عرفان سعید
محفلین
ایک عاشق کے ہاتھوں Titration
جب مجھے پہلی بار "ٹائٹریشن" کے لیے بلایا گیا تو میں سمجھا، شکر ہے، آخرکار کسی نے میرے اندر چھپے ہوئی جذبات کی ریاست کے بے تاج بادشاہ، یا کم از کم میرے اندر چھپے ہوئے ادھیڑ عمر کے فلسفی کو پہچان لیا ہے، جو ہر بات پر دو کپ چائے پینے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرتا ہے۔نام ہی کچھ ایسا فسوں خیز تھا — Titration — جیسے کوئی پردے کے پیچھے کھڑی دوشیزہ، جو ہر قطرے کے ساتھ آپ کے دل کی دھڑکن گن رہی ہو۔ یہ نام سن کر آنکھیں تو دن میں جاگتے ہوئے حسین و رنگین خواب دیکھنے لگیں — ایک ایسا خواب جیسے کسی نے آپ کو بتایا ہو کہ آپ کو پیرس بھیجا جا رہا ہے، لیکن پہنچنے پر معلوم ہو کہ یہ "پیرس" تو بھائی پھیروکے قریب کسی نئی ہاؤسنگ اسکیم کا نام ہے۔یا یوں سمجھیے کہ یہ وہی کیفیت تھی جیسے ماں نے کہا ہو "بیٹا آج تمھارے لیے خاص کھانا بنایا ہے" اور دسترخوان پر جا کر پتہ چلے کہ "خاص کھانے" کا مطلب وہی کل والے دال چاول ہیں — البتہ اس پر دھنیا کچھ زیادہ ڈال دیا گیا ہے تاکہ جذباتی دھوکہ مکمل ہو۔یہ خواب کچھ ایسا تھا جیسے بچپن میں لڈو کھیلتے ہوئے آخری خانہ بچا ہو، اور جیسے ہی سانپ سے بچ کر پہنچیں، ابا آ کر بورڈ اٹھا لیں کہ "کھیل بہت ہو گیا، اب ہوم ورک کرو!"
جب مجھے پہلی بار "ٹائٹریشن" کے لیے بلایا گیا تو میں سمجھا، شکر ہے، آخرکار کسی نے میرے اندر چھپے ہوئی جذبات کی ریاست کے بے تاج بادشاہ، یا کم از کم میرے اندر چھپے ہوئے ادھیڑ عمر کے فلسفی کو پہچان لیا ہے، جو ہر بات پر دو کپ چائے پینے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرتا ہے۔نام ہی کچھ ایسا فسوں خیز تھا — Titration — جیسے کوئی پردے کے پیچھے کھڑی دوشیزہ، جو ہر قطرے کے ساتھ آپ کے دل کی دھڑکن گن رہی ہو۔ یہ نام سن کر آنکھیں تو دن میں جاگتے ہوئے حسین و رنگین خواب دیکھنے لگیں — ایک ایسا خواب جیسے کسی نے آپ کو بتایا ہو کہ آپ کو پیرس بھیجا جا رہا ہے، لیکن پہنچنے پر معلوم ہو کہ یہ "پیرس" تو بھائی پھیروکے قریب کسی نئی ہاؤسنگ اسکیم کا نام ہے۔یا یوں سمجھیے کہ یہ وہی کیفیت تھی جیسے ماں نے کہا ہو "بیٹا آج تمھارے لیے خاص کھانا بنایا ہے" اور دسترخوان پر جا کر پتہ چلے کہ "خاص کھانے" کا مطلب وہی کل والے دال چاول ہیں — البتہ اس پر دھنیا کچھ زیادہ ڈال دیا گیا ہے تاکہ جذباتی دھوکہ مکمل ہو۔یہ خواب کچھ ایسا تھا جیسے بچپن میں لڈو کھیلتے ہوئے آخری خانہ بچا ہو، اور جیسے ہی سانپ سے بچ کر پہنچیں، ابا آ کر بورڈ اٹھا لیں کہ "کھیل بہت ہو گیا، اب ہوم ورک کرو!"
لیکن جب میں لیب میں داخل ہوا تو خواب اس طرح ٹُھس ہو گیا جیسے نلکے سے پانی کی بجائے ہوا نکلے، اور بندہ شیشہ دیکھ کر بالوں کو درست کرنے کے بجائے یہ سوچے کہ یہ سب کچھ کیا ہو گیا ہے!۔اندر ایک صاحب کھڑے تھے، سفید کوٹ پہنے ہوئے، جیسے حال ہی میں مکھن نہیں، پورا مکھن ساز کارخانہ اُن پر ٹپکایا گیا ہو۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی نے اُنہیں پریشر کُکر میں دھو کر نکالا ہو — چمک ایسی کہ اگر روشنی نہ ہو تو ان کا ماتھا ہی کافی ہے۔ آنکھوں پر ایسا چشمہ تھا کہ گویا خلا میں چاندنی دیکھنے کے لیے تیار کیے گئے ہوں۔ یا جیسے اُنہیں آنکھوں سے نہیں، بصیرت سے دیکھنے کا اجازت نامہ ملا ہو ۔ان کی موجودگی ایسی تھی جیسے لیب میں نہیں، بلکہ کسی پرانی اردو فلم کے ولن نے نقلی مونچھوں کے بغیر انٹری مار دی ہو — اور اب ہر طالبعلم کو یوں گھور رہے ہوں جیسے یہ تجربہ نہیں، تفتیش ہو رہی ہو۔
اور ان کا لہجہ؟
لہجہ ایسا تھا جیسے ہر فقرہ نہ ہو، بلکہ کسی ادھورے خواب کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ہو۔
انہوں نے میرے ہاتھ میں بیورٹ، پِپیٹ، اور کانِکل فلاسک تھما کر فرمایا:
"جلدی کریں، اگلی کلاس بھی ہے۔"
یہ سن کر میں تو ایسا سہم گیا جیسے کسی نے کہا ہو:
"جلدی کرو، محبوبہ جا رہی ہے۔"
بیورٹ ہاتھ میں پکڑا تو محسوس ہوا کہ یہ کوئی تجرباتی آلہ نہیں، بلکہ ایک دھڑکتے ہوئے دل کی پائپ لائن ہے۔ ایک ایسا نازک آلہ جو اگر ایک قطرہ بھی غلط گرا دے، تو نہ صرف تجربہ فیل بلکہ انسان بھی معاشرتی اعتبار سے ناکام شمار ہوتا ہے۔پِپیٹ کی طرف دیکھا تو لگا جیسے یہ میرے بچپن کی وہ بانسری ہے جو کبھی بھی صحیح سر نہیں نکالتی تھی۔ کانِکل فلاسک کو چلاتے ہوئے ہاتھ یوں کانپ رہے تھے جیسے کسی تقریب میں پہلی بار مہمانوں کے سامنے قورمہ پیش کر رہا ہوں اور دل میں ڈر ہے کہ کہیں نمک دُگنا نہ ہو گیا ہو۔
محلول کی پہلی بوند جیسے ہی نیچے گری، تو ایسا لگا جیسے عشق میں پہلا پیغام بھیجا ہو — تھوڑا سا کانپتے ہوئے، تھوڑا سا نادم، اور مکمل طور پر غیر یقینی۔
رنگ کا انتظار ایسے کیا جیسے عاشق سینما ہال میں بیٹھا ہو اور فلم "محبوبہ کی مہندی" کا آخری سین آ رہا ہو — آنکھیں پردے پر، دل دعا پر، اور جیب میں ٹشو۔
پھر اچانک رنگ بدلا — ہلکا سا گلابی۔
دل خوشی سے یوں دھڑکا جیسے کسی نے لفافہ کھولا ہو اور اندر سے "ہاں" کا کارڈ نکلا ہو۔
ابھی میں مسکراہٹ کو دانتوں تک لانے ہی والا تھا کہ لیب اسسٹنٹ کی دھاڑ سنائی دی:
"اوور ہو گیا! تم نے ٹائٹریشن کا بیڑہ غرق کر دیا!"
یہ سن کر دل بیٹھ گیا۔ کچھ ایسے جیسے محبوبہ نے کہا ہو:
"میں تمہیں صرف بھائی سمجھتی ہوں۔"
میں نے بیورٹ کو یوں دیکھا جیسے شاعر اپنے ادھورے شعر کو دیکھتا ہے — خوبصورت، مگر بے مطلب۔
باقی طالبعلموں نے کامیاب نتائج کے ساتھ ایسے لیب چھوڑی جیسے لوٹتے ہوئے سپاہی، اور میں؟ میں لیب صاف کرتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ
"یہ ٹائٹریشن بھی کیا عشق ہے —
اگر قطرہ کم ہو تو رنگ ہی نہیں آتا،
اگر زیادہ ہو جائے تو رشتہ ہی ختم!"
آخر میں جب میں نے بیورٹ دھوتے ہوئے آئینے میں اپنی شکل دیکھی، تو لگا جیسے کوئی عاشق اپنے خط کا مسودہ جلانے سے پہلے آخری بار پڑھ رہا ہو۔
بیورٹ میں بچی ہوئی بوند کو میں نے بہت غور سے دیکھا — وہ ایسی شرمیلی لگ رہی تھی جیسے کوئی پرانی محبوبہ اچانک تقریب میں آ جائے، اور آنکھیں چُرا کر پانی مانگے۔
دل میں سوچا:
"اب دوبارہ کبھی ٹائٹریشن نہیں کروں گا!"
مگر یہ عہد کچھ ویسا تھا جیسے طالبعلم ہر فیل ہونے کے بعد کرتا ہے کہ "اگلی بار پڑھائی وقت پر شروع کروں گا!"یا جیسے عاشق ہر انکار کے بعد کہتا ہے: "اب کسی پہ دل نہیں آئے گا!"
آخری تدوین: