخلیق ہے۔ یعنی پیدائشی طور پر سب موحد ہیں۔
میری تصحیح میں بھی یہی مطلب واضح ہوتا ہے۔ ویسے تمہارا نکتہ پسند آیا۔

اس سے مراد یہ تھی کہ اگر ہم اس ہستی کا مطالع کریں تو یہ ہمیں برہنہ نظر آئے گی کیونکہ اس کی ہر شے میں اللہ کی ذات جلوہ گر ہے۔
ہے ہستیِ برہنہ ہر اک شے میں جلوہ گر
سے یہ یہی مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔

یعنی الفاظ منقبت سے وفا نہ کر سکیں گے۔ (انکی تعریف کے لئے الفاظ کافی نہیں)
تو دوسرا مصرع ویسے ہی رکھو، لیکن پہلا مصرع اصلاح شدہ زیادہ رواں ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
ابھی دیکھا کہ تم نے اصلاح شدہ غزل میں یہ مصرع درست نہیں کیا ہے
گو سب ہی ہیں توحید کے، تکوین میں قائل
یہ دوسری بحر۔۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
میں ہے
 

سید ذیشان

محفلین
اس کو اسطرح سے کر دیا ہے:

تکوین میں گوقائلِ توحیدسب ہی ہیں​
گرچہ کہ شورشیں ہیں بظاہر یہاں بپا​
 

الف عین

لائبریرین
یہاں بھی پہلا مصرع دوسری بحر میں ہو گیا ہے۔
تکوین میں توقائلِ توحید ہیں سبھی
درست ہو جاتا ہے۔
 
Top