مبارکباد اے ہزارو! گواہ رہنا

کسی چیز کو شروع کرنا مشکل نہیں ہوتا لیکن اس پر استقامت سے قائم رہنا سخت مشکل کام ہے۔
ایک مقولہ پڑھا تھا کہیں، تسلی سے دیکھ کر شئیر کروں گی مگر مفہوم کچھ یوں تھا کہ پتھر کے اندر sculpture پہلے ہی موجود ہوتا ہے۔ چیزیں فقط سپیس میں وجود نہیں رکھتیں بلکہ ٹائم میں بھی ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔ سو اگر کوئی چیز اتنا سٹرونگلی لگ رہی ہو اتنا لمبا عرصہ تو پھر ممکن ہے کہ آپ نے فیوچر میں اس منزل کو پا لیا ہو اسی لیے وہ اتنا اس طرف کھینچ رہی ہے۔ استقامت پھر منزل خود ہی لے آتی ہے بعض اوقات۔ کیونکہ ہم اکثر چیزوں کو بڑا موٹا موٹا کلاسیفائے کرتے ہیں اور پھر اس کھینچی ہوئی دیوار سے کبھی ازاد ہوتے ہی نہیں وگرنہ بہت دفعہ cause سے جو effect پیدا ہوتا ہے وہ ہی cause بن جاتی ہے اورپہلے والی cause افیکٹ!

اور آپ نے آج بار بار زبانوں کا ذکر کیا تو آپ بتائیں کہ کون کون سی زبانیں جانتے ہیں اور اس معاملے میں کیا چیزیں آپ کو اٹریکٹ کرتی ہیں؟
 
راحیل فاروق کے پڑھنے کا انداز بھی بہت دلکش ہے۔ ان کے یوٹیوب چینل کا عموماً چکر لگتا رہتا ہے۔
ان کا بلاگ بھی شاید آپ کو پتہ ہو:
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آپ نے آج بار بار زبانوں کا ذکر کیا تو آپ بتائیں کہ کون کون سی زبانیں جانتے ہیں اور اس معاملے میں کیا چیزیں آپ کو اٹریکٹ کرتی ہیں؟
مجھ سے ہے جو سوال کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

اگر میں کہوں کہ میں کسی زبان پر بھی اچھی گرفت نہیں رکھتا تو یقین کر لیجیے گا کیونکہ میرا یہ عالم ہے کہ میں اپنی زبان (سرائیکی) کی کلاسیک شاعری اور تحاریر کو سمجھنے کا بھی اہل نہیں۔

اور سب سے بڑا مسئلہ جو میرے ساتھ ہے وہ ایک شعر میں بیان کرتا ہوں۔

ارمان کوئی دل کا نکلنے نہیں دیا
گرنے کے خوف نے مجھے چلنے نہیں دیا

میں اس بات سے بہت خوف زدہ رہتا ہوں کہ غلطی ہوئی تو لوگ ہنسیں گے حالانکہ یہ طے ہے کہ شروع میں ہر ایک شخص غلطیاں تو کرتا ہی ہے۔
میرا یہ حال ہے کہ میں گذشتہ پندرہ سالوں سے یو اے ای میں ہوں لیکن عربی نہیں آتی۔ بس انگریزی سے کام چلاتا ہوں

میں صرف نصابی زبانوں (وہ جو کمپلسری تھیں) سے کسی قدر واقفیت رکھتا ہوں ۔ وگرنہ عربی اور فارسی ہمارے وقتوں میں سکول میں ہوا کرتی تھیں لیکن فارسی کا یہ عالم تھا کہ فارسی یا ڈرائنگ کا آپشن موجود تھا جس میں اکثریت تقریباً 80 یا 90 فیصدی بچے ڈرائنگ ہی لیا کرتے تھے جس میں ہلہ گلہ اور مستی بھی چلتی رہتی اس وجہ سے فارسی ہاتھ سے گئی ویسے خیر سے فارسی کو اساتذہ بھی سنجیدہ نہ لیتے تھے۔
باقی رہی عربی۔۔۔ تو عربی کا یہ عالم تھا کہ سوال
ھل أنت تقوم بواجب المدرسة في البيت كل یوم؟
کا جواب ہوتا تھا "نعم" اللّٰہ اللّٰہ خیر سلا۔
اور ایسے جوابات پر بھی کتنے ہی طلباء کو سو میں سو نمبر ملا کرتے تھے۔

لوکل زبانوں میں پنجابی کو بہت حد تک سمجھ لیتا ہوں حالانکہ بولنے میں وہی غلطیوں کا ڈر۔۔۔اور ویسے بھی اب عمر کے اس حصے میں پختہ ہو گئی ہوئی فطرت بدلنے والی بھی نہیں۔

2001 کی بات ہے ہم نے اپنے محلے کی مسجد میں ایک مولوی صاحب سے قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنا شروع کیا لیکن پہلے دو پاروں کے بعد وہ پورا گروپ زندگی کے کاموں میں ادھر اُدھر ایسا ہوا کہ پھر کبھی موقع نہ بن سکا۔ کچھ دنوں پہلے کی بات ہے یوٹیوب پر عربی کے ایک اچھے استاد عامر سہیل صاحب کے ایک عربی کورس کا اشتہار دیکھا میں نے آناً فاناً داخلہ لینے کی کوششیں شروع کر دیں بعد میں پتا چلا کہ یہ آنلائن کلاسز نہیں بلکہ فزیکلی کلاس میں جانا پڑے گا۔ پھر چپکا ہو رہا۔۔۔۔
میری بیگم نے کالج چھوڑ کر مدرسے میں داخلہ لیا تھا اب وہ خود مدرسے میں پڑھاتی ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ یار مجھے بھی پڑھاؤ مگر وہ انکار کر دیتی ہیں ۔
حالانکہ میں نے کتنا خوبصورت موقع دیا تھا مجھے ڈانٹنے کا ، لیکن اس نے گنوا دیا۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اس معاملے میں کیا چیزیں آپ کو اٹریکٹ کرتی ہیں؟
سب سے زیادہ اٹریکٹ تو یقیناً ہر زبان کی شاعری کرتی ہے۔
مجھ پر اپنی زبان کے بعد سب سے زیادہ اردو اور پنجابی شاعری کا اثر ہوتا ہے۔ لیکن اردو کے بعضے شعر ایسے ہوتے ہیں جو زبان سے ایسے چپکتے ہیں کہ کئی کئی دن تک ان کی چاشنی محسوس ہوتی رہتی ہے اور مسلسل ورد کی طرح زبان پر جاری رہتے ہیں۔
فارسی اور عربی شاعری سمجھ تو نہیں آتی لیکن ان کے تراجم پڑھنے کے بعد ان کے خیالات کی گہرائی اور گیرائی دنگ کر کے رکھ دیتے ہیں کہ یہ تو ترجمہ ہے اصل زبان میں خدا جانے شاعر نے کیا کیا موتی بکھیرے ہوں گے۔

کبھی کبھی تو شاعر سمندر کی تہوں سے موتی اکٹھے کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور کبھی آسمانوں کی وسعتوں کو مٹھی میں بھرتا ہوا اور کبھی تو سمندر کو کوزے میں بند کرتا ہوا۔۔۔۔
 
مجھ سے ہے جو سوال کیا تو نے ہم نشیں
اک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

اگر میں کہوں کہ میں کسی زبان پر بھی اچھی گرفت نہیں رکھتا تو یقین کر لیجیے گا کیونکہ میرا یہ عالم ہے کہ میں اپنی زبان (سرائیکی) کی کلاسیک شاعری اور تحاریر کو سمجھنے کا بھی اہل نہیں۔

اور سب سے بڑا مسئلہ جو میرے ساتھ ہے وہ ایک شعر میں بیان کرتا ہوں۔

ارمان کوئی دل کا نکلنے نہیں دیا
گرنے کے خوف نے مجھے چلنے نہیں دیا

میں اس بات سے بہت خوف زدہ رہتا ہوں کہ غلطی ہوئی تو لوگ ہنسیں گے حالانکہ یہ طے ہے کہ شروع میں ہر ایک شخص غلطیاں تو کرتا ہی ہے۔
میرا یہ حال ہے کہ میں گذشتہ پندرہ سالوں سے یو اے ای میں ہوں لیکن عربی نہیں آتی۔ بس انگریزی سے کام چلاتا ہوں

میں صرف نصابی زبانوں (وہ جو کمپلسری تھیں) سے کسی قدر واقفیت رکھتا ہوں ۔ وگرنہ عربی اور فارسی ہمارے وقتوں میں سکول میں ہوا کرتی تھیں لیکن فارسی کا یہ عالم تھا کہ فارسی یا ڈرائنگ کا آپشن موجود تھا جس میں اکثریت تقریباً 80 یا 90 فیصدی بچے ڈرائنگ ہی لیا کرتے تھے جس میں ہلہ گلہ اور مستی بھی چلتی رہتی اس وجہ سے فارسی ہاتھ سے گئی ویسے خیر سے فارسی کو اساتذہ بھی سنجیدہ نہ لیتے تھے۔
باقی رہی عربی۔۔۔ تو عربی کا یہ عالم تھا کہ سوال
ھل أنت تقوم بواجب المدرسة في البيت كل یوم؟
کا جواب ہوتا تھا "نعم" اللّٰہ اللّٰہ خیر سلا۔
اور ایسے جوابات پر بھی کتنے ہی طلباء کو سو میں سو نمبر ملا کرتے تھے۔

لوکل زبانوں میں پنجابی کو بہت حد تک سمجھ لیتا ہوں حالانکہ بولنے میں وہی غلطیوں کا ڈر۔۔۔اور ویسے بھی اب عمر کے اس حصے میں پختہ ہو گئی ہوئی فطرت بدلنے والی بھی نہیں۔

2001 کی بات ہے ہم نے اپنے محلے کی مسجد میں ایک مولوی صاحب سے قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنا شروع کیا لیکن پہلے دو پاروں کے بعد وہ پورا گروپ زندگی کے کاموں میں ادھر اُدھر ایسا ہوا کہ پھر کبھی موقع نہ بن سکا۔ کچھ دنوں پہلے کی بات ہے یوٹیوب پر عربی کے ایک اچھے استاد عامر سہیل صاحب کے ایک عربی کورس کا اشتہار دیکھا میں نے آناً فاناً داخلہ لینے کی کوششیں شروع کر دیں بعد میں پتا چلا کہ یہ آنلائن کلاسز نہیں بلکہ فزیکلی کلاس میں جانا پڑے گا۔ پھر چپکا ہو رہا۔۔۔۔
میری بیگم نے کالج چھوڑ کر مدرسے میں داخلہ لیا تھا اب وہ خود مدرسے میں پڑھاتی ہیں۔ میں نے اسے کہا کہ یار مجھے بھی پڑھاؤ مگر وہ انکار کر دیتی ہیں ۔
حالانکہ میں نے کتنا خوبصورت موقع دیا تھا مجھے ڈانٹنے کا ، لیکن اس نے گنوا دیا۔۔۔
آپ کے اس مراسلے نےبہت سی مسکراہٹ بکھیری، آپ کی علم دوستی ظاہر کی (کیونکہ علم حاصل کرنے کا پہلا مرحلہ یہ احساس ہی ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا)۔مجھے ایک غالبا چینی استاد کا واقعہ یاد ہے جس کا مفہوم یہ تھا کہ ایک طالب علم بہت بڑے پہاڑ پر مشکل سے چڑھ کر ان کے پاس علم حاصل کرنے کی حاجت میں گیا۔ انہوں نے کہا کہ کپ میں چائے انڈیلو، جب تک میں بس کرنے کا نہ کہوں مت کرنا۔ وہ بھرے ہوئے کپ میں مزید چائے انڈیلتا رہا۔ استاد نے اس سے یہ سبق دیا کہ جب کچھ سیکھنے آو تو اپنا ذہن پہلے سے بھر کر نہیں لانا ورنہ سب کچھ باہر گرتا رہے گا۔
جہاں تک سنجیدگی سے کسی ایک سبجیکٹ کو سیکھنے کی بات ہے تو آپ بتائیے کہ کون سا کورس ڈھونڈ کر دوں؟ آج کل شاید ہی کچھ ایسا ہو جو آن لائن دستیاب نہیں۔ صرف طلب ضروری ہے۔ مذہب کے معاملے میں ذاتی رائے یہ ہے کہ زیادہ تنگ ذہن لوگوں سے نہ سیکھا جائے اور کسی ایک کا مقتدی نہ ہوا جائے کیونکہ ایسی اقتدا صرف پیغمبر کی ہی ہونی چاہئیے۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جہاں تک سنجیدگی سے کسی ایک سبجیکٹ کو سیکھنے کی بات ہے تو آپ بتائیے کہ کون سا کورس ڈھونڈ کر دوں؟ آج کل شاید ہی کچھ ایسا ہو جو آن لائن دستیاب نہیں۔
آج کل تو مجھے گرافک ڈیزائننگ کا شوق چرایا ہوا ہے 🙂
 
آج کل تو مجھے گرافک ڈیزائننگ کا شوق چرایا ہوا ہے 🙂
میں نے گرافک ڈیزائننگ کا کورس مکمل کیا ہے چند ماہ پہلے ہی۔ یہ رہا سرٹیفکیٹ وسائیڈ وینچرکا آغاز وغیرہ:
 
اور سب سے بڑا مسئلہ جو میرے ساتھ ہے وہ ایک شعر میں بیان کرتا ہوں۔

ارمان کوئی دل کا نکلنے نہیں دیا
گرنے کے خوف نے مجھے چلنے نہیں دیا

میں اس بات سے بہت خوف زدہ رہتا ہوں کہ غلطی ہوئی تو لوگ ہنسیں گے حالانکہ یہ طے ہے کہ شروع میں ہر ایک شخص غلطیاں تو کرتا ہی ہے۔
undefined
یہ پوائنٹ بہت اہم ہے جس پہ بات کرنی تھی مگر بھول گئی۔ آپ کو پتہ ہے؟ دنیا کانفیڈینس پہ چل رہی ہے!
جب کوئی آپ پہ یقین نہیں رکھتا تبھی تو اپنے آپ پہ یقین رکھنا ہوتا ہے۔ جب کوئی آپ کو غلطی کا مارجن نہیں دیتا تبھی تو خود کو یہ مارجن دینا ہوتا ہے۔ میں اگر اپنی ابھی تک کی زندگی کو ایک جملے میں بیان کروں تو وہ یہی ہے کہ اپنی سائیڈ پہ آپ کھڑے ہو جاؤ!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
انور مسعود صاحب کہتے ہیں کہ ادب (شاعری) یہ نہیں کہ کیا لینا ہے بلکہ یہ ہے کہ کیا چھوڑنا ہے۔ جیسے کسی پتھر سے مجسمے بنانے والے سے پوچھا گیا کہ ایک خوبصورت مجسمہ کیسے بنتا ہے تو اس نے کہا اضافی پتھر نکال دینے سے۔ (کچھ اسی انداز سے شاید بہت پہلے کہیں پڑھا تھا)

زندگی بھی اسی طرح ہے، جس کے ہم بھی اضافی حصے ( بوجھ) نہیں اتارتے۔ اور اسے خوبصورت ہونے کی راہ میں ہم خود رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
 

یاز

محفلین
انور مسعود صاحب کہتے ہیں کہ ادب (شاعری) یہ نہیں کہ کیا لینا ہے بلکہ یہ ہے کہ کیا چھوڑنا ہے۔ جیسے کسی پتھر سے مجسمے بنانے والے سے پوچھا گیا کہ ایک خوبصورت مجسمہ کیسے بنتا ہے تو اس نے کہا اضافی پتھر نکال دینے سے۔ (کچھ اسی انداز سے شاید بہت پہلے کہیں پڑھا تھا)

زندگی بھی اسی طرح ہے، جس کے ہم بھی اضافی حصے ( بوجھ) نہیں اتارتے۔ اور اسے خوبصورت ہونے کی راہ میں ہم خود رکاوٹ بن جاتے ہیں۔
شاندار بات۔
 
Top