محمد خرم یاسین
محفلین
کچھ جگہوں، عمارتوں، گیتوں، فن پاروں اور کتابوں سے آپ عجیب رومانس میں مبتلا ہوجاتے ہیں ۔ ۔۔ان کی یادیں دل کے نہاں گوشوں میں سنبھال کر رکھتے ہیں اورناسٹلجیا اس رومان کو روز افزوں کرتا رہتا ہے۔ کتابوں سے رومان میں میرا ایک بہت دلچسپ رومان "نورِ تحقیق" سے جڑا ہے۔ یہ لاہور گیریژن یونیورسٹی کا سہ ماہی تحقیقی مجلہ ہے اور مجھے یہ شرف حاصل رہا ہے کہ میں اس رسالے کے پہلے ہی شمارے سے آن لائن جرنل سسٹم پر اپلوڈ کرنے اور مختلف تحقیقی ایجنسیز کے ساتھ جوڑنے میں شامل ر ہا ہوں۔ آغاز رومان کچھ یوں ہے کہ استادِ محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد اویسی نے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور گریژین یونیورسٹی کا رخ کیا اور وہاں بطور صدرِ شعبہ بہت سے اہم تحقیقی اقدامات اٹھانے کی کوشش کی ۔ انہی اقدامات میں سے ایک تحقیقی جریدے "نور تحقیق" کا اجرا بھی تھا۔ ان کی پہ در پہ بین الاقوامی کانفرنسز کا بھی بہت شہرہ ہوا اور محققین ملک کے طول و عرض سے لاہور گیریژن یونیورسٹی کی جانب کھنچے چلے آئے۔
استادِ محترم کا حکم ملا کہ نورِ تحقیق کو آن لائن جنرل سسٹم (OJS) پر ڈالنا ہے تو یہ میرے لیے بالکل نیا، انوکھا اور مشکل کام تھا کہ اس سے قبل ایسا کوئی تجربہ نہ تھا۔ بہرحال حکم کی تعمیل کی کوشش کی اور ان کی جانب سے ایک ویڈیو مہیا کی گئی کہ اس طرح رسالے کو اپلوڈ کرنا ہے۔ ۔۔او جے ایس پر ہر مضمون کو کئی مراحل کے بعد آن لائن کیا جاتا تھا اور پرانے ورژن میں کسی بھی غلطی کی صورت میں پھر سے ڈیلیٹ اور اپلوڈ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس سے مشکل مرحلہ میرا پرانا لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ کی غیر موجودگی اور سگنل کا مسئلہ تھا۔ میں کڑی دوپہر اور شام میں جب بھی وقت ملتا، ملازمت سے واپسی پر چھت پر جا کر، تاکہ سگنل کا مسئلہ نہ بنے، جیز یا ٹیلی نار کے پیکج لگا کر ،اپلوڈ کی کوشش کرتا رہتا۔ اس میں ابتدائی کوشش کے بعد میری رفتار تیز ہوگئی تھی اور کوئی بڑا مسئلہ نہ رہا تھا ۔۔۔سوائے اس کے کہ ۔۔۔
بڑا مسئلہ یہ تھا کہ پہلے نورِ تحقیق کا معاہدہ ایک ریسرچ ایجنسی Tekkiz کے ساتھ ہوا تھا۔ وہاں تمام رسائل کوایک ایک مضمون کرکے خاصی مشکل سے اپلوڈ کیا تھا اور ہر مضمون کی دس سے پندرہ انٹریز تھیں کہ ایچ ای سی کی شرائط تبدیل ہوگئیں اور ہمیں او جے ایس پر شفٹ ہونا پڑا۔ یوں وہ تمام محنت جو ٹیک از کے ساتھ کی تھی، از سرِ نو او جے ایس کے ساتھ کرنا پڑی ۔ اس سب میں استادِ محترم سے مسلسل رابطہ رہا، انھیں میرے مسائل کا مکمل ادراک تھا، وہ دعا ہی کرسکتے تھے۔۔۔اور کرتے رہے۔ میرا کام حکم کی تعمیل تھا، میں وہ کرتا رہا۔ مجھے استادِ محترم نے اگلا کام نورِ تحقیق کی اشاریہ سازی کا سونپا۔ میں نے جلد سوم کے شمارہ نمبر نو سے آغاز کیا۔ میرا نام دو شماروں کے بعد اشاریے میں شامل کیا گیا اور یہ سلسلہ اگلے دس شماروں تک جاری رہا۔ اس کے بعد قلم دان ڈاکٹر سمیرا اکبر صاحبہ نے سنبھال لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس رسالے میں میرے مضامین کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رہا اور الحمدللہ مختلف موضوعات پر چودہ مضامین شایع ہوئے۔ ان میں مضامین میں سے ایچ ای سی کی ریکگ نیشن نہ ملنے کی وجہ سے وائی کیٹیگری میں تو تین چار مضامین ہی شامل ہیں، بقیہ سب بھی بہرحال تحقیقی ادب میں اضافہ ہیں۔
مجھے یہ بتاتے ہوئے بے حد مسرت ہورہی ہے کہ "نورِ تحقیق" جس سے میرا تحقیقی رومان جڑا ہے، اس کے تیس شماروں کے توضیحی اشاریے پر مشتمل کتاب بعنوان "تحقیقی و تنقیدی سہہ ماہی مجلہ "نورِ تحقیق " کے تیس شمارے (اجمالی تعارف اور توضیحی اشاریے پر مشتمل کتابِ حوالہ" زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے اور میرے ہاتھ میں ہے۔ یہ کتاب پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد اویسی صاحب کی شبانہ روز محنت اور محبت کا نتیجہ ہے جس کے آغاز میں نورِ تحقیق کا سفر تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ دیدہ زیب سرورق کی حامل 328 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں سوکے قریب صفحات بندہ ناچیز کے بنائے ہوئے تحقیقی اشاریوں پر مشتمل ہیں۔ جب کہ ڈاکٹر عبدالعزیز، محترمہ صائمہ شکور، ڈاکٹر سمیرا اکبر اور محترم محمد وسیم ارشد کے اشاریے بھی اس میں موجود ہیں ۔ میں اس کتاب کی اشاعت پر پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد اویسی صاحب کو دل کی اتھاہ سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ صد آفرین،مرحبا، احسنت اور تہنیت و تحسین ۔ کتاب کی اشاعت لائلپور پبلشرز سے ہوئی ہے جس کا اہتمام پیارے دوست شاہد فاروق نے کیا ہے۔
کتاب میں نہ صرف موضوعی اشاریوں کے بعد شخصی اشاریہ دیا گیا ہے جو اکیس صفحات پر مشتمل ہے بلکہ اس کے بعد تیرہ صفحات پر مشتمل مقالہ نگاران کا شخصی اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ یوں یہ تحقیقی مقالا ت پر مشتمل اشاریوں کی کتاب درحقیقت ایک ایسی تحقیق بھی ثابت ہوتی ہے جو مزید تحقیق کا راستہ ہموار کرتی ہے، نئے محققین کو آنکھیں مہیا کرتی ہے اور رسائل آن لائن ہونے کے سبب تحقیق تک آسان ترین رسائی بھی مہیا کرتی ہے۔ اس پر میں پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد اویسی کو بارِ دیگر مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا جو تقریباً اڑسٹھ سال کی عمر میں بنا تھکے، رکے علم و ادب کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اس سال ان کی تیسری کاوش ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔ آمین۔
ڈاکٹر محمد خرم یاسین
استادِ محترم کا حکم ملا کہ نورِ تحقیق کو آن لائن جنرل سسٹم (OJS) پر ڈالنا ہے تو یہ میرے لیے بالکل نیا، انوکھا اور مشکل کام تھا کہ اس سے قبل ایسا کوئی تجربہ نہ تھا۔ بہرحال حکم کی تعمیل کی کوشش کی اور ان کی جانب سے ایک ویڈیو مہیا کی گئی کہ اس طرح رسالے کو اپلوڈ کرنا ہے۔ ۔۔او جے ایس پر ہر مضمون کو کئی مراحل کے بعد آن لائن کیا جاتا تھا اور پرانے ورژن میں کسی بھی غلطی کی صورت میں پھر سے ڈیلیٹ اور اپلوڈ ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس سے مشکل مرحلہ میرا پرانا لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ کی غیر موجودگی اور سگنل کا مسئلہ تھا۔ میں کڑی دوپہر اور شام میں جب بھی وقت ملتا، ملازمت سے واپسی پر چھت پر جا کر، تاکہ سگنل کا مسئلہ نہ بنے، جیز یا ٹیلی نار کے پیکج لگا کر ،اپلوڈ کی کوشش کرتا رہتا۔ اس میں ابتدائی کوشش کے بعد میری رفتار تیز ہوگئی تھی اور کوئی بڑا مسئلہ نہ رہا تھا ۔۔۔سوائے اس کے کہ ۔۔۔
بڑا مسئلہ یہ تھا کہ پہلے نورِ تحقیق کا معاہدہ ایک ریسرچ ایجنسی Tekkiz کے ساتھ ہوا تھا۔ وہاں تمام رسائل کوایک ایک مضمون کرکے خاصی مشکل سے اپلوڈ کیا تھا اور ہر مضمون کی دس سے پندرہ انٹریز تھیں کہ ایچ ای سی کی شرائط تبدیل ہوگئیں اور ہمیں او جے ایس پر شفٹ ہونا پڑا۔ یوں وہ تمام محنت جو ٹیک از کے ساتھ کی تھی، از سرِ نو او جے ایس کے ساتھ کرنا پڑی ۔ اس سب میں استادِ محترم سے مسلسل رابطہ رہا، انھیں میرے مسائل کا مکمل ادراک تھا، وہ دعا ہی کرسکتے تھے۔۔۔اور کرتے رہے۔ میرا کام حکم کی تعمیل تھا، میں وہ کرتا رہا۔ مجھے استادِ محترم نے اگلا کام نورِ تحقیق کی اشاریہ سازی کا سونپا۔ میں نے جلد سوم کے شمارہ نمبر نو سے آغاز کیا۔ میرا نام دو شماروں کے بعد اشاریے میں شامل کیا گیا اور یہ سلسلہ اگلے دس شماروں تک جاری رہا۔ اس کے بعد قلم دان ڈاکٹر سمیرا اکبر صاحبہ نے سنبھال لیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس رسالے میں میرے مضامین کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رہا اور الحمدللہ مختلف موضوعات پر چودہ مضامین شایع ہوئے۔ ان میں مضامین میں سے ایچ ای سی کی ریکگ نیشن نہ ملنے کی وجہ سے وائی کیٹیگری میں تو تین چار مضامین ہی شامل ہیں، بقیہ سب بھی بہرحال تحقیقی ادب میں اضافہ ہیں۔
مجھے یہ بتاتے ہوئے بے حد مسرت ہورہی ہے کہ "نورِ تحقیق" جس سے میرا تحقیقی رومان جڑا ہے، اس کے تیس شماروں کے توضیحی اشاریے پر مشتمل کتاب بعنوان "تحقیقی و تنقیدی سہہ ماہی مجلہ "نورِ تحقیق " کے تیس شمارے (اجمالی تعارف اور توضیحی اشاریے پر مشتمل کتابِ حوالہ" زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکی ہے اور میرے ہاتھ میں ہے۔ یہ کتاب پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد اویسی صاحب کی شبانہ روز محنت اور محبت کا نتیجہ ہے جس کے آغاز میں نورِ تحقیق کا سفر تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ دیدہ زیب سرورق کی حامل 328 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں سوکے قریب صفحات بندہ ناچیز کے بنائے ہوئے تحقیقی اشاریوں پر مشتمل ہیں۔ جب کہ ڈاکٹر عبدالعزیز، محترمہ صائمہ شکور، ڈاکٹر سمیرا اکبر اور محترم محمد وسیم ارشد کے اشاریے بھی اس میں موجود ہیں ۔ میں اس کتاب کی اشاعت پر پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد اویسی صاحب کو دل کی اتھاہ سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ صد آفرین،مرحبا، احسنت اور تہنیت و تحسین ۔ کتاب کی اشاعت لائلپور پبلشرز سے ہوئی ہے جس کا اہتمام پیارے دوست شاہد فاروق نے کیا ہے۔
کتاب میں نہ صرف موضوعی اشاریوں کے بعد شخصی اشاریہ دیا گیا ہے جو اکیس صفحات پر مشتمل ہے بلکہ اس کے بعد تیرہ صفحات پر مشتمل مقالہ نگاران کا شخصی اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔ یوں یہ تحقیقی مقالا ت پر مشتمل اشاریوں کی کتاب درحقیقت ایک ایسی تحقیق بھی ثابت ہوتی ہے جو مزید تحقیق کا راستہ ہموار کرتی ہے، نئے محققین کو آنکھیں مہیا کرتی ہے اور رسائل آن لائن ہونے کے سبب تحقیق تک آسان ترین رسائی بھی مہیا کرتی ہے۔ اس پر میں پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد اویسی کو بارِ دیگر مبارکباد پیش کرنا چاہوں گا جو تقریباً اڑسٹھ سال کی عمر میں بنا تھکے، رکے علم و ادب کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ یہ اس سال ان کی تیسری کاوش ہے۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔ آمین۔
ڈاکٹر محمد خرم یاسین