تقریبا سات سال قبل
محفل میں پہلی سیاحتی لڑی بنائی تھی اور غالبا تب ہی پہلی بار پنجاب سے باہر کوئی اور صوبہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ۔ اس وقت اپنے انسٹیٹیوٹ کے سٹوڈنٹ ٹرپ کے ساتھ خیبر پختونخوا جانا ہوا تھا اور کئی مناظر مسحور کن لگے تھے۔ اس کے بعد پاکستان میں کافی زیادہ سفر کرنے کا موقع ملا مگر یہ موقع تاحال ایک ہی سمت میں رہا۔ ریسرچ کے کئی طرح کے معاملات میں ہرکچھ عرصے بعد اسلام آباد چل دیے اور لگے ہاتھوں کچھ اچھے سپاٹس بھی ایکسپلور کر لیے۔ کچھ سٹوڈنٹس اور ٹیچرز کے ساتھ ایک آدھ بار مری اور نتھیا گلی کا رخ کر لیا یا پھر فیملی کے ساتھ دو بار گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ سندھ اور بلوچستان والی سائیڈز تا حال ایکسپلور کرنا باقی ہیں۔ اس لڑی میں شاید میں ان تمام سیاحتی دوروں کو کسی حد تک ٹچ کروں تاہم اسے سفرنامہ نہ سمجھا جائے کیونکہ سچ تو یہ ہے کہ مجھے اب جزئیات زیادہ یاد نہیں، بس کچھ تصاویر محفوظ ضرور ہیں۔ امید ہے آپ سب کو اپنے اپنے کونوں کھدروں میں بیٹھے ہوئے بھی پہاڑی علاقوں کی ٹھنڈی ہوائیں (تصویری صورت میں) آتی رہیں گی۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس لڑی کا عنوان یہ کیوں ہے تو میں آپ کو بتاتی چلوں کہ ہمارے ابھی تک کے آخری گروہی دورے میں جو تقریبا ڈیڑھ برس قبل ہوا تھا ہمارا گروپ لیڈر ایک بلتی تھا اور اس نے گاڑی میں یہ گیت لگایا، جس کو نہ صرف ہم نے بلکہ ہمارے گروپ میں بیرون ملک سےآنے والے سیاحوں نے اس قدر انجوائے کیا کہ گاڑی جب کہساروں پر چکر کاٹ رہی ہوتی تو یہ وادیاں ہمارے گروپ کے پھٹے سپیکر گلوں سے گونج رہی ہوتیں اور سبھی نسلوں اور قومیتوں کے لوگ یک آواز ہو کر لہکتے ہوئے گا رہے ہوتے :
سب پھول ہیں اک گلدان کے ہیں،ہم گلگت بلتستان کے ہیں
ہم بیٹے ہیں کوہساروں کے،برفیلے مست نظاروں کے
ہم بام جہاں کے باسی ہیں،ہمسائے چاند ستاروں کے
خود اپنا رتبہ جانتے ہیں، ہم گلگت بلتستان کے ہیں
مزے کی بات یہ ہے کہ کینیڈین اور برٹش نیشنلز نے سفر کے اختتام پر ہم سے گفتگو کرتے ہوئے اس گانے کا مطلب (انگریزی میں) پوچھا اور جب ہم نے بتایاتو ان کو مایوسی نہیں ہوئی ورنہ ان کے بقول کچھ بھی ہو سکتا تھا جو ہم پاکستانی ان سے گنواتے رہتے۔۔۔۔

اور یہ ایک طرح سے ہمارے لیے ایک ایسی یادگار بن گئی کہ اس گانے کو لگاتے ہی وہ سارے منظر تازہ ہونے لگتے ہیں اور محبت تو وطن کے چپے چپے سے ہمیشہ سے موجود ہے کہ بقول مریم:
تو نے دیکھا ہے مری آنکھ کا بہتا پانی
قہقہے جذب ہیں میرے تری دیواروں میں
میں وہ گل ہوں جو تری مٹی میں پروان چڑھا
پھول مجھ سا نہ ملے گا تجھے گلزاروں میں
خاک ملت تو مجھے سارے جہاں سے ہے عزیز
تجھ کو ہی چھان کے پایا جو میں نے پایا ہے
تیری ہر اینٹ میں شامل ہیں مرے بھی ذرات
میری پونجی ہے یہی اور یہی سرمایہ ہے
(2017)