چوڑیاں

جیا راؤ

محفلین
موتیے سے زلف، عنبر سے مہکتی چوڑیاں
یاد آئیں لمس سے اس کے دہکتی چوڑیاں

دیکھ کر سونی کلائی یاد آئے تیری بات
"جان لیں میری،تری ہر دم کھنکتی چوڑیاں"

چھین لیں جاگیرِ دل حسیں ہتھیار یہ
کر دیں گھائل پایلیں، جھومر، کھنکتی چوڑیاں

حادثہ گزرا ہے کیا لڑکی پہ بڑھ کر پوچھنا
نم ہیں آنکھیں دیکھ کر اس کی دمکتی چوڑیاں

جانتا ہے وہ ادا مجھ کو منانے کی جیا
شعر لے آتا ہے کچھ، کلیاں، چمکتی چوڑیاں
 

الف عین

لائبریرین
جیا۔ غزل تو عمدہ ہے۔ مطلع میں ایطا ہے۔ کیوں کہ قافیے مہکتی اور دہکتی ہیں۔ اگر یہ قوافی مانیں تو بقیہ قوافی بھی ’ہکتی‘ مشترک والے ہوں گے۔۔ بہکتی، لہکتی وغیرہ۔ لیکن موجودہ صورت میں قوافی مہکتی، چمکتی، کبنکتی ہیں، اس لئے مطلع کے قوافی غلط بھی ہیں، اور معنی ھی واضح نہیں۔ عنبر سے مہکتی چوڑیاں؟ کای چوڑیوں میں عنبر لگایا جاتا ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
حادثہ گزرا ہے کیا لڑکی پہ بڑھ کر پوچھنا
نم ہیں آنکھیں دیکھ کر اس کی دمکتی چوڑیاں



واہ ! بہت خوب
 

جیا راؤ

محفلین
جیا۔ غزل تو عمدہ ہے۔ مطلع میں ایطا ہے۔ کیوں کہ قافیے مہکتی اور دہکتی ہیں۔ اگر یہ قوافی مانیں تو بقیہ قوافی بھی ’ہکتی‘ مشترک والے ہوں گے۔۔ بہکتی، لہکتی وغیرہ۔ لیکن موجودہ صورت میں قوافی مہکتی، چمکتی، کبنکتی ہیں، اس لئے مطلع کے قوافی غلط بھی ہیں، اور معنی ھی واضح نہیں۔ عنبر سے مہکتی چوڑیاں؟ کای چوڑیوں میں عنبر لگایا جاتا ہے؟

بہت شکریہ استادِ محترم
"ایطا" ہمارے بھی پیشِ نظر تھا مگر پھر بھی لکھ گئے۔:(
اس مصرعے کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
آپ کے وقت کا بےحدشکریہ:)
 
عمدہ اور اعجاز صاحب کی اصلاح سے اور خوب کر لیجیے ۔ ہوسکتا ہے اسی اثنا میں چند اشعار اور سوجھ جائیں
 
Top