ابو ہاشم
محفلین
اردو رسم الخط میں بہتری کی یہ تجاویزپہلے اردو رسم الخط، املا اور یونیکوڈ: بہتری کے لیے تجاویز والی لڑی میں پیش کی جا چکی ہیں یہاں ان سب کو اکٹھا اور مزید وضاحت کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔
مسابقت کے موجودہ دور میں وہ زبان دنیا میں مقبولیت حاصل کرے گی اور ترقی کرے گی جو سیکھنے میں آسان ہو گی۔ یعنی جس کا رسم الخظ اور جس کے لفظوں کا املا آسان ہو گا یعنی سائنسی بنیادوں پر استوار ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں وہ زبان جس کے حروف کے ذریعے اس زبان کا کوئی بھی لکھا ہوا لفظ صحیح صحیح اور آسانی سے پڑھا جا سکتا ہو۔ اور اسی طرح اس قوم کوترقی کرنے میں مدد ملے گی جس کے افراد کا زبان سیکھنے میں وقت کم صرف ہوگا اور دوسری مہارتیں بہم پہنچانے کے لیے جس کے پاس زیادہ وقت ہو گا۔ اس لحاظ سے ہم اردو کے رسم الخط اور املا پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ:
1۔ (و، ی، ے) گروپ کے حرفوں کے مختلف عِلّات (vowels)اور صحیحات (consonants)کے لیے استعمال ہونے کی وجہ سے لکھے ہوئے لفظ کو پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے :
ا۔ ایک حرف 'و' چار مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے: واؤ معروف،واؤ مجہول، واؤ لین اور واؤ صحیحہ۔ ان کے علاوہ بعض مخصوص الفاظ میں یہ خاموش ہوتا ہے۔ اس طرح کسی لفظ میں و آ جائے تو اس کے تلفظ کے بارے میں ابہام رہتا ہے۔
ب۔ ترسیمے کے شروع میں ( ﯾ ) اور درمیان میں ( ﯿ ) چار مختلف چیزوں کو ظاہر کرتے ہیں: یائے معروف، یائے مجہول، یائے لین، اور یائے نیم صحیحہ۔ اور ترسیمے کے آخر میں ے یائے مجہول اور یائے لین دونوں کی نمائندگی کرتا ہے اور اس طرح ان کے تلفظ مبہم رہتے ہیں۔ (باہم جڑے ہوئے دو یا دو سے زیادہ حروف کو ترسیمہ کہا جاتا ہے۔ لفظ ‘ ترسیمہ’ دو ترسیموں پر مشتمل ہے ایک ‘ تر’ اور دوسرا ‘ سیمہ’)
ج۔ علات کے جوڑوں کے بارے میں بھی ابہام رہتا ہے مثلاًراجیو (Rajeev) کو عموماً را +جِیوْ کے بجائے را +جی +او( Rajio) پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح لفظ گاؤں کا تلفظ و معنیٰ ان دو جملوں میں دیکھیے : ‘ یہ میرا گاؤں ہے‘ اور ‘ میں گیت گاؤں گا‘ ۔ املا بالکل ایک جیسی ہے اور اس سے ان کے تلفظ کا پتا بالکل نہیں چل رہا۔
2۔ ترسیمے کے شروع اور درمیان میں نونِ غنہ کو بھی ن ہی کی طرح لکھا جاتا ہے۔اس سے نون اور نونِ غنہ کا فرق پتا نہیں چلتا۔ اسی وجہ سے عالموں تک کو ہنسی کو ہن+سی کہتے سنا ہے۔
مختلف افراد، چیزوں، جگہوں، اصطلاحات وغیرہ کے ناموں کے تلفظ کا مسئلہ ایک عالم فاضل اہلِ زبان کو بھی رہتا ہے کیونکہ چھوٹے علّات (حرکات) کی علامتیں بھی عموماً لکھتے ہوئے نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔
یہی املائی الجھن تھی جس کی وجہ سے کہا گیا کہ الفاظ کو جہاں تک ممکن ہو توڑ کر لکھا جائے کہ اس سے قراءت پذیری (readability )بڑھے گی۔ ممتاز کالم نویسوں کے کالموں میں یو نی ور سی ٹی اور نوٹی فی کےشن لکھا دیکھ کر دل مرجھانے لگتا ہے۔ امید ہے ایک ایسی نئی سکیم بن سکے گی جس کی بدولت الفاط کو یوں توڑ کر لکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہوا انہیں اکٹھا لکھا جا سکے گا ۔ یہی لفظ کی وحدت کا بھی تقاضا ہے۔
ان تمام مسائل کے پیشِ نظرذیل میں اردو رسم الخط میں بہتری کے لیے کچھ تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔ بات کی مکمل تفہیم کے لیے کسی بھی تجویز کو پیش کرنے سے پہلے اس کے متعلق ضروری معلومات/ وضاحت بھی دے دی گئی ہے۔
اردو رسم الخط میں بہتری کے لیے تجاویز
مسابقت کے موجودہ دور میں وہ زبان دنیا میں مقبولیت حاصل کرے گی اور ترقی کرے گی جو سیکھنے میں آسان ہو گی۔ یعنی جس کا رسم الخظ اور جس کے لفظوں کا املا آسان ہو گا یعنی سائنسی بنیادوں پر استوار ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں وہ زبان جس کے حروف کے ذریعے اس زبان کا کوئی بھی لکھا ہوا لفظ صحیح صحیح اور آسانی سے پڑھا جا سکتا ہو۔ اور اسی طرح اس قوم کوترقی کرنے میں مدد ملے گی جس کے افراد کا زبان سیکھنے میں وقت کم صرف ہوگا اور دوسری مہارتیں بہم پہنچانے کے لیے جس کے پاس زیادہ وقت ہو گا۔ اس لحاظ سے ہم اردو کے رسم الخط اور املا پر غور کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ:
1۔ (و، ی، ے) گروپ کے حرفوں کے مختلف عِلّات (vowels)اور صحیحات (consonants)کے لیے استعمال ہونے کی وجہ سے لکھے ہوئے لفظ کو پڑھنے میں دشواری پیش آتی ہے :
ا۔ ایک حرف 'و' چار مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے: واؤ معروف،واؤ مجہول، واؤ لین اور واؤ صحیحہ۔ ان کے علاوہ بعض مخصوص الفاظ میں یہ خاموش ہوتا ہے۔ اس طرح کسی لفظ میں و آ جائے تو اس کے تلفظ کے بارے میں ابہام رہتا ہے۔
ب۔ ترسیمے کے شروع میں ( ﯾ ) اور درمیان میں ( ﯿ ) چار مختلف چیزوں کو ظاہر کرتے ہیں: یائے معروف، یائے مجہول، یائے لین، اور یائے نیم صحیحہ۔ اور ترسیمے کے آخر میں ے یائے مجہول اور یائے لین دونوں کی نمائندگی کرتا ہے اور اس طرح ان کے تلفظ مبہم رہتے ہیں۔ (باہم جڑے ہوئے دو یا دو سے زیادہ حروف کو ترسیمہ کہا جاتا ہے۔ لفظ ‘ ترسیمہ’ دو ترسیموں پر مشتمل ہے ایک ‘ تر’ اور دوسرا ‘ سیمہ’)
ج۔ علات کے جوڑوں کے بارے میں بھی ابہام رہتا ہے مثلاًراجیو (Rajeev) کو عموماً را +جِیوْ کے بجائے را +جی +او( Rajio) پڑھا جاتا ہے۔ اسی طرح لفظ گاؤں کا تلفظ و معنیٰ ان دو جملوں میں دیکھیے : ‘ یہ میرا گاؤں ہے‘ اور ‘ میں گیت گاؤں گا‘ ۔ املا بالکل ایک جیسی ہے اور اس سے ان کے تلفظ کا پتا بالکل نہیں چل رہا۔
2۔ ترسیمے کے شروع اور درمیان میں نونِ غنہ کو بھی ن ہی کی طرح لکھا جاتا ہے۔اس سے نون اور نونِ غنہ کا فرق پتا نہیں چلتا۔ اسی وجہ سے عالموں تک کو ہنسی کو ہن+سی کہتے سنا ہے۔
مختلف افراد، چیزوں، جگہوں، اصطلاحات وغیرہ کے ناموں کے تلفظ کا مسئلہ ایک عالم فاضل اہلِ زبان کو بھی رہتا ہے کیونکہ چھوٹے علّات (حرکات) کی علامتیں بھی عموماً لکھتے ہوئے نظر انداز کر دی جاتی ہیں۔
یہی املائی الجھن تھی جس کی وجہ سے کہا گیا کہ الفاظ کو جہاں تک ممکن ہو توڑ کر لکھا جائے کہ اس سے قراءت پذیری (readability )بڑھے گی۔ ممتاز کالم نویسوں کے کالموں میں یو نی ور سی ٹی اور نوٹی فی کےشن لکھا دیکھ کر دل مرجھانے لگتا ہے۔ امید ہے ایک ایسی نئی سکیم بن سکے گی جس کی بدولت الفاط کو یوں توڑ کر لکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بلکہ جہاں تک ممکن ہوا انہیں اکٹھا لکھا جا سکے گا ۔ یہی لفظ کی وحدت کا بھی تقاضا ہے۔
ان تمام مسائل کے پیشِ نظرذیل میں اردو رسم الخط میں بہتری کے لیے کچھ تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔ بات کی مکمل تفہیم کے لیے کسی بھی تجویز کو پیش کرنے سے پہلے اس کے متعلق ضروری معلومات/ وضاحت بھی دے دی گئی ہے۔