فی البدیہہ شاعری (موضوعاتی / غیر موضوعاتی)

عین عین بھائی
گو ساتھ چاہیئے ’گلِ رعنا‘ کو دیکھیے
اک چہرہ چاہیئے، رخِ ’زیبا‘ کو دیکھیئے
یکسانیت سے نام کی اکتا گیے ہیں آپ
’جوہی‘ کو، ’سروری‘ کو، ’تمنا‘ کو دیکھیئے
گل رعنا ۔ رخ ''زیبا'' کہاں جوہی و "تمنا"
ساتھ ان کے ابھی یار کا جینا نہیں ممکن
یہ صاف تھے ماضی میں تری فلم کی رونق
انکو کہے آدرش ہیں "وینا" نہیں ممکن
 

متلاشی

محفلین
واہ ذیشان نے یہ خوب کیا، خوب کہا
یہی مطلب ہے کہ یہ راہ بھی آساں نکلی
ایسے ہی شعر ’بنایا کرو‘ آسانی سے
چاہے یوں کہہ دو کہ یہ قیس بھی تصویر کے پردے سے بھی عریاں ’نکلی‘
۔۔۔ اس کو کہتے ہیں سب آزاد غزل )
تعریف تری کر دی استاذِ گرا می نے
کیا چاہئے اور اس کے سوا تجھے اےمتلاشی
 
غزل اس نے چھیڑی مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
مغزل ہوئے ہیں وہ محمود ہوکر
میں حامد ہوں ان کا مجھے ساز دینا
حامد ہوکے غزلیں بولتے ہیں
بڑے الفاظ اپنے تولتے ہیں
مرے اپنے خلیل صاحباں ہیں
کہاں سے ساز لاکے کھولتے ہیں
 
محمود ہو گئے ہیں مغزل تو ڈر یہ ہے
اعجاز عاجز اور مخل ہوں نہ پھر خلیل
فاتح کو آپ نے کبھی مفتوح کر دیا
یوں عالی جی بھی ہو نہ کہیں جائیں پھر علیل؟
اللہ بچائے مرے استاذ گرامی
علت یا علالت توبہت چیز بری ہے
 
بھائی نبیل آگئے اک بار بزم میں
اب کوئی شک نہیں ہے ہمیں ان کے عزم میں
ہم کو کہا خلیل تو خود ہوگئے قتیل
عاقل ہیں عقلِ کل ہیں ، اور ہیں وہی عقیل
ہائے میاں خلیل تری بات کی خوشبو
ہم بات کیئے جائے ہیں اور پھر بھی دوبدو
لگتا ہے قتل و غارت محبوب عمل ہے
محمود کو چھوڑا تو ملا ہے نبیل ہووو
 
زبانِ میر سمجھے اور کلامِ میرزا سمجھے
مگر فیصل کا لکھا آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
کبابوں کو تو ہم سمجھے ، وہی جو ہم بھی کھاتے ہیں
مگرآگے جو ہے اسکو کوئی سمجھے تو کیا سمجھے
نہ دعویٰ میر جیسا ہم کریں گے
نہ کوئی بات خارج فہم تو ہے
ہماری گفتگو میں کچھ پنجابی
یہی نکتہ ہماری گفت گو ہے
 
اک ساتھ نہ ہو پاتے ہیں نظم اور نظامت
ڈر جاتے ہیں ہم دیکھ کے اشعار کی قامت
شبنم بھی یہاں خوشبو بھی شعلہ بھی دھواں بھی
تک بندِ سرا سر کو بلا لائی ہے شامت
اتنا بھی نہیں آساں دو راہ و یک سفر
لیکن جناب ہم سے نہ پاؤگے تم مفر
ہم آپ کو تک بند کبھی کہ نہ سکیں گے
میری وعید یہ ہے غائب ہو یا حضر
 
Top