arifkarim

معطل
اگر صرف تاریخ کی چند کتابوں کا نظرے خوش گزرے مطالعہ ہی کافی ہو اگر طبری کی امم الملوک، ابن اثیر کی الکامل ، ابن کثیر کی البدایہ و النہایہ ،ابن جوزی کی المنتظم ، ذہبی کی تاریخ اسلام کی چند متفرق روایات جو صحا بہ کی جنگ و جدال پر مبنی ہیں ان کو ہی پیمانہ ٹھرایا جائے اور تمام پس منظر و جزوی اور اہم باتیں‌ مثلا ان جنگوں‌میں منافقین کا کردار، صحابہ کا اجتہادی مقام ، ان جنگوں میں شرکت کے باوجود ایک دوسرے کا لحاظ و ادب اگر نظر انداز کر دیا جائے تو کیا یہ بات خود محمد رسول اللہ کی ذات اقدس پر باعث حرف نہیں ٹھرتی وہ ذات اقدس جس صحبت کیمیا اثر نے عرب وعجم کے مس خام کو دیکھتے ہی دیکھے کھرا سونا بنا دیا اس کی وفات کے چند سال بعد ہی اس کے جید اصحاب آپس میں‌ اقتدار کی ہوس میں جھگڑ پڑے؟ تو کہاں جاتی ہے نبی اکرم کی پاکیزہ صحبت کی برکات اور اس کے اثرات اور یہ دعوہ کہ یہ دین قیامت تک رہنمائی فراہم کرتا ہے؟ کیا اگر اہم تفصیلات نظر انداز کر دی جائیں‌تو یہی غلط نتیجہ برآمد نہیں‌ہوتا ؟ کہ جس دین کے بانی کے جید اصحاب آُپس میں جھگڑ پڑے وہ دین کیا باقی دنیا کی رہنمائی کرے گا؟
[/size]؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

تاریخ کو مسخ نہیں‌کیا جا سکتا کہ جہاں صحابہ کرام ضنللہعلیہمجمعین كے نیک کردار کا ذکر ہو، اسے تو ہم مسلمان قبول کر لیں۔ لیکن جہاں انکی آپس میں اختلافات کا ذکر آئے تو ان کو ہم بڑی عقیدت کے ساتھ رد کر دیں! یہ اپنی مرضی کی تاریخ بنانے کے مترادف ہوگا۔ آنحضرت صللہعلیہسلم کی بابرکت صحبت کی وجہ سےاسلامی تعلیمات پر صحابہ کرام ضیللہعنہن سب سے اعلیٰ طور پر عمل کرتے تھے۔ لیکن چونکہ اصحاب رسولؐ بھی محض انسان ہی تھے۔ اسلئے بشری خطاؤں کا سرزد ہونا ایک فطری عمل ہے۔ اسے ہم اسلام کی نافرمانی نہیں کہہ سکتے!
 

حسن نظامی

لائبریرین
السلام علیکم!

میں اتنی زیادہ تفصیل سے تو اس موضوع کو نہیں پڑھ سکا ۔۔ لیکن کچھ ابتدائی صفحات اس دھاگے کے پڑھے ہیں جن سے اندازہ ہوا کہ ۔ مہوش آپی کی ایک پوسٹ کو لے کر آبی بھائی نے مسئلہ بنا لیا ۔۔ اور گڑے مردے اکھاڑے جانے لگے ۔۔
بات صرف اتنی ہے ۔۔ کہ
ہم کسی کے عقیدے کو کبھی تبدیل نہیں کر سکتے ۔۔
اور نہ ہمارا قومی مزاج تبدیل ہو سکتا ہے ۔ جو اتنا خراب ہو چکا ہے کہ اب کچھ کہنا اور کرنا فضول ہے ۔
یہ سب کچھ ہمارا اپنا کیا دھرا ہے ۔۔
کاش ہم عقل کے ناخن لیں ۔ بحیثیت قوم سوچیں ۔
بات اتنی سی ہے کہ یہ غلط ہوا اور اس کو ہر ایک غلط کہتا ہے ۔۔
باقی صحآبہ کرام اور تاریخی حقائق ۔۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن پر امت کا آج تک اتفاق نہیں ہوا تو اب اس دھاگے میں کچھ کہنے سے کبھی معاملہ درست نہیں ہو گا۔

ان باتوں کو رہنے دیں ۔۔ ہاں ہر شخص کو چاہیے کہ وہ خود بھرپور طریقے سے مطالعہ کرے اور پرکھے تاکہ سچائی واضح ہو سکے ۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
آپ بڑے ٹیکنیکل طریقے سے صحابہ کو خارجی ثابت کرنا چاہ رہی ہیں یہ کہہ کر کہ‌آپ خوارج کو اسلام سے خارج نہیں‌ سمجھتیں ۔۔اور آپ کا خوارج کہ بارے مین نظریہ اتنا متشدد نہیں ہے میرا تو آپ کہ فہم کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے کہ تاریخ پر بحث کرنے کا آپ کو بڑا شوق ہے مگر تاریخ میں جو اصطلاحی کردار فتنوں کی صورت میں رو نما ہوئے انکی حقیقت ، اصل اور محرکات کا آپ کو اندازہ نہیں کہ جس پر ہم نے پہلے بھی یہ کہہ کراشارہ کیا کہ اسلام میں سب سے پہلا فتنہ خارجیوں کا تھا کہ جن کی اصل نفاق تھی اور ہماری اس بات کی تائید میں بے شماراحادیث شاہد ہیں بلکہ خود خارجیوں پر خارجی کی اصطلاح کا اطلاق چیخ چیخ کر یہ بتارہا رہا کہ ان کا ایک مخصوص پس منظر ہے کہ جسکا دین کہ ساتھ کوئی تعلق نہیں مگر محترمہ آپ نہیں مانتی اور سمجھتی تو نہ سمجھیں اور مانے ہمارے لیے دین کی تفھیم آپکی سمجھ پر موقوف نہیں ہمارے لیے تو دین کی وہی تعبیر اولٰی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اور جسکو خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی بیان فرمایا ہے۔ خوارج کی تاریخ ،اسباب و محرکات کا اگر صحیح احادیث کی روشنی میں جائزہ لینا ہوتو محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی کتاب
۔۔ اَلاِنتِبَاہُ لِلْخَوَارِجِ وَالْحَرُوْرَاءِ .... گستاخان رسول کی علامات ۔۔۔ کا مطالعہ مفید رہے گا جو کہ انٹر نیٹ پر درج زیل ربط میں دستیاب ہے ۔ ۔ ۔
http://www.minhajbooks.com/books/index.php?mod=btext&cid=2&bid=237&btid=201&read=txt&lang=ur

اس کتاب کی پہلی متفق علیہ رویات درج زیل ہے
عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه يَقُولُ : بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أبِي طَالِبٍ رضی الله عنه إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ اليمن بِذُهَيْبَةٍ فِي أدِيْمٍ مَقْرُوْظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا. قَالَ : فَقَسَمَهَا بَيْنَ أرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ ابْنِ بَدْرٍ وَ أقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَ زَيْدِ الْخَيْلِ وَ الرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَ إِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أصْحَابِهِ : کُنَّا نَحْنُ أحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ قَالَ : فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : ألاَ تَأمَنُوْنِي وَ أنَا أمِيْنُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَ مَسَاءً، قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، کَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ. فَقَالَ : يَارَسُولَ اﷲِ، اتَّقِ اﷲَ، قَالَ : وَيْلَکَ أوَلَسْتُ أحَقَّ أهْلِ الأرْضِ أنْ يَتَّقِيَ اﷲَ؟ قَالَ : ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الوليد : يَا رَسُولَ اﷲِ! ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، لَعَلَّهُ أنْ يَکُونَ يُصَلِّي. فَقَالَ خَالِدٌ : وَ کَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَمْ أوْمَرْ أنْ أنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلاَ أشُقَّ بُطُونَهُمْ، قَالَ : ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ : إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُوْنَ کِتَابَ اﷲِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَما يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. وَ أظُنُّهُ قَالَ : لَئِنْ أدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
ترجمہ حدیث :- ’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔
اور مسلم کی روایت میں درج زیل اضافہ ہے کہ ۔ ۔
وَ فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ زَادَ : فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رضي اﷲ عنه، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اﷲِ، ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، قَالَ : ثُمَّ أدْبَرَ فَقَامَ إِلَيْهِ خَالِدٌ سَيْفُ اﷲِ. فَقَالَ : يَا رَسُولَ اﷲِ ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، فَقَالَ : إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِی هَذَا قَوْمٌ، يَتْلُونَ کِتَابَ اﷲِ لَيِّنًا رَطْبًا، (وَ قَالَ : قَالَ عَمَّارَةُ : حَسِبْتُهُ) قَالَ : لَئِنْ أدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.
ترجمہ حدیث:-’’اور مسلم کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا۔‘‘

محترمہ آپ خارجیوں کہ بارے میں غیر متشدد رویہ اور نظریہ رکھتی ہیں تو رکھتی رہیں ان کو مسلمان سمجھتی ہیں تو سمجھتی رہیں لیکن رسول اللہ کا فیصلہ تو ہمارے ساتھ ہے ۔ ۔ ۔اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خارجیوں کو دین سے خارج فرما چکے ہیں اوپر احادیث کہ عربی ورژن میں ہمارے سرخ رنگ سے نمایاں کردہ الفاظ ہی خارجیوں کہ لیے خوارج کی اصطلاح کا باعث بنے ہیں ۔ ۔۔
اب درج زیل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نظریہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ وہ آپ کہ ساتھ ہیں یا ہمارے ۔ ۔
عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : سَيَخْرُجُ قَومٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أحْدَاثُ الْأسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأحْلَامِ يَقُولُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَولِ الْبَرِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَأيْنَمَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَومَ الْقِيَامَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

و أخرجه أبو عيسي الترمذي عن عبد اﷲ بن مسعود رضي الله عنه في سننه و قال : و في الباب عن علي و أبي سعيد و أبي ذرّ رضي الله عنهم و هذا حديث حسن صحيح و قد رُوي في غير هذا الحديث : عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم حَيثُ وَ صَفَ هَؤُلَاءِ الْقَومَ الَّذِينَ يقرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. إنما هم الخوارج الحروريّة و غيرهم من الخوارج.
ترجمہ احادیث :- ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔‘‘

’’امام ابو عیسیٰ ترمذی نے بھی اپنی سنن میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنھم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کے علاوہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبکہ ایک ایسی قوم ظاہر ہو گی جس میں یہ اوصاف ہوں گے جو قرآن مجید کو تلاوت کرتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ بیشک وہ خوارج حروریہ ہوں گے اور اس کے علاوہ خوارج میں سے لوگ ہوں گے۔‘‘
دیکھ لیا آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ خارجیوں کو کیا سمجھتے تھے ؟ ۔ ۔۔ اب آپ اپنے قول کہ مطابق حضرت علی کی پیروی اختیار کیجیئے نا کہ ان کہ قدم سے قدم ملا کر چلیئے اور نہ ہی ان سے تجاوز ۔ ۔ ۔ ۔۔

خوارج کے متعلق بغیر کسی لمبی بحث میں پڑے [کہ کون صحیح ہے یا غلط] میں صرف اپنا نظریہ بیان کرنا چاہتی ہوں کیونکہ اگر میں نے ایسا نہ کیا تو مجھے ڈر ہے کہ امت بہت بڑی غلط فہمی میں پڑ سکتی ہے جسکا نتیجہ امت مسلمہ کے لیے مجھے بہت برا نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔

یہ نظریہ درست نہیں کہ خوارج صرف منافق ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر گروہ میں دو چار فیصد لوگ تو منافقین تھے [چاہے وہ خوارج ہوں یا رسول ص کے صحابہ کا گروہ یا علی ابن ابی طالب کے شیعوں کا گروہ] مگر پوری قوم یا گروہ منافقین پر مشتمل نہیں تھی۔ اور خوارجین کی اکثریت گمراہ ہونے اور فتنہ ہونے کے باوجود صدق دل سے یہ سمجھتی تھی کہ وہ حق پر ہے اور اللہ کے راستے میں جہاد کر رہی ہے۔ اور اس بات کی گواہی ہر ہر حدیث جمع کرنے والے عالم اور فقیہ نے دی ہے کہ انکی احادیث قبول ہیں کیونکہ خوارج صادق ہیں اور دل سے جھوٹ بولنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔
دیکھئیے، منافقین کا گروہ کائنات کی وہ آخری مخلوق ہے کہ جس سے احادیث رسول لی جائیں۔ یہ بات حق الیقین کی حد تک پہنچی ہوئی ہے کہ منافقین سے حدیث لینا انتہائی بڑا گناہ و عذاب ہے۔ غیر مسلم اور کافر سے احادیث لی جا سکتی ہیں، مگر منافقین کا درجہ غیر مسلم اور کفار سے کہیں زیادہ گرا ہوا ہے۔
خوارج پر منافقت کا الزام نہیں ہے [سوائے شاید چند ان میں سے چند ایک کے]، بلکہ ادھر حال یہ ہے کہ بخاری سے لیکر ہر ہر حدیث کی کتاب میں ان سے روایات مروی ہیں اور ہر محدث نے انہیں صادق قرار دیا ہے۔
ہمیں بطور امت خوارجین کی تاریخ سے بہت بڑا سبق سیکھنا ہے۔ خارجی فتنے کے بعد علماء صدیوں تک اس فتنے سے حاصل ہونے والے سبق پر مستقل کتابیں اور فقہ کے قوانین کتابوں میں لمبی لمبی بحثیں کر کے لکھتے آئے ہیں۔ خدا کے لیے اس قوم اس سبق کو "صرف منافقین" کا نام دے کر ردی کی ٹوکری کی نظر نہ کر دے، ورنہ اگر یہ فتنہ آج مزید پھیلا تو خارجی فتنے پر علماء کی کئی گئی یہ بحوث اور فقہی قوانین اس فتنے کے خلاف آخری Wall of Defence ہے۔ اور اگر انتہا پسند اس آخری دفاعی دیوار میں رخنہ ڈالنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر قوم کو فلاح و نجات کا کوئی راستہ ملنے والا نہیں۔
**********************************
میں خوارجین کے متعلق کئی سالوں سے اس فورم پر لکھ رہی ہوں۔ آپ تمام پچھلے مراسلے اٹھا کر پڑھ لیں اور آپ کو میرا نظریہ خوارجین کے متعلق سوائے سیاسی فتنے کے ہمیشہ متقی اور صادق لوگوں پر مشتمل گروہ کا ہی نظر آئے گا [اور یہی بات میں نے اس تھریڈ میں واضح طور پر لکھی ہے]
مگر جن حضرات کا نظریہ یہ ہے کہ خوارج صرف منافقین پر مشتمل گروہ ہے، تو میں ان سے مزید بحث میں الجھنا نہیں چاہتی۔ مگر ان لوگوں کی ناانصافی یہ ہے کہ انہوں نے خوارج کے متعلق اپنے عقیدے کو اٹھا کر مجھے پر ٹھونک رہے ہیں اور اپنے عقیدے کو بنیاد بنا کر میری عبارت پر اعتراضات پر اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔
ان الزامات کی ریل گاڑی یوں چلی ہے:

۔ پہلا الزام یہ کہ میں نے صحابہ کو منافق کہا ہے کیونکہ خوارج صرف گروہ منافقین پر مشتمل تھا[جبکہ خوارج کے متعلق میرا عقیدہ کبھی یہ نہیں رہا اور میں نے انہیں منافق نہیں بلکہ متقی اور صادق لکھا تھا]
۔ پھر صحابہ کو منافق کہنے کو بنیاد بنا کر انہوں نے مجھ پر توہین صحابہ کا الزام لگا دیا ہے۔
۔ پھر یہاں سے ایک صاحب نے آخر میں "نفاق" کا فتوی لگا کر کافر سے بھی بدتر درجے میں پہنچا دیا۔ سبحان اللہ۔
اور میں یہ سب کچھ ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں اور ابھی تک حیرت میں مبتلا ہوں کہ اللہ یہ انصاف کی کون سے تقاضے ہیں جو یوں پورے کیے جا رہے ہیں؟ بہرحال، میں اپنے اوپر لگے ہر غلط الزام کو برداشت کر لوں اور نظر انداز کر جاؤں، مگر قوم خوارج کے متعلق ہوشیار رہے اور کسی صورت یہاں پر غلط فہمیوں کا شکار نہ ہو اور اسی تذبذب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فتنہ آپ کو مزید شبہات میں ہی مبتلا کرتا چلا جائے گا اور ایک وقت ایسا آئے گا جب قوم اتنی کنفیوژڈ ہو چکی ہو گی کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قاصر ہو گی۔

میرے کم لکھے کو بہت جانیے۔ میری بہت مجبور ہوں کہ کھل کہ نہیں لکھ سکتی۔ مگر خدا کے لیے اپنے آپ کو کسی غلط فکر میں پڑنے نہ دیں۔ خوب سوچیں، سمجھیں اور تفکر و تدبر کریں اور ہر معاملے میں تحقیق کر کے اپنی کوئی رائے قائم کریں۔ اللہ تعالی ہمارا حامی و مددگار ہو۔ والسلام۔
[میرے خیال میں یہ میرا اس تھریڈ میں آخری میسج ہے]
 

طالوت

محفلین
طالوت ، مسلمانوں میں اتحاد کیسے پیدا ہوگا جب اتنے سارے فرقے ہوں گے؟
ہمارے درمیان مختلف فرقے بنیادی طور پر نفرتوں کی بنیاد پر قائم ہیں ۔
جن کے عقائد و ایمان کی بنیاد ہی کسی سے نفرت ہو ان سے آپ کیسے محبت کی توقع کر سکتے ہیں ؟
اور جہاں ہو ہی نفرت وہاں اتحاد کیسے اور کیونکر ؟ ۔۔
وسلام
 

arifkarim

معطل
ہمارے درمیان مختلف فرقے بنیادی طور پر نفرتوں کی بنیاد پر قائم ہیں ۔
جن کے عقائد و ایمان کی بنیاد ہی کسی سے نفرت ہو ان سے آپ کیسے محبت کی توقع کر سکتے ہیں ؟
اور جہاں ہو ہی نفرت وہاں اتحاد کیسے اور کیونکر ؟ ۔۔
وسلام

مطلب تمام مسلمان متحد ہونے کیلئے پہلے "وقتی" طور پر غیر مسلم ہو جائیں؟:biggrin:
یوں فرقہ واریت کا خاتمہ ہو جائے گا!
 

طالوت

محفلین
تمام باتوں سے قطع نظر میں یہاں صرف شاکر القادری بھائی (جو میرے نزدیک بڑی محترم شخصیت ہیں) سے ایک گلہ کرنا چاہوں گا کہ شاکر بھائی جو شخص یزید کو امیر المومنین کہے وہ تو امیر المنافقین ٹھرا[/size]؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ تو کچھ زیادہ ہی مرعوب دکھائی دیتے ہیں ، پہلے پوچھ تو لیں انھوں نے کہنے والے کو کہا یا امیر یزید کو ! میں تو سمجھ رہا تھا کہ موصوف امیر یزید کو کہہ کر "ثواب" لوٹ رہے ہیں ، آپ کی اس بات نے مجھے شک میں ڈال دیا :(
وسلام
 

الف نظامی

لائبریرین
کسی "ویسے جیسے" کا نام لینے سے بہتر ہے کہ محمد و آلِ محمد پر درود پڑھ لیا جائے۔
اللھم صلی علی محمد و علی آل محمد و بارک وسلم۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
کہاں ہیں فورم کے منتظمین !


یہ کیا ہو رہا ہے۔

دین پر ایسے لوگ رائے دے رہے ہیں جو دین کی روح کو سمجھتے ہی نہیں ۔۔

ایسے لوگوں کو دین پر رائے دینے سے بعض رکھا جائے ۔۔ اور اگر کوئی بحث کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے الگ دھاگہ بنا دیا جائے تاکہ وہ کھل کر اپنے عقائد کو بیان کر سکے ۔۔ اور دوسرے لوگ بھی کھل کر اس پر اعتراض کر سکیں ۔۔۔
اس دھاگے کو بند کر دینا ہی بہتر ہے ۔۔ ورنہ مجھے ڈر ہے کہ کچھ لوگ اپنے اوپر جہنمی ہونے کی مہر ثبت کرلیں گے اور پھر وہ کبھی صراط مستقیم پر نہیں لوٹ سکیں گے۔۔

اللہ سب کو ہدایت دے ۔۔
میرا نعرہ الف نظامی صاحب والا ہے ۔۔
صلوات بر محمد و آل محمد و اصحآب محمد
اللھم صل علی سیدنا و مولانا محمد وعلی آل سیدنا و مولانا محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید
صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحآبہ و بارک وسلم
 

الف نظامی

لائبریرین
1216380312_khawarij.jpg

اَلاِنتِبَاہُ لِلْخَوَارِجِ وَالْحَرُوْرَاءِ
 

شاکرالقادری

لائبریرین
1. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه يَقُولُ : بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أبِي طَالِبٍ رضی الله عنه إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ اليمن بِذُهَيْبَةٍ فِي أدِيْمٍ مَقْرُوْظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا. قَالَ : فَقَسَمَهَا بَيْنَ أرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ ابْنِ بَدْرٍ وَ أقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَ زَيْدِ الْخَيْلِ وَ الرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَ إِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أصْحَابِهِ : کُنَّا نَحْنُ أحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ قَالَ : فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : ألاَ تَأمَنُوْنِي وَ أنَا أمِيْنُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَ مَسَاءً، قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، کَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ. فَقَالَ : يَارَسُولَ اﷲِ، اتَّقِ اﷲَ، قَالَ : وَيْلَکَ أوَلَسْتُ أحَقَّ أهْلِ الأرْضِ أنْ يَتَّقِيَ اﷲَ؟ قَالَ : ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الوليد : يَا رَسُولَ اﷲِ! ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، لَعَلَّهُ أنْ يَکُونَ يُصَلِّي. فَقَالَ خَالِدٌ : وَ کَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَمْ أوْمَرْ أنْ أنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلاَ أشُقَّ بُطُونَهُمْ، قَالَ : ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ : إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُوْنَ کِتَابَ اﷲِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَما يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. وَ أظُنُّهُ قَالَ : لَئِنْ أدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب و خالد بن الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 742، الرقم : 1064، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم : 11021، و ابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم : 2373، و ابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم : 25، و أبو يعلي في المسند، 2 / 390، الرقم : 1163، و أبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم : 2375، و في حلية الأولياء، 5 / 71، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم : 4094، و حاشية ابن القيم، 13 / 16، و السيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم : 1064، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188، 192.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘


اَلاِنتِبَاہُ لِلْخَوَارِجِ وَالْحَرُوْرَاءِ
 

آبی ٹوکول

محفلین
یہ نظریہ درست نہیں کہ خوارج صرف منافق ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر گروہ میں دو چار فیصد لوگ تو منافقین تھے [چاہے وہ خوارج ہوں یا رسول ص کے صحابہ کا گروہ یا علی ابن ابی طالب کے شیعوں کا گروہ] مگر پوری قوم یا گروہ منافقین پر مشتمل نہیں تھی۔ اور خوارجین کی اکثریت گمراہ ہونے اور فتنہ ہونے کے باوجود صدق دل سے یہ سمجھتی تھی کہ وہ حق پر ہے اور اللہ کے راستے میں جہاد کر رہی ہے۔ اور اس بات کی گواہی ہر ہر حدیث جمع کرنے والے عالم اور فقیہ نے دی ہے کہ انکی احادیث قبول ہیں کیونکہ خوارج صادق ہیں اور دل سے جھوٹ بولنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔
ڈءر سسٹر سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میرے (یعنی آبی ٹوکول کہ )نزدیک خوارج فقط منافق ہی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو عرض ہے کہ میں نے کہیں بھی یہ نہیں کہا خوارجی گروہ فقط منافقین کا ہی گروہ تھا بلکہ میں نے ہرجگہ یہی کہا ہے کہ فرقہ خوارج کی اصل نفاق پر تھی یعنی میرا کہنے کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ ہر منافق خارجی نہیں جبکہ ہر خارجی ضرور منافق تھا ۔ ۔۔ ۔ اور یہاں پر مجھے لگتا ہے کہ آپ ابھی تک میرے اور اپنے درمیان نزاع کو سمجھنے میں ناکام رہی ہیں ۔ ۔ ۔ دیکھئے صحابہ ، شیعان علی ۔ خوارج یہ سب الگ الگ گروہ ہیں سب کی الگ الگ لغوی، اصطلاحی اور عُرفی تعریف ہے یہ سب اپنی اپنی حیثیت میں مستقل ہیں منافقین ان تینوں میں سے ہوسکتے ہیں ۔ ۔ ۔
دیکھئے آپ بات کو سمجھئے لفظ صحابی کی ایک تعریف ہے (لغوی ،شرعی و اصطلاحی ) اور عرف میں جب بھی لفظ صحابی مطلقا بولا جاتا ہے تو اس سے مراد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہ م۔خلص اور جانثاران صحابہ کرام ہی ہوتے ہیں کہ جن کہ ایمان کی قرآن کی رو سے اللہ پاک نے بارہا آزمائش فرما کر ان کہ ایمانوں کو یوں ظاہر فرمایا کہ ان پر اپنی رضا اور خود انکی اللہ سے رضا کی مہر ثبت فرمائی اور نتیجتا ان پر اپنی جنتون کہ حلال ہونے کا وعدہ بھی فرمایا جس پر قرآن کی درج زیل آیات گواہ ہیں ۔۔
[ اور جن لوگوں نے سبقت کی ( یعنی سب سے ) پہے (ایمان لائے ) مھاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنھوں نے خلوص ( نیکوکاری ) کے ساتھ ان کی پیروی کی ، اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں اور اس نے ان کے لئے جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، ( اور وہ ) ان میں ھمیشہ ھمشیہ رہیں گے ، یہ بہت بڑی کامیابی ہے ] ۔ ( التوبہ ۔١٠٠)

دوسری جگہ ارشاد باری تعالی ہے :

[ ( اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ) جب مومن آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے تو اللہ ان سے خوش ھو گیا اور جو ( صدق و خلوص ) ان کے دلوں میں تھا وہ اس نے معلوم کر لیا اور ان پر تسلی نازل فرمائی اور انھیں جلد فتح عنائت فرمائی اور بہت سی غنیمتیں جو انھوں نے حاصل کیں ۔ اور اللہ غالب حکمت والا ہے ] ۔ ( الفتح ۔١٨ ، ١٩)

اور جس سے اللہ راضی ھو جائے اس کے لئے ممکن ہی نہیں کہ اس کی موت کفر پر آئے کیونکہ اصل اعتبار اسلام پر وفات کا ہے اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

[ جن لوگوں نے درخت کے نیچے بیعت ( رضوان ) کی تھی ان میں سے کوئي شخص جہنم میں نہیں جائے گا ]۔ ( ترمذی ، ابوداؤد ، مسنداحمد )



۔ ۔ ۔ ۔۔ اسی طرح لفظ خوارج بھی اپنا ایک مخصوص پس منظر اور تعریف رکھتا ہے اس لیے جب بھی مطلقا لفظ خارجی بولا جاتا ہے تو اس سے مراد وہی گروہ ہوتا ہے کہ جسکو اللہ کہ رسول نے دین سے خارج فرمادیا اور جو دین میں سب سے پہلا فتنہ بن کر رونما ہوئے آپ کسی بھی تاریخ کہ طالب علم سے پوچھ لیں تو وہ آپ کو یہی بتائے گا کہ اسلام میں سب سے پہلا فتنہ خوارج تھے کہ جن کی بنیاد نفاق پر تھی اور وہ ایک الگ اور مستقل اور ذاتی حیثیت میں اپنی پہچان رکھتے تھے وہ حضرت علی کہ بھی دشمن تھے ، حضرت معاویہ کہ بھی دشمن تھے ۔ ۔ اور دیگر اصحاب رسول کہ بھی ۔ ۔۔ ۔اور وہ اپنے سوا سب مسلمانوں کو کافر سمجھتے تھے یہ بات ہر جگہ ہر سنی اور شیعہ تاریخ میں رقم ہے ۔ ۔ جبکہ آپ انھے مسلمان سمجھنے پر مصر ہیں ۔ ۔اس لیے کہ آپ خوارج سے فقط سیاسی بنیاد پر رونما ہونے والا فتنہ مراد لے رہی ہیں یہ سرا سر احادیث اور تاریخ دونوں کہ خلاف ہے آپ لغوی اعتبار سے تو یہ کہہ سکتی ہیں کہ جنھوں نے خلیفہ برحق حضرت علی کہ خلاف سیاسی طور پر خروج کیا وہ بھی خوارج ہیں مگر ان کو اس خارجی گروہ کہ جو عقائد کی بنیاد پر مسلمانوں سے الگ ہوگیا تھا کہ ساتھ ہر گز نہیں ملا سکتیں کیونکہ اس خارجی گروہ کو عقائد کی بنا پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام سے خارج قرار دے دیا تھا اور یہی تمام صحابہ اور حضرت علی کا مؤقف تھا ان کے بارے میں ۔ ۔ ۔ میرا آپ پر اعتراض یہ تھا کہ آپ نے دین میں اصل خارجی فتنے کی نشاندہی کرتے ہوئے صحابہ کرام کو بھی خارجی قرار دے دیا تھا ۔ ۔ اور آپ نے اپنی بات کی بنیاد اس مفروضے کو بنایا تھا کہ آپ کہ نزدیک خارجی مسلمان ہیں دلیل آپکی خارجیوں کہ ظاہری اعمال تھے کہ جو آپ کہ نزدیک تقوٰی کی دلیل تھے اس لیے آپ نے انکو مسلمان جانا جبکہ میں احادیث کی رو سے عرض کرچکا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا احادیث میں خارجیوں کہ ظاہری اعمال کی طرف صحابہ کرام کی توجہ دلاتے ہوئے یہ فرمایا کہ ان کہ سامنے تمہارے اعمال کچھ بھی نہ ہونگے مگر تم ان کہ ظاہری اعمال پر مت جانا کہ وہ دین سے یوں نکل جائیں گے کہ جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے اسلیے جہاں بھی انھے پانا قتل کردینا ۔ ۔۔ آپ بار بار جو خارجیون کو ایک سیاسی فتنہ قرار دے رہی ہیں میرے خیال میں اس سے آپکی مراد حضرت امیر معاویہ کا گروہ ہے اور لہزا اسی لیے آپ بار بار اس کو مسلمان قرار دے رہی ہیں اور خارجی بھی سمجھ رہی ہیں یہان آپ شدید مغالطے میں ہیں کیونکہ میں بارہا عرض کرچکا کہ خوارج دین اسلام کا سب سے پہلا فتنہ تھے اور ان کی بنیاد نفاق پر تھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں جب حکم وحی کہ مطابق آپ نے منافقین کو علی الاعلان ظاہر فرمادیا تو پھر سب کو منافقین کا پتا چل گیا ۔ ۔ ۔ لیکن آپ کہ پردہ فرماجنے کہ بعد بھی منافقین کی کارستانیاں جارہی رہیں ۔۔ لیکن اب ان کا نفاق ظاہر نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ وحی کا دروازہ بند ہوچکا تھا لہذا منافقین کی وہ جماعت ہمہ وقت مسلمانوں پھوٹ ڈلوانے میں مصروف رہی دور صدیقی سے لیکر دور علی رضی اللہ تعالٰی عنہ تک یہاں تک کہ صفین کا موقع آیا ۔ ۔۔ اور یہان پر منافقین کا یہ گروہ اپنی اصل سورت یعنی خارجی رنگ میں ظاہر ہوا جب طرفین سے حکم چنے گئے تو خارجیوں نے ان الحکم الا اللہ کا نعرہ لگا کر مسلمانوں کہ دونوں گروہوں سے علیحدگی اختیار کی اور دونوں گروہوں کو کافر قرار دیا اور تاریخ اس بات کی شاہد کہ حضرت علی نے ان کو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ اس بات پر اڑ رہے کہ آپ حضرت علی اپنے سابقہ اعمال پر توبہ کریں اور پھر سے اسلام قبول کریں تو تب ہم آپ کا ساتھ دیں گے ۔۔ جب حضرت علی نے ان پر اپنی حجت تمام کردی تو پھر ان کہ ساتھ نہروان کہ مقام پر جنگ کی ۔ ۔ ۔حضرت على نے اگر چہ صلح كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس كے باوجود ان ميں سے چار ہزار سے زيادہ خوارج باقى رہ ہى گئے_ وہ عبداللہ بن وہب كے زير فرمان اب بھى اپنے پر انے عقيدے پر پورى طرح قائم تھے اور الرواح الرواح الى الجنة(بڑھو جنت كى طرف) كے نعرے لگاتے ہوئے حضرت على كے لشكر پر حملہ آور ہوگئے چناچہ پھر گمسان کا رن پڑا اور دونوں لشكر ايك دوسرے پر حملے آور ہوئے شروع ميں اگر چہ لشكر اسلام كے سوار فوج، دشمن كے سنگين حملے كے باعث اپنے مقام سے پيچھے ہٹ گئے اور پورى صف لشكر سے الگ ہوگئے خوارج اس پر تير كى تيزى سے حملے آور ہوئے وہ قلب لشكر پر حملہ كرنے كے ارادے سے آگے بڑھے ہى تھے كہ يكايك جنگ كا نقشہ ہى بدل گيا تير اندازوں كے اس دستے كو جو پہلے سے ہى اس مقام كى پشت پر متعين تھا جہاں سوار فوج كى جگہ مقرر كى گئي تھى انہيں اپنے تيروں كانشانہ بنايا اور اپنى طرف سے غافل و بے خبر پا كر ان پرحملہ كرديا يہ حملہ ايسا اچانك اور سخت تھا كہ ان كے لئے نہ آگے بڑھنا ممكن تھا اور نہ پيچھے ہٹنے كے لئے كوئي چارہ تھا خوارج كا خيال تھا كہ سوراوں كے لشكر نے ان كى طرح سے پشت كرلى ہے ليكن اس نے دائيں اور بائيں بازو كے پرے ساتھ لے كر انھيں اپنے درميان زنبور كى طرف نرغے ميں لے ليا اور دم شمشير و سرنيزے سے ان كى خوب خاطر و تواضع كى _ قلب لشكر اسلام كے درميان محاذ پر متعين دستے كو چونكہ ابھى تك كوئي نقصان نہيں پہنچا تھا وہ بھى ان كى سركوبى كرنے كى غرض سے حملہ آور ہوا سپاہ دشمن كے فرماندار عبداللہ بن وہب كے علاوہ ذوالثديہ ، اخنس طائي ، مالك بن وضَّاح و غيرہ جيسے ديگر فرماندار لشكر، حضرت على كى شمشير كے باعث ہلاك ہوئے۔خوارج چونكہ سخت نرغے ميں آگئے تھے اسى لئے وہ اس ميں برى طرح پھنس گئے اور دو گھنٹے بھى نہيں گذر نے پائے تھے كہ وہ زمين پر اس طرح گرنے لگے جيسے خزاں كے دونوں ميں درختوں سے پتے گرتے ہيں گويا يہ بھى كوئي كن فيكون كى طرح تكوينى حكم تھاجس كے تحت ان سے كہا گيا كہ مرجاؤ اور وہ مرگئے چار ہزار افراد ميں سے صرف نوشخص يعنى شہدائے اسلام كى تعداد كے برابر اپنى جان بچا كر بھاگ گئے اور اس طرح امير المومنين حضرت على كى پيشيں گوئي صحيح ثابت ہوئي ۔جنگ ختم ہوجانے كے بعد اميرالمومنين حضرت على نے حكم ديا كہ '' ذوالثديہ''كى تلاش و جستجو كريں(رسول خدا) نے جنگ نہروان ميں مقتولين كى جو خصوصيات بتائيں تھيں وہ اس شخص ميں موجود تھيں حضرت على نے اس كى جستجو اس لئے كرائي تھى كہ حق كى روشن دليل اور تائيد اميرالمومنين حضرت على واضح ہوجائے سپاہى اس كى لاش تلاش كرنے كے لئے نكلے مگر ناكام واپس آگئے اس كے بعد اميرالمومنين حضرت على خود اس كى لاش نكالنے كے لئے تشريف لے گئے كچھ دير بعد اس كى لاش ديگر مقتولين كى لاشوں كے نيچے سے نكل آئي اسے ديكھ كر آپ مسرور ہوئے اور فرمايا اللہ اكبر ميں نے پيغمبر صلی اللہ علہ وسلم كى كوئي بات كبھى غلط نہ پائي رسول خدا نے فرمايا تھا كہ اس كاايك ہاتھ چھوٹا ہوگا جس ميں ہڈى نہ ہوگى اس كے ايك طرف پستان جيساگوشت كا گولہ ابھرا ہوا ہوگا جس پر پانچ ياسات بال اگے ہوئے ہوں گے جس وقت اميرالمومنين حضرت على نے يہ تمام خصوصيات ديكھيں تو آپ فورا سجدے ميں تشريف لے گئے اور خدا كا شكر بجالائے ۔ ۔ اور اس اخری واضح نشانی کہ بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ تمام نشانیاں جو کہ آپ نے خوارج کہ بارے میں بیان فمرائی تھیں پوری ہوئی اور حجرت علی نے الل کا شکر ادا کیا کہ جس لشکر کو انھون تہہ تیغ کیا ہے وہ وہی خارجی گروہ کہ جس کی پیغمبر اسلام نے نشاندہی کی تھی ۔۔۔ ۔ دوسری طرف صفین میں حضرت علی کہ مقابل حضرت معاویہ تھے کہ ۔ ۔۔ اور صحیح حدیث گواہ ہے کہ نبی کریم نے حضرت حسن کہ فضائل بیان کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ میرا یہ بیٹا مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کہ درمیان صلح کا باعث بنے گا اور کو کشت و خون سے بچا لے گا اور مسلمانوں کی وہ دو عظیم جماعتیں خود حضرت حسن کا گروہ اور امیر معاویہ کا گروہ تھا کہ حضرت حسن نے امیر معاویہ کی بیعت کرکہ مسلمانوں نبی کریم کہ ارشاد کا سچا کردکھایا ۔ ۔ ۔اور نبی کریم کی اس حدیث کا فائدہ یہ ہو اکہ آپ نے دونوں جماعتوں کو مسلمانوں کی جماعت قرار دیا جبکہ اس کہ برعکس خارجیوں کو آپ تمام تر ظاہری اعمال کہ باوجود اسلام سے خارج قرار دے چکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والسلام
 

شاکرالقادری

لائبریرین
خوارج کے بارے میں نہایت معلومات افزا مواد پیش کیا جا رہا ہے یقینا یہ تمام مواد یکجا کیا جائے تو ایک علمی مقالہ بن جائے گا میں آبی ٹو کول اور سسٹر مہوش علی سے گزارش کرونگا کہ وہ اس کو مناظرانہ رنگ دینے کی بجائے خوارج کے بارے میں تحقیقی مواد کی فراہمی کا کام سمجھ کر اپنے اپنے مراسلے ارسال کریں اوپر کے مراسلوں میں ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے:

اس بات کی گواہی ہر ہر حدیث جمع کرنے والے عالم اور فقیہ نے دی ہے کہ انکی احادیث قبول ہیں کیونکہ خوارج صادق ہیں اور دل سے جھوٹ بولنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔
میری گزارش ہے کہ مقتبسہ بالا عبارت کی تائید یا تردید میں بھی کتب تواریخ، احادیث اور رجال سے استناد کے ساتھ مواد یہاں فراہم کیا جائے تاکہ خوارج کی حیثیت کا علمی طور پر تعین کیا جائے اور ایسا کرنے سے یقینا چند مزید تشنہ امور اور ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا حل سامنے آسکتا ہے مثلا:

0۔۔۔ کیا محدثین اور جامعین حدیث نے خوارج سے احادیث لی ہیں؟
0۔۔۔ کن کن محدثین اور جامعین حدیث نے خوارج سے احادیث لی ہیں؟
0۔۔۔ خوارج سے لی گئی احادیث کن کن کتب احادیث میں موجود ہیں؟
0۔۔۔ خوارج سے لی جانے والی احادیث کن کن موضوعات سے متعلق ہیں
0۔۔۔ اگر خوارج بلحاظ عقائد و نظریات دین سے خارج ہیں تو محدثین کی جانب سے ان کی بیان کردہ احادیث کو قبول کرنے کا کیا جواز ہے؟
0۔۔۔ اگر خوارج دینی اور عقاید کے اعتبار سے نہیں بلکہ صرف سیاسی اعتبار سے خوارج کہلائے تو کیا ایسی صورت میں ان سے احادیث لینا درست تھا؟
0۔۔۔ اور کیا ان سے لی گئی احادیث سیاسی وابستگیوں سے متاثرہ تو نہیں تھی؟

مجھے امید ہے کہ اس دھاگے میں حصہ لینے والے اراکیں محفل اس بحث کو علمی انداز میں آگے بڑھائیں گے

والسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
میری گزارش ہے کہ مقتبسہ بالا عبارت کی تائید یا تردید میں بھی کتب تواریخ، احادیث اور رجال سے استناد کے ساتھ مواد یہاں فراہم کیا جائے تاکہ خوارج کی حیثیت کا علمی طور پر تعین کیا جائے اور ایسا کرنے سے یقینا چند مزید تشنہ امور اور ذہن میں اٹھنے والے سوالات کا حل سامنے آسکتا ہے مثلا:



والسلام
بہت خوب تجاویز ہیں محترم شاکرالقادری بھائی فی الحال تو میں اپنی یادداشت کہ مطابق اتنا عرض کروں گا کہ محدثین کہ ہاں متفقہ اصول ہے کہ جو بدعت مکفرہ (مستلزم بالکفر )کا مرتکب ہو اس سے روایت نہیں لی جائے گی جبکہ جو بدعت فسقہ (مستلزم باالفسق) کا مرتکب ہو اس سے روایت لینے اور نہ لینے پر اختلاف ہے اور جو لینے کی اجازت دیتے ہیں وہ بھی مخصوص شرائط کی بنا پر دیتے ہیں مثلا مذکورہ راوی بدعت کی دعوت دینے والا نہ ہو وغیرہ وغیرہ مگر تاہم اس مسئلہ پر علماء اصول نے کافی کلام کیا ہے اور بعض جگہ ایسے مباحث بھی ملتے ہیں کہ ہر قسم کی بدعت کہ مرتکب افراد کی روایت مطلقا حجت ہے مگر تاہم ایسے اقوال شذوز میں ہیں ۔ ۔۔ باقی اس وقت پردیس میں تمامی کتب دستیاب نہیں جو دستیاب ہیں ان کو کھنگال کر کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں گا فی الحال جو یاد داشت میں تھا وہ ُآپکی نذر کیا والسلام
 

طالوت

محفلین
میں بھی اس ضمن میں گزارش کرنا چاہوں گا کہ ، اگر ممکن ہو تو ، منافق کی تعریف بیان کر دی جائے اور اللہ رب العزت نے قران میں منافقین کی کیا نشانیاں بتلائی ہیں ، اور اس کے بعد بتا دیا جائے کہ فلاں فلاں خصائل چونکہ خوارج میں پائے جاتے تھے اسلیے وہ منافقین کا گروہ تھا ۔۔
وگرنہ زبانی کلامی کسی بھی گروہ کو منافقین کا گروہ کہہ دینا مناسب نہیں ۔۔
وسلام
 

آبی ٹوکول

محفلین
ایمان کہ لغوی معنی تصدیق کہ ہیں ،شریعت میں اعتقاد ، اور پھر اسکے بعد عمل بالجوارح سے اسکی تصدیق ایمان کامل کی نشانی ہے ۔ نفاق ایمان کی ضد ہے اس لحاظ سے کہ یہ کفر کی بدترین قسم ہے اور کفر اسلام اور ایمان کی ضد ہے اور منافق کی یہ تعریف ہے ایسا شخص جو بامر مجبوری ظاہراً زبان سے تو ایمان باﷲ اور ایمان بالرسالت کا اظہار کرتا ہو مگر دل سے اس کو تسلیم نہ کرتاہو ایسا شخص منافق ہے۔ یعنی حقیقت میں منافق کا اسلام پر ایمان بمعنی اعتقاد نہیں ہوتا مگر وہ اپنے ظاہری اعمال سے ایمان یا اسلام کو ظاہر کرتا ہے اور جہاں تک اعتقاد کا تعلق ہے تو اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ اعتقاد کے بغیر ایمان کا کوئی اعتبار نہیں اور اعتقادکے بغیر وہ شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے خواہ وہ نیک اعمال کرنے والا ہی کیوں نہ ہو اور زبان سے اقرار ہی کیوں نہ کرتا ہو ،جب تک دل میں اعتقاد نہیں ہے وہ مومن نہیں کہلا سکتا اور ایمان سے متصف نہیں سمجھا جائے گا ۔اسی بات کو سورہ منافقون میں اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔
اذا جاءک المنفقون قالوا نشہد انک لرسول اﷲ واﷲ یشہد انّ المنفقین لکذبون اتخذوا ایمانہم جُنہ فصدّوا عن سبیل اﷲ انہم ساءما کانوا یعملون ذلک بانہم اٰمنوا ثمّ کفروا فطبع علی قلوبہم فہم لا یفقہون (المنفقون: ١۔٣)
”اے نبی جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں ۔ہاں اللہ جانتا ہے کہ تم ضرور اس کے رسول ہو مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق قطعی جھوٹے ہیں۔ انہوں نے اپنی قسموں کوڈھال بنا رکھاہے اور اس طرح یہ لوگ اللہ کے راستے سے خود رکتے اور دنیا کو روکتے ہیں۔کیسی بری حرکتیں ہیں جو یہ لوگ کر رہے ہیں یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کہ ان لوگوں نے ایمان لا کر پھر کفر کیا اس لیے ان کے دلو ں پر مہر لگا دی گئی ،اب یہ کچھ نہیں سمجھتے ۔“
ان آیات میں ان کے ایمان کے دعوے کو تسلیم نہیں کیاگیا اور اس کا سبب اعتقاد ہے ،جو اقرار وہ زبان سے کرتے تھے اس کا اعتقاد دل میں نہیں رکھتے تھے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں کافر کہا ہے۔ سورہ نساءمیں کافر منافق کا حکم بھی بتلا دیا ۔
انّ المنفقین فی الدرک الاسفل من النار ولنّ تجد لہم نصیراً (آیت:١٤٥)
”یقین جانوکہ منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو ان کا مدد گا ر نہ پائو گے۔“
سورہ توبہ میں بھی منافقین کیلئے ان الفاظ میں وعید آئی ہے: وعد اﷲ المنفقین والمنفقت والکفار نار جہنم خلدین فیہا ہی حسبہم ولعنہم اﷲ ولہم عذاب مقیم(آیت: ٦٨)
پھر علماء کلام نے نفاق کی دو بنیادی اقسام ذکر کی ہیں ایک منافق اعتقادی کہ جس کہ بارے میں ہم اوپر بیان کر چکے کہ جو اعتقادا اسلام کا انکار کرے اور عملا اسلام کا اظہار کرے اور دوسرا منافق عملی جو کہ اعتقادا تو مسلمان ہو مگر اس میں منافقین کی چند یا بعض صفات پائی جاتی ہون ایسے شخص کو عملا منافق کہیں گے مگر حقیقت میں وہ گناھگار یا فسق یافجور کا مرتکب مومن کہلائے گا ۔ ۔ ۔
رہ گئی خوارج کی بات تو ان کی اصل کہ نفاق پر مشتمل ہونے کی درج زیل وجوہات ہیں ۔ ۔۔
علامہ طاہر القادری نے اپنی کتاب میں (اَلاِنتِبَاہُ لِلْخَوَارِجِ وَالْحَرُوْرَاءِ ) میں خوارج کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے جس سب سے پہلی متفق علیہ حدیث پر اعتماد کیا ہے اس کہ درج زیل الفاظ ہماری بات کی دلیل ہیں ۔ ۔

۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث میں ہمارے نمایاں کردہ الفاظ میں سے پہلا جملہ جو کہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے نکلا وہ منافق کی تعریف تھی ۔ ۔۔ اور پھر اسکہ بعد جو دوسرا جملہ ہم نے نمایاں کیا اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اسکی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہونگے ۔۔ ۔ کا جملہ ہماری دلیل ہے کہ خوارج کی اصل منافقت پر مبنی ہے ۔ ۔ ۔ ۔۔
نوٹ :- سورۃ البقرہ کی آیات 8 تا 20 میں مسلسل منافقین کی علامات بیان کی گئی ہیں۔ زیادہ تفصیل کہ لیے وہاں رجوع کریں ۔ ۔ ۔والسلام
 

طالوت

محفلین
میں نے انھی آیات کے حوالے سے خوارج میں وہ خامیاں پوچھیں تھیں جو ان کو منافق ٹھہراتی ہیں ۔۔
توجہ کا شکریہ ۔۔
وسلام
 
آپ تو کچھ زیادہ ہی مرعوب دکھائی دیتے ہیں ، پہلے پوچھ تو لیں انھوں نے کہنے والے کو کہا یا امیر یزید کو ! میں تو سمجھ رہا تھا کہ موصوف امیر یزید کو کہہ کر "ثواب" لوٹ رہے ہیں ، آپ کی اس بات نے مجھے شک میں ڈال دیا :(
وسلام

طالوت بھائی یہ تو ایک گلہ تھا ، ایک شکایت تھی اس میں مرعوبیت کہاں سے آ گئی؟ بھائی مرعوب تو میں کسی سے نہیں ہوں‌جتنے شاکر بھائی میرے نزدیک محترم ہیں اتنے ہی محترم آپ بھی میرے نزدیک ہیں‌اور جہاں تک تعلق شاکر بھائی کے کمنٹس کا ہے تو اس بابت تو وہی کچھ فرما سکتے ہیں‌ بادی النظر میں تو یہ جملہ کچھ ذو معنی سا ہے بہر کیف آُپ میری نظر میں لائق احترام ہیں اور اگر میری اس تحریر سے آپ کو کچھ برا لگا ہے تو میں معذرت کا طالب ہوں۔
 

طالوت

محفلین
ارے بھائی مجھے کیوں برا لگنے لگا ، اسی ذومعنیت کو تو میں گھول کر پی گیا تھا ، آپ نے پھر یاد کرا دیا ۔۔;) ۔۔ مرعوبیت اس لیے کہا کہ میں نے کبھی کسی کو منافقین ، فاسقین یا کافرین کا سرٹیفیکیٹ نہیں دیا ۔ اگر آپ کو لگا کہ اس میں ذو معنویت ہے تو آپ کو اس پر شاکر کو روکنا چاہیے تھا ، مگر آپ نے کہا اگر فلاں کو ایسا کہا تو فلاں کو بھی ایسا کہیں نا :):) ارے بھیا یہ ہمدردی میں چھری ہی پھیر دی ;) تو آپ کے اس معذرت خوانہ انداز پر میرا اتنا سا کہنا تو بنتا ہے نا ۔۔ :)
خیر یہ موضوع نہیں ، اسے بھول جائیں "لائیو" پروگرامات میں ایسی تھوڑی بہت اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے ۔۔
وسلام
 
Top