زہیر عبّاس
محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو -اختتامیہ
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ناممکنات کا مستقبل - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بگ بینگ سے پہلے کے دور کا سراغ
بگ بینگ کے سلسلے میں سراغ رسان آلات کی ایک نئی نسل بنائی جا رہی ہے جو ان ازل سے موجود سوالات کا جواب دیں گے۔ خلاء میں موجود آج ہماری اشعاع کے سراغ رساں بگ بینگ کے تین لاکھ سال بعد پیدا ہونے والی ان خرد موجی شعاعوں کو ناپ سکتے ہیں جب پہلے جوہر بنے تھے۔ خرد موجوں کا استعمال کرکے ہم بگ بینگ کے بعد تین لاکھ برسوں سے پہلے کے دور کو نہیں جانچ سکتے کیونکہ اس سے پہلے والی شعاعیں بہت زیادہ گرم اور بے ترتیب تھیں اور ان سے ہمیں کسی بھی قسم کے کام کی اطلاعات حاصل نہیں ہو سکتیں۔
لیکن اگر ہم دوسری اقسام کی اشعاع کا تجزیہ کریں تو تب ہی ہمیں بگ بینگ سے قریب کے دور کی معلومات حاصل ہوں گی۔ مثال کے طور پر نیوٹرینو کا پیچھا کرتے ہوئے ہم بگ بینگ کے ابتدائی لمحے سے قریب ہو سکتے ہیں (نیوٹرینو اس قدر حیران کن ہوتے ہیں کہ وہ پورے سیسے سے بنے ہوئے نظام شمسی میں سے گزر سکتے ہیں )۔نیوٹرینو کی شعاعیں ہمیں بگ بینگ شروع ہونے کی چند لمحے پہلے تک لے جا سکتی ہیں۔
ممکن ہے کہ بگ بینگ کا سب سے بڑا راز ثقلی موجوں کے تجزیہ سے ہی پتا لگ سکے ، ثقلی موجیں جو مکان و زمان کی ساخت کے ساتھ ہی چلتی ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے طبیعیات دان راکی کولب (Rockey Kolb)کہتے ہیں ،"نیوٹرینو کے پس منظر کا تجزیہ کرنے کے بعد تو ہم بگ بینگ کے شروع ہونے کے ایک سیکنڈ کے بعد تک کے وقت کو دیکھ سکیں گے۔ تاہم ثقلی موجیں جو افراطی دور کی ہیں وہ اس وقت کی باقیات ہیں جب کائنات کی عمر بگ بینگ کے بعد ١٠-٣٥ سیکنڈ کی تھی۔"
ثقلی موجوں کا اندازہ سب سے پہلے آئن سٹائن نے ١٩١٦ء میں لگا لیا تھا؛ اور یہ موجیں بالآخر فلکیات کی دنیا میں وہ سب سے اہم کھوجی بن سکتی ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر نئی اشعاع کی دریافت کے ساتھ فلکیات کی دنیا میں ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلی اشعاع کی صورت بصری روشنی ہے جس کو گلیلیو نے نظام شمسی کی تفتیش کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ اشعاع کی دوسری قسم ریڈیائی موجیں تھیں جس کا سہارا لیتے ہوئے آخرکار ہم نے کہکشاؤں کے مرکزوں میں بلیک ہول کو تلاش کر لیا۔ ہو سکتا ہے کہ ثقلی موجی سراغ رساں تخلیق کے اہم رازوں پر سے پردہ اٹھا دیں۔
ایک طرح سے ثقلی موجوں کا وجود لازمی طور پر ہونا چاہئے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک پرانے سوال پر غور کیجئے :اس وقت کیا ہوگا جب سورج ایک دم سے غائب ہو جائے گا ؟نیوٹن کے مطابق ہمیں اس کا اثر فوری طور پر پتا لگ جائے گا۔ زمین فوری طور پر اپنے مدار سے نکل کر خلاء کی بیکراں گہرائیوں میں غائب ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیوٹن کی قوّت ثقل کا قانون سمتی رفتار کو خاطر میں نہیں لاتا لہٰذا قوّت ثقل پوری کائنات میں فوری طور پر نافذ العمل ہوتی ہے۔ مگر آئن سٹائن کے مطابق کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی ، لہٰذا سورج کے غائب ہونے کی اطلاع کو زمین تک پہنچنے میں ٨ منٹ لگیں گے۔ دوسرے الفاظ میں قوّت ثقل کی ایک کروی صدماتی موج سورج سے نمودار ہوتی ہوئی زمین تک پہنچے گی۔ ثقلی موجوں کے باہر کی دنیا میں ایسا لگے گا کہ جیسا سورج معمول کے مطابق چمک رہا ہے کیونکہ اس کی اطلاع ابھی تک زمین تک نہیں پہنچی ہوگی۔ ثقلی موجوں کے کرۂ کے اندر بہرحال سورج پہلے ہی غائب ہو چکا ہو گا کیونکہ کہ پھیلتی ہوئی ثقلی موجیں روشنی کی رفتار سے سفر کر رہی ہوں گی۔
ایک دوسرا طریقہ اور بھی ہے جو ثقلی موجوں کے لازمی وجود کی توجیح فراہم کرتا ہے ، ذرا ایک بڑی چادر کا تصوّر کریں ، آئن سٹائن کے مطابق مکان و زمان ایک ایسی ساخت ہے جس کو لپیٹا اور کھینچا بھی جا سکتا ہے جس طرح سے خمدار بستر کی چادر ہوتی ہے۔ اگر ہم بستر کی چادر کو پکڑ کر تیزی سے ہلائیں تو ہم دیکھیں گے موجیں اس کی سطح پر ایک مخصوص سمتی رفتار سے بہتی ہوئی دکھائی دیں گی۔ ثقلی موجیں بھی بعینہ ایسی ہوتی ہیں جو مکان و زمان کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ ثقلی موجیں طبیعیات کی دنیا میں زیر بحث ہونے والا آج کل سب سے زیادہ گرما گرم موضوع ہیں ۔
سب سے پہلے ٢٠٠٣ء میں بڑے پیمانے پر کے ثقلی موجوں کے سراغ رساں نے کام کرنا شروع کر دیا تھا جس کا نام لیگو (لیزر انٹرفیرو میٹر گریویٹیشنل ویو آ بزر ویٹری ) ہے ، اس کی لمبائی 2.5 میل ہے۔ ان میں سے ایک ہنفورڈ واشنگٹن میں ہے جبکہ دوسرا لیونگسٹون پیرش لوزیانا میں ہے۔ اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ لیگو جس کی لاگت ٣٦ کروڑ ٥٠ لاکھ ڈالر ہے؛ بلیک ہول اور نیوٹرون ستاروں سے نکلنے والی اشعاع کا سراغ لگا سکے گا۔
اس بارے میں اگلی بڑی پیش رفت ٢٠١٥ء میں ہوگی جب ایک پوری نئی سیارچوں کی کھیپ خلاء میں بھیجی جائی گی جو تخلیق کے فوری لمحے کے بعد کے وقت پیدا ہونے والی ثقلی اشعاع کو خلائے بسیط سے حاصل کرکے ان کا تجزیہ کریں گے۔ تین سیارچے مل کر لیزا (لیزر انٹرفیرو میٹر ا سپیس انٹینا ) کی صورت میں سورج کے مدار میں بھیجے جائیں گے۔ یہ ناسا اور یورپین ا سپیس ایجنسی کا مشترکہ منصوبہ ہے ۔ یہ سیارچے اتنی اہلیت کے حامل ہوں گے کہ بگ بینگ میں پید ا ہونے والی ثقلی موجوں کا سراغ اس کی پیدائش کے پہلے سیکنڈ کے دس کھربویں حصّہ تک لگا سکیں گے۔ اگر بگ بینگ کے وقت پیدا ہوئی ثقلی موجیں اب بھی کائنات میں گھوم رہی ہیں تو یہ کسی بھی سیارچے سے ٹکرا کر اس سے نکلنے والی لیزر کی کرن میں خلل ڈال دیں گی۔ یہ سیارچے لیزر کی کرن میں ہونے والے اس خلل کو بہت ہی درست انداز میں ناپ لیں گے نتیجتاً ہمیں تخلیق کے فی الفور لمحے کی نوزائیدہ کائنات کی تصویر حاصل ہو جائے گی۔
لیزا تین سیارچوں پر مشتمل ہے جو سورج کے گرد ایک تکون کی شکل میں چکر لگائیں گے ہر سیارچہ ایک ٣٠ لاکھ میل لمبی لیزر کی کرن سے جڑا ہوا ہوگا نتیجتاً یہ اب تک بننے والا سب سے بڑا آلہ ہوگا۔ یہ تین سیارچوں کا سلسلہ سورج کے گرد زمین سے ٣ کروڑ میل کی دوری پر چکر لگائے گا۔
ہر سیارچہ ایک لیزر کی کرن کو خارج کرے گا جس کی طاقت صرف آدھے واٹ کی ہوگی۔ دوسرے دونوں سیارچوں سے حاصل ہونے والی لیزر کی شعاعوں کا موازنہ کرکے ہر سیارچہ اس قابل ہو سکے گا کہ روشنی میں پڑنے والے خلل کا ایک خاکہ بنا سکے۔ اگر ثقلی موج لیزر کی کرن میں خلل ڈالے گی ، تو وہ روشنی کے اس خلل شدہ خاکے کو بدل دے گی اور اس طرح سے سیارچہ اس خلل کو ناپ سکے گا۔(ثقلی موجیں سیارچوں کو تھرتھرانے کے بجائے ان تینوں سیارچوں کے درمیان موجود خلاء کو مسخ کرے گی۔)
اگرچہ لیزر کی شعاعیں کافی کمزور ہوتی ہیں ، لیکن ان کی درستگی بہت ہی شاندار ہوگی۔ وہ ایک کھرب کے ایک کھربویں حصّہ تک کی تھرتھراہٹ کا سراغ لگا سکتی ہیں جو ایٹم کے حجم کا ایک بٹا ١٠٠ حصّہ ہے۔ ہر لیزر کی کرن ثقلی موج کا سراغ ٩ ارب نوری سال دوری سے لگا سکتی ہے یہ فاصلہ زیادہ تر قابل مشاہدہ کائنات کا احاطہ کرتا ہے۔
یہ لیزا اس قدر حساس ہوگی کہ وہ ممکنہ طور پر بگ بینگ سے پہلے کی مختلف صورتحالوں میں فرق کر سکے گی۔ نظری طبیعیات میں آج کل کا سب سے گرما گرم موضوع بگ بینگ سے پہلے کائنات کی خصوصیات کا حساب لگانا ہے۔ فی الوقت "افراط پذیر کائنات" کا نظریہ یا افراطی نظریہ بہت اچھی طرح سے بیان کر رہا ہے کہ کائنات بگ بینگ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد کیسے ارتقاء پذیر ہوئی۔ مگر افراط پذیر کائنات کا نظریہ یہ نہیں بتاتا کہ وہ کیا وجہ تھی جس نے بگ بینگ کو شروع کیا ۔ مقصد یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کے دور کو ان قیاس آرائیوں پر مبنی مفروضوں کا استعمال کرتے ہوئے بگ بینگ سے خارج ہوتی ہوئی ثقلی شعاعوں کا حساب لگایا جا سکے۔ بگ بینگ کے مختلف نظریوں میں سے ہر ایک مختلف قسم کا اندازہ پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر عظیم پھیلاؤ ( بگ اسپلیٹ) نظریہ میں بتائی جانی والی بگ بینگ کی اشعاع اس سے مختلف ہوگی جو افراط کے کچھ دوسرے نظریئے بتاتے ہیں ، لہٰذا اس بات کی قوی امید ہے کہ لیزا ان میں سے کافی نظریوں کو رد کر دے گی۔ ایک بات تو نہایت واضح ہے کہ یہ بگ بینگ سے پہلے کے نمونے براہ راست جانچے نہیں جا سکتے کیونکہ اس میں وقت کی تخلیق سے پہلے کی کائنات کو سمجھنا ہے۔ تاہم ہم ان کو بالواسطہ طور پر اس لئے جانچ سکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک نظریہ بگ بینگ کے بعد نکلنے والے مختلف شعاعوں کے طیف کا اندازہ لگاتا ہے۔
طبیعیات دان کپ تھورن لکھتے ہیں ،"٢٠٠٨ء سے لے کر ٢٠٣٠ء کے درمیان کسی بھی وقت بگ بینگ کی وحدانیت کی ثقلی موجوں کو دریافت کرلیا جائے گا۔ اس کے بعد آنے والا دور کم از کم ٢٠٥٠ء تک چلے گا۔۔۔۔یہ کوششیں بگ بینگ وحدانیت کی ابتدائی تفصیلات کو ظاہر کر دیں گی اور اس سے حاصل کردہ نتائج کی روشنی میں تصدیق ہوگی کہ کچھ اسٹرنگ نظریئے ہی قوّت ثقل کے کوانٹم کے درست نظریئے ہیں ۔"
اگر لیزا بگ بینگ سے پہلے کے نظریوں میں فرق کرنے میں ناکام ہو گئی ، تو اس کا جانشین ، دی بگ بینگ آبزرور (بی بی او ) شاید یہ کام کر سکے۔ اس کو اندازاً٢٠٢٥ء میں بھیجا جائے گا۔ بی بی او اس قابل ہوگا کہ وہ مکمل کائنات کا جائزہ لے سکے اس میں وہ تمام ثنائی نظام بشمول نیوٹرون ستارے اور بلیک ہول جن کی کمیت سورج سے ایک ہزار گنا کم ہے؛ شامل ہوں گے۔ اس کا اہم مقصد بگ بینگ کے افراطی دور سے خارج ہونے والی ثقلی موجوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس طرح سے ، بی بی او کو خاص اس مقصد کے لئے بنایا گیا ہے کہ بگ بینگ کے دور میں ہونے والے افراط پذیر کائنات کے مرحلے کے نظریئے کی صحیح طرح سے کھوج کر سکے۔
بی بی او صورت گری میں ایک طرح سے لیزا کے جیسا ہی ہے۔ اس میں تین سیارچے شامل ہوں گے جو سورج کے گرد مدار میں چکر لگا رہے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا ایک دوسرے سے فاصلہ ٥٠ ہزار کلو میٹر کا ہوگا (یہ سیارچے ایک دوسرے سے لیزا کی با نسبت کافی قریب ہوں گے )۔ ان میں سے ہر ایک سیارچہ اس قابل ہوگا کہ وہ ایک ٣٠٠ واٹ کی طاقت کی لیزر کی کرن کو داغ سکے۔ بی بی او اس قابل ہوگا کہ ثقلی موجوں کے تعدد کو لیگو اور لیزا کے درمیان میں کھوج سکے اس طرح سے یہ ایک اہم فاصلے کو پاٹ سکے گا۔(لیزا ثقلی موجوں کا سراغ ١٠ سے ٣٠٠٠ ہرٹز تک ، جبکہ لیگو ثقلی موجوں کا سراغ ١٠ مائیکرو ہرٹز سے ١٠ ملی ہرٹز تک لگا سکتا ہے۔ بی بی او ان تعدد ارتعاش میں ثقلی موجوں کا سراغ لگائے گا جس میں یہ دونوں شامل ہیں۔)
"٢٠٤٠ء تک ہم ان قوانین (کوانٹم کی ثقل ) کا استعمال کرتے ہوئے گہرے اور پریشان کن سوالات کے پر اعتماد جواب حاصل کر لیں گے،"تھرون لکھتا ہے ،"بشمول ۔۔۔۔۔ بگ بینگ وحدانیت سے پہلے کیا تھا یا اس وقت کوئی ایسی چیز بھی تھی کہ جیسے "قبل "؟ کیا دوسری کائناتیں بھی ہیں ؟اور اگر ایسا ہے تو وہ کس طرح سے ہماری کائنات سے ملی یا جڑی ہوئی ہیں؟۔۔۔۔کیا طبیعیات کے قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جدید درجے کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیبیں ثقف کرم کو بین النجم سفر کے لئے بنا کر قائم رکھ سکیں یا وہ کس طرح سے وہ وقت میں پیچھے کی طرف سفر کرنے کے لئے ٹائم مشین کو بناتے ہیں ؟"
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگلے چند عشروں میں خلاء میں موجود ثقلی موجی سراغ رسانوں سے حاصل ہوئے اتنے اعداد و شمار موجود ہوں گے جو مختلف قسم کے بگ بینگ کے نظریات میں تفریق کر سکیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ناممکنات کا مستقبل - حصّہ دوم
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
بگ بینگ سے پہلے کے دور کا سراغ
بگ بینگ کے سلسلے میں سراغ رسان آلات کی ایک نئی نسل بنائی جا رہی ہے جو ان ازل سے موجود سوالات کا جواب دیں گے۔ خلاء میں موجود آج ہماری اشعاع کے سراغ رساں بگ بینگ کے تین لاکھ سال بعد پیدا ہونے والی ان خرد موجی شعاعوں کو ناپ سکتے ہیں جب پہلے جوہر بنے تھے۔ خرد موجوں کا استعمال کرکے ہم بگ بینگ کے بعد تین لاکھ برسوں سے پہلے کے دور کو نہیں جانچ سکتے کیونکہ اس سے پہلے والی شعاعیں بہت زیادہ گرم اور بے ترتیب تھیں اور ان سے ہمیں کسی بھی قسم کے کام کی اطلاعات حاصل نہیں ہو سکتیں۔
لیکن اگر ہم دوسری اقسام کی اشعاع کا تجزیہ کریں تو تب ہی ہمیں بگ بینگ سے قریب کے دور کی معلومات حاصل ہوں گی۔ مثال کے طور پر نیوٹرینو کا پیچھا کرتے ہوئے ہم بگ بینگ کے ابتدائی لمحے سے قریب ہو سکتے ہیں (نیوٹرینو اس قدر حیران کن ہوتے ہیں کہ وہ پورے سیسے سے بنے ہوئے نظام شمسی میں سے گزر سکتے ہیں )۔نیوٹرینو کی شعاعیں ہمیں بگ بینگ شروع ہونے کی چند لمحے پہلے تک لے جا سکتی ہیں۔
ممکن ہے کہ بگ بینگ کا سب سے بڑا راز ثقلی موجوں کے تجزیہ سے ہی پتا لگ سکے ، ثقلی موجیں جو مکان و زمان کی ساخت کے ساتھ ہی چلتی ہیں۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے طبیعیات دان راکی کولب (Rockey Kolb)کہتے ہیں ،"نیوٹرینو کے پس منظر کا تجزیہ کرنے کے بعد تو ہم بگ بینگ کے شروع ہونے کے ایک سیکنڈ کے بعد تک کے وقت کو دیکھ سکیں گے۔ تاہم ثقلی موجیں جو افراطی دور کی ہیں وہ اس وقت کی باقیات ہیں جب کائنات کی عمر بگ بینگ کے بعد ١٠-٣٥ سیکنڈ کی تھی۔"
ثقلی موجوں کا اندازہ سب سے پہلے آئن سٹائن نے ١٩١٦ء میں لگا لیا تھا؛ اور یہ موجیں بالآخر فلکیات کی دنیا میں وہ سب سے اہم کھوجی بن سکتی ہیں ۔ تاریخ شاہد ہے کہ ہر نئی اشعاع کی دریافت کے ساتھ فلکیات کی دنیا میں ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔ سب سے پہلی اشعاع کی صورت بصری روشنی ہے جس کو گلیلیو نے نظام شمسی کی تفتیش کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ اشعاع کی دوسری قسم ریڈیائی موجیں تھیں جس کا سہارا لیتے ہوئے آخرکار ہم نے کہکشاؤں کے مرکزوں میں بلیک ہول کو تلاش کر لیا۔ ہو سکتا ہے کہ ثقلی موجی سراغ رساں تخلیق کے اہم رازوں پر سے پردہ اٹھا دیں۔
ایک طرح سے ثقلی موجوں کا وجود لازمی طور پر ہونا چاہئے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے ایک پرانے سوال پر غور کیجئے :اس وقت کیا ہوگا جب سورج ایک دم سے غائب ہو جائے گا ؟نیوٹن کے مطابق ہمیں اس کا اثر فوری طور پر پتا لگ جائے گا۔ زمین فوری طور پر اپنے مدار سے نکل کر خلاء کی بیکراں گہرائیوں میں غائب ہو جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیوٹن کی قوّت ثقل کا قانون سمتی رفتار کو خاطر میں نہیں لاتا لہٰذا قوّت ثقل پوری کائنات میں فوری طور پر نافذ العمل ہوتی ہے۔ مگر آئن سٹائن کے مطابق کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر نہیں کر سکتی ، لہٰذا سورج کے غائب ہونے کی اطلاع کو زمین تک پہنچنے میں ٨ منٹ لگیں گے۔ دوسرے الفاظ میں قوّت ثقل کی ایک کروی صدماتی موج سورج سے نمودار ہوتی ہوئی زمین تک پہنچے گی۔ ثقلی موجوں کے باہر کی دنیا میں ایسا لگے گا کہ جیسا سورج معمول کے مطابق چمک رہا ہے کیونکہ اس کی اطلاع ابھی تک زمین تک نہیں پہنچی ہوگی۔ ثقلی موجوں کے کرۂ کے اندر بہرحال سورج پہلے ہی غائب ہو چکا ہو گا کیونکہ کہ پھیلتی ہوئی ثقلی موجیں روشنی کی رفتار سے سفر کر رہی ہوں گی۔
ایک دوسرا طریقہ اور بھی ہے جو ثقلی موجوں کے لازمی وجود کی توجیح فراہم کرتا ہے ، ذرا ایک بڑی چادر کا تصوّر کریں ، آئن سٹائن کے مطابق مکان و زمان ایک ایسی ساخت ہے جس کو لپیٹا اور کھینچا بھی جا سکتا ہے جس طرح سے خمدار بستر کی چادر ہوتی ہے۔ اگر ہم بستر کی چادر کو پکڑ کر تیزی سے ہلائیں تو ہم دیکھیں گے موجیں اس کی سطح پر ایک مخصوص سمتی رفتار سے بہتی ہوئی دکھائی دیں گی۔ ثقلی موجیں بھی بعینہ ایسی ہوتی ہیں جو مکان و زمان کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ ثقلی موجیں طبیعیات کی دنیا میں زیر بحث ہونے والا آج کل سب سے زیادہ گرما گرم موضوع ہیں ۔
سب سے پہلے ٢٠٠٣ء میں بڑے پیمانے پر کے ثقلی موجوں کے سراغ رساں نے کام کرنا شروع کر دیا تھا جس کا نام لیگو (لیزر انٹرفیرو میٹر گریویٹیشنل ویو آ بزر ویٹری ) ہے ، اس کی لمبائی 2.5 میل ہے۔ ان میں سے ایک ہنفورڈ واشنگٹن میں ہے جبکہ دوسرا لیونگسٹون پیرش لوزیانا میں ہے۔ اس بات کی امید کی جا رہی ہے کہ لیگو جس کی لاگت ٣٦ کروڑ ٥٠ لاکھ ڈالر ہے؛ بلیک ہول اور نیوٹرون ستاروں سے نکلنے والی اشعاع کا سراغ لگا سکے گا۔
اس بارے میں اگلی بڑی پیش رفت ٢٠١٥ء میں ہوگی جب ایک پوری نئی سیارچوں کی کھیپ خلاء میں بھیجی جائی گی جو تخلیق کے فوری لمحے کے بعد کے وقت پیدا ہونے والی ثقلی اشعاع کو خلائے بسیط سے حاصل کرکے ان کا تجزیہ کریں گے۔ تین سیارچے مل کر لیزا (لیزر انٹرفیرو میٹر ا سپیس انٹینا ) کی صورت میں سورج کے مدار میں بھیجے جائیں گے۔ یہ ناسا اور یورپین ا سپیس ایجنسی کا مشترکہ منصوبہ ہے ۔ یہ سیارچے اتنی اہلیت کے حامل ہوں گے کہ بگ بینگ میں پید ا ہونے والی ثقلی موجوں کا سراغ اس کی پیدائش کے پہلے سیکنڈ کے دس کھربویں حصّہ تک لگا سکیں گے۔ اگر بگ بینگ کے وقت پیدا ہوئی ثقلی موجیں اب بھی کائنات میں گھوم رہی ہیں تو یہ کسی بھی سیارچے سے ٹکرا کر اس سے نکلنے والی لیزر کی کرن میں خلل ڈال دیں گی۔ یہ سیارچے لیزر کی کرن میں ہونے والے اس خلل کو بہت ہی درست انداز میں ناپ لیں گے نتیجتاً ہمیں تخلیق کے فی الفور لمحے کی نوزائیدہ کائنات کی تصویر حاصل ہو جائے گی۔
لیزا تین سیارچوں پر مشتمل ہے جو سورج کے گرد ایک تکون کی شکل میں چکر لگائیں گے ہر سیارچہ ایک ٣٠ لاکھ میل لمبی لیزر کی کرن سے جڑا ہوا ہوگا نتیجتاً یہ اب تک بننے والا سب سے بڑا آلہ ہوگا۔ یہ تین سیارچوں کا سلسلہ سورج کے گرد زمین سے ٣ کروڑ میل کی دوری پر چکر لگائے گا۔
ہر سیارچہ ایک لیزر کی کرن کو خارج کرے گا جس کی طاقت صرف آدھے واٹ کی ہوگی۔ دوسرے دونوں سیارچوں سے حاصل ہونے والی لیزر کی شعاعوں کا موازنہ کرکے ہر سیارچہ اس قابل ہو سکے گا کہ روشنی میں پڑنے والے خلل کا ایک خاکہ بنا سکے۔ اگر ثقلی موج لیزر کی کرن میں خلل ڈالے گی ، تو وہ روشنی کے اس خلل شدہ خاکے کو بدل دے گی اور اس طرح سے سیارچہ اس خلل کو ناپ سکے گا۔(ثقلی موجیں سیارچوں کو تھرتھرانے کے بجائے ان تینوں سیارچوں کے درمیان موجود خلاء کو مسخ کرے گی۔)
اگرچہ لیزر کی شعاعیں کافی کمزور ہوتی ہیں ، لیکن ان کی درستگی بہت ہی شاندار ہوگی۔ وہ ایک کھرب کے ایک کھربویں حصّہ تک کی تھرتھراہٹ کا سراغ لگا سکتی ہیں جو ایٹم کے حجم کا ایک بٹا ١٠٠ حصّہ ہے۔ ہر لیزر کی کرن ثقلی موج کا سراغ ٩ ارب نوری سال دوری سے لگا سکتی ہے یہ فاصلہ زیادہ تر قابل مشاہدہ کائنات کا احاطہ کرتا ہے۔
یہ لیزا اس قدر حساس ہوگی کہ وہ ممکنہ طور پر بگ بینگ سے پہلے کی مختلف صورتحالوں میں فرق کر سکے گی۔ نظری طبیعیات میں آج کل کا سب سے گرما گرم موضوع بگ بینگ سے پہلے کائنات کی خصوصیات کا حساب لگانا ہے۔ فی الوقت "افراط پذیر کائنات" کا نظریہ یا افراطی نظریہ بہت اچھی طرح سے بیان کر رہا ہے کہ کائنات بگ بینگ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد کیسے ارتقاء پذیر ہوئی۔ مگر افراط پذیر کائنات کا نظریہ یہ نہیں بتاتا کہ وہ کیا وجہ تھی جس نے بگ بینگ کو شروع کیا ۔ مقصد یہ ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کے دور کو ان قیاس آرائیوں پر مبنی مفروضوں کا استعمال کرتے ہوئے بگ بینگ سے خارج ہوتی ہوئی ثقلی شعاعوں کا حساب لگایا جا سکے۔ بگ بینگ کے مختلف نظریوں میں سے ہر ایک مختلف قسم کا اندازہ پیش کرتا ہے۔ مثال کے طور پر عظیم پھیلاؤ ( بگ اسپلیٹ) نظریہ میں بتائی جانی والی بگ بینگ کی اشعاع اس سے مختلف ہوگی جو افراط کے کچھ دوسرے نظریئے بتاتے ہیں ، لہٰذا اس بات کی قوی امید ہے کہ لیزا ان میں سے کافی نظریوں کو رد کر دے گی۔ ایک بات تو نہایت واضح ہے کہ یہ بگ بینگ سے پہلے کے نمونے براہ راست جانچے نہیں جا سکتے کیونکہ اس میں وقت کی تخلیق سے پہلے کی کائنات کو سمجھنا ہے۔ تاہم ہم ان کو بالواسطہ طور پر اس لئے جانچ سکتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک نظریہ بگ بینگ کے بعد نکلنے والے مختلف شعاعوں کے طیف کا اندازہ لگاتا ہے۔
طبیعیات دان کپ تھورن لکھتے ہیں ،"٢٠٠٨ء سے لے کر ٢٠٣٠ء کے درمیان کسی بھی وقت بگ بینگ کی وحدانیت کی ثقلی موجوں کو دریافت کرلیا جائے گا۔ اس کے بعد آنے والا دور کم از کم ٢٠٥٠ء تک چلے گا۔۔۔۔یہ کوششیں بگ بینگ وحدانیت کی ابتدائی تفصیلات کو ظاہر کر دیں گی اور اس سے حاصل کردہ نتائج کی روشنی میں تصدیق ہوگی کہ کچھ اسٹرنگ نظریئے ہی قوّت ثقل کے کوانٹم کے درست نظریئے ہیں ۔"
اگر لیزا بگ بینگ سے پہلے کے نظریوں میں فرق کرنے میں ناکام ہو گئی ، تو اس کا جانشین ، دی بگ بینگ آبزرور (بی بی او ) شاید یہ کام کر سکے۔ اس کو اندازاً٢٠٢٥ء میں بھیجا جائے گا۔ بی بی او اس قابل ہوگا کہ وہ مکمل کائنات کا جائزہ لے سکے اس میں وہ تمام ثنائی نظام بشمول نیوٹرون ستارے اور بلیک ہول جن کی کمیت سورج سے ایک ہزار گنا کم ہے؛ شامل ہوں گے۔ اس کا اہم مقصد بگ بینگ کے افراطی دور سے خارج ہونے والی ثقلی موجوں کا جائزہ لینا ہوگا۔ اس طرح سے ، بی بی او کو خاص اس مقصد کے لئے بنایا گیا ہے کہ بگ بینگ کے دور میں ہونے والے افراط پذیر کائنات کے مرحلے کے نظریئے کی صحیح طرح سے کھوج کر سکے۔
بی بی او صورت گری میں ایک طرح سے لیزا کے جیسا ہی ہے۔ اس میں تین سیارچے شامل ہوں گے جو سورج کے گرد مدار میں چکر لگا رہے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کا ایک دوسرے سے فاصلہ ٥٠ ہزار کلو میٹر کا ہوگا (یہ سیارچے ایک دوسرے سے لیزا کی با نسبت کافی قریب ہوں گے )۔ ان میں سے ہر ایک سیارچہ اس قابل ہوگا کہ وہ ایک ٣٠٠ واٹ کی طاقت کی لیزر کی کرن کو داغ سکے۔ بی بی او اس قابل ہوگا کہ ثقلی موجوں کے تعدد کو لیگو اور لیزا کے درمیان میں کھوج سکے اس طرح سے یہ ایک اہم فاصلے کو پاٹ سکے گا۔(لیزا ثقلی موجوں کا سراغ ١٠ سے ٣٠٠٠ ہرٹز تک ، جبکہ لیگو ثقلی موجوں کا سراغ ١٠ مائیکرو ہرٹز سے ١٠ ملی ہرٹز تک لگا سکتا ہے۔ بی بی او ان تعدد ارتعاش میں ثقلی موجوں کا سراغ لگائے گا جس میں یہ دونوں شامل ہیں۔)
"٢٠٤٠ء تک ہم ان قوانین (کوانٹم کی ثقل ) کا استعمال کرتے ہوئے گہرے اور پریشان کن سوالات کے پر اعتماد جواب حاصل کر لیں گے،"تھرون لکھتا ہے ،"بشمول ۔۔۔۔۔ بگ بینگ وحدانیت سے پہلے کیا تھا یا اس وقت کوئی ایسی چیز بھی تھی کہ جیسے "قبل "؟ کیا دوسری کائناتیں بھی ہیں ؟اور اگر ایسا ہے تو وہ کس طرح سے ہماری کائنات سے ملی یا جڑی ہوئی ہیں؟۔۔۔۔کیا طبیعیات کے قوانین اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ جدید درجے کی انتہائی ترقی یافتہ تہذیبیں ثقف کرم کو بین النجم سفر کے لئے بنا کر قائم رکھ سکیں یا وہ کس طرح سے وہ وقت میں پیچھے کی طرف سفر کرنے کے لئے ٹائم مشین کو بناتے ہیں ؟"
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگلے چند عشروں میں خلاء میں موجود ثقلی موجی سراغ رسانوں سے حاصل ہوئے اتنے اعداد و شمار موجود ہوں گے جو مختلف قسم کے بگ بینگ کے نظریات میں تفریق کر سکیں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔