انٹر نیٹ سے چنیدہ

جاسمن

لائبریرین
وائس آف امریکا کے لیے سدرہ ڈار نے جون ایلیا کی بھتیجی یعنی رئیس امروہوی کی بیٹی شاہانہ رئیس کا انٹرویو کیا ہے۔
وہ روزے، سحری افطار اور عید کی تیاریوں کو لے کر اپنا زمانہ یاد کر رہی تھیں۔ ان کی گلوری میں مہکی ہوئی باتیں، خالص اردو پہ کرخنداری اور بیگماتی لہجے کا ہلکا سا چھڑکاو، رکھ رکھاو، پہناوا، ہار، بدن بولی اور بے ساختگی دل لے گئی۔
لپٹا ہوا ٹشو پھیر کر سلیقے سے پان صاف کرنے کا انداز مجھے بچپن اور لڑکپن کے محلے میں لے گیا۔
دوستوں کی چست اور ذہین امائیں، نانیاں اور دادیاں یاد آگئیں۔ ان گھرانوں میں ادب آداب اور زبان و بیان کی ایک پوری تہذیب پان دان کے آس پاس گھومتی تھی۔
بزرگوں کا اپنے سے چھوٹوں کو پان پیش کرنا، دونوں ہاتھ آگے کرکے پان لینا اور تکریم سے چرن چھونا، سلام علیکم یا آداب کہنا، ہائے ہائے۔
خاصدان میں پان رکھنا، اس پر گنبد نما ڈھکن رکھنا، پھر تکریم سے مہمان کو پیش کرنا کیسی دیرینہ روایت تھی۔
رضا لکھنوی کہتے ہیں، گنگا جمنی خاصدان سے ورق لگی گلوری اٹھاکر صحیح لب و لہجہ اور انداز سے آداب عرض کہنے کے لئے تین نسلوں کا رچاو چاہئے۔ ویسے یہ جملہ کہنے کے لئے بھی کتنا چاو اور رچاو چاہئے۔
اس چاو اور رچاو کے ساتھ تاشقند کی دو شیزائیں انگور کا عرق نچوڑتی ہیں یا پھر مولانا آزاد 'غبارِ خاطر میں جاسمین چائے بناتے ہیں۔
جاسمین والا یہی رچاو مستعار لے کر شوکت تھانوی ’بارِ خاطر‘ میں گلوری بناتے ہیں۔
پان سے آپ کو کتنے ہی اختلافات ہوں، شوکت تھانوی کو پان بناتا دیکھیں گے تو عقیدہ بدل لیں گے۔
منہاج ہمارا لنگوٹیا یار ہے اور اصلا بنارس سے ہے۔ بنارسی لوگ ساڑھی، موسیقی، گالم گفتار اور پان کے بغیر ادھورے ہیں۔
شہنائی والے استاد بسم اللہ خان کو ی دیکھ لیں۔ دنیا گھومتے تھے مگر ان کی روح کو شانتی بنارس میں ہی ملتی تھی۔
گنگا سے آنند لیتے تھے، جامع مسجد میں نماز پڑھتے تھے، شہنائی اور پان دان لے کر بالاجی مندر میں بیٹھ جاتے تھے۔ کلے میں گلوری دبائی اور ریاض شروع۔
تو منہاج سے ایک رشتہ ہمیشہ سے پان کا ہے۔ ہمارے بیچ بازار کا پان عیاشی ہے اور گھر کا پان ضیافت ہے۔ پان اماں کے ہاتھ کا ہو تو تبرک ہے۔
ہمیشہ سے یہ روایت ہے کہ وہ مہمان خانے میں بٹھاکر سیدھا بالائی منزل پہ جاتا ہے۔ واپس آتا تو اماں کے ہاتھ کا بنا پان دو انگلیوں میں ہوتا۔ وہ کھلا کے اگلی کہانی شروع کر دیتا۔دماغ روشن اور خون رواں ہوجاتا۔
مہاراج کرشن جی تاریخ قبل از مسیح کی ہستی ہیں۔ وشنو کے آٹھویں اوتار تھے۔ پان کھاتے تھے اور بانسری بجاتے تھے۔ مشہور ہے کہ وہ بانسری بجاکر ہی اپنی گوپیوں کو بلاتے تھے۔
کوئی ملاقات کے لئے ان کی جناب میں آتا تو کہتے، بھابی جی نے پان سپاری تو ساتھ بھیجی ہی ہوگی؟
راجپوتوں کے سالار ہتھیلی پر بِیڑا یعنی پان رکھ کر پیچھے کھڑے کمانڈروں سے پوچھتے تھے کہ ہاں بھئی کون اترے گا میدان میں؟ جو کمانڈر آگے بڑھ کر ہتھیلی سے بِیڑا اٹھالیتا وہ دراصل معرکہ اپنے سر لے لیتا۔
اسی رسم سے ذمہ داری اٹھانے کے لئے ’بیڑا اٹھانے‘ کا محاورہ چلا جسے اب ہم نے بحری بیڑا بنادیا ہے۔ چونکہ ہم کام کے بگڑنے کو بیڑا غرق کہتے ہیں، اس لئے ہمیں لگتا ہے کہ کام سنوارنے کو بیڑا اٹھانا کہتے ہوں گے۔
اب یہاں ایک بات کہنی ضروری ہوگئی ہے۔
مین پوری، ماوا، گٹکا اور پان پراگ جیسے زہر کو لوگ پان سمجھ بیٹھے ہیں۔ پھر غیر معیاری اور سستے پان کا تجربہ کرکے وہ پان کو گلے کا کینسر بھی قرار دے دیتے ہیں۔
بھائی پان میں عرق چھڑکیں، بیٹری کا پانی چھڑکنے کو کس نے کہا ہے۔ پان نے گلے کو ذرا بھی کچھ کہنا ہوتا تو مہدی حسن خاں اور استاد بہاوالدین جیسے قوال فن کار عین گائیکی کے دوران پان نہ چبارہے ہوتے۔ شام چوراسی اور پٹیالہ گھرانے میں کسی کی موت پان کی وجہ سے نہیں ہوئی۔
رہی یہاں وہاں پڑی پچکاریاں، تو اس میں پان کا ہرگز کوئی قصور نہیں ہے۔ سارا قصور ہماری تربیت کا ہے۔
خیر!
ہندوستان کی تہذیب میں پان دان کبھی جہیز کا حصہ بھی ہوتا تھا۔
ویسے کتنے لوگ رہ گئے ہوں گے جو اب بھی پان دان بساتے ہوں گے۔ جنہیں کتھا پکانا اور چھاننا آتا ہوگا۔ پان پلٹنے کا سلیقہ آتا ہوگا۔ چونے کی ترکیب جانتے ہوں گے۔ سروتے سے ڈلی اور میوہ کاٹتے ہوں گے۔
پرانے ڈھولک گیت کے یہ بول بھی اب کتنوں کو سمجھ آتے ہوں گے، سروتا کہاں بھول آئے پیارے نندوئیا۔
اب ڈھولکیوں میں وہ تھاپ رہی اور نہ سروتے میں وہ کاٹ رہی۔ پان دان رخصت ہوا تو اس کے گرد گھومتی ہوئی تہذیب بھی ساتھ ہی رخصت ہوگئی۔ وضع داری، لہجہ اور زبان بھی رخصت ہوگئے۔
اب تو عیدی ملنے پر بچے ہاتھ اٹھاکر سلام علیکم بھی نہیں کہتے۔ آداب بھی نہیں کہتے۔
بشکریہ۔ فرنود عالم
 
یہ تہذیب تواب شاذ ہی کہیں دیکھنے کو ملے۔ البتہ پرانی عمر کے لوگ تحریر میں بیان کی گئی چیزوں سے تو واقف ہیں لیکن نئی نسل کے لیے تو یہ الفاظ اور چیزیں بھی بالکل اجنبی ہوں شاید۔
 

جاسمن

لائبریرین
’مولوی صاحب آپ نے گانا کیوں چھوڑدیا تھا‘‘
اس نے قہقہہ لگایا اور دیر تک ہنستا رہا‘ اس نے عینک اتاری‘ ٹشو سے آنکھیں صاف کیں اور ہنستے ہنستے جواب دیا ’’یار تم نے مجھے جس انداز سے مولوی صاحب کہا‘ میں وہ انجوائے کر رہا ہوں‘ تم مجھے یہ انجوائے کرنے دو‘‘ وہ اس کے بعد دوبارہ ہنس پڑا‘ وہ ہنستے ہنستے خاموش ہوا اور پھر بولا ’’یار گانے نے مجھے شہرت دی‘ عزت دی اور پیسہ دیا‘ اگر کچھ نہیں دیا تو وہ سکون تھا‘ سکون مجھے مولوی صاحب بن کر ملا اور یہ جب مجھے مل گیا تو مجھے پتہ چلا سکون دنیا کی سب سے بڑی نعمت ہوتا ہے۔
پیسہ‘ عزت اور شہرت تینوں مل کر بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘‘ وہ اس کے بعد دوبارہ ہنسا اور بولا ’’میں ویمبلے میں شو کرنا چاہتا تھا‘ میری خواہش تھی‘ میرا خیمہ درمیان میں ہو اور دوسرے گلوکاروں‘ موسیقاروں اور اداکاروں کے خیمے دائیں بائیں ہوں‘ میں 1992ء میں ویمبلے گیا‘ امیتابھ بچن کا خیمہ درمیان میں تھا‘ لوگ اس کے ہاتھ چوم رہے تھے‘وہ اس پر واری واری جا رہے تھے‘ وہ اس کے ساتھ تصویریں بنوانے کے لیے ایک دوسرے کو روند رہے تھے‘ میں نے یہ عزت دیکھی تو میرے دل میں خیال آیا‘ کیا میں بھی کبھی اس مقام تک پہنچ سکتا ہوں‘ کیا مجھے بھی یہ عزت‘ لوگوں کا یہ والہانہ پن مل سکتا ہے‘ وہ شاید قبولیت کی گھڑی تھی۔
اللہ نے میری دعا سن لی اور وہ وقت آ گیا جب میرا خیمہ ٹھیک اس جگہ تھا جہاں کبھی امیتابھ بچن نے راتیں گزاریں تھیں‘ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اس دن میرے ساتھ تصویریں بنوانے کے لیے بھی ایک دوسرے پر گر رہے تھے‘ مجھے بہت خوشی ہوئی‘ میں اندر سے نہال ہو گیا‘ میں کئی دن اس سرشاری میں رہا لیکن پھر‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ وہ دیر تک کچھ سوچتا رہا‘ پھر اس نے سر اٹھایا‘ میری طرف دیکھا اور بولا ’’لیکن پھر ایک نئے احساس نے اس سرشاری کی جگہ لے لی۔
مجھے محسوس ہوا میری کامیابی نے مجھے عزت تو دے دی لیکن میں سکون سے محروم ہوں‘ مجھے یہ بھی محسوس ہوا سکون عزت سے بڑی چیز ہے اور مجھے اس بڑی چیز کی طرف جانا چاہیے‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولا ’’میں اس کے بعد بھی گاتا رہا‘ لوگ میرا گانے سنتے تھے‘ جھومتے تھے اور مجھے چومتے تھے‘ دل دل پاکستان اور سانولی سلونی سی محبوبہ میری پہچان بن گیا‘ میں جہاں جاتا تھا لوگ مجھ سے فرمائش کرتے تھے‘ جے جے سانولی سلونی ہو جائے اور میں ذرا سا گنگنا کر آگے نکل جاتا تھا لیکن میں اب عزت کے ساتھ ساتھ سکون بھی تلاش کر رہا تھا اور پھر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا اور مجھے یہ نعمت بھی مل گئی‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
میں نے اس سے پوچھا ’’تم تبلیغی جماعت اور مولانا طارق جمیل کے قابو کیسے آ گئے‘‘ اس نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا ’’پاکستان کا ہر شہری زندگی میں کبھی نہ کبھی ڈاکٹر‘ پولیس اور تبلیغی جماعت کے قابو ضرور آتا ہے‘ زیادہ تر لوگ ان کے ساتھ چند دن گزار کر واپس آ جاتے ہیں لیکن تھوڑی سی تعداد دائمی مریض‘ عادی مجرم اور مولوی صاحب بن کر مستقلاً ان کا حصہ بن جاتے ہیں۔
میں بھی ایک دوست کے ذریعے مولانا طارق جمیل سے ملا اور پھنس گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’آپ کیسے پھنس گئے‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ’’مجھے اس شخص نے اتنی محبت دی جو مجھے اس سے پہلے کسی سے نہیں ملی تھی‘ یہ محبت میرے لیے نشہ ثابت ہوئی اور میں اس نشے کی لت کا شکار ہوتا چلا گیا‘ میں نے دین کا مطالعہ شروع کر دیا‘ میں شغل شغل میں چلے لگانے لگا اور مجھے جب ہوش آئی تو میں اس وقت تک اچھا خاصا مولوی صاحب بن چکا تھا‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’آپ اچھے خاصے سمجھ دار انسان ہیں‘ آپ درمیان میں بھاگ کیوں نہیں گئے؟‘‘۔
اس نے ایک اور قہقہہ لگایا اور بولا ’’میں نے بھاگنے کی ایک آدھ ٹرائی کی تھی‘ میں نے گانا چھوڑ دیا تھا لیکن پھر اچانک احساس ہوا جنید جمشید تم کھاؤ گے کہاں سے‘تمہیں اس کے علاوہ کوئی کام ہی نہیں آتا‘ گانا میری زندگی بھی تھا‘ مجھے محسوس ہوتا تھا میں نے اگر یہ بند کر دیا تو مجھ سے میری زندگی چھن جائے گی چنانچہ میں نے شیو کی اور اپنی دنیا میں واپس آ گیا لیکن چند دن بعد غلطی کا احساس ہو گیا‘ میں اس نتیجے پر پہنچ گیا مجھے سکون اور شہرت‘ دولت‘ عزت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔
میرے اندر کشمکش جاری تھی لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے کرم کیا‘ میرے دماغ سے غلط فہمیوں کے اندھیرے چھٹ گئے اور میں دوبارہ اس لائین پر آ گیا جہاں مجھے ہونا چاہیے تھا‘ میں تبلیغ والوں کے ساتھ شامل ہو گیا‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن کیا شہرت‘ عزت اور دولت آسانی سے چھوٹ گئی؟‘‘ تڑپ کر جواب دیا ’’بہت مشکل تھا‘ گانا میرا واحد سورس آف انکم تھا‘ مجھے شہرت کی لت بھی پڑ چکی تھی‘ میرے لیے فینز‘ تصویریں اور آٹوگرافس زندگی تھی‘ میرا گانا میرا شناختی کارڈ تھا‘ میں اس شناختی کارڈ کے بغیر کچھ بھی نہیں تھا چنانچہ میں گانے کے بغیر معاشی‘ سماجی اور ذہنی طور پر زندہ نہیں رہ سکتا تھا لیکن پھر میں نے ایک سودا کیا‘ میں نے اللہ کے نام پر اپنے تینوں اثاثے قربان کر دیے۔
میں نے عزت‘ شہرت اور روزگار تینوں چھوڑ دیے اور اللہ کی راہ پر لگ گیا‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ میں نے پوچھا’’کیوں؟ آپ نے یہ کیوں کیا؟‘‘ وہ بولا’’ میں بنیادی طور پر اللہ کا قانون ٹیسٹ کر رہا تھا‘ میں نے کسی جگہ پڑھا تھاجو شخص اللہ کے ساتھ سودا کرتا ہے‘ جو اللہ تعالیٰ کے نام پر اپنی عزیز ترین چیز قربان کردیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے کبھی مایوس نہیں کرتا‘ خدا کی ذات اسے اس کے حق سے زیادہ نوازتی ہے‘ میں نے اللہ کے اس اعلان‘ اس وعدے کو ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا‘ میں نے اپنا کل اثاثہ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا‘ میرے بھائی جاوید آپ یقین کرو اللہ تعالیٰ نے میری تینوں چیزیں ستر سے ضرب دے کر مجھے واپس لوٹا دیں۔
میں نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں لاکھوں روپے کی قربانی دی تھی‘ رب کی ذات نے مجھے کروڑوں روپے سے نواز دیا‘ میں نے آج تک ایک رومال نہیں بنایا‘ آپ اللہ کا کرم دیکھو‘ دنیا میں جنید جمشید کے نام سے کپڑوں کا سب سے بڑا پاکستانی برانڈ چل رہا ہے‘ میں راک اسٹار کی حیثیت سے مشہور تھا‘ آپ اللہ کا کرم دیکھو میں آج نعت خوانی اور اللہ کے ذکر کے حوالے سے پوری دنیا میں مشہور ہوں‘ لوگ مجھے دل دل پاکستان کی وجہ سے عزت دیتے تھے لیکن آج لوگ الٰہی تیری چوکھٹ پر سوالی بن کے آیا ہوں کے حوالے سے میرے ہاتھ چومتے ہیں۔
ْمیں کبھی جینز پہن کر اسٹیج پر ناچتا تھا اور عزت دار لوگ اپنی بہو بیٹیوں کو میرے سائے سے بچا کر رکھتے تھے لیکن میں آج سر پر عمامہ اور ٹوپی رکھ کر منبر رسولؐ پر بیٹھتا ہوں اور لوگ مجھ سے اپنے بچوں کے لیے دعا کرواتے ہیں‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیں کیا یہ اس سے ستر گناہ زیادہ نہیں جس کی میں نے قربانی دی تھی‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
میں اس وقت آج کے مقابلے میں زیادہ گمراہ‘ زیادہ سنگدل اور زیادہ بددیانت تھا چنانچہ میں نے اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا‘ میں نے اس سے کہا ’’آپ اگر ان مولویوں کے ہاتھ سے بچ گئے جو اس وقت آپ کی گردن کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں‘ جو آپ کو گستاخ اور حضرت عائشہ ؓ کا گناہ گار سمجھ رہے ہیں تو میں آپ کو آپ کے سوال کا جواب ضرور دوں گا‘‘ وہ بھی ہنس پڑا لیکن میں نے جب سات دسمبر کو جنید جمشید کے ائیر کریش کی خبر سنی اور اس کے بعد جس طرح پورے ملک کو اس کے سوگ میں ڈوبتے دیکھا اور پھر 15دسمبر کو کراچی میں اس کا جنازہ دیکھا تو میں اس کو سچا ماننے پر مجبور ہو گیا۔
ملک میں ہزاروں علماء کرام‘ سیاستدان‘ بیورو کریٹس‘ صوفیاء کرام‘ اداکار‘ گلوکار اور ارب پتی تاجر فوت ہوئے‘ ان کے جنازے جنازہ گاہوں میں پڑھائے گئے لیکن جنید جمشید کا جنازہ اسٹیڈیم میں پڑھا گیا اور اس میں حقیقتاً لاکھوں لوگ شریک تھے‘ تاحد نظر سر ہی سر اور بازو ہی بازو تھے‘ جنید جمشید کو اس سے پہلے ائیرفورس نے گارڈ آف آنر بھی دیا‘ اس کے کفن کو پاکستانی پرچم میں بھی لپیٹا اور اسے سی ون تھرٹی کے ذریعے اسلام آباد سے کراچی بھی پہنچایا ‘ یہ اعزاز آج تک کسی گلوکار کو حاصل ہوا؟ جی نہیں! دنیا میں مہدی حسن اور نورجہاں جیسے گلوکار دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے۔
بڑے غلام علی خان‘ نصرت فتح علی خان‘ عزیز میاں قوال‘ استاد امانت علی خان اور صابری برادران موسیقی کے استاد تھے‘ یہ استاد کس عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے اور ان کے جنازے کیسے اور کتنے تھے؟ ہم سب جانتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے جو عزت جنید جمشید جیسے ایک سابق گلوکار کو دی یہ بھی سارا زمانہ جانتا ہے ‘ موسیقی کے استاد ہونے کے باوجود یہ لوگ دنیا سے کسمپرسی میں رخصت ہوئے جب کہ جنید جمشید کے غم کو ہر شخص نے ٹیس کی طرح محسوس کیا‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے‘ یہ ثابت کرتا ہے وہ ٹھیک کہہ رہا تھا‘ اس نے اللہ تعالیٰ سے سودا کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانی کو ستر سے ضرب دے کر اس کے تمام اثاثے اسے لوٹا دیے۔
جنید جمشید نے ہم جیسے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں‘ اس نے ثابت کر دیا اللہ کے ساتھ سودا کرنے والے کبھی خسارے میں نہیں رہتے‘ عزت قربان کرو گے تو اللہ عزت کو ستر گنا کر کے لوٹائے گا اور شہرت اور دولت کی قربانی دو گے تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی ستر سے ضرب دے کر لوٹائے گا‘ بے شک اللہ تعالیٰ کی اسٹاک ایکسچینج کائنات کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے‘ یہ کبھی کریش نہیں ہوتی‘ یہ کبھی اپنے شیئر ہولڈرز کا خسارہ نہیں ہونے دیتی‘ اس کا انڈیکس ہمیشہ اوپر جاتا ہے‘ اوپر سے اوپر اور اوپر جاتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
جنید جمشید نے ہم جیسے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں‘ اس نے ثابت کر دیا اللہ کے ساتھ سودا کرنے والے کبھی خسارے میں نہیں رہتے‘ عزت قربان کرو گے تو اللہ عزت کو ستر گنا کر کے لوٹائے گا اور شہرت اور دولت کی قربانی دو گے تو اللہ تعالیٰ انھیں بھی ستر سے ضرب دے کر لوٹائے گا‘ بے شک اللہ تعالیٰ کی اسٹاک ایکسچینج کائنات کی سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے‘ یہ کبھی کریش نہیں ہوتی‘ یہ کبھی اپنے شیئر ہولڈرز کا خسارہ نہیں ہونے دیتی‘ اس کا انڈیکس ہمیشہ اوپر جاتا ہے‘ اوپر سے اوپر اور اوپر جاتا ہے۔
یہ جب جب پڑھتی ہوں آنکھیں نم ہو جاتیں ہیں کیا شان ہے رب العالمین کی ہدایت کہ دروازے کب کہاں کیسے نوازے یہ میرے رب کی شان ہے ۔۔۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے جو عزت جنید جمشید جیسے ایک سابق گلوکار کو دی یہ بھی سارا زمانہ جانتا ہے ‘ موسیقی کے استاد ہونے کے باوجود یہ لوگ دنیا سے کسمپرسی میں رخصت ہوئے جب کہ جنید جمشید کے غم کو ہر شخص نے ٹیس کی طرح محسوس کیا‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے‘ یہ ثابت کرتا ہے وہ ٹھیک کہہ رہا تھا‘ اس نے اللہ تعالیٰ سے سودا کیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی قربانی کو ستر سے ضرب دے کر اس کے تمام اثاثے اسے لوٹا دیے۔
بیشک یہ میرے رب کی شان ہے قربان جائیں کسقدر شان سے ضرب دے کر اثاثے لوٹاتے ہیں
پروردگار فرماتے ہیں ؀

سورة التوبہ کی آیت ١١١ میں فرمایا گیا : اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاَمْوَالَہُمْ بِاَنَّ لَہُمُ الْجَنَّۃَط ” یقینا اللہ نے خرید لی ہیں اہل ایمان سے ان کی جانیں بھی اور ان کے مال بھی اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت ہے۔ “ اس آیت میں بھی ایک ” سودے “ کی بات کی گئی ہے تاکہ ہر آدمی مضمون کے اصل مدعا کو سمجھ سکے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں شامل کرلے جو اس کے ساتھ اپنے مال و جان کا سودا کرنے والے ہیں​

دنیا میں انسان اپنی تجارت کو فروغ دینے اور زیادہ منافع کمانے کے لیے بڑھ چڑھ کر سرمایہ لگاتا ہے اور پھر اس میں دن رات کی محنت سے جان بھی کھپاتا ہے ‘ اسی طرح جان و مال لگا کر اگر اللہ کے ساتھ تجارت کرے تو اس میں کبھی نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا اور منافع بھی ایسا ملے گا کہ تم آخرت کے عذاب سے چھٹکارا پا کر ہمیشہ کی کامیابی سے ہمکنار ہو جائے گا ۔۔۔جنید جمشید اس کی اعلیٰ ترین مثال ہیں ۔۔۔۔۔۔
 
کچھ لوگ بہت کمال کے ہوتے ہیں۔ وہ ہر میدان میں کمال کرتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ اللہ تعالٰی انہیں ہر میدان میں کمال سے نوازتا ہے۔ اب یہ نوازش ان کی اپنی کسی خوبی کی وجہ سے ہوتی ہے( جیسےعاجزی، محنت، خلوص، تفکر وغیرہ) یا فقط اللہ کا انعام یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن شاید یہ ضرور ہے کہ وہ اس خوبی کے اہل ہوتے ہیں۔ جنید جمشید (اللہ اسے جنت الفردوس نصیب کرے) کا شمار انہیں لوگوں میں ہوتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
کچھ لوگ بہت کمال کے ہوتے ہیں۔ وہ ہر میدان میں کمال کرتے ہیں۔ یا یوں کہیں کہ اللہ تعالٰی انہیں ہر میدان میں کمال سے نوازتا ہے۔ اب یہ نوازش ان کی اپنی کسی خوبی کی وجہ سے ہوتی ہے( جیسےعاجزی، محنت، خلوص، تفکر وغیرہ) یا فقط اللہ کا انعام یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن شاید یہ ضرور ہے کہ وہ اس خوبی کے اہل ہوتے ہیں۔ جنید جمشید (اللہ اسے جنت الفردوس نصیب کرے) کا شمار انہیں لوگوں میں ہوتا ہے۔
ہماری سب خوبیاں، سارا کمال، سب مثبت۔۔۔۔ اللہ کی طرف سے انعام ہے۔
اور سب کمزوریاں، سب منفی ۔۔۔ ہمارا اپنا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
‏اشفاق احمد صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ آدمی عورت سے محبت کرتا ہے جبکہ عورت اپنی اولاد سے محبت کرتی ہے,

اس بات کی مکمل سمجھ مجھے اس رات آئی,
یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی. میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.

اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا,

مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔
تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں
, میرا بیٹا اور اسکی والدہ بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا.
حتیٰ کہ اپنا شوہر بھی اور خاص طورپر جب اسکی اولاد کسی مشکل میں ہو.اس نتیجہ کے ساتھ ہی ایک نتیجہ اور بھی نکالا میں نے اور وہ یہ کہ اگر میرے بیٹے کے درد کا درمان اسکی کی والدہ کی آغوش ہے تو یقینا میرا علاج میری ماں کی آغوش ہو گی.

اس خیال کا آنا تھا کہ میں بستر سے اٹھا اور ماں جی کے کمرہ کی طرف چل پڑا. رات کے دو بجے تھے پر جونہی میں نے انکے کمرے کا دروازہ کھولا وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہوں.

پھر کیا تھا, بالکل ایک سال کے بچے کی طرح گود میں لے لیا۔
اور توجہ اور محبت کی اتنی ہیوی ڈوز سے میری آغوش تھراپی کی کہ میں صبح تک بالکل بھلا چنگا ہو گیا

پھر تو جیسے میں نے اصول ہی بنا لیا جب کبھی کسی چھوٹے بڑے مسئلے یا بیماری کا شکار ہوتا کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیدھا مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور علاج میں پہنچ جاتا.

وہاں پہنچ کر مُجھے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بس میری شکل دیکھ کر ہی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا جاتا.
میڈیکل ایمرجنسی ڈیکلئر کر دی جاتی.

مجھے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ماں جی ) کے ہی بستر پر لٹا دیا جاتا اور انکا ہی کمبل اوڑھا دیا جاتا, کسی کو یخنی کا حکم ہوتا تو کسی کو دودھ لانے کا, خاندانی معالج کی ہنگامی طلبی ہوتی, الغرض توجہ اور محبت کی اسی ہیوی ڈوز سے آغوش تھراپی ہوتی اور میں بیماری کی نوعیت کے حساب سے کبھی چند گھنٹوں اور کبھی چند پہروں میں روبہ صحت ہو کر ڈسچارج کر دیا جاتا.

یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ قبل تک جاری رہا۔
وہ وسط نومبر کی ایک خنک شام تھی, جب میں فیکٹری سے گھر کیلئے روانہ ہونے لگا تو مجھے لگا کہ مکمل طور پر صحتمند نہیں ہوں, تبھی میں نے آغوش تھراپی کروانے کا فیصلہ کیا اور گھر جانے کی بجائے ماں جی کی خدمت میں حاضر ہو گیا, لیکن وہاں پہنچے پر اور ہی منظر دیکھنے کو ملا. ماں جی کی اپنی حالت کافی ناگفتہ بہ تھی پچھلے کئی روز سے چل رہیے پھیپھڑوں کے عارضہ کے باعث بخار اور درد کا دور چل رہا تھا۔
میں خود کو بھول کر انکی تیمارداری میں جت گیا, مختلف ادویات دیں, خوراک کے معروف ٹوٹکے آزمائے.
مٹھی چاپی کی,مختصر یہ کہ کوئی دو گھنٹے کی آؤ بھگت کے بعد انکی طبیعت سنبھلی اور وہ سو گئیں.
میں اٹھ کر گھر چلا آیا.
ابھی گھر پہنچے آدھ گھنٹہ ہی بمشکل گذرا ہوگا کہ فون کی گھنٹی بجی, دیکھا تو چھوٹے بھائی کا نمبر تھا, سو طرح کے واہمے ایک پل میں آکر گزر گئے. جھٹ سے فون اٹھایا اور چھوٹتے ہی پوچھا, بھائی سب خیریت ہے نا, بھائی بولا سب خیریت ہے وہ اصل میں ماں جی پوچھ رہی ہیں کہ آپکی طبیعت ناساز تھی اب کیسی ہے……

........ اوہ میرے خدایا…

اس روزمیرے ذہن میں ماں کی تعریف مکمل ہو گئی تھی۔ ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دکھ,اپنا آپ بھی بھول جاتی ہے.
 

سیما علی

لائبریرین
اس تحریر کو پڑھنے والے تمام محترم قا رئین سے بے حد ادب سے گزارش ہے کہ کوشش کریں کہ اس ترکھان کی طرح لوگوں کے درمیان پل بنائیں نہ کہ لوگون کو ایک دوسرے سے جدا کرنے کا سبب بنیں۔۔۔*

*برائے مہربانی دیواریں نہیں پل بنائ
پُل اردو کا ہی ہو انگریزی کا نہ ہو
🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹
 

سید عمران

محفلین
پُل اردو کا ہی ہو انگریزی کا نہ ہو
🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹🥹
ہمیں تو انگریزی کا پل بھی قبول ہے۔۔۔
اگر دیگر بیگمات ہمیں پل نہ کریں گی تو بڑی بیگم کا حقیقی معنوں میں بڑی بیگم ہونے کا سپنا، سپنا ہی رہے گا!!!
 

جاسمن

لائبریرین
سترہ اٹھارہ سالہ اسٹوڈنٹ کے پھٹے پرانے جاگرز کے اندر سے جھانکتا ہوا اسکا انگوٹھا مجھے پچھلے دو دن سے پریشان کر رہا تھا اور مجھے اپنے پاوں میں موجود Skechers کے میڈیکیٹڈ شوز کاٹنے لگتے ۔ ٹانگوں میں عجیب سا اسٹریس آجاتا ، اور میرے لیے چلنا دشوار ہوجاتا ۔
گورنمنٹ کالج کراچی میں گلگت اسکرود سے اسکالر شپ پر آنے والے اسٹوڈنٹس میں مجھے ایک چیز سب سے زیادہ اچھی لگتی تھی وہ تھی ان کی خود داری اور عورت کی دل سے عزت کرنا۔۔۔۔۔
یہ روشن آنکھوں ، اور اجلے چہروں والے بچے کچھ ہی مہینوں کے بعد کراچی کی گرمی کے عادی نہ پاتے تو اکثر بیمار ہو جاتے، ان کے شہر کے مالی طور پر مستحکم کچھ لوگوں نے ان کے لیے کراچی میں فری ہوسٹل کی سہولت دے دی تھی جس پر پورے شہر کے بچوں میں اسکالر شپ کے لیے سخت مقابلہ ہوتا اور اس میں سے بہترین ،محنتی بچے ہمارے کالج میں آتے ،اور گذشتہ پانچ سالوں میں ،میں نے انہیں اسکالر شپ پر میڈیکل، انجنرئنگ اور آئی بی اے میں نمایاں پوزیشنز لیتے دیکھا۔
اپنے شہر سے اچھے مستقبل کی تلاش میں جب یہ بے شمار خواب آنکھوں میں سجائے ہمارے پاس پہنچتے تو کئی بار مجھے ان پر رشک تو کبھی ہمدردی ہوتی ، یہ پورے ایک سال میں صرف ایک بار اپنے علاقوں گلگت اسکردو کا رخ کرتے تھے اور اسکی وجہ کئِ بار انکی کمزور مالی پوزیشن اور کبھی کراچی سے گلگت اور اسکردو کی زمینی سفر کی دشواریاں تھیں۔
وہ بچہ ہمیشہ میرے سبجیکٹ میں اس لحاظ سےپیپر ایٹمپ کرتا کہ مجھے مشکل میں ڈال دیتا کہ میں اس کے نمبر آخر کہاں سے کاٹوں ۔،؟ لفظ جیسے موتیوں میں پروئے ہوئے ہوں ، تشریحات، اقتباسات کی تشریح ہر لحاظ سے
اسکا پرچہ ایک خوبصورت شاہکار کی مانند دیکھائی دیتا ۔
اسکی سفید شرٹ کثرت دھلائی کی وجہ سے کافی زیادہ بوسیدہ ہو چکی تھی اور سفید رنگ میں پیلاہٹ سی جھلکنے لگی تھی ،اسکے جاگرز دو سالوں میں تقریبا پھٹ چکے تھے اور اس میں سے جھانکتا اسکے پیر کا انگوٹھا اپنی عریانی پر اکثر شرمندہ دیکھائی دیتا تھا ، اسکی کوشش ہوتی کہ وہ کلاس روم کے کونے میں رکھی کرسی پر بیٹھے اور وہ دانستہ اپنے انگوٹھے کو اپنے پیروں میں رکھے پرانے بیگ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کرتا اور کوشش میری نظروں میں آکر مجھے بے سکون کر دیتی ۔۔۔۔
خود دار لوگوں کی مدد کرنا ،بذات خود ایک بڑا امتحان ہوتا ہے، کہ آپ کس طرح سے انہیں آفر کریں کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔
میری اس دن ایگزام ڈیوٹی تھی اور اتفاق سے وہ اس کمرہ امتحان کا آخری اسٹوڈنٹ تھا جو پوری توجہ کے ساتھ میتھ کی پیچدگیوں میں الجھا ہوا تھا۔ اس کے کلاس فیلو ساتھی وقت مقررہ سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی پیپر دے کر جا چکے تھے ۔۔۔۔اور وہ ساری دنیا سے بے نیاز اپنے کام میں مگن تھا جب میں نے اچانک اسکے سر پر جا کر پوچھا ۔۔۔۔۔
" آپکے والد کیا کرتے ہیں بیٹا ۔۔۔؟؟؟؟"
"ان کا انتقال ہو چکا ہے ۔۔" اس نے اضطراری انداز میں اپنے پیر کو ہلا کر جواب دیا ۔۔۔
"آپ کو فناشلی اسپورٹ کون کرتا ہے ۔۔؟؟؟" میں نے محتاط انداز میں پوچھا اور اس نے بڑی سادگی سے جواب دیا ۔
"بڑا بھائی، لیکن آجکل اسکے حالات بھی ٹھیک نہیں ۔" وہ افسردہ انداز میں مسکرایا ۔
"آپ کا اُردو کا پیپر بیسٹ تھا ، اور میں ہمیشہ سب سے اچھے مارکس لینے والے اسٹوڈنٹ کو انعام دیتی ہوں ۔۔۔"
"میں جانتا ہوں ۔۔۔۔" وہ مسکرا کر اپنے پیپر پر جھک گیا ۔
" جیسے ہی اس نے ایگزام کا وقت ختم ہونے پر اپنا پیپر مجھے جمع کروایا تو میں نے اپنے بیگ میں رکھا اینولپ اسکی طرف بڑھایا ۔وہ سوالیہ نگاہوں سے میری طرف دیکھنے لگا ۔
"یہ تمہارا انعام ہے ۔۔۔۔۔۔" یہ چار لفظ بولنے میں مجھے چار صدیوں کی مشقت کرنا پڑی ۔
"کیا واقعی ۔۔۔۔۔؟؟؟؟ " وہ تھوڑا حیران ہوا اور کچھ شش و پنج کے بعد اس نے وہ لفافہ میرے ہاتھ سے تھام لیا ۔اب مجھے اپنے پیروں پر پڑا ہوا بوجھ تھوڑا کم محسوس ہوا ۔۔۔
ویک اینڈ کے بعد وہ حسب توقع نئے جاگرز کے ساتھ آیا تو کافی پراعتماد تھا اور اس نے اپنی سیٹ بھی بدل لی تھی ،اب وہ عین روسٹرم کے سامنے بیٹھتا لیکن اسکا سر ہمیشہ جھکا رہتا ، اس کی باڈی لینگویچ چیخ چیخ کر مجھے بتاتی کہ وہ سب جانتا ہے ۔۔۔
ایک ماہ بعد جب ان کی کلاس کا کالج میں آخری دن تھا اور کچھ اسٹوڈنٹس پریکٹیکل کے لیے آئے ہوئے تھے ، وہ میرے پاس آیا، اور اس نے اپنے بیگ سے ایک اینولپ نکال کر میری طرف بڑھایا اور پراعتماد انداز میں کہا ۔
"میڈم یہ آپ کی امانت ۔۔۔۔۔۔"
میں نے حیرانگی سے لفافہ کھولا تو اس کے اندر وہی پانچ ہزار کا نوٹ میرا منہ چڑا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔اور میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی اس نے مسکرا کر کہا ۔
" میں جانتا ہوں آپ نے اس وقت یہ پیسے میرے جاگرز کے لیے دئیے تھے کیونکہ پری بورڈ ایگزام میں آپکے سبجیکٹ میں احمد کا ایک نمبر مجھ سے زیادہ تھا، اور میں نے سوچا تھا کہ میں یہ پیسے آپکو ضرور واپس کروں گا تاکہ میں کسی اور کا حق نہ کھا سکوں ، یہ میری ایک ماہ کی پڑھائی گئی ٹیوشن کے پیسوں میں سے یہ قرض لٹانے آیا ہوں کیونکہ یہ میں نے قرض کی نیت سے ہی رکھے تھے ۔ "
میں نے مسکراتے ہوئے وہ لفافہ تھام لیا ، میرے پاوں ایک دم ہلکے ہوئے ، اور میں نے شفقت بھری نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا ۔ وہ سیکھ چکا تھا تھا کہ اگر کوئی فیور تمہیں اس وقت ملے جب تم اسکے حق دار نہیں تھے تو تمہیں وہ قرض زندگی میں کبھی نہ کبھی اچھے طریقے سے لوٹانا ہی ہوتا ہے ،اور عزت نفس کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ،اور سب سے بڑی بات ،وہ خود دار تھا اور مجھے اسکا اٹھا ہوا سر ہی اچھا لگتا تھا ۔

تحریر : #صائمہ_اکرم_چوہدری
"
 

جاسمن

لائبریرین
میں نے بہت غور سے نوٹ کیا ہے اور میری ساری عمر کا نچوڑ ہے کہ جو لوگ اردو بولتے ہوئے پولیس کو پُلس، گوشت کو گووشت، مین سوئچ کو میم سُچ، دال چاول کو دال چول، رکشے کو رشکا، پنکھے کو پکھا، چائے کو چا، بولتے ہیں وہی ناہنجار مجھے مہدی کی بجائے مہندی بلاتے ہیں۔

اور غصہ مجھے اس وقت دُگنا آتا ہے جب آگے صاحب کا اضافہ کر دیتے ہیں۔ مہندی صاحب۔ ابے بھینس کی دم یا تو نام صحیح پکارو یا اس کے ساتھ صاحب نہ لگاؤ۔ سننے میں ہی انتہائی نامناسب لگتا ہے۔ مہندی صاحب۔

میرے نام کے ساتھ یہ مسئلہ بچپن سے ہی رہا ہے۔ سکول میں یار دوست کچھ تو لاعلمی میں مہندی پکارتے تھے اور کچھ جان بوجھ کر نام بگاڑ کر بلاتے تھے۔ مجھے تب بھی غصہ آیا کرتا تھا لیکن ظاہر ہے اب میں اکیلا ساری کلاس سے دھینگا مشتی تو نہیں کر سکتا تھا لہذا صبر کے گھونٹ پی لیتا۔ میری آدھی عمر لوگوں سے اپنا نام درست کرواتے بیت گئی ہے۔

پاک فوج کے زیر انتظام نیو کینٹ پبلک سکول ہوا کرتا تھا۔ یہ مخلوط تعلیم کا سکول تھا۔ آٹھویں کلاس میں پہنچا تو شبنم مونیٹر بنی۔ صرف شبنم واحد انسان تھی جو جب ڈانٹ کر کہتی “ مہندی شور نہ کرو ورنہ میں ٹیچر کے آنے پر تمہاری شکایت لگا دوں گی”۔ تو میں اسی وقت چپ کر جاتا۔ دراصل اس کے منہ سے مہندی جچتا بھی بہت تھا۔ ہر بار وہ میرا نام لکھ لیتی اور جب ٹیچر آتی اسے لسٹ پیش کر دیتی۔ یوں ٹیچر کے ہاتھوں میری شامت آ جاتی۔

ایک دن ٹیچر نے برائے اصلاح شبنم کو کہا “ شبنم بیٹا، مہندی نہیں مہدی لکھتے ہیں۔ تم اپنی املاء درست کر کے لکھا کرو۔ اور یہ تم نے فرقان کو ڈنڈے والے قاف سے فرکان لکھا ہوا ہے۔ یہ بھی غلط ہے”۔ شبنم نے سُن کر جواب دیا “ میڈم، یہ تو مجھے شکل سے ہی مہندی لگتا ہے اور فرقان تو کتے والے قاف سے ٹھیک لگتا ہے،،”

اس دن کے بعد سے جب اس نے مجھے مہندی کہا میرا ضبط جواب دے گیا اور میں نے اسے جواب میں کہا “ شبو تم نے جو کرنا ہے کرو”۔ وہ یکدم غصے میں آئی” شبو کسے کہا ؟”۔ میں نے بھی لال سرخ ہوتے جواب دیا “ تم مجھے مہندی کہو گی تو میں تمہیں شبو کہوں گا”۔ کلاس کے سارے بچے قہقہہ لگانے لگے کیونکہ مونیٹر سے تو سب کو خدا واسطے کا بیر یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ ٹیچر کا لاڈلا بچہ ہوتا ہے اور کلاس پر بے جا سختی بھی کرنے لگتا ہے۔

جب شبو کا کافی مزاق بن گیا اور باقی کلاس بھی اسے شبو کہنے لگی تو ایک دن لنچ بریک میں شبو میرے پاس آئی۔ میں گراؤنڈ میں دوستوں کے ساتھ والی بال کھیل رہا تھا۔ شبو نے مجھے آواز دی “مہدی”۔ میں نے سن کر اسے دیکھا اور بہت خوش ہوا کہ آخر کار اس نے میرا صحیح نام پکار ہی لیا۔ اس دن شبو نے مجھ سے سوری کی اور وہ پھر سے شبنم بن گئی اور میں مہدی ہو گیا۔ مگر کلاس کے باقی بچے تو باز نہیں آ رہے تھے۔ مجھے ایک ترکیب سوجھی۔ وہ جو کتے کے قاف والا فرقان تھا وہ Bully بچہ تھا۔ یعنی بدمعاش۔ اس کی بدمعاشی یہ ہوا کرتی کہ وہ شارپنر سے بلیڈ کا پیچ کھول کر بلیڈ الگ کر لیتا اور اسے جیب میں رکھا کرتا۔ اسی بلیڈ سے وہ باقی بچوں کو ڈراتا کہ اگر لڑے تو چیر کے رکھ دوں گا۔ اور بچے یوں ڈرتے کہ اک بار اس نے ایک لڑکے کے بازو پر لڑائی میں بلیڈ پھیر کر لہو لہان کر دیا تھا۔جس کی پاداش میں فرقان کو سکول سے ایکسپل کیا گیا مگر وہ تگڑی فیملی سے تھا۔ ایک ماہ بعد ہی دوبارہ کلاس میں بیٹھ گیا۔

کتے کے قاف والے فرقان کو میں نے لنچ بریک میں الگ کیا۔ اسے یقین دلایا کہ فرقان تم نے دیکھا شبنم مجھ سے بات کر رہی تھی۔ اس نے مجھے کہا ہے کہ وہ فرقان کو بہت پسند کرتی ہے۔ بس وہ شریف بن جائے یہی چاہتی ہوں۔ مجھے بدمعاش لڑکے نہیں اچھے لگتے۔ میں نے فرقان کو یقین دلایا کہ شبنم اسی کی ہے اور وہ اس پر مر مٹی ہے۔ فرقان کو یقین دلانا آسان ترین یوں تھا کہ شبنم اسے بھی پسند تھی۔ فرقان کو میں نے یہ بھی سمجھایا کہ خبردار جو شبنم سے بات بھی کی۔ اس نے مجھے بتایا ہے اس لیے کہ تم کو صرف یہ سمجھاؤں کہ بدمعاشی چھوڑ دو۔ بس جب اسے لگا کہ تم شریف ہو گئے ہو وہ خود تم سے ساری بات کرے گی۔

فرقان کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اس نے میرے سامنے قسم کھائی کہ آئندہ سے وہ کسی سے لڑائی نہیں کیا کرے گا۔ نہ ہی شارپنر سے بلیڈ نکالا کرے گا۔ میں نے اس کے ذمے یہ کام بھی لگایا کہ بس ساری کلاس کو اپنی زبان میں آخری بار سمجھا دو کہ کوئی شبنم کو شبو نہ پکارے۔ اس کی انسلٹ ہوتی ہے ایسے۔ صاحبو! کتے کے قاف والے فرقان نے ساری کلاس سیدھی کر دی اور یوں شبو سب کی زبان پر شبنم ہو گئی۔

دوسری جانب میں نے شبنم کو کہا کہ میں نے ساری کلاس کو اپنی زبان میں سختی سے سمجھا دیا تھا۔ شبنم میری گرویدہ ہو گئی۔ اور یوں آپسی تعلقات کی پینگیں بڑھنے لگیں۔

کچھ دنوں بعد ہی کتے کے قاف والے فرقان کو شک پڑ گیا۔ ظاہر ہے وہ مجھے اور شبنم کو اکثر باتیں کرتے اور ہنستے دیکھتا رہا تھا۔اور یہ بھی کہ ہم دونوں لنچ بریک میں اپنا ٹفن شئیر کر کے کھاتے ہیں۔ نیز یہ بھی کہ شبنم ہنوز فرقان کا نام لکھ کر ٹیچر کو شکایت لگا دیتی تھی مگر میری نہیں لگاتی تھی۔ ایک دوپہر کتے کے قاف والا فرقان بُل ڈاگ بن گیا اور اس نے شبنم سے اظہارِ دل لگی کر دیا۔ شبنم ہکی بکی رہ گئی۔ اس نے فرقان کو جوابی حملے میں کھری کھری سنا دیں اور بھاگم بھاگ ٹیچر کو ماجرا جا سنایا۔بات پرنسپل تک پہنچی۔ فرقان کے والدین بلائے گئے۔ ان کی بھی انسلٹ ہوئی۔ فرقان کی گھر جا کر بھی اچھی خاصی ٹھکائی ہوئی۔

صاحبو، اگلے دن کچھ یوں ہوا کہ سکول سے چھٹی کے بعد میں اپنی ویگن کے انتظار میں تھا۔ کتے کے قاف والا فرقان بلیڈ ہوا میں لہراتے میری سمت بھاگتا آیا۔ اس کے منہ سے گالیاں جاری تھیں۔ وہ اپنے ہوش و حواس کھو چکا تھا۔ اس کو باؤلا ڈاگ بنا دیکھ کر میں نے دوڑ لگا دی۔ بہت بھاگا۔ کوئی دو کلومیٹر کی اس ریس میں بلآخر میں ہانپ کر رک گیا۔ فرقان نے مجھے آ لیا اور بلیڈ میری گال پر مار دیا۔ میرے بائیں رخسار سے خون کا فوارہ بہا۔ لوگ جمع ہو گئے۔ میں ڈر کے مارے بیہوش ہو کر گر پڑا۔

مجھے بائیں رخسار پر ٹانکے لگے۔ اس زخم کا نشان آج تک موجود ہے۔ اب قدرے ہلکا ہو چکا ہے مگر واضح ہے۔ ایک زمانے تک شناختی کارڈز پر جب شناختی علامت لکھی جاتی تھی تو میری شناخی علامت میں لکھا ہوتا تھا” بائیں گال پر زخم کا نشان ہے”۔ آپ میری تصاویر زوم کر کے دیکھیں تو آپ کو اب بھی ہلکی سی لکیر نظر آ جائے گی۔

کتے کے قاف والا فرقان آخر کار اس ہنگامے کے بعد سکول سے خارج کر دیا گیا اور پھر کبھی نظر نہ آیا۔ نجانے وہ کہاں ہو گا اور اب کیا کر رہا ہو گا۔ شبنم پر بات عیاں ہوئی تو شبنم نے مجھ سے قطع تعلق کر لیا۔ میں نے اس کو منانے کی بہت کوشش کی مگر وہ باغی ہو چکی تھی۔ ویسے سچی بات ہے مجھے اس سے کچی عمر میں کچی محبت ہوئی تو تھی۔

خیر وہ دور بیت گیا۔ نویں جماعت میں مجھے سکول چھوڑنا پڑا۔ وجہ یہ کہ حالات کے سبب والدین میری فیس کا بوجھ مزید نہیں اٹھا سکتے تھے۔ میٹرک کے لیے مجھے سرکاری سکول جانا پڑا۔ گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول سیالکوٹ۔ شبنم قصہ پارینہ بن گئی۔

بہت سالوں بعد، سنہ 2007 میں میری پہلی شادی ہو چکی تھی۔ اس وقت میری عمر پچیس سال تھی۔ ایک روز میں سیالکوٹ کینٹ میں واقع مشہور کیفے Yummy 36 میں ایک دوست کے ہمراہ آئس کریم کھانے گیا۔ ایک لڑکی جو سامنے کی ٹیبل پر بیٹھی تھی مجھے گھور گھور کے دیکھتی جا رہی تھی۔ اور لڑکیوں کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے۔ کافی دیر وہ دیکھتی رہی پھر اٹھی اور ہمارے ٹیبل پر آ کر بولی “ آپ مہدی ہو ؟ نیو کینٹ پبلک سکول سے پڑھے ہو ناں ؟”۔ میں نے حیران ہوتے کہا کہ جی ہاں۔ اس لڑکی نے مسکراتے ہوئے اب بڑی بے تکلفی سے کہا“ تمہاری شکل بالکل ویسی ہی ہے۔ بس چہرہ بڑا ہو گیا فیچرز سیم بچپن جیسے رہے۔ میں یاد ہوں ؟”۔

ایک لمحے کو تو میرا ذہن گھوما کہ یہ کون ہے۔ نیو کینٹ سکول کی کلاس میں دس بارہ لڑکیاں کلاس فیلو تھیں۔ اچانک میرے ذہن میں خود بخود پہلا نام شبنم کا آیا۔ میں نے جھجھکتے جھجھکتے کہا “ شبنم ؟”۔ اس نے سن کر قہقہہ لگایا “یس”۔ پھر مڑی اور اپنی فیملی کی جانب دیکھتے ان کو بولی “ یہ مہدی ہے۔ وہی میرا کلاس فیلو جو تھا۔ وہ جس کا بتایا تھا تم لوگوں کو”۔ شبنم اپنی بہنوں کے ساتھ تھی۔ میں نے ان سب کو سلام کیا۔ وہ سب مجھے دیکھ کر ہنستیں رہیں اور میں بھی شرماتا رہا۔

اس دن شبنم کو یہ معلوم ہوا کہ میں شادی کر چکا ہوں۔ بہت خوش ہوئی۔ مبارک دی۔ اور ساتھ ہی کہا “ یہ گال پر نشان وہی ہے ناں ؟ “۔ میں نے قہقہہ لگایا “ ہاں وہی ہے۔ یہ نشانی ہمیشہ رہے گی”۔ اس نے سن کر شرارتی انداز میں کہا “ اوئے ہوئے ہوئے۔ بیگم کو بتایا ہوا ہے اس نشانی کا اور میرا ؟”۔ میں نے اسے کہا ہاں اسے معلوم ہے۔ لو میرج ہے۔ یہ سن کر بولی “ اچھا مہدی اب کوئی اور زخم نہ کھا لینا” اور قہقہہ لگا کر رخصت ہوئی۔ اس دن کے بعد سے شبنم پھر لاپتا ہے۔ نہ میں نے فون نمبر مانگا نہ اس نے مانگا۔ بس باتوں میں یاد بھی نہ رہا۔

شبنم تو خیر اب کیا یاد آنی۔گال کا زخم بھی کب کا بھر چکا ہے۔ البتہ اس کی کہی ایک بات بعد میں کئی سال یاد آتی رہی “ مہدی اب کوئی اور زخم نہ کھا لینا”۔
 

سیما علی

لائبریرین
۔ بس باتوں میں یاد بھی نہ رہا۔

شبنم تو خیر اب کیا یاد آنی۔گال کا زخم بھی کب کا بھر چکا ہے۔ البتہ اس کی کہی ایک بات بعد میں کئی سال یاد آتی رہی “ مہدی اب کوئی اور زخم نہ کھا لینا
واہ واہ کیا بات ہے یہ تو ضرور سبین کو پڑھوانا ہے کیونکہ ہمارے داماد کا نام مہدی ہے اور انکا بھی ہمیشہ سے بگاڑنے آئےہیں ۔۔۔
:ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:
 

جاسمن

لائبریرین
ذہین عرف الفا مرد کے سامنے فیمنسٹ چِڑیاں تے شے ای کوئی نہیں! - بلال شوکت آزاد

دنیا میں کچھ سچائیاں ایسی ہوتی ہیں جو خنجر کی طرح چبھتی ہیں، کچھ جملے ایسے ہوتے ہیں جو پانی کی طرح اترتے ہیں مگر پیاس نہیں بجھاتے بلکہ اندر ہی اندر جلانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ تحریر ان ہی جملوں کا مجموعہ ہے۔ یہ کالم کسی لائبریری کی سنجیدہ خاموشی میں لکھا گیا فلسفہ نہیں بلکہ گرم چائے کے کپ، جلے کٹےنظریات کے دھوئیں اور معاشرتی منافقت کے بخارات سے ابھرتی وہ چیخ ہے جسے سننے کی ہمت ہر کسی میں نہیں ہوتی۔

کیونکہ یہ تحریر اُن "عقلمند عورتوں" کے کانوں کے لیے نہیں جو ہر مرد کو "ٹاکسک میل" سمجھ کر اپنے ہر زہریلے نظریے کو گلاب کی پنکھڑی سمجھ کر پیش کرتی ہیں، بلکہ یہ اُن الفا مردوں کے لیے ہے جنہیں دیکھ کر فیمنسٹ نظریے کی چڑیا پر مارنا ہی بھول جاتی ہے۔ وہ ذہین مرد جن کے سامنے "میرا جسم میری مرضی" جیسے نعرے بھی شرمندہ ہو کر نظریں جھکا لیتے ہیں۔ وہ مرد جو نہ صرف اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں بلکہ اُسے فضا میں اُڑانے والے جھوٹے نظریات کے پنکھ بھی نظر آجاتے ہیں۔

آج کا المیہ یہ ہے کہ فیمنزم کو آزادی کا لیبل دے کر عورت کے سر پر تاج بنایا گیا ہے مگر درحقیقت وہ تاج نہیں، کانٹوں کا جال ہے جسے بیوقوفی سے زیب تن کیا گیا ہے۔ جو عورت اپنی ہر ناکامی کو پدرشاہی کے کھاتے میں ڈال دیتی ہے، وہ بھول جاتی ہے کہ جو معاشرہ اُسے تعلیم دیتا ہے، اُس کے حقوق کے لیے قانون بناتا ہے، اور عزت کے نام پر سینہ تان کر کھڑا ہوتا ہے، وہ بھی مرد ہی ہوتا ہے۔

فیمنزم کے اس واویلے میں ہر وہ مرد جو ذرا سا بھی ذہانت کی علامت رکھتا ہے، انہیں خار کی طرح کھٹکتا ہے۔ وہ مرد جس کے سامنے عورت دلیل سے بات کرے تو وہ دلیل کا پوسٹ مارٹم کر کے اس کی اصل نیت نکال کر رکھ دیتا ہے۔ وہ مرد جس کے سامنے "جنڈر ایکوئلٹی" کے نعروں کی حیثیت کسی ناکام لطیفے سے زیادہ نہیں۔

ذرا سوچیے، وہ فیمنسٹ خاتون جو ہر روز سوشل میڈیا پر مردوں کی برائی کے انڈے دیتی ہے، جب کسی ذہین مرد کے سامنے بیٹھتی ہے تو کیوں اُس کی زبان پر تالے پڑ جاتے ہیں؟ کیوں اُس کے نظریات کے "چوزے" ذہنی انکیوبیٹر میں دم توڑ دیتے ہیں؟ اس لیے کہ وہ جانتی ہے کہ یہ وہ مرد ہے جسے جھوٹے نعرے، جعلی سسکیاں، اور آنسوؤں کی دکان داری سے بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

یہ مرد "برو ٹاکسک" نہیں ہوتا، بلکہ یہ وہ شیشے کا ٹکڑا ہوتا ہے جس میں جھوٹی آزادی کے نظریے اپنا چہرہ دیکھ کر شرم سے ڈوب جاتے ہیں۔ یہ وہی مرد ہوتا ہے جو عورت کو نہ دیوی بناتا ہے، نہ داسی، بلکہ انسان مانتا ہے، اور اسی لیے جب وہ عورت سے سوال کرتا ہے تو عورت اسے ظالم، مغرور، پدرشاہی کا نمونہ، بلکہ کبھی کبھی تو زہریلا سانپ بھی قرار دے دیتی ہے, جبکہ خود اِچھا دھاری ناگن ہو تو بھی چلے گا۔۔۔ ایسے کیسے بہن, ایسے کیسے؟

یہ بلاگ کسی مرد کی بڑائی میں نہیں، بلکہ اُس سچ کی پذیرائی میں لکھا جا رہا ہے جسے ہر عورت محسوس تو کرتی ہے مگر تسلیم نہیں کرتی۔ اُس ذہین مرد کی سچائی جو جانتا ہے کہ "فیمنزم" دراصل ایک مارکیٹ ہے — جذبات کی، احساسات کی، اور سب سے بڑھ کر "وِکٹم کارڈز" کی۔

اس دکان پر عقل نہیں بکتی، احساس نہیں بکتا، یہاں صرف وہ بیانیہ بکتا ہے جو عورت کو ہر ظلم کا شکار اور مرد کو ہر ظلم کا ذمہ دار بنا دے۔

اور پھر آتے ہیں وہ الفا مرد، جنہیں دیکھ کر نہ صرف فیمنسٹ نظریے کی بنیادیں ہل جاتی ہیں، بلکہ وہ عورت بھی خاموش ہو جاتی ہے جو اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر انقلابی نعرے لگا کر خود کو انقلاب کی بیٹی سمجھتی تھی۔ یہ وہ مرد ہیں جن کے پاس دلیل ہے، تجربہ ہے، کردار ہے، اور سب سے بڑھ کر، وہ خوفِ خدا ہے جو اُنہیں نہ صرف عورت بلکہ خود اپنے نفس کے سامنے بھی جوابدہ رکھتا ہے۔

یہ مرد جب عورت سے سوال کرتا ہے تو صرف اُس کے عمل پر نہیں، اُس کے ارادے پر بھی شک کرتا ہے۔ جب وہ پوچھتا ہے کہ تمہیں برابری چاہیے یا برتری؟ جب وہ کہتا ہے کہ اگر تم خود کو باشعور مانتی ہو تو رشتہ، تعلق اور قربانی کی تعریف میں صرف مرد کا کردار کیوں دیکھتی ہو؟ جب وہ تمہیں آئینہ دکھاتا ہے تو وہ تمہارے چہرے کا نہیں، تمہارے نظریے کا میک اپ اتار دیتا ہے۔

اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں فیمنزم کا فریب دم توڑنے لگتا ہے۔ وہ عورت جو ساری زندگی "خود کفالت" اور "خودمختاری" کا ڈھول بجاتی ہے، وہی ایک الفا مرد کے سامنے بیٹھ کر کہتی ہے، "تم جیسے مرد کم ہوتے ہیں۔" کیوں؟ کیونکہ اُسے پتا ہے کہ یہ مرد نہ صرف اسے سمجھ سکتا ہے بلکہ اُس کے چھپے ہوئے جھوٹ کو بھی پڑھ سکتا ہے۔

الفا مرد وہ امتحان ہوتا ہے جس میں فیمنسٹ سوچ ہمیشہ فیل ہو جاتی ہے۔ وہ سوال ہوتا ہے جس کا کوئی جواب نہیں۔ وہ دلیل ہے جس کے خلاف کوئی احتجاج نہیں چلتا۔ اور وہ حقیقت ہے جسے جتنا جھٹلایا جائے، اتنا ہی زیادہ ظاہر ہو کر سامنے آتا ہے۔

لہٰذا، فیمنزم کے اس مصنوعی عروج میں، ایک سچا، ذہین، اور خدا ترس مرد اُس سچ کی مانند ہوتا ہے جو وقتی طور پر دب سکتا ہے، مگر مٹ نہیں سکتا۔ اُس کی موجودگی ہر نظریاتی شور میں ایک خاموش طمانیت بھر دیتی ہے، اور ہر جھوٹے نعرے میں سچ کی بازگشت گونجنے لگتی ہے۔

وہ الفا مرد کسی نظریے کا دشمن نہیں ہوتا، وہ صرف جھوٹ کا منکر ہوتا ہے۔ وہ عورت کو اُس کی عزت، اُس کی قابلیت، اُس کی ماں، بیوی، بہن یا بیٹی ہونے کے دائرے سے نکال کر ایک مکمل انسان تسلیم کرتا ہے۔ مگر جب یہی عورت اس انسانیت کی سطح سے نیچے جا کر صرف اپنے صنفی فائدے کے لیے جذباتی بلیک میلنگ کا سہارا لیتی ہے، تو وہ مرد اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا ہے — "تم حق کی نہیں، ہٹ دھرمی کی داعی ہو۔"

اس لیے فیمنزم کا حقیقی امتحان بھی اُسی دن ہوتا ہے جب ایک الفا مرد سوال کرتا ہے کہ عورت کو برابری چاہیے یا وہ ہر موقع پر رعایت کی طالب ہے؟ کیا وہ خودمختاری کا مطلب جانتی ہے یا صرف آزادی کی خواہش رکھتی ہے بغیر اس کے بوجھ کو اٹھائے؟ کیا وہ واقعی جتنی سمجھدار بننے کا دعویٰ کرتی ہے، اتنی سمجھدار بھی ہے؟

ایسے سوالات کے سامنے اکثر سلوگن بے جان ہو جاتے ہیں، آنکھوں کی نمی مصنوعی لگنے لگتی ہے اور جملے بے معانی ہو جاتے ہیں۔ اور یوں، الفا مرد نہ صرف فیمنسٹ بیانیے کو مات دیتا ہے بلکہ اسے اس کی حدود بھی یاد دلا دیتا ہے۔

کیونکہ بالآخر،

"الفا مرد" ورگا ذہین ہے ای کوئی نہیں
فیمنسٹ چِڑیاں تے شے ای کوئی نہیں

#سنجیدہ_بات
#آزادیات
#بلال #شوکت #آزاد
 

سیما علی

لائبریرین
کرسٹینا کی عمر صرف چوبیس برس تھی۔ نیویارک کا ایک علاقہ ہے، جس کا نام
ایسٹ ولیج (East Village)
ہے

یہاں ارب پتی افراد کے دفاتر اور گھر بھی ہیں۔ اور اختتامی حصے میں متوسط
سطح کے افراد بھی مقیم ہیں۔ ایسٹ ولیج میں درجنوں نہیں، سیکڑوں ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ ہر رنگ اور نسل کے لوگ وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔

اَن گنت ہوٹلوں میں ایک چھوٹا سا کیفے بھی ہے۔ کرسٹینا اس ایک معمولی سے ریسٹورنٹ میں ویٹرس تھی۔ ادنیٰ شکل وصورت کی لڑکی، ان لاکھوں خواتین میں شامل تھی جو سارا دن محنت کر کے اپنا گزارا مشکل سے ہی کر پاتے ہیں۔ دراصل نیویارک ایک حددرجہ مہنگا شہر ہے۔ مین ہیٹن تو خیر انسانی عقل سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔ ایسٹ ولیج مین ہیٹن ہی میں واقع ہے۔

کرسٹینا کی ذاتی زندگی دکھوں سے معمور تھی۔ والد، نشہ کرتا تھا اور والدہ ایک امیر آدمی کے گھر باورچن تھی۔ ظلم یہ بھی تھا کہ کرسٹینا ابھی صرف دس برس کی تھی کہ والدہ نے اپنے شوہر سے تنگ آ کر طلاق لے لی۔ کرسٹینا نے اپنے بچپن میں صرف خانگی لڑائی جھگڑا اور مار پیٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر اس کی فطرت میں ایک بہت بڑی خوبی تھی۔ گھریلو تلخی نے اس کی زندگی میں زہر گھولنے کے بجائے، اسے مسکرانا سکھا دیا تھا۔

وہ ہر ایک کی مدد کرنا چاہتی تھی مگر اس کے اپنے وسائل اتنے کم تھے کہ کسی کی مالی مدد کرنا ناممکن سا تھا۔ ویٹرس کے طور پر کرسٹینا اپنا کام حددرجہ تندہی سے کرتی تھی۔ مسکرا کر لوگوں سے کھانے کا آرڈر لیتی تھی اور خوشگوار طریقے سے اپنے کام کو نپٹاتی تھی۔ بہرحال، یہ اس کا ذاتی رویہ تھا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اکثر اوقات اپنے گھر سے بس کے ذریعے کام پر آ جاتی تھی۔ ایک دن بارش میں کرسٹینا ڈیوٹی پر جا رہی تھی۔ بس اسٹاپ پر اتری تو وہاں اسے ایک سات آٹھ برس کا بچہ نظر آیا۔ معصوم بچے کے سارے کپڑے پانی سے شرابور تھے اور وہ سخت سردی کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔

کرسٹینا نے بچے کو دیکھا تو وہ اس کی طرف چلی گئی۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے مکمل اجنبی تھے۔ کرسٹینا نے چھتری کھولی، بچے کو ساتھ لیا اوراپنے کیفے کی طرف چل پڑی جو نزدیک ہی تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بچے کے لیے گرم سوپ بنوایا اور اسے اپنے ہاتھوں سے پلایا۔ بچے نے کہا کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں اور وہ یتیم ہے۔

کرسٹینا کا جواب تھا کہ یہ سوپ تمہارے لیے بالکل مفت ہے۔ کرسٹینا نے بچے کے گیلے کپڑوں کو بھی خشک کیا۔ بچہ بہتر ماحول کی بدولت کھلکھلا اٹھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ جب بارش ختم ہوئی تو کرسٹینا نے بچے کو اپنی جیب میں سے پچاس ڈالر دیے اور اسے کہا کہ جب بھی کھانے کی ضرورت ہو، وہ کیفے میں آ جائے۔

مگر یہ پورا واقعہ نہیں ہے۔ اس واقعہ کا ایک اور حصہ بھی ہے جو کرسٹینا کے علم میں نہیں تھا۔ جب بچہ بس اسٹاپ پر سردی کی بدولت ٹھٹھر رہا تھا، عین اسی وقت نیویارک کی ایک بہت بڑی کمپنی کا مالک اپنی قیمتی گاڑی لیے، بس اسٹاپ کے نزدیک موجود تھا۔ اس کا نام الیکس (Alex) تھا۔ گاڑی روک کر وہ خود بچے کی مدد کرنا چاہتا تھا مگر اس کے کار سے نکلنے سے پہلے ہی کرسٹینا پہنچ گئی اور بچے کو کیفے لے گئی اور وہاں اس کی بھرپور مدد کی۔ الیکس، کرسٹینا کے پیچھے پیچھے کیفے تک پہنچا اور اپنی گاڑی ہی میں سب کچھ دیکھتا رہا۔ الیکس، کرسٹینا سے حددرجہ متاثر ہوا کہ کیسے بغیر جان پہچان کے، نوجوان ویٹرس نے ایک معصوم بچے کی کتنی مؤثر مدد کی۔ ایک دن الیکس اپنے دفتر سے لنچ کے لیے نکلا اور اس کیفے میں چلا گیا جہاں کرسٹینا کام کرتی تھی۔ ویٹرس کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا کہ الیکس جیسا انسان پورا واقعہ دیکھ چکا ہے۔

الیکس نے وہاں لنچ کیا اور جب کرسٹینا بل لے کر آئی تو اس نے حددرجہ احتیاط سے بل کے ساتھ پانچ ہزار ڈالر رکھے اور فوری طور پر کیفے سے باہر چلا گیا۔ کرسٹینا نے جب بل کے ساتھ ٹپ دیکھی تو حیران رہ گئی۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی گاہک، غلطی سے اپنے پیسے یہاں بھول گیا ہے۔ کرسٹینا ششدر تھی کہ کون اسے پانچ ہزار ڈالر ٹپ کیوں دے گا مگر الیکس واپس نہیں آیا۔ مگر وہ کیفے کے سامنے سے گزرتا ضرور تھا۔ اور کرسٹینا کو مسکراہٹ سے کام کرتے دیکھ کر پرمسرت طریقے سے واپس چلا جاتا تھا۔

کرسٹینا کو بالکل علم نہیں تھا کہ کوئی اسے کام کرتے نوٹس کر رہا ہے۔ بہرحال وقت گزرتا چلا گیا۔ ایک دن شام کے وقت، کرسٹینا اپنے گھر واپس جا رہی تھی کہ ایک قیمتی گاڑی اس کے نزدیک آئی۔ الیکس باہر نکلا اور کرسٹینا کو کہا کہ وہ اس سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔ کرسٹینا اور الیکس، فٹ پاتھ پر لگے ہوئے ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ الیکس نے بارش اور اس بچے کی مدد کی پوری کہانی تفصیل سے سنائی۔ یہ بھی بتایا کہ پانچ ہزار ٹپ بھی اس نے دی تھی۔ کرسٹینا مکمل طور پر حیران رہ گئی کہ کوئی اس کے انسانی مدد کے واقعہ کو اتنی تفصیل سے دیکھ رہا تھا۔ بہرحال الیکس نے کہا کہ وہ کرسٹینا کوایک کام دینا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے دو لاکھ ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔ کرسٹینا نے پریشانی سے کہا کہ وہ قطعاً دو لاکھ ڈالر نہیں لے سکتی۔

الیکس نے سنجیدگی سے کہا کہ پہلے کام کی نوعیت کو تو سن لیجیے پھر انکار کر دینا۔ الیکس نے کہا کہ وہ ایک ارب پتی انسان ہے مگر پیسے نے اسے کبھی اندرونی خوشی نہیں دی۔ جس دن، آپ بچے کی مدد کر رہی تھی، اسی دن مجھے پتہ چلا کہ اصل خوشی تو دوسروں کی بے لوث مدد کرنے میں ہے اور اس جذبہ کی بدولت ہے جس کی وجہ سے انسان لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔

میں ایک چھوٹا سا کیفے چلانا چاہتا ہوں جس کی مالک آپ ہوں گی۔ شرط صرف یہ ہے کہ کوئی بھی انسان پیسے نہ ہونے کی بدولت وہاں سے بھوکا واپس نہ جائے۔ کرسٹینا سوچ میں پڑگئی۔ الیکس نے کہا کہ آپ یہ نیا کیفے ضرور کھولیں اور انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر کام کیجیے۔ کرسٹینا بہت سوچ بچار کے بعد مان گئی۔ اور مین ہیٹن میں ہی ایک چھوٹا ساکیفے خرید کر کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ آفاقی مسکراہٹ کے ساتھ آرڈر لیتی تھی، کھانا پہنچاتی تھی، ٹیبل صاف کرتی تھی اور ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آتی تھی۔ ہاں، بندہ اگر کھانے کے پیسے نہیں دے سکتا تو وہ اس سے کوئی بھی پیسوں کا تقاضا نہیں کرتی تھی۔

یہ سچا واقعہ، دس برس پرانا ہے مگر یہ ہم سب لوگوں کے لیے ایک نصیحت ضرور چھوڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی خوشی کی بنیاد کیا ہے۔ خوش ہونے کا مطلب کیا ہے۔ خوشی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیا یہ بناوٹ یا تصنع یا نیکی کے پروپیگنڈے سے منسلک ہے۔ جناب، بالکل نہیں، قطعاً نہیں۔ دراصل انسان کو اندرونی مسرت صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ عام لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ کسی جزا کے بغیر اجنبی افراد کی بے لوث مدد کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ خدا نے جو وسائل اسے مہیا کیے ہیں، وہ انھیں صرف اور صرف اپنے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ اس پر دوسرے مستحق لوگوں کا حق بھی مانتا ہے۔

سبق تو یہی ہے کہ لوگوں کے لیے آسانیاں در آسانیاں پیدا کی جائیں مگر یہاں سے کچھ ذہنی الجھنیں بھی شروع ہوتی ہیں۔ اگر انسان امیر نہیں ہے تو پھر وہ لوگوں کی کیسے مدد کر سکتا ہے۔ بالکل درست بات ہے کہ اگر ذاتی وسائل محدود ہیں تو آپ بذات خود عسرت کا شکار ہیں۔ تو پھر آپ کیونکر دوسروں کے کام آ سکتے ہیں۔

اس کا بہت سادہ سا حل ہے، جس پر کوئی پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ آپ، جو بھی کام کر رہے ہیں، آپ اسے خوشگوار طریقے سے سرانجام دینا شروع کر دیجیے۔ لوگوں سے مسکرا کر بات کریں۔ درشت اور غصہ کے رویہ کو بھول جایئے۔ مثبت رویہ سے، قدرت کسی ایسے غیبی دروازہ کے کواڑ آپ کے لیے کھولے گی جس کا تصور بھی آپ نہیں کر سکتے۔ کسی بھی جزا کے بغیر، اپنے رویہ کو انسان دوست رکھیے۔ آپ کی زندگی بدل جائے گی۔ بذات خود، خوش رہنا شروع کر دیں گے۔

مشکلات اگر آتی بھی ہیں تو آپ کے اس رویہ کی بدولت، سرنگوں ہو جائیں گی۔ ذرا آگے چلیے۔ زندگی کا مقصد یہی ہے۔ زندگی ہے کیا؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مشکل امر یہ ہے کہ اس کے مقصد کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ دراصل زندگی دوسروں میں آسانیاں تقسیم کرنے کا نام ہے اور انسانی خوشی بھی اسی امر میں پوشیدہ ہے۔ آپ کسی اجنبی کی معمولی سی مشکل کو حل کر کے دیکھیے، آپ کی روح تک خوش ہو جائے گی۔ شخصیت مکمل ہونے لگے گی۔ ہاں ایک اور بات، مسکرا کر کام کرنا بھی ایک نیکی ہے۔

صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ دوسرے انسان کو حوصلہ دینا بھی اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ کرسٹینا کی مثال اپنے سامنے رکھیے۔ دوسروں کی مدد صرف اور صرف انسانی ہمدردی کے تحت کیجیے۔ اسے جزا سے منسلک نہ کریں۔ اگر الیکس جیسا ارب پتی، آپ کو چھپ کر نہیں دیکھ رہا، تو خدا تو ضرور دیکھ رہا ہے، اس سے آگے آپ کو مزید کیا چاہیے!
راؤ منظر حیات
کے قلم سے
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
گزشتہ کل گلی سے گزر ہوا

مجھ سے آگے ایک جوڑا اپنے بچے کے ساتھ جا رہا تھا۔ کچھ دور ایک بلی اپنے بہت ہی چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔بچے نے بھاگ کر بلی کے قریب جاکر اسکو کافی بڑا پتھر مارا جو شائد اسکی انکھ کے بلکل قریب لگا۔
بچہ اتنی دور بھاگ کر گیا تھا کہ باپ ایک سخت اواز لگا کر اسکو روک سکتا تھا مگر بچے کو روکنا تو کیا تھا ،بلی کی تکلیف بھری آوازیں سن کر بچے کے ساتھ ساتھ ماں باپ بھی زور زور سے ہنسنے لگے ،

بلی اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کی وجہ سے وہیں بیٹھی تھی اور وہاں سے گئی نہیں تھی اتنے میں بچے نے دوبارہ پہلے سے بھی بڑا پتھر اٹھایا ،
اس بار میں نے بایک تیز کر کے اسکے قریب پہنچ کر اسکو روکا ۔لیکن اگلے ہی لمحے والد صاحب پہنچ گئے اور فرمایا کہ میرے بچے کو کیوں ڈانٹ رہے ہو ؟ میں نے کہا یہ جو 4 بچوں کی ماں پر قاتلانہ حملے کر رہا ہے اور اپ اسکے جرم میں ہنس ہنس کر برابر کے شریک ہیں اسکا کیا جواز ہے ؟ کہنے لگا وہ تو جانور ہے ۔ میں نے کہا جانور اور حیوان تو آپ بھی ہیں بایولوجی اور منطق کے مطابق ، بس اللہ نے اپ میں عقل ڈال کر اپکو حیوان ناطق بنا دیا ،

لیکن اس عقل سے کام لینا اپکو نہیں آیا ۔ اس معصوم کا بھلا کیا قصور ، کیوں اپنے بچے کو اسکو مارنے کی اجازت دے رہے ہیں !!! اگر اتنا ظرف نہیں ہے کہ اس نئی نئی ماں کو ایک پاو دودھ لیکر نہیں دے سکتے کہ وہ اپنے بچوں کو ٹھیک سے feed کر سکے تو کم از کم اسکو مار کر مزید تکلیف میں مبتلا تو مت کریں۔

ہمارے معاشرے میں جانور کو "جان- ور" سمجھا ہی نہیں جاتا ، کہ اخر اس میں بھی جان ہے وہ بھی جیتا جاگتا وجود ہے اس میں بھی زندگی بستی ہے ، ضروریات اور خواہشات انکی بھی ہوتی ہیں ۔معاشرے میں رہنے والے یہ انسان دوست معصوم بے زبان جانور ، بلی ، بھینس ،بکری ،کتا ،گدھا، پرندے مرغیاں وغیرہ بھی ہمارے ہی ساتھ اس زندگی کو گزار رہے ہوتے ہیں۔اگر ہم انکی زندگی کو کچھ آسان اور اچھی نہیں بنا سکتے تو کم از کم خراب تو نا کریں ۔ بے شمار مرتبہ میں نے یہ دیکھا کہ بچے کسی بھی جانور کو دیکھتے ہی فورا پتھر یا ڈنڈا لیکر اسکی پٹائی شروع کر دیتے ہیں ،

انہیں کبھی کسی نے یہ احساس نہیں دلایا ہوتا کہ یہ بھی جاندار ہیں انکو بھی تکلیف ہوتی ہے ۔اگر چوٹ لگ جائے کوئی دوائی دینے والا یا کھانا دینے والا بھی نہیں ہوتا اتنی تکلیف دہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔یہاں تک بھی تکلیف دہ مناظر ان آنکھوں نے دیکھے کہ کسی جانور کے پاس جاکر ماں یا باپ نے بچے کو گود سے اتارا ، اسکے ہاتھ میں پتھر دیا اور کہا اسکو مارو ۔ اور جب اس نے ٹھیک "نشانے" پر مار دیا تو اسکو داد دی گئی ۔ استغفار ۔

آپ لوگ انسان ہیں ؟ کوئی احساس نام کی چیز اپ میں موجود ہے ؟
میں اگر اپنے بچے کے ذریعے اپکے بچے کو نشانہ لگواوں تو جرم ، مرنے مارنے پر آ جاتے ہیں اور ایک دوسرے بے زبان معصوم بے بس جاندار کو مارنے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں !!! انسانیت پھر کس چیز کا نام ہوا !!!! اکثر بچے جانوروں اور پرندوں کے بچوں کو گلے میں رسی ڈال کر زور زور سے گھماتے رہتے ہیں اور خاص طور پر بلی کے بچوں کو پانی میں پھینک دیتے ہیں اور پھر انھیں نکال کر اس کی بے بسی کا مزہ لیتے ہیں۔بچپن کی یہ گندی فطرت بڑے ہوکر بھی ختم نہیں ہوتی اور 15 ،20 سال کے لڑکے بھی بلا وجہ کسی جانور کو پتھر مار کر اسکی تکلیف دہ آوازیں سن کر انجوائے کرتے نظر آتے ہیں ۔

براہ کرم بچپن سے بچوں کی تربیت بہتر کریں۔
اپنے بچے کو ڈاکٹر انجینیر وکیل بزنس مین بنانے سے پہلے انکو ایک اچھا انسان ضرور بنائیں
انکو بتائیں کہ یہ بھی ہمارے ساتھ ہمارے معاشرے میں رہتے ہیں.

جانوروں پر رحم و کرم کے بارے میں پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات انکے سامنے ذکر کریں ۔ حضرت سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ ایک اونٹ کے پاس سے گزرے جس کی کمر (بھوک کی وجہ) اس کے پیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: " ان جانوروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا خوف کرو جو بول نہیں سکتے۔۔۔"
(ابوداوُد)

بچوں کو بتائیں کہ اگر کوئی جانور نقصان پہنچانے لگا ہو تو اس سے تو اپنا بچاو کرنا چاہئے لیکن عام جانور جو نقصان نہیں دیتے اور ذرا سی محبت دینے پر اپنوں کی طرح محبت سے پیش آنے لگتے ہیں انکا خیال رکھنے کی کوشش کریں ۔
کسی دوسرے کو ان جانوروں کو نقصان پہنچانے کی اجازت نا دیں۔، ایسا کچھ ہونا نظر آئے تو اگلے کو منع کریں اور سمجھائیں کہ معصوم پر ظلم مت کرو.

اور احسان کا سب سے اعلی درجہ یہ کہ کسی جانور کو تکلیف میں دیکھے تو اگر انسان کی جیب اجازت دیتی ہو تواسکی مدد کریں ۔چھوٹے بچوں والی بلی یا کتیا کو چند دن کیلئے دودھ اور بچا ہوا کھانا دے دیں تاکہ وہ اپنے بچے ٹھیک طرح پال سکے۔چڑیا یا پرندہ اگر ایسا لگے کہ اپنے گھونسلے یا بچوں کیلیے بار بار کچھ کھانے کا تلاش کرنے اتے ہیں تو اس کیلئے پانی اور ذرا سا دانہ رکھ دیجئے ۔
اللہ تعالی نے فرمایا
ھل جزا الاحسان الا الاحسان
بے شک احسان کا بدلہ احسان ہے

یقینا اللہ تعالی ہمارے جانوروں کے ساتھ اچھے اور بہتر سلوک کا بدل ضرور عطاء فرمائیں گے
نبی ﷺ نے فرمایا
ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء
زمین والوں پر رحم کرو ، آسمان والا تم پر رحم کرے گا
اور یقینا زمین والون میں جانور بھی شامل ہیں ۔
اگر کسی کی استعداد میں کچھ بھی کرنا ممکن نا ہو تب بھی کم از کم اپنی اولاد کی یہ تربیت ضرور کریں کہ کبھی بھی کسی جانور کو کسی بھی طرح پتھر کا ڈنڈے سے مت ماریں اور نا کسی اور کو مارنے دیں۔

آئیے وعدہ کیجئے کہ اپنے بچے کو تربیت دیکر اپ مزید کسی جانور کو اپنے بچے کے ہاتھوں تکلیف نہیں پہنچنے دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جاسمن

لائبریرین
کرسٹینا کی عمر صرف چوبیس برس تھی۔ نیویارک کا ایک علاقہ ہے، جس کا نام
ایسٹ ولیج (East Village)
ہے

یہاں ارب پتی افراد کے دفاتر اور گھر بھی ہیں۔ اور اختتامی حصے میں متوسط
سطح کے افراد بھی مقیم ہیں۔ ایسٹ ولیج میں درجنوں نہیں، سیکڑوں ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ ہر رنگ اور نسل کے لوگ وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔

اَن گنت ہوٹلوں میں ایک چھوٹا سا کیفے بھی ہے۔ کرسٹینا اس ایک معمولی سے ریسٹورنٹ میں ویٹرس تھی۔ ادنیٰ شکل وصورت کی لڑکی، ان لاکھوں خواتین میں شامل تھی جو سارا دن محنت کر کے اپنا گزارا مشکل سے ہی کر پاتے ہیں۔ دراصل نیویارک ایک حددرجہ مہنگا شہر ہے۔ مین ہیٹن تو خیر انسانی عقل سے بھی زیادہ مہنگا ہے۔ ایسٹ ولیج مین ہیٹن ہی میں واقع ہے۔

کرسٹینا کی ذاتی زندگی دکھوں سے معمور تھی۔ والد، نشہ کرتا تھا اور والدہ ایک امیر آدمی کے گھر باورچن تھی۔ ظلم یہ بھی تھا کہ کرسٹینا ابھی صرف دس برس کی تھی کہ والدہ نے اپنے شوہر سے تنگ آ کر طلاق لے لی۔ کرسٹینا نے اپنے بچپن میں صرف خانگی لڑائی جھگڑا اور مار پیٹ کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھا تھا۔ مگر اس کی فطرت میں ایک بہت بڑی خوبی تھی۔ گھریلو تلخی نے اس کی زندگی میں زہر گھولنے کے بجائے، اسے مسکرانا سکھا دیا تھا۔

وہ ہر ایک کی مدد کرنا چاہتی تھی مگر اس کے اپنے وسائل اتنے کم تھے کہ کسی کی مالی مدد کرنا ناممکن سا تھا۔ ویٹرس کے طور پر کرسٹینا اپنا کام حددرجہ تندہی سے کرتی تھی۔ مسکرا کر لوگوں سے کھانے کا آرڈر لیتی تھی اور خوشگوار طریقے سے اپنے کام کو نپٹاتی تھی۔ بہرحال، یہ اس کا ذاتی رویہ تھا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اکثر اوقات اپنے گھر سے بس کے ذریعے کام پر آ جاتی تھی۔ ایک دن بارش میں کرسٹینا ڈیوٹی پر جا رہی تھی۔ بس اسٹاپ پر اتری تو وہاں اسے ایک سات آٹھ برس کا بچہ نظر آیا۔ معصوم بچے کے سارے کپڑے پانی سے شرابور تھے اور وہ سخت سردی کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔

کرسٹینا نے بچے کو دیکھا تو وہ اس کی طرف چلی گئی۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے مکمل اجنبی تھے۔ کرسٹینا نے چھتری کھولی، بچے کو ساتھ لیا اوراپنے کیفے کی طرف چل پڑی جو نزدیک ہی تھا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بچے کے لیے گرم سوپ بنوایا اور اسے اپنے ہاتھوں سے پلایا۔ بچے نے کہا کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں اور وہ یتیم ہے۔

کرسٹینا کا جواب تھا کہ یہ سوپ تمہارے لیے بالکل مفت ہے۔ کرسٹینا نے بچے کے گیلے کپڑوں کو بھی خشک کیا۔ بچہ بہتر ماحول کی بدولت کھلکھلا اٹھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ جب بارش ختم ہوئی تو کرسٹینا نے بچے کو اپنی جیب میں سے پچاس ڈالر دیے اور اسے کہا کہ جب بھی کھانے کی ضرورت ہو، وہ کیفے میں آ جائے۔

مگر یہ پورا واقعہ نہیں ہے۔ اس واقعہ کا ایک اور حصہ بھی ہے جو کرسٹینا کے علم میں نہیں تھا۔ جب بچہ بس اسٹاپ پر سردی کی بدولت ٹھٹھر رہا تھا، عین اسی وقت نیویارک کی ایک بہت بڑی کمپنی کا مالک اپنی قیمتی گاڑی لیے، بس اسٹاپ کے نزدیک موجود تھا۔ اس کا نام الیکس (Alex) تھا۔ گاڑی روک کر وہ خود بچے کی مدد کرنا چاہتا تھا مگر اس کے کار سے نکلنے سے پہلے ہی کرسٹینا پہنچ گئی اور بچے کو کیفے لے گئی اور وہاں اس کی بھرپور مدد کی۔ الیکس، کرسٹینا کے پیچھے پیچھے کیفے تک پہنچا اور اپنی گاڑی ہی میں سب کچھ دیکھتا رہا۔ الیکس، کرسٹینا سے حددرجہ متاثر ہوا کہ کیسے بغیر جان پہچان کے، نوجوان ویٹرس نے ایک معصوم بچے کی کتنی مؤثر مدد کی۔ ایک دن الیکس اپنے دفتر سے لنچ کے لیے نکلا اور اس کیفے میں چلا گیا جہاں کرسٹینا کام کرتی تھی۔ ویٹرس کے خواب وخیال میں بھی نہیں تھا کہ الیکس جیسا انسان پورا واقعہ دیکھ چکا ہے۔

الیکس نے وہاں لنچ کیا اور جب کرسٹینا بل لے کر آئی تو اس نے حددرجہ احتیاط سے بل کے ساتھ پانچ ہزار ڈالر رکھے اور فوری طور پر کیفے سے باہر چلا گیا۔ کرسٹینا نے جب بل کے ساتھ ٹپ دیکھی تو حیران رہ گئی۔ اس کا خیال تھا کہ کوئی گاہک، غلطی سے اپنے پیسے یہاں بھول گیا ہے۔ کرسٹینا ششدر تھی کہ کون اسے پانچ ہزار ڈالر ٹپ کیوں دے گا مگر الیکس واپس نہیں آیا۔ مگر وہ کیفے کے سامنے سے گزرتا ضرور تھا۔ اور کرسٹینا کو مسکراہٹ سے کام کرتے دیکھ کر پرمسرت طریقے سے واپس چلا جاتا تھا۔

کرسٹینا کو بالکل علم نہیں تھا کہ کوئی اسے کام کرتے نوٹس کر رہا ہے۔ بہرحال وقت گزرتا چلا گیا۔ ایک دن شام کے وقت، کرسٹینا اپنے گھر واپس جا رہی تھی کہ ایک قیمتی گاڑی اس کے نزدیک آئی۔ الیکس باہر نکلا اور کرسٹینا کو کہا کہ وہ اس سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔ کرسٹینا اور الیکس، فٹ پاتھ پر لگے ہوئے ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔ الیکس نے بارش اور اس بچے کی مدد کی پوری کہانی تفصیل سے سنائی۔ یہ بھی بتایا کہ پانچ ہزار ٹپ بھی اس نے دی تھی۔ کرسٹینا مکمل طور پر حیران رہ گئی کہ کوئی اس کے انسانی مدد کے واقعہ کو اتنی تفصیل سے دیکھ رہا تھا۔ بہرحال الیکس نے کہا کہ وہ کرسٹینا کوایک کام دینا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے دو لاکھ ڈالر رکھے ہوئے ہیں۔ کرسٹینا نے پریشانی سے کہا کہ وہ قطعاً دو لاکھ ڈالر نہیں لے سکتی۔

الیکس نے سنجیدگی سے کہا کہ پہلے کام کی نوعیت کو تو سن لیجیے پھر انکار کر دینا۔ الیکس نے کہا کہ وہ ایک ارب پتی انسان ہے مگر پیسے نے اسے کبھی اندرونی خوشی نہیں دی۔ جس دن، آپ بچے کی مدد کر رہی تھی، اسی دن مجھے پتہ چلا کہ اصل خوشی تو دوسروں کی بے لوث مدد کرنے میں ہے اور اس جذبہ کی بدولت ہے جس کی وجہ سے انسان لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔

میں ایک چھوٹا سا کیفے چلانا چاہتا ہوں جس کی مالک آپ ہوں گی۔ شرط صرف یہ ہے کہ کوئی بھی انسان پیسے نہ ہونے کی بدولت وہاں سے بھوکا واپس نہ جائے۔ کرسٹینا سوچ میں پڑگئی۔ الیکس نے کہا کہ آپ یہ نیا کیفے ضرور کھولیں اور انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر کام کیجیے۔ کرسٹینا بہت سوچ بچار کے بعد مان گئی۔ اور مین ہیٹن میں ہی ایک چھوٹا ساکیفے خرید کر کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ آفاقی مسکراہٹ کے ساتھ آرڈر لیتی تھی، کھانا پہنچاتی تھی، ٹیبل صاف کرتی تھی اور ہر ایک سے خوش اخلاقی سے پیش آتی تھی۔ ہاں، بندہ اگر کھانے کے پیسے نہیں دے سکتا تو وہ اس سے کوئی بھی پیسوں کا تقاضا نہیں کرتی تھی۔

یہ سچا واقعہ، دس برس پرانا ہے مگر یہ ہم سب لوگوں کے لیے ایک نصیحت ضرور چھوڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسانی خوشی کی بنیاد کیا ہے۔ خوش ہونے کا مطلب کیا ہے۔ خوشی کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔ کیا یہ بناوٹ یا تصنع یا نیکی کے پروپیگنڈے سے منسلک ہے۔ جناب، بالکل نہیں، قطعاً نہیں۔ دراصل انسان کو اندرونی مسرت صرف اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ عام لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ کسی جزا کے بغیر اجنبی افراد کی بے لوث مدد کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ خدا نے جو وسائل اسے مہیا کیے ہیں، وہ انھیں صرف اور صرف اپنے لیے استعمال نہیں کرتا بلکہ اس پر دوسرے مستحق لوگوں کا حق بھی مانتا ہے۔

سبق تو یہی ہے کہ لوگوں کے لیے آسانیاں در آسانیاں پیدا کی جائیں مگر یہاں سے کچھ ذہنی الجھنیں بھی شروع ہوتی ہیں۔ اگر انسان امیر نہیں ہے تو پھر وہ لوگوں کی کیسے مدد کر سکتا ہے۔ بالکل درست بات ہے کہ اگر ذاتی وسائل محدود ہیں تو آپ بذات خود عسرت کا شکار ہیں۔ تو پھر آپ کیونکر دوسروں کے کام آ سکتے ہیں۔

اس کا بہت سادہ سا حل ہے، جس پر کوئی پیسہ بھی خرچ نہیں ہوتا۔ آپ، جو بھی کام کر رہے ہیں، آپ اسے خوشگوار طریقے سے سرانجام دینا شروع کر دیجیے۔ لوگوں سے مسکرا کر بات کریں۔ درشت اور غصہ کے رویہ کو بھول جایئے۔ مثبت رویہ سے، قدرت کسی ایسے غیبی دروازہ کے کواڑ آپ کے لیے کھولے گی جس کا تصور بھی آپ نہیں کر سکتے۔ کسی بھی جزا کے بغیر، اپنے رویہ کو انسان دوست رکھیے۔ آپ کی زندگی بدل جائے گی۔ بذات خود، خوش رہنا شروع کر دیں گے۔

مشکلات اگر آتی بھی ہیں تو آپ کے اس رویہ کی بدولت، سرنگوں ہو جائیں گی۔ ذرا آگے چلیے۔ زندگی کا مقصد یہی ہے۔ زندگی ہے کیا؟ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مشکل امر یہ ہے کہ اس کے مقصد کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ دراصل زندگی دوسروں میں آسانیاں تقسیم کرنے کا نام ہے اور انسانی خوشی بھی اسی امر میں پوشیدہ ہے۔ آپ کسی اجنبی کی معمولی سی مشکل کو حل کر کے دیکھیے، آپ کی روح تک خوش ہو جائے گی۔ شخصیت مکمل ہونے لگے گی۔ ہاں ایک اور بات، مسکرا کر کام کرنا بھی ایک نیکی ہے۔

صرف یہ عرض کر رہا ہوں کہ دوسرے انسان کو حوصلہ دینا بھی اس کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔ کرسٹینا کی مثال اپنے سامنے رکھیے۔ دوسروں کی مدد صرف اور صرف انسانی ہمدردی کے تحت کیجیے۔ اسے جزا سے منسلک نہ کریں۔ اگر الیکس جیسا ارب پتی، آپ کو چھپ کر نہیں دیکھ رہا، تو خدا تو ضرور دیکھ رہا ہے، اس سے آگے آپ کو مزید کیا چاہیے!
راؤ منظر حیات
کے قلم سے
جزاک اللہ خیرا کثیرا
بالکل درست کہا۔ کسی کی مدد کرنے کے لیے ارب پتی ہونا ضروری نہیں ہے۔
کل دیکھا کہ کسی نے ادارے کی راہداری میں چیل کے بے حال بچے کو دیکھا۔ کتنی ہی دیر کچھ اللہ کے بندے اس بچے کے ساتھ لگے رہے۔ سر پہ پانی ڈال۔ پانی پلانے کی کوشش۔ نہلانے کی کوشش۔ وہ سب کس لیے اس کی مدد کر رہے تھے؟ اللہ کے لیے۔ اور کیا وہ سب ارب پتی تھے اور مدد کے لیے روپوں کی ضرورت تھی؟ ہرگز نہیں۔ نہ صرف وہ چیل کے بچے کی مدد کر رہے تھے بلکہ اسے اتنے پیار سے مخاطب کرتے کہ ان پہ پیار آنے لگتا۔
اللہ ان سب سے راضی ہو جو اللہ کی مخلوق کی مدد کرتے ہیں۔ آمین!
 
Top