انٹر نیٹ سے چنیدہ

سید عمران

محفلین
#کراچی کیا تھا

یہ مجھے ایک سابق امریکی سفارت کار نے بتایا‘ میں2002ء میں سیر کے لیے امریکا گیا‘ میرے دوست مجھے نیویارک میں ایک بوڑھے امریکی سفارت کار کے گھر لے گئے‘ یہ صدر ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو تک پاکستان میں تعینات رہا اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد پاکستان سے لاطینی امریکا ٹرانسفر ہو گیا‘ یہ 2002ء میں ریٹائر زندگی گزار رہا تھا۔
میں اس کی اسٹڈی میں اس کے سامنے بیٹھ گیا ‘ وہ بیتے دنوں کی راکھ کریدنے لگا‘ اس نے بتایا کراچی60ء کی دہائی میں دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا‘ یہ پرامن ترین شہر تھا‘ دنیا جہاں کے سفارت کار‘ سیاح اور ہپی شہر میں کھلے پھرتے تھے‘ ہوٹلز‘ ڈسکوز اور بازار آباد تھے‘ کراچی کا ساحل دنیا کے دس شاندار ساحلوں میں تھا‘ پی آئی اے دنیا کی چار بڑی ائیر لائینز میں آتی تھی‘ یورپ‘ امریکا‘ مشرق بعید‘ عرب ممالک‘ سوویت یونین‘ جاپان اور بھارت جانے والے تمام جہاز کراچی اترتے تھے اور مسافر کراچی کے بازاروں میں ایک دو گھنٹے گزار کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتے تھے‘ شہر میں ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں‘ حکومت نے انڈر گرائونڈ ٹرین کے لیے شہر میں کھدائی مکمل کروا دی تھی اور یوں کراچی ایشیا کا پہلا شہر بننے والا تھا۔
جس میں میٹرو کی سہولت ہوتی‘ کراچی کی روشنیاں رات کو دن میں بدل دیتی تھیں‘ ہم تمام سفارت کار کراچی کو روشنیوں کا شہر کہتے تھے‘ کراچی کے بیچ بھی لاجواب تھے‘ ہم گورے ہفتہ اور اتوار کا دن بیچ کی گرم ریت پر لیٹ کر گزارتے تھے‘ ہم ساحل کے ساتھ ساتھ سائیکل بھی چلاتے تھے‘ کراچی میں دنیا بھر سے بحری جہاز آتے تھے اور ان بحری جہازوں کے ذریعے ہزاروں مسافر کراچی آتے تھے‘ کراچی خطے کا جنکشن بھی تھا‘ یورپ سے لوگ ٹرین کے ذریعے استنبول آتے تھے‘ استنبول سے تہران‘ تہران سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی آتے تھے‘ کراچی میں رک کر ٹرین کے ذریعے انڈیا چلے جاتے تھے اور وہاں سے سری لنکا‘ نیپال اور بھوٹان تک پہنچ جاتے تھے۔
کراچی میں دنیا کی جدید ترین مصنوعات ملتی تھیں‘ میں نے زندگی کا پہلا ٹیپ ریکارڈر‘ پہلا رنگین ٹی وی اور پہلا ہیوی موٹر بائیک کراچی سے خریدا ‘ کراچی بڑی گاڑیوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہوتا تھا۔ جاپان‘ یورپ اور امریکا سے مہنگی گاڑیاں کراچی آتی تھیں اور کراچی کے سیٹھ باقاعدہ بولی دے کر یہ گاڑیاں خریدتے تھے‘ کراچی کا ریلوے اسٹیشن دنیا کے بہترین اسٹیشنوں میں شمار ہوتا تھا‘ ٹرینیں جدید‘ صاف ستھری اور آرام دہ تھیں اور ٹرینوں کے اندر کھانا بھی صاف ستھرا اور معیاری ملتا تھا‘ ہم میں سے زیادہ تر سفارت کار ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں قیام کے منصوبے بناتے تھے‘ ہم لوگ کراچی میں پراپرٹی خریدنے کی کوشش بھی کرتے تھے‘ شہر صاف ستھرا تھا‘ فضا بہت اچھی تھی‘ سردیوں اور گرمیوں دونوں میں درجہ حرارت معتدل رہتا تھا‘ بیورو کریسی پڑھی لکھی۔
محب وطن اور کوآپریٹو تھی اور حکومتی عہدیدار اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کلچرڈ تھے‘ میں نے ایوب خان کے ایک مشیر کے گھر اپنی زندگی کی سب سے بڑی پرائیویٹ لائبریری دیکھی تھی‘ لوگ بہت مہمان نواز تھے‘ شہر میں کسی قسم کی ٹینشن اور خوف نہیں تھا‘ کراچی کے کسی سفارتخانے کے سامنے سیکیورٹی گارڈ یا پولیس نہیں ہوتی تھی‘ ہم اپنے ہاتھ سے سفارتخانے کا گیٹ کھولتے تھے اور یہ گیٹ خود بند کرتے تھے‘ پاکستان کے لیے کسی ملک کے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی‘ پاکستانی شہری جہاز میں سوار ہوتے تھے‘ یورپ کے ممالک میں اترتے تھے اور انھیں ائیرپورٹ پر ویزہ مل جاتا تھا‘ اس کی وجہ بہت دلچسپ تھی‘ پاکستان اس وقت دنیا کا واحد ملک تھا جس میں صرف ان لوگوں کو پاسپورٹ دیا جاتا تھا جو واقعی جینوئن مسافر ہوتے تھے‘ پاکستانی شہریوں کو پاسپورٹ کے حصول کے لیے اپنے خوش حال ہونے‘ صاحب جائیداد ہونے اور سفر کی وجوہات کے ثبوت دینا پڑتے تھے۔
چنانچہ پاکستان کے جس شہری کے پاس پاسپورٹ ہوتا تھا‘ اس کا مطلب ہوتا تھا ‘وہ صاحب حیثیت جینوئن مسافر ہے لہٰذا تمام ممالک اسے ’’ آن ارائیول‘‘ ویزہ دے دیتے تھے‘ پاکستان کا معیار تعلیم پورے خطے میں بلند تھا‘ طالب علم یورپ‘ عرب ممالک‘ افریقہ‘ مشرق بعید‘ ایران‘ افغانستان اور چین سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان آتے تھے اور کراچی اور لاہور کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخل ہوجاتے تھے‘ امریکا اور یورپ کے پروفیسر روزگار کے لیے پاکستان کا رخ کرتے تھے‘ کراچی شہر میں ایک ہزار کے قریب غیر ملکی ڈاکٹر‘ طبیب اور پروفیسر تھے‘ پاکستان کا بینکنگ سسٹم جدید اور فول پروف تھا‘ بجلی‘ ٹیلی فون اور گیس کاانتظام بہت اچھا تھا‘ سیوریج سسٹم شاندار تھا‘ کراچی میں بارش کے آدھ گھنٹے بعد سڑکیں خشک ہو جاتی تھیں‘ روزگار کے مواقع عام تھے‘ فیکٹریاں لگ رہی تھیں اور مال ایکسپورٹ ہو رہا تھا‘ ٹیلی ویژن نیا نیا آیا تھا چنانچہ کراچی کی چھتوں پر انٹینوں کی لمبی قطاریں دکھائی دیتی تھیں۔
ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے عہدیدار اس وقت امریکی ایمبیسی آتے تھے اور ہمیں کہتے تھے تم کسی طرح پاکستانی حکومت کو قرضہ لینے پر مجبور کرو‘ ہم وزیر خزانہ سے بات کرتے تھے تو وہ کہتا تھا ’’ہمیں ضرورت ہی نہیں‘ ہم پیسے لے کر کیا کریں گے‘‘یہاں پہنچ کر امریکی سفارت کار نے لمبی آہ بھری اور حسرت سے کہا ’’ ہم سفارت کار اس وقت ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کراچی 1980ء تک پہنچ کر دنیا کا سب سے بڑا شہر ہو گا یا لندن اور نیویارک اور ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا‘ ‘ اس کے بعد اس سفارت کار نے ایک اور لمبی آہ بھری اور کہا ’’ میں آج ٹی وی پر کراچی کے حالات دیکھتا ہوں یا پھر اس کے بارے میں خبریں پڑھتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے اور میں بڑی دیر تک سوچتا رہتا ہوں کیا واقعی یہ وہی شہر ہے میں جس میں پندرہ سال رہا اور میں جسے دنیا کا شاندار ترین شہر سمجھتا تھا‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
چار نمبر کے محاورے 😅😅

ہماری زندگی میں 4 نمبر بہت اہم ہے

جیسے:

4 دن کی چاندنی پھر اندھیری رات۔

4 کتابیں ...کیا پڑھ لیں خود کو گورنر سمجنے لگا۔

4 پیسے کمائیں گے تب پتہ چلے گا۔

4-4 پیسے میں بکتی ہے، آج کے زمانے میں ایمانداری۔

آخر ہماری بھی 4 لوگوں میں عزت ہے۔

یہ بات 4 لوگ سنیں گے تو کیا سوچیں گے؟

4 دنوں کی آئی ہوئی بہو کے ایسے تیور ۔

وہ آئی اور 4 باتیں سنا کر چلی گئی۔

تم سے تو 4 چار قدم بھی نہیں چلا جاتا۔

آنکھیں 4 ہو گئیں۔

4 چاند لگا دئیے۔

عمر دراز مانگ کے لائے تھے4 دن
2 آرزو میں کٹ گئے ، 2 انتظار میں
واہ واہ
چار چاند لگ گئیے چار بیگمات سے ⭐️⭐️⭐️⭐️
 

سیما علی

لائبریرین
کراچی کے حالات دیکھتا ہوں یا پھر اس کے بارے میں خبریں پڑھتا ہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتا ہے اور میں بڑی دیر تک سوچتا رہتا ہوں کیا واقعی یہ وہی شہر ہے میں جس میں پندرہ سال رہا اور میں جسے دنیا کا شاندار ترین شہر سمجھتا تھا‘‘
ابھی بھی ایسا خطرناک نہیں ہے جتنا خبروں اور میڈیا نے بنا دیا ہے ۔۔۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ابھی بھی ایسا خطرناک نہیں ہے جتنا خبروں اور میڈیا نے بنا دیا ہے ۔۔۔۔
وہ تو آپ لوگوں کو علم ہو گا جو کراچی میں رہتے ہیں۔ لیکن خبروں سے کراچی کا جو تصور ہمارے ذہنوں میں بنتا ہے۔ وہ تو دہلا دینے والا ہوتا ہے کہ سگنلز پر رکی ہوئی بائیکس اور گاڑیاں لوٹ لی جاتی ہیں۔
اور ایسے ہی خبروں نے ہمارے علاقے کا تصور لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا رکھا ہے جیسے ہمارا علاقہ ایک ٹرائبل ایریا ہو۔ اور وہاں ہر کوئی مسلح گھومتا ہو۔ اور جسے چاہے اڑا دے۔
الحمدللہ اب تو پاکستانی کا ماحول کافی اچھا ہو گیا اور اللہ پاک اسے مزید امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنائے۔ جب پاکستان میں توزانہ کی بنیاد پر دھماکے ہو رہے تھے۔ ہر جمعہ کے دن کسی نے کسی مسجد میں ایک بڑا دھماکہ ہونا تو معمول سا بن گیا تھا۔ ہم سے دوسرے ملکوں کے لوگ حیرانی سے پوچھا کرتے تھے کہ تمہیں اپنے ملک میں ڈر نہیں لگتا۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بعضے واقعات جتھوں کے ہاتھوں لوگوں کے قتل کے سنائی دیتے ہیں جسے لوگ اسلام کے نام پر تھوپ دیا جاتا ہے۔ لاہور کا ہی واقعہ ہے جہاں ایک مسلمان کو عیسائیوں نے مار مار کے جلا دیا۔ اس کے بعد بھی اس کی لاش کا سڑکوں پر تماشا کرتے رہے۔ اب کوئی کیا یہ بتا سکتا ہے کہ ان عیسائیوں کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔ ہمارا سسٹم ہی اتنا ناکارہ ہے۔ جو مدارس والوں کی وجہ سے نہیں بلکہ سکول کالجوں سے پڑھے لکھوں سے یا پھر مغرب کی عطاء کردہ جمہوریت یا وڈیرہ شاہی سسٹم کی کارستانی ہے۔ پھر بھی ہمیشہ گالی مولوی کو پڑتی ہے کہ اسی کی وجہ سے ترقی نہ ہوئی۔
 

سید عمران

محفلین
انتہاء تو یہ ہے کہ خود سرکار کی جانب سے ببانگ دہل اعلان شائع ہوتے ہیں کہ فلاں سرکاری ملازمتوں کے لیے کراچی والے اپلائی نہ کریں!!!
 

سیما علی

لائبریرین
وہ تو آپ لوگوں کو علم ہو گا جو کراچی میں رہتے ہیں۔ لیکن خبروں سے کراچی کا جو تصور ہمارے ذہنوں میں بنتا ہے۔ وہ تو دہلا دینے والا ہوتا ہے کہ سگنلز پر رکی ہوئی بائیکس اور گاڑیاں لوٹ لی جاتی ہیں۔
اور ایسے ہی خبروں نے ہمارے علاقے کا تصور لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا رکھا ہے جیسے ہمارا علاقہ ایک ٹرائبل ایریا ہو۔ اور وہاں ہر کوئی مسلح گھومتا ہو۔ اور جسے چاہے اڑا دے۔
الحمدللہ اب تو پاکستانی کا ماحول کافی اچھا ہو گیا اور اللہ پاک اسے مزید امن اور خوشحالی کا گہوارہ بنائے۔ جب پاکستان میں توزانہ کی بنیاد پر دھماکے ہو رہے تھے۔ ہر جمعہ کے دن کسی نے کسی مسجد میں ایک بڑا دھماکہ ہونا تو معمول سا بن گیا تھا۔ ہم سے دوسرے ملکوں کے لوگ حیرانی سے پوچھا کرتے تھے کہ تمہیں اپنے ملک میں ڈر نہیں لگتا۔
بھیا شکر ہے بہت حالات بہتر ہیں ۔۔۔ابھی کچھ دن پہلے ہم مین آغا خان ہاسپیٹل گئے لیباریٹری میں ٹیسٹ تھے پیسے دیئے تو والیٹ وہیں بھول گئیے گھر واپس آئے تو تھک گئیے ! آئے تو اپنے معمول کے کاموں میں مشغول ہوگئیے ۔۔۔کوئی چار بجے کے قریب لینڈ لائیں پر فون آیا کہ آپکا والیٹ ہمارے لیب اٹینڈٹ کو ملا ہے اتنے پیسے ہیں اور یہ چیزیں ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں کہ ہم اپنا والیٹ وہیں بھول آئے ہیں ۔۔۔ہم نے بہت کوشش کی کہ ہم اپنی خوشی سے کچھ دیں لیکن اُس بچے نے منع کردیا ۔۔۔اسقدر دل خوش ہوا کہ اسی شہر میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس شہر کا مان ہیں ۔۔۔
آپ نے جیسا کہا کہ آپ کے ایریا کے بارے میں بھی لوگ کہتے ہیں لیکن حقیقت بالکل اُسکے برعکس ہے ۔۔۔اللہ پاک سے ہر دم یہ دعا رہتی ہے کہ وہ اس ملک کو قائم و دائم رکھے آمین !!!!!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ایک بار ہمارے ہاتھ لگ جائے آپ کا والیٹ!!!
:dancing::dancing::dancing:
ہم نے بہت کوشش کی کہ ہم اپنی خوشی سے کچھ دیں
وہاں آپا کچھ اس بچے کو پیسہ دینا چاہتی ہیں۔ لیکن آپ کے معاملے میں آپ کو ہی پولیس کو خوشی خوشی دے آئیں گی۔ 😜
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
انتہاء تو یہ ہے کہ خود سرکار کی جانب سے ببانگ دہل اعلان شائع ہوتے ہیں کہ فلاں سرکاری ملازمتوں کے لیے کراچی والے اپلائی نہ کریں!!!
ایک مرتبہ ہمارے ہاں ایک کوئٹہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کیے ہوئے نوجوان کو سرکاری نوکری نہیں دے جا رہی تھی۔ وہ کورٹ پہنچ گیا کہ یا تو فیصلہ کر دیں کہ کوئٹہ یونیورسٹی کی تعلیم باقی صوبوں میں قابلِ قبول نہیں یا پھر مجھے اس نوکری سے روکنے والوں پر کارروائی کی جائے۔ بہرحال وہ لڑکا جیتا اور نوکری بھی حاصل کی۔
 

سید عمران

محفلین
بہرحال وہ لڑکا جیتا اور نوکری بھی حاصل کی۔
بڑی بات ہے۔۔۔
لیکن کراچی والوں پر باقاعدہ قانونی کوٹہ سسٹم عائد ہے۔۔۔
ہماری تو عدلیہ میں بھی شنوائی نہیں ۔۔۔
لگتا ہے ہم فلسطینیوں کی طرح اسرائیل میں رہ رہے ہیں!!!
 

سیما علی

لائبریرین
ایک مرتبہ ہمارے ہاں ایک کوئٹہ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کیے ہوئے نوجوان کو سرکاری نوکری نہیں دے جا رہی تھی۔ وہ کورٹ پہنچ گیا کہ یا تو فیصلہ کر دیں کہ کوئٹہ یونیورسٹی کی تعلیم باقی صوبوں میں قابلِ قبول نہیں یا پھر مجھے اس نوکری سے روکنے والوں پر کارروائی کی جائے۔ بہرحال وہ لڑکا جیتا اور نوکری بھی حاصل کی۔
بھیا آپ نے دیکھا نہیں معصوم اور شریف مفتی
صا حب کو!!!!!باتیں ہی شراراتی ہیں پولیس خود کہے گی کس معصوم کو پکڑ لائیں۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
اپنی وفات سے قبل، ایک والد نے اپنے بیٹے سے کہا،" میری یہ گھڑی میرے والد نے مجھے دی تھی۔ جو کہ اب 200 سال پرانی ہو چکی ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ یہ میں تمھیں دوں کسی سنار کے پاس اس لے جاؤ اور ان سے کہو کہ میں اسے بیچنا چاہتا ہوں۔ پھر دیکھو وہ اس کی کیا قیمت لگاتا ہے۔"

بیٹا سنار کے پاس گھڑی لے گیا۔ واپس آ کر اس نے اپنے والد کو بتایا کہ سنار اسکے 25 ہزار قیمت لگا رہا ہے، کیونکہ یہ بہت پرانی ہے۔

والد نے کہا کہ اب گروی رکھنے والے کے پاس جاؤ۔ بیٹا گروی رکھنے والوں کی دکان سے واپس آیا اور بتایا کہ گروی رکھنے والے اس کے 15 سو قیمت لگا رہے ہیں کیونکہ یہ بہت زیادہ استعمال شدہ ہے۔

اس پر والد نے بیٹے سے کہا کہ اب عجائب گھر جاؤ اور انہیں یہ گھڑی دکھاؤ۔ وہ عجائب گھر سے واپس آیا اور پرجوش انداز میں والد کو بتایا کہ عجائب گھر کے مہتمم نے اس گھڑی کے 8 کروڑ قیمت لگائی ہے کیونکہ یہ بہت نایاب ہے اور وہ اسے اپنے مجموعہ میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔

اس پر والد نے کہا،" میں تمہیں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ صحیح جگہ پر ہی تمھاری صحیح قدر ہو گی۔ اگر تم غلط جگہ پر بے قدری کئے جاؤ تو غصہ مت ہونا۔ صرف وہی لوگ جو تمھاری قدر پہچانتے ہیں وہی تمھیں دل سے داد دینے والے بھی ہوں گے۔ اسلئے اپنی قدر پہچانو، اور ایسی جگہ پر مت رکنا جہاں تمھاری قدر پہچاننے والا نہیں-
⭐️⭐️⭐️⭐️⭐️
 

سیما علی

لائبریرین
اردو زبان کا خوبصورت انداز
حجّام کی دوکان پر لکھا ہوا پڑھا.۔۔۔۔۔
"ہم دِل کا بوجھ تو نہیں لیکن سر کا بوجھ ضرور ہلکا کر سکتے ہیں۔"🤣🤣
لائٹ کی دوکان والے نے بورڈ کے نیچے لکھوایا....
"آپکے دِماغ کی بتی بھلے ہی جلے یا نہ جلے، مگر ہمارا بلب ضرور جلے گا"😁😁
چائے والے نے اپنے کاؤنٹر پر لکھوایا.....
"میں بھلے ہی عام ہوں مگر چائے اسپیشل بناتا ہوں"۔😄😄
ایک ریسٹورینٹ نے سب سے الگ فقرہ لکھوایا......
"یہاں گھر جیسا کھانا نہیں ملتا، آپ اطمینان سے تشریف لائیں۔"😊😊🙃
الیکٹرونک دوکان پر سلوگن پڑھا تو میں دم بہ خود رہ گیا...
"اگر آپ کا کوئی فین نہیں ہے تو یہاں سے لے جائیں۔"😅😅
گول گپے کے ٹھیلے پر یوں لکھا تھا.....
"گول گپے کھانے کے لئے دِل بڑا ہو نہ ہو، منہ بڑا رکھیں، پورا کھولیں۔"😂😂
پھل والے کے یہاں تو غضب کا فقرہ لکھا دیکھا....
"آپ تو بس صبر کریں، پھل ہم دے دیں گے۔"😔🤪
گھڑی کی دوکان پر بھی ایک زبردست فقرہ دیکھا...
"بھاگتے ہوئے وقت کو اپنے بس میں رکھیں، چاہے دیوار پر ٹانگیں، یا ہاتھ پر باندھیں۔"😁😀
"ایک نجومی نے اپنے بورڈ پر کُچھ یوں لکھوایا..
"آئیے... صرف 100 روپیہ میں اپنی زندگی کے آنے والے ایپیسوڈ دیکھئے"۔😄🧐
بالوں کی ایک کمپنی نے تو اپنے ہر پروڈکٹ پر لکھ دیا ھم بھی بال بال بچاتے ھیں😆😃
اور ایک دندان ساز کا لکھا فقرہ پڑھا تو میں دم بہ خود رہ گیا
دانت کوئی بھی توڑے
لگا ہم دیں گے🤪😉
چٹائی بیچنے والے نے کہا 900 روپے میں خریدیں ۔ ساری عمر بیٹھ کر کھائیں ۔۔
ایک دوکان میں لکھا دیکھا😅🧐
دوکان کے اوقات کار:
صبح 9 سے شام 6 تک،
ہم اپنی اوقات میں رہتے ہیں😀😄🤪😅.
 

سید عمران

محفلین
کڑوا سچ
ہمارے تعلیمی اداروں میں بیٹھے پروفیسر صاحبان انتہا کے ٹھرکی ہیں. میری طرح باقی نوجوان لڑکیاں بھی جو یونیورسٹی کے میدان سے گزری ہیں اس بات کو بخوبی جانتی ہوں گی…
ریٹ لسٹ کی طرح پروفیسر صاحبان کی بھی فہرست ہوتی ہے…
نمبرز کی فہرست….
فلاں جگہ ہاتھ لگوانے کے اتنے اور فلاں جگہ ہاتھ لگوانے کے اتنے نمبر…. اور فلاں کام کے اتنے نمبر….
صبح لگنے والی لسٹ شام کو یا اگلے دن بدل دی جاتی ہے اور ڈی یا سی گریڈ حاصل کرنے والی لڑکی اس فہرست میں اے گریڈ پر ملتی ہے….
پنجاب یونیورسٹی کے بہت سارے سکینڈل دیکھ چکے ہیں آپ سب… کچھ یونیورسٹی میں ایمبولینس میں بیماری کا کہہ کر اس میں خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کو بٹھا کر رات کو پروفیسر صاحبان یا پھر شہر کے کچھ سیاستدانوں کے بستر پر پیش کیا جاتا ہے……
لڑکیوں سے مسکرا مسکرا کر بات کی جاتی ہے… پوری ٹھرک جھاڑی جاتی ہے اور لڑکوں سے سیدھے منہ بات تک نہیں کرتے…. اور پھر روتے ہیں کہ میل طلباء عزت نہیں کرتے… جو سب کچھ دیکھ رہا ہو وہ ان کی عزت کیسے کرے؟۔۔۔ عزت تب ملتی ہے جب برابری رکھی جائے اور میرٹ پر فیصلہ کیا جائے…
ایسے پروفیسر صاحبان بھی ہیں جو کچھ لڑکوں سے اس بات کا بدلہ لیتے ہیں کہ وہ لڑکا جس لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے وہ لڑکی پروفیسر صاحب کو پسند ہوتی ہے یا یوں کہہ لیں کہ پروفیسر صاحب اس لڑکی پر ٹھرکی ہوتے ہیں….
اور جو خواتین اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والی، نسلی اور خاندانی ہیں وہ ان پروفیسرز کے ہاتھ نہیں آتیں … اور یہ پروفیسر بھرپور بلیک میل کرتے ہیں کبھی فیل کرتے ہیں تو کبھی اس کا تھیسز روک دیتے ہیں کبھی رپورٹ بنا دیتے ہیں تو کبھی کچھ اور دو سالہ ڈگری پانچ سالہ تک پہنچ جاتی ہیں…
بہت سی خواتین کو ان پروفیسر صاحبان کی ان حرکتوں کی وجہ سے یونیورسٹی اور اپنی تعلیم چھوڑتے دیکھا ہے. کیونکہ جو پاک دامن اور خاندانی خواتین ہیں وہ تعلیم کیلئے اپنی عزت اور باپ کی دستار کا جنازہ کبھی نہیں نکالتی..
یونیورسٹیوں کے یہ پروفیسر کسی سیاستدان سے کم بدمعاش نہیں ہیں… کیونکہ یہ سب بادشاہ سلامت ہیں… سب کچھ ان کے اختیار میں ہے… پیپر بناتے بھی خود ہیں، چیک بھی خود کرتے ہیں اور نتائج بھی خود بناتے ہیں…
یہاں نہ تو کوئی فرضی رول نمبر کا چکر ہے… سامنے نام، ڈگری، سمسٹر اور ڈیپارٹمنٹ سب کچھ مینشن ہوتا ہے… مجھے اس یونیورسٹی سسٹم سے ہی اختلاف ہے جناب جہاں پروفیسر اپنی مرضی کا مالک ہے… سامنے کھڑا کر کے کہتا ہے… “تمہارا سوال سارا درست ہے.. یہ لو… کراس لگا کر کہتا ہے کہ جاؤ کر لو جو بھی کرنا ہے…” مطلب وہ اعلانیہ کہتا ہے کہ میری مرضی… مجھ سے پوچھنے والا کون ہے؟اور واقعی پوچھنے والا کوئی نہیں… جیسے پولیس والے پولیس والوں کے پیٹی بھائی ہیں.. جج وکیل کے پیٹی بھائی ہیں ٹھیک ایسے یہ پروفیسر بھی ایک دوسرے کے پیٹی بھائی ہیں….
تقریباً پروفیسر حضرات نے اپنی لیب کے سارے اختیارات کسی لڑکی کو سونپ رکھے ہوتے ہیں…. نوازشات ہوتی ہیں.. اپنی گاڑیوں میں پک اینڈ ڈراپ تک دے رہے ہوتے ہیں.. اگر کوئی شکایت درج کروا بھی دے تو کچھ نہیں ہوتا… برائے نام ایک انکوائری ہوتی ہے اور پروفیسر کو بے گناہ اور شریف قرار دے دیا جاتا ہے…. پہلی بات کہ انکوائری ہوتی ہی نہیں… اور ہماری یونیورسٹیوں میں وی سی صاحب تک رسائی حاصل کرنا وزیراعظم سے ملاقات کرنے کے برابر ہوتا ہے… سب سے پہلے اس سسٹم کو مضبوط کیا جائے.. شفاف کیا جائے… ورنہ تعلیم کے نام پر یہی کچھ چلتا رہے گا اور آگے آگے مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا…
اب آتے ہیں میل اور فی میل طلباء کی جانب…. تو جنسی استحصال یا درندگی کم اور اپنی مرضی زیادہ شامل ہوتی ہے… یونیورسٹی میں تمام طلباء لڑکے ہوں یا لڑکیاں سب میچور ہوتے ہیں… اچھے برے اور فائدے نقصان کا فرق بخوبی جانتے ہیں…. اس لیول پر کوئی ایک دوسرے کو تنگ نہیں کرتا… یہاں جو بھی جوڑا بنتا ہے وہ دونوں کی باہمی رضامندی سے بنتا ہے… دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ وقت گزار کر دو تین جوس کارنر پر جوس پینے اور کچھ ہوٹلوں پر کھانا کھانے کے بعد ہی ایک دوسرے کو اپنا سب کچھ سونپ دیتے ہیں۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
”ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان ملکہ برطانیہ اور ان کے شوہر کو پاکستان دورے کے دوران برن ہال سکول ایبٹ آباد لے گئے، ملکہ تو ایوب خان کے ساتھ بچّوں سے ہاتھ ملاتی آگے بڑھ گیئں، اُن کے شوہر بچّوں سے باتیں کرنے لگے، پُوچھا کہ بڑے ہو کے کیا بننا ہے، بچّوں نے کہا ڈاکٹر ، انجنیئر ، آرمی آفیسر ، پائلٹ ، وغیرہ وغیرہ۔
وہ کچھ خاموش ہو گئے۔
پھر لنچ پر ایوب خان سے کہا کہ آپ کو اپنے ملک کے مستقبل کا کچھ سوچنا چاہیے۔ میں نے بیس بچّوں سے بات کی۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ اسے ٹیچر بننا ہے اور یہ بہت خطرناک ہے۔
ایوب خان صرف مسکرا دیے۔ کچھ جواب نہ دے سکے اور یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جب ہندوستان کی انگریز حکومت نے حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو سر کا خطاب دینے کا ارادہ کیا تو اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو وقت کے گورنر نے اپنےدفتر آنے کی دعوت دی۔
اقبال رحمتہ اللہ علیہ نےیہ خطاب لینے سے انکار کردیا۔ جس پر گورنر بے حد حیران ہوا۔ وجہ دریافت کی تو اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’میں صرف ایک صورت میں یہ خطاب وصول کرسکتا ہوں کہ پہلے میرے استاد مولوی میرحسن کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دیا جائے۔‘‘
یہ سن کر انگریز گورنر نے کہا:
’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو تو’’سر‘‘کا خطاب اس لیے دیا جا رہا ہے کہ آپ بہت بڑے شاعر ہیں۔ آپ نے کتابیں تخلیق کی ہیں، بڑے بڑے مقالات تخلیق کیے ہیں۔ بڑے بڑے نظریات تخلیق کیے ہیں۔ لیکن آپ کے استاد مولوی میر حسن صاحب نے کیا تخلیق کیا ہے؟‘‘
یہ سن کر حضرت علامہ اقبال نے جواب دیا کہ:
’’مولوی میر حسن نے اقبال تخلیق کیا ہے۔‘‘
یہ سن کر انگریز گورنر نے حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی بات مان لی اور اْن کے کہنے پر مولوی میر حسن کو’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کا فیصلہ کرلیا۔ اس پر مستزاد علامہ صاحب نے مزید کہا کہ:
’’میرے استاد مولوی میر حسن کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینے کے لیے یہاں سرکاری دفاتر میں نہ بلایا جائے بلکہ اْن کو یہ خطاب دینے کے لیے سرکاری تقریب کو سیالکوٹ میں منعقد کیا جائے ، یعنی میرے استاد کے گھر۔‘‘
اور پھر ایسا ہی کیا گیا۔ مولوی میر حسن کو آج کوئی بھی نہ جانتا اگر وہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے استاد نہ ہوتے۔لیکن آج وہ شمس العلماء مولوی میر حسن کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
 

سیما علی

لائبریرین
جناب جہاں پروفیسر اپنی مرضی کا مالک ہے… سامنے کھڑا کر کے کہتا ہے… “تمہارا سوال سارا درست ہے.. یہ لو… کراس لگا کر کہتا ہے کہ جاؤ کر لو جو بھی کرنا ہے…” مطلب وہ اعلانیہ کہتا ہے کہ میری مرضی… مجھ سے پوچھنے والا کون ہے؟اور واقعی پوچھنے والا کوئی نہیں… جیسے پولیس والے پولیس والوں کے پیٹی بھائی ہیں.. جج وکیل کے پیٹی بھائی ہیں ٹھیک ایسے یہ پروفیسر بھی ایک دوسرے کے پیٹی بھائی ہیں….
ابھی کچھ دن پہلے ٹیلیویژن پر ایک سیریل دکھایا گیا آخر کب تک ۔۔جو ایسی خواتین کے جذبات کا خلاصہ ہے جو اس اذیت سے گذری ۔اس میں فینٹیسی سے ہٹ کر اس حساس مسلئے کو پیش کیا گیا ۔۔بہت ضروری ہے اس پر آواز اُٹھانا !!!ہمیں لگتا ہے کہ یہ زیادہ پرائیوٹ یونیورسٹیز کا مسلۂ ہے ۔۔۔پروردگار سے دعا ہے کہ وہ بچیوں کو اپنی امان میں رکھے ۔۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
کڑوا سچ
ہمارے تعلیمی اداروں میں بیٹھے پروفیسر صاحبان انتہا کے ٹھرکی ہیں.
ایک اور کڑوا سچ یہ ہے کہ ان یونیورسٹیوں میں دھڑلے سے الحاد پڑھایا جا رہا ہے۔
مزید کڑوا سچ یہ بھی ہے کہ یہ ادارے منشیات کا بھی گڑھ بن چکے ہیں۔
 
Top