غزل - (2025 - 06 - 27)

محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

ہم نے خود کو ہے سنوارا -آنکھ بھر کے دیکھیے
رُوپ اپنا ہے نکھارا- آنکھ بھر کے دیکھیے

سر مگیں آنکھیں، حنائی ہاتھ، اور مہکا بدن
حُسنِ دلکش کا نظارہ -آنکھ بھر کے دیکھیے

مدتوں کے بعد آئے وصل کے لمحات یہ
بیت نا جائیں خدارا- آنکھ بھر کے دیکھیے

آپ کی نظروں میں چاہت دیکھنا اپنے لیے
خواب کب سے تھا ہمارا -آنکھ بھر کے دیکھیے

آپ کا پردیس جانا، ہم کو تنہا چھوڑنا
کر لیا ہم نے گوارا -آنکھ بھر کے دیکھیے

آسمانِ عشق سے خورشید ہے بن کر گرا
ٹوٹ کر بکھرا ستارا- آنکھ بھر کے دیکھیے
 
مدتوں کے بعد آئے وصل کے لمحات یہ
بیت نا جائیں خدارا- آنکھ بھر کے دیکھیے
آسمانِ عشق سے خورشید ہے بن کر گرا
ٹوٹ کر بکھرا ستارا- آنکھ بھر کے دیکھیے
یہ اشعار خاص طور پر بہت پسند آئے۔ اصلاح تو اساتذہ جانیں، ہم تو خیال اور انداز بیان کو جانچتے ہیں کہ کیا ہی خوبصورت ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
باقی یہ بھی بتائیے گا کہ جہاں کومہ لگ سکتا ہے وہاں - لگانے کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کیو نکہ لٹریچر میں ایسا کم دیکھا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
محترم اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے-
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، سید عاطف علی ، محمد احسن سمیع راحلؔ ، یاسر شاہ

ہم نے خود کو ہے سنوارا -آنکھ بھر کے دیکھیے
رُوپ اپنا ہے نکھارا- آنکھ بھر کے دیکھیے
چل سکتا ہے اگرچہ قواعد کےحساب سے رواں نہیں،مگر قافیہ ہی ایسا ہے کہ’ہے گزارا‘ کرنا پڑے گا

سر مگیں آنکھیں، حنائی ہاتھ، اور مہکا بدن
حُسنِ دلکش کا نظارہ -آنکھ بھر کے دیکھیے
درست

مدتوں کے بعد آئے وصل کے لمحات یہ
بیت نا جائیں خدارا- آنکھ بھر کے دیکھیے
نا، بمعنی ’نہ‘ مجھے گوارا نہیں۔ اس کے علاوہ لمحات کو کوئی کس طرح دیکھ سکتا ہے؟

آپ کی نظروں میں چاہت دیکھنا اپنے لیے
خواب کب سے تھا ہمارا -آنکھ بھر کے دیکھیے
ایک طرح کا شتر گربہ، کس سے کہا جا رہا ہے ’آنکھ بھر کر دیکھئے‘

آپ کا پردیس جانا، ہم کو تنہا چھوڑنا
کر لیا ہم نے گوارا -آنکھ بھر کے دیکھیے
جانا اور چھوڑنا بھی ایسی چیز نہیں جسے آنکھ بھر کر دیکھا جا سکے

آسمانِ عشق سے خورشید ہے بن کر گرا
ٹوٹ کر بکھرا ستارا- آنکھ بھر کے دیکھیے

تمہارا تخلص ہی خورشید ایسا ہے کہ فاعل کے ساتھ مقطع میں ’ستارا‘ یہاں اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے
آسمانِ عشق سے خورشید، میں یوں گر گیا
ٹوٹ کر جیسےستارا- آنکھ بھر کے دیکھیے
 
یہ اشعار خاص طور پر بہت پسند آئے۔ اصلاح تو اساتذہ جانیں، ہم تو خیال اور انداز بیان کو جانچتے ہیں کہ کیا ہی خوبصورت ہے۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ!
باقی یہ بھی بتائیے گا کہ جہاں کومہ لگ سکتا ہے وہاں - لگانے کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کیو نکہ لٹریچر میں ایسا کم دیکھا ہے۔
پسندیدگی اور دعائیہ کلمات کے لیے دوبارہ شکریہ!
، کی بجائے - لگانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اگر اساتذہ کے نزدیک یہ درست نہیں تو پھر اسے غلطی ہی تصور کرلیجیے۔
 
استادِمحترم الف عین صاحب!
غزل کے حوالے سےآپ کی رائے کا اندازہ مجھے پہلےسے ہی تھا لیکن ایک چانس لینا چاہتا تھا ۔ :)
اگر اسے غزل کی بجائے نظم تصور کرلیا جائےاور مقطع میں خورشید تخلص کی بجائے سورج کے معنوں میں لے لیا جائے تو تب آپ کی رائے کیا ہوگی؟ کیونکہ سارے اشعار ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
تمام اشعار ایک بیوی کے جذبات کے متعلق ہیں جس کا شوہر کافی عرصے بعد پردیس سے لوٹا ہے۔
نظم کا عنوان ہو سکتا ہے ایک بیوی
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
جناب یاز صاحب، محترمہ مریم افتخار صاحبہ!
حوصلہ افزائی کے لیے آپ کا شکر گذار ہوں۔
کیوں کانٹوں پر گھسیٹتے ہیں قبلہ۔
اسی بہانے ہماری بھی کچھ تفہیم ہو گئی۔ عمدہ کلام تو تھا ہی، اور کیسے اس میں بھی مزید بہتری کی بابت سکھایا محترم الف عین صاحب نے۔
 
آخری تدوین:
کیوں کانٹوں پر گھسیٹتے ہیں قبلہ۔
اسی بہانے ہماری بھی کچھ تفہیم ہو گئی۔ عمدہ کلام تو تھا ہی، اور کیسے میں اس میں بھی مزید بہتری کی بابت سکھایا محترم الف عین صاحب نے۔
ذرہ نوازی ہے آپ کی، محترم!
جناب الف عین صاحب کی کیا بات ہے جناب۔استاد کو استاد ایسے ہی تو نہٰیں کہا جاتا۔
 

یاز

محفلین
پسندیدگی اور دعائیہ کلمات کے لیے دوبارہ شکریہ!
، کی بجائے - لگانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اگر اساتذہ کے نزدیک یہ درست نہیں تو پھر اسے غلطی ہی تصور کرلیجیے۔
ہم بھی یہی صلاح دیں گے کہ وقفہ کی بجائے سکتہ کا استعمال زیادہ برمحل ہے۔ وقفہ کا استعمال جملۂ معترضہ وغیرہ کی مناسبت سے تو ہو سکتا ہے، لیکن عمومی طور پر دیگر مرکب جملوں یا مصرعہ جات میں سکتہ یا حرفِ ندا یا ندائیہ (یعنی !) زیادہ مستعمل ہیں۔
 
ہم بھی یہی صلاح دیں گے کہ وقفہ کی بجائے سکتہ کا استعمال زیادہ برمحل ہے۔ وقفہ کا استعمال جملۂ معترضہ وغیرہ کی مناسبت سے تو ہو سکتا ہے، لیکن عمومی طور پر دیگر مرکب جملوں یا مصرعہ جات میں سکتہ یا حرفِ ندا یا ندائیہ (یعنی !) زیادہ مستعمل ہیں۔
صلاح دے کر ایک بار پھر آپ نے مجھے شکریہ کہنے کا موقع دیا-
اس کے لیے بھی شکریہ!
 
ایک بیوی

ہم نے خود کو ہے سنوارا -آنکھ بھر کے دیکھیے
رُوپ اپنا ہے نکھارا- آنکھ بھر کے دیکھیے

سر مگیں آنکھیں، حنائی ہاتھ، اور مہکا بدن
حُسنِ دلکش کا نظارہ -آنکھ بھر کے دیکھیے

مدتوں کے بعد آئے وصل کے لمحات یہ
بیت نا جائیں خدارا- آنکھ بھر کے دیکھیے

آپ کی نظروں میں چاہت دیکھنا اپنے لیے
خواب کب سے تھا ہمارا -آنکھ بھر کے دیکھیے

آپ کا پردیس جانا، ہم کو تنہا چھوڑنا
کر لیا ہم نے گوارا -آنکھ بھر کے دیکھیے

آسمانِ عشق سے خورشید ہے بن کر گرا
ٹوٹ کر بکھرا ستارا- آنکھ بھر کے دیکھیے​

اگر اسے غزل کی بجائے نظم تصور کرلیا جائےاور مقطع میں خورشید تخلص کی بجائے سورج کے معنوں میں لے لیا جائے تو تب آپ کی رائے کیا ہوگی؟ کیونکہ سارے اشعار ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
تمام اشعار ایک بیوی کے جذبات کے متعلق ہیں جس کا شوہر کافی عرصے بعد پردیس سے لوٹا ہے۔


استادِمحترم الف عین صاحب!
آپ کی رائے کا انتظار ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
میں اوپر رائے دے تو چکا ہوں! ایک ترمیمی تجویز بھی دے چکا ہوں! ہاں، یہ نہیں لکھا تھا کہ یہ نظم نہیں بلکہ مسلسل غزل کہہ کر یہ نوٹ لگایا جا سکتا ہے کہ" ایک بیوی کے جذبات شوہر کے عرصے کے بعد آمد پر " تاکہ کچھ اشعار میں بے معنی ردیف کا کچھ جواز ہو سکے
 
میں اوپر رائے دے تو چکا ہوں! ایک ترمیمی تجویز بھی دے چکا ہوں! ہاں، یہ نہیں لکھا تھا کہ یہ نظم نہیں بلکہ مسلسل غزل کہہ کر یہ نوٹ لگایا جا سکتا ہے کہ" ایک بیوی کے جذبات شوہر کے عرصے کے بعد آمد پر " تاکہ کچھ اشعار میں بے معنی ردیف کا کچھ جواز ہو سکے
بہت شکریہ سر الف عین صاحب! نظرثانی کی اپیل صرف اسی اجازت کے لیے کی تھی جو مل گئی ہے۔
آپ کی قیمتی رائےتو پہلے ہی قبول کرچکا ہوں۔ صرف بیت ناجائیں خدارا والے ایک شعر کو اسی طرح رکھنے کی اجازت مل جائے تو نوازش ہوگی: (معذرت کے ساتھ )
نا بمعنی نہ (ریختہ لغت)
------------------------------------
عرصے بعد پردیس سےشوہر کی آمد پر ایک بیوی کے جذبات مسلسل غزل کی صورت میں پیشِ خدمت ہیں:

ہم نے خود کو ہے سنوارا ،آنکھ بھر کے دیکھیے
رُوپ اپنا ہے نکھارا، آنکھ بھر کے دیکھیے

سر مگیں آنکھیں، حنائی ہاتھ، اور مہکا بدن
حُسنِ دلکش کا نظارہ ،آنکھ بھر کے دیکھیے


مدتوں کے بعد آئے وصل کے لمحات یہ
بیت نا جائیں خدارا، آنکھ بھر کے دیکھیے


آپ کی نظروں میں چاہت دیکھنا اپنے لیے
خواب کب سے تھا ہمارا ،آنکھ بھر کے دیکھیے

آپ کا پردیس جانا، ہم کو تنہا چھوڑنا
کر لیا ہم نے گوارا ،آنکھ بھر کے دیکھیے


آسمانِ عشق سے خورشید، میں یوں گر گیا
ٹوٹ کر جیسےستارا، آنکھ بھر کے دیکھیے
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
آسمانِ عشق سے خورشید ہے بن کر گرا
ٹوٹ کر بکھرا ستارا- آنکھ بھر کے دیکھیے
زبردست زبردست زبردست
ہماری مجبوری ہے کہ ریٹنگ پسندیدہ دی ہے جیسے ہی میکائیل کا آئی پیڈ ہماری دسترس میں آیا درست کردیں گے واہ خورشید میاں بہت خوب
 
زبردست زبردست زبردست
ہماری مجبوری ہے کہ ریٹنگ پسندیدہ دی ہے جیسے ہی میکائیل کا آئی پیڈ ہماری دسترس میں آیا درست کردیں گے واہ خورشید میاں بہت خوب
چلو ہم نے آپ کے مراسلے کو زبردست کی ریٹننگ دے دی ہے۔
آپی ہمیشہ کی طرح حوصلہ افزائی کرنے کا شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت شکریہ سر الف عین صاحب! نظرثانی کی اپیل صرف اسی اجازت کے لیے کی تھی جو مل گئی ہے۔
آپ کی قیمتی رائےتو پہلے ہی قبول کرچکا ہوں۔ صرف بیت ناجائیں خدارا والے ایک شعر کو اسی طرح رکھنے کی اجازت مل جائے تو نوازش ہوگی: (معذرت کے ساتھ )
نا بمعنی نہ (ریختہ لغت)
------------------------------------
عرصے بعد پردیس سےشوہر کی آمد پر ایک بیوی کے جذبات مسلسل غزل کی صورت میں پیشِ خدمت ہیں:

ہم نے خود کو ہے سنوارا ،آنکھ بھر کے دیکھیے
رُوپ اپنا ہے نکھارا، آنکھ بھر کے دیکھیے

سر مگیں آنکھیں، حنائی ہاتھ، اور مہکا بدن
حُسنِ دلکش کا نظارہ ،آنکھ بھر کے دیکھیے


مدتوں کے بعد آئے وصل کے لمحات یہ
بیت نا جائیں خدارا، آنکھ بھر کے دیکھیے


آپ کی نظروں میں چاہت دیکھنا اپنے لیے
خواب کب سے تھا ہمارا ،آنکھ بھر کے دیکھیے

آپ کا پردیس جانا، ہم کو تنہا چھوڑنا
کر لیا ہم نے گوارا ،آنکھ بھر کے دیکھیے


آسمانِ عشق سے خورشید، میں یوں گر گیا
ٹوٹ کر جیسےستارا، آنکھ بھر کے دیکھیے
زبردستی کی بات دوسری ہے، مگر "نا" مجھ سے ہضم نہیں ہوتا
 
Top