آخری بار ایسا موقع کوئی ایک سال ایک ماہ قبل آیا تھا۔ لیکن لگتا ہے جیسے ابھی کچھ عرصے کی ہی بات ہو۔
وقت اپنی رفتار سے دوڑے جارہا ہے، زندگی کی گھڑیاں کم سے کم ہوتی جارہی ہیں تو انہیں گزرتے لحمات کو یاد گار بنانے کے لیے ایک بار ایسا ہی موقع ہاتھ آیا۔
ویسے تو اس ملاقات کا پروگرام کافی عرصے سے بن رہا تھا لیکن اس پر کسی نہ کسی کارن عمل در آمد نہ ہوپاتا تھا۔ اور اب جب ظفری بھائی کی واپسی کی تاریخ بھی قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی تو سیما آپی کے حکم کے مطابق ہم نے ایک پروگرام ترتیب دے ہی لیا۔ جس میں ظفری بھائی، آپی اور ہم بس تین ارکان ہی شامل تھے۔
اب ہم نے تھوڑا دماغ لڑایا اور ظفری بھائی کی سہولت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بجائے صبح کے رات کا پروگرام ترتیب دیا (جس کی اجازت پہلے آپی نے دے رکھی تھی) اور ساتھ ہی اسی دن کا دیا جس دن ظفری بھائی کی فلائٹ تھی۔
معلومات کے مطابق ظفری بھائی نے مورخہ 2 جون بروزِ پیر رات کے آخری پہر ایئر پورٹ پہنچنا تھا اور ساتھ تھوڑی بہت چیزیں لکی ون مال سے لینی تھیں۔ تو ہم نے مشورہ دیا کہ 6 بجے تک ہمارے آفس سے ہمیں پک کرلیں اور پھر ساتھ میں لکی ون سے کام نپٹاتے ہوئے ساڑھے 7 تک ہمیشہ کی طرح مطلوبہ مقام کراچی جیمخانہ میں سیما آپی کی شفقت اور میزبانی کا فیض پانے پہنچ جائیں گے۔
پھر پروگرام کے مطابق ہم پیر کے روز بجائے اپنی گاڑی کے بذریعہ پرائیوٹ ٹرانسپورٹ آفس آئے اور 5 بجے ظفری بھائی کو کال کرکے ان کا حال معلوم کیا تو کچھ حال سے بے حال معلوم ہوئے۔ استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ رشتوں کے وزن تلے دبے پڑے ہیں اور ساری صلاحیتیں اس وزن کو بالحاظ رشتہ ایڈجسٹ کرنے میں صرف ہورہی ہیں۔
پھر بھی انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ 6 سے سوا 6 تک وہ ہمارے پاس آجائیں گے۔
اب وزن سنبھال کر ظفری بھائی گھر والوں (بھائی، بابھی) کو الوداع کہہ کر نکلے کہ آکر ہمیں چک لیں۔ لیکن کراچی کے ٹریفک اور روڈ کی بندش نے ایسا ہونے نہ دیا۔ ظفری بھائی کی کال موصول ہوئی کہ سہراب گوٹھ پر روڈ بند ہے اور بہت ٹریفک ہے۔ ہم نے سوچا کہ اگر ظفری بھائی ہمیں پک کرنے آئیں گے تو بہت زیادہ وقت لگ جائے تو ہم انہیں سیدھا لکی ون جانے کا کہا کہ ہم خود بھی وہاں پہنچ جائیں گے۔
ہمارے لیے لکی ون پہنچنا کوئی مشکل نہ تھا کہ ہمارے آفس سے نزدیک ہی ہے۔ اور پھر ہم لکی ون پہنچ گئے اتنی دیر میں ظفری بھائی بھی وہاں سے فری ہوچکے تھے۔ اب وہاں سے سفر شروع ہوا اور وقت چونکہ ایسا تھا کہ ٹریفک کا اژدھام تھا اور ہمیں لگ رہا تھا کہ کہیں بہت زیادہ وقت اس چکر میں برباد نہ ہوجائے لیکن اللہ کا شکر ہم لوگ ساڑھے 7 سے کچھ اوپر جیمخانہ پہنچ گئے۔ دماغ میں تھا کہ پیر کا دن ہے تو آج وہاں زیادہ رش نہ ہوگا۔ لیکن وہاں تو لگ رہا تھا کہ شاید سبھی ممبران آج وہاں پہنچے ہوئے ہیں چلنے والے راستوں تک پر گاڑیاں پارک ہوئی وی تھیں۔
ہمارے وہاں پہنچنے کے کچھ دیر بعد آپی کی آمد بھی ہوچلی۔ پروگرام تھا کہ مین ڈائننگ حال میں بیٹھک جمائی جائے لیکن وہاں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ ہم لوگوں سے وہاں کا ایک رول وائلنس ہورہا ہے جس کے کارن ہم وہاں نہیں بیٹھ سکتے کہ ظفری بھائی نے ظاہر ہے لمبا سفر کرنا تھا تو وہ بجائے فارمل شوز کے جوگرز پہنے ہوئے تھے تو وہاں بیٹھنے کے لیے فارمل شوز ہونا لازمی تھے۔ ہم نے سوچا شکر ہے کہ صرف اتنا ہے ورنہ اگر ڈنر جیکٹ کی بھی شرط ہوتی تو 2 رولز وائلنس ہوجانے تھے۔
خیر سے دوسرا ڈائننگ روم جہاں بیٹھک لگی وہ بھی شاندار تھا۔ آپی ہم دونوں کے لیے گفٹس لائی تھیں جس کے لیے ہم آپی کی محبت کے ممنون ہیں
پھر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا جس میں اس بار چونکہ صرف 3 لوگ ہی تھے تو محفل اور محفلین کے ساتھ ساتھ بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی جن میں روزمرہ سے لے کر گھریلو زندگی اور رشتے ناطوں کے معاملات تک زیر گفتگو آئے۔ ساتھ میں ایک شاندار ڈنر بھی کیا۔ جس میں کئی طرح کے لوازمات، مشروبات، اور میٹھے شامل تھے۔
دو سے ڈھائی گھنٹے کیسے گزرے معلوم ہی نہ ہوا اور پھر یہ محفل برخواست ہوئی۔ آپی کو الوداع کہہ کر ہم اور ظفری بھائی جیم خانہ سے نکلے چونکہ ابھی ظفری بھائی کے کچھ مزید وقت باقی تھا تو DHA میں ایک کوئٹہ ہوٹل تلاش کرکے وہاں بھی ایک مختصر بیٹھک ظفری بھائی اور ان کے ڈرائیور بٹ صاحب کے ساتھ لگی۔ جس میں گاڑیوں، موسم، اور کراچی کی بے ترتیبی پر گفتگو ہوتی رہی پھر ظفری بھائی نے ہمیں ہمارے علاقے میں چھوڑا اور ہم نے ظفری بھائی کو نیک تمناؤ کے ساتھ الوداع کہہ کر گھر کی راہ لی۔
وقت اپنی رفتار سے دوڑے جارہا ہے، زندگی کی گھڑیاں کم سے کم ہوتی جارہی ہیں تو انہیں گزرتے لحمات کو یاد گار بنانے کے لیے ایک بار ایسا ہی موقع ہاتھ آیا۔
ویسے تو اس ملاقات کا پروگرام کافی عرصے سے بن رہا تھا لیکن اس پر کسی نہ کسی کارن عمل در آمد نہ ہوپاتا تھا۔ اور اب جب ظفری بھائی کی واپسی کی تاریخ بھی قریب سے قریب تر ہوتی جارہی تھی تو سیما آپی کے حکم کے مطابق ہم نے ایک پروگرام ترتیب دے ہی لیا۔ جس میں ظفری بھائی، آپی اور ہم بس تین ارکان ہی شامل تھے۔
اب ہم نے تھوڑا دماغ لڑایا اور ظفری بھائی کی سہولت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بجائے صبح کے رات کا پروگرام ترتیب دیا (جس کی اجازت پہلے آپی نے دے رکھی تھی) اور ساتھ ہی اسی دن کا دیا جس دن ظفری بھائی کی فلائٹ تھی۔
معلومات کے مطابق ظفری بھائی نے مورخہ 2 جون بروزِ پیر رات کے آخری پہر ایئر پورٹ پہنچنا تھا اور ساتھ تھوڑی بہت چیزیں لکی ون مال سے لینی تھیں۔ تو ہم نے مشورہ دیا کہ 6 بجے تک ہمارے آفس سے ہمیں پک کرلیں اور پھر ساتھ میں لکی ون سے کام نپٹاتے ہوئے ساڑھے 7 تک ہمیشہ کی طرح مطلوبہ مقام کراچی جیمخانہ میں سیما آپی کی شفقت اور میزبانی کا فیض پانے پہنچ جائیں گے۔
پھر پروگرام کے مطابق ہم پیر کے روز بجائے اپنی گاڑی کے بذریعہ پرائیوٹ ٹرانسپورٹ آفس آئے اور 5 بجے ظفری بھائی کو کال کرکے ان کا حال معلوم کیا تو کچھ حال سے بے حال معلوم ہوئے۔ استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ رشتوں کے وزن تلے دبے پڑے ہیں اور ساری صلاحیتیں اس وزن کو بالحاظ رشتہ ایڈجسٹ کرنے میں صرف ہورہی ہیں۔
پھر بھی انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ 6 سے سوا 6 تک وہ ہمارے پاس آجائیں گے۔
اب وزن سنبھال کر ظفری بھائی گھر والوں (بھائی، بابھی) کو الوداع کہہ کر نکلے کہ آکر ہمیں چک لیں۔ لیکن کراچی کے ٹریفک اور روڈ کی بندش نے ایسا ہونے نہ دیا۔ ظفری بھائی کی کال موصول ہوئی کہ سہراب گوٹھ پر روڈ بند ہے اور بہت ٹریفک ہے۔ ہم نے سوچا کہ اگر ظفری بھائی ہمیں پک کرنے آئیں گے تو بہت زیادہ وقت لگ جائے تو ہم انہیں سیدھا لکی ون جانے کا کہا کہ ہم خود بھی وہاں پہنچ جائیں گے۔
ہمارے لیے لکی ون پہنچنا کوئی مشکل نہ تھا کہ ہمارے آفس سے نزدیک ہی ہے۔ اور پھر ہم لکی ون پہنچ گئے اتنی دیر میں ظفری بھائی بھی وہاں سے فری ہوچکے تھے۔ اب وہاں سے سفر شروع ہوا اور وقت چونکہ ایسا تھا کہ ٹریفک کا اژدھام تھا اور ہمیں لگ رہا تھا کہ کہیں بہت زیادہ وقت اس چکر میں برباد نہ ہوجائے لیکن اللہ کا شکر ہم لوگ ساڑھے 7 سے کچھ اوپر جیمخانہ پہنچ گئے۔ دماغ میں تھا کہ پیر کا دن ہے تو آج وہاں زیادہ رش نہ ہوگا۔ لیکن وہاں تو لگ رہا تھا کہ شاید سبھی ممبران آج وہاں پہنچے ہوئے ہیں چلنے والے راستوں تک پر گاڑیاں پارک ہوئی وی تھیں۔
ہمارے وہاں پہنچنے کے کچھ دیر بعد آپی کی آمد بھی ہوچلی۔ پروگرام تھا کہ مین ڈائننگ حال میں بیٹھک جمائی جائے لیکن وہاں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ ہم لوگوں سے وہاں کا ایک رول وائلنس ہورہا ہے جس کے کارن ہم وہاں نہیں بیٹھ سکتے کہ ظفری بھائی نے ظاہر ہے لمبا سفر کرنا تھا تو وہ بجائے فارمل شوز کے جوگرز پہنے ہوئے تھے تو وہاں بیٹھنے کے لیے فارمل شوز ہونا لازمی تھے۔ ہم نے سوچا شکر ہے کہ صرف اتنا ہے ورنہ اگر ڈنر جیکٹ کی بھی شرط ہوتی تو 2 رولز وائلنس ہوجانے تھے۔
خیر سے دوسرا ڈائننگ روم جہاں بیٹھک لگی وہ بھی شاندار تھا۔ آپی ہم دونوں کے لیے گفٹس لائی تھیں جس کے لیے ہم آپی کی محبت کے ممنون ہیں
پھر گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا جس میں اس بار چونکہ صرف 3 لوگ ہی تھے تو محفل اور محفلین کے ساتھ ساتھ بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی جن میں روزمرہ سے لے کر گھریلو زندگی اور رشتے ناطوں کے معاملات تک زیر گفتگو آئے۔ ساتھ میں ایک شاندار ڈنر بھی کیا۔ جس میں کئی طرح کے لوازمات، مشروبات، اور میٹھے شامل تھے۔
دو سے ڈھائی گھنٹے کیسے گزرے معلوم ہی نہ ہوا اور پھر یہ محفل برخواست ہوئی۔ آپی کو الوداع کہہ کر ہم اور ظفری بھائی جیم خانہ سے نکلے چونکہ ابھی ظفری بھائی کے کچھ مزید وقت باقی تھا تو DHA میں ایک کوئٹہ ہوٹل تلاش کرکے وہاں بھی ایک مختصر بیٹھک ظفری بھائی اور ان کے ڈرائیور بٹ صاحب کے ساتھ لگی۔ جس میں گاڑیوں، موسم، اور کراچی کی بے ترتیبی پر گفتگو ہوتی رہی پھر ظفری بھائی نے ہمیں ہمارے علاقے میں چھوڑا اور ہم نے ظفری بھائی کو نیک تمناؤ کے ساتھ الوداع کہہ کر گھر کی راہ لی۔