ان کہے الفاظ ، ہمارے کانوں میں ہونے والی مدھم سرگوشیوں، ہمارے ذہن میں اٹھنے والے افکار اور ہماری آنکھ میں اترنے والی نمی سے بھی بخوبی واقف ہے۔۔۔
اب پنچھی سے گفتگو میں مزا آنے لگا تھا۔ ہمارے پوچھنے پر پنچھی نے بتایا کہ وہ اس جنگل کا رہنے والا نہیں۔ بلکہ کہیں بہت دور سے یہاں آیا ہے اور اب اپنے وطن جانے کے لئے بے چین ہے۔ لیکن اسے کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ وطن کی یاد آتے ہی پنچھی کو اپنے بے شمار دوست یاد آنے لگے جو اب اس سے بچھڑ گئے تھے۔ اور ان سب دکھوں سے بڑھ کر ایک دکھ پنچھی کو اپنے محبوب سے جدا ہو جانے کا تھا۔۔۔ محبوب کی یاد آتے ہی پنچھی کے دل سے ایک آہ نکلی اور وہ اپنے وطن اور اپنے محبوب کی یادوں میں گم ہوتا چلا گیا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں کی نمی سے چمکنے لگیں۔ اور ان چمکتی آنکھوں کے آئینے میں اس کی یادیں ایک فلم طرح چلتی ہوئی صاف نظر آ رہی تھیں۔۔۔
وہ اڑتا چلا جا رہا تھا، ہواؤں اور فضاؤں کو چیرتا ہوا، اپنے محبوب سے