انٹر نیٹ سے چنیدہ

سیما علی

لائبریرین
مزے کی تحریر ہے 😊😊😊😊😊

کسی گاؤں میں ایک پہلوان رہتاتھا۔۔اپنے علاقے کا بہت مشہور اور جانا مانا۔۔۔۔اسکی ایک ہی بیٹی تھی۔۔۔بہت لاڈ اور پیار سے پالی۔۔۔۔خوبصورت اور نازک سی۔۔۔بیٹی جوان ہوئی تو اسکی شادی کی فکر ہوئی۔۔۔
چونکہ پہلوان تھا۔۔۔اسلیئے بیٹی کے لیئے ایک پہلوان ہی پسند آیا۔۔۔اونچا لمبا تنےہوئے بدن کا مالک۔۔۔گھنی موچھوں والا۔۔۔گھبرو۔۔۔زمیندار۔۔۔
نازو پلی بیٹی وداع کردی۔۔۔
چھے ماہ بھی ناگزرے تھے کہ پہلوان داماد نے بیٹی کومار پیٹ کر نکال دیا۔۔۔کہ گھر کا کوئی کام نہیں آتا اسے۔۔۔
باپ کادل بہت رنجیدہ ہوا۔۔۔مگر کسی کوکچھ نا کہا۔۔۔کہ فضول میں تماشا بنے گا۔۔۔۔۔بیوی سے کہا کہ اسے ہر چیز سکھاو۔۔۔جو گھرداری کے لیئے ضروری ہوتی۔۔۔ماں نے بیٹی کو جھاڑو پوچا۔۔۔کھاناپکانا۔۔۔سب سیکھیا۔۔چند ماہ بعد صلح صفائی ہوئی۔۔۔داماد کو بلایا۔۔۔معافی مانگی کہ شرمندہ ہیں لاڈ پیار میں گھرداری ناسیکھائی۔۔۔
چھے ماہ ناگزرے۔۔۔بیٹی پھر مار کھاکر میکے واپس اگئی۔۔۔کہ کوئی سیناپرونا نہیں آتا۔۔۔۔پھر پہلوان بہت دکھی ہوا۔۔۔پھر بیوی کو کہا اسے سیناپرونا سیکھاو۔۔۔۔
بیوی نے سلائی کڑھائی۔۔۔۔گوٹاکناری۔۔۔۔رضائیاں بچھائیاں۔۔۔یہاں تک کے پراندے اور ازاربندھ بھی سیکھائے۔۔۔پھر داماد کو بلایا۔۔۔غلطی کی معافی مانگی۔۔۔اور بیٹی رخصت کی۔۔۔۔
پھر چند ماہ گزرے۔۔۔بیٹی پھر نیل ونیل۔۔۔مار کھاکر میکے واپس۔۔کہ کھیت کھلیان نہیں سنبھال سکتی میرے ساتھ۔۔گائے بھینسوں کادودھ دوہنا نہیں آتا۔۔پہلوان بہت ہی دکھی۔۔۔رنجیدہ۔۔۔۔یااللہ کیسا نصیب ہے بیٹی کا۔۔۔خیر۔۔۔بڑی عزت تھی زمانے میں۔۔خاموش رہا۔۔۔بیٹی کوساتھ لے جاتا کھیتئ بھاڑی کے کام سیکھائے۔۔۔اور ایک بار پھر بیٹی بہت دعاوں کے ساتھ رخصت کی۔۔۔
پھر چند دن گزرے۔۔۔پھر بیٹی روتی میکے۔۔۔پہلوان نے سوال کیا بیٹی اب کیا ماجرہ ہوا۔۔۔۔کہنے لگی میرا شوہر کہتاہے تو آٹاگھوندھتے ہوئے ہلتی بہت ہے۔۔۔۔
پہلوان کو اب ساری بات سمجھ میں آئی۔۔۔اس کے داماد کو عادت پڑھ چکی تھی مارنے کی اور لت لگ گئی تھی بیوی پہ رعب جمانے کی۔۔۔کہنے لگا بیٹی۔۔۔۔میں تجھے سب سیکھایا۔۔۔مگر یہ نہیں سیکھایاکہ تو بیٹی کس کی ہے۔۔۔بیٹی حیران ہوئی۔۔۔۔مگر کچھ ناسمجھی۔۔۔۔
چند دن بعد داماد پہلوان کو احساس ہوا کہ بہت عرصہ گزرا نا سسر نا معافی مانگی نا بیٹی واپس بھیجی۔۔۔۔
خیرخبرلینے سسرال کے گھر گیا۔۔۔سسر نے دروازے پہ روک لیااور کہا۔۔۔انہی پیروں پہ واپس چلاجا۔۔۔آج کی تاریخ یاد رکھ لے۔۔۔پورے دوسال بعد آنا اور آکر بیوی لے جانا۔۔۔۔اگر اس سے پہلے مجھے تو یہاں نظر آیا تو ٹانگیں تڑواکر واپس بھیجوں گا۔۔۔داماد کو فکر ہوئی۔۔مگر انا آڑھے آئی۔۔۔اور لوٹ گیا۔۔۔
دن گزرتے رہے۔۔۔پہلوان بیٹی کو منہ اندھیرے کھیتوں میں لے جاتا۔۔۔اور سورج نکلنے پرگھر بھیجتا۔۔۔بیوی نے بارہا پوچھا مگر یہ راز نا کھلا۔۔۔
دوسال گزر گئے۔۔۔۔داماد بیٹی کو لینے آیا۔۔باپ نے خوشی خوشی رخصت کی۔۔۔۔
چند دن گزرے۔۔۔۔پہلوان داماد نے عادت سے مجبور۔۔۔چیخناچلانا شروع کردیا اور مارنے کے لیئے بیوی کی طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔۔بیوی نے کسی منجھے ہوئے پہلوان کی طرح شوہر کوبازوسے اٹھاکر زمین پر پٹخ دیا۔۔۔۔اور کہا۔۔۔
تو جانتاہے نا میں بیٹی کس کی کی ہوں۔۔۔۔وہ سمجھ گیا کہ اب کی بار دوسال میں باپ نے بیٹی کو کیا سیکھاکربھیجاہے
اور اسکے بعد پہلوان کو دوبارہ بیوی سے اونچی آواز میں بات کرتے نہیں دیکھاگیا۔۔۔۔اور بیٹی کبھی دوبارہ مار کھاکرمیکے نہیں آئی۔۔۔۔
باپ نے بیٹی کو کیاسیکھایا۔۔۔آپ بھی جان گئے ہوں گے۔۔۔
ہرچیز ماں کے سیکھانے کی نہیں ہوتی۔۔۔کچھ باتیں کچھ اعتماد باپ بھی بیٹیوں میں لاتاہے۔۔۔
اس لیئے میں سمجھتا ہوں جو دور جارہاہے۔۔۔اسمیں بیٹیوں کو اپنی حفاظت کرنا۔۔۔ضرور سیکھاناچاہیے۔۔۔😊😊😊😊😊
 

سیما علی

لائبریرین
ایک عالم دین پنسل سے بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے ان کا بیٹا قریب آیا اور تتلاتے ہوئے دریافت کیا : بابا آپ کیا لکھ رہے ہیں؟۔
اس عالم دین نے مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے سے فرمایا : بیٹا میرے لکھنے سے بھی زیادہ اہم یہ پنسل ہے جس سے میں بیٹھا لکھ رہا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ جب تم بڑے ہو جاؤ تو تم اس پنسل کی طرح بنو۔
اس بچے نے تعجب آمیز نگاہوں سے باپ کو دیکھا اور پھر بڑے غور سے پنسل کو گھورنے لگا اور وہ اس کی کسی ایسی خصوصیت کو تلاش کرنے لگا جس کی بنیاد پر بابا جان اس سے پنسل جیسا بننے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
بڑی دیر تک پنسل کو دیکھنے کے بعد اسے کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی جو اس کے ذہن کو کھٹکتی اور اب بچے سے رہا نہ گیا آخر کار باپ سے معلوم کربیٹھا۔
بابا جان اس پنسل میں ایسی کون سی خصوصیت ہے جس کے سبب آپ کی خواہش یہ ہے کہ میں بڑا ہو کر اس جیسا بنوں۔
اس عالم نے کہا : اس پنسل میں ۵ اہم خصوصیات ہیں اور تم یہ کوشش کرو کہ بڑے ہو کر تمہارے اندر بھی یہیں خصوصیات پیدا ہوں۔

1۔ تم بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہو لیکن کبھی یہ مت بھولو کہ کوئی ہاتھ ہے جو تمہیں چلا رہا ہے اور تم سے یہ کارنامے کروا رہا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت ہے۔

2۔ کبھی کبھی جب اس کی نوک گھس جاتی ہے تو کٹر یا چاقو وغیرہ سے اسے تراشا جاتا ہے اگرچہ یہ ایک اذیت ناک چیز ہوتی ہے لیکن بہرحال اس کی نوک تیز ہو جاتی ہے اور پھر یہ اچھے سے کام کرنے لگتی ہے پس تمہیں بھی یہ جان لینا چاہیئے کہ انسان کو اگر کوئی دکھ اور صدمہ پہونچتا ہے وہ اس لئے ہوتا ہے تا کہ تم بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کر سکو۔

3۔ پنسل یہ اجازت دیتی ہے کہ اگر کچھ غلط تحریر ہو جائے تو تم ربر سے اسے مٹا کر اپنی غلطی کی اصلاح کر سکو پس تم یہ سمجھ لو کہ ایک غلطی کو صحیح کرنا غلطی نہیں ہے۔

4۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ پنسل کی لکڑی اور اس کا خول لکھنے اور تحریر کرنے کے کام نہیں آتا بلکہ لکھنے کے کام ہمیشہ وہ مغز آتا ہے جو اس لکڑی کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے پس ہمیشہ تم اس چیز کا خیال رکھو کہ تمہارے جسم کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ہے بلکہ اس کے اندر چھپی تمہاری روح اور ضمیر قدر و قیمت والا ہے جسم نہیں۔

5۔ پنسل جب کچھ لکھتی ہے تو اپنے کچھ نقوش کاغذ پر چھوڑ دیتی ہے جو مدتوں کاغذ پر دیکھے جا سکتے ہیں پس تم بھی یہ بات سمجھ لو کہ تم جو بھی کام کرو گے اس کے نقوش تمہارے بعد باقی رہیں گے اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم کیسے نقوش چھوڑ کر جاتے ہو پس کسی عمل کو انجام دینے سے پہلے کئی بار غور و فکر کر لو کہ کہیں تم کچھ غلط تو نہیں کر رہے ہو۔
9X48inr.jpg
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
شیخ جنید بغدادی ایک دفعہ اپنے مریدوں اور شاگردوں کے ساتھ بغداد کی سیر کے لیے نکلے انھوں نے "بہلول" کے بارے میں پوچھا، تو کسی نے کہا سرکار وہ تو ایک دیوانہ شخص ہے، شیخ صاحب نے کہا مجھے اسی دیوانے سے کام ہے۔ کیا کسی نے آج اس کو دیکھا ہے؟ ایک نے کہا میں نے فلاں مقام پر اس کو دیکھا ہے سب اس مقام کی طرف چل دیئے حضرت بہلول وہاں ریت پر بیٹھے ہوئے تھے، شیخ صاحب نے بہلول کو سلام کیا، بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا کون ہو؟ شیخ صاحب نے بتایا، بندے کو جنید بغدادی کہتے ہیں، بہلول نے کہا وہی جو لوگوں کو درس دیتے ہیں؟ کہا جی الحمدللہ۔ بہلول نے پوچھا: شیخ صاحب کھانے کے آداب جانتے ہیں؟ کہنے لگے، بسم اللہ کہنا، اپنے سامنے سے کھانا، لقمہ چھوٹا لینا، سیدھے ہاتھ سے کھانا، خوب چبا کر کھانا، دوسرے کے لقمہ پر نظر نہ کرنا، اللہ کا ذکر کرنا، الحمدللہ کہنا، اول و آخر ہاتھ دھونا۔ بہلول نے کہا: لوگوں کے مرشد ہو اور کھانے کے آداب نہیں جانتے اور وہاں سے اٹھ کر آگے چل دیئے۔ شیخ صاحب بھی پیچھے چل دیئے، مریدوں نے اصرار کیا، سرکار وہ دیوانہ ہے لیکن شیخ صاحب نے ہر کسی کی بات کو ان سنی کرتے ہوئے بہلول کے پیچھے پیچھے چل پڑے اور پھر بہلول کے پاس پہنچے پھر سے سلام کیا۔ بہلول نے سلام کا جواب دیا اور پھر پوچھا کون ہو؟ کہا جنید بغدادی جو کھانے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے پوچھا اچھا بولنے کے آداب تو جانتے ہی ہوں گے۔ شیخ صاحب نے فرمایا جی الحمدللہ، متکلم مخاطب کے مطابق بولے، بےموقعہ، بے محل اور بےحساب نہ بولے، ظاہر و باطن کا خیال رکھے۔ بہلول نے کہا: کھانا تو کھانا، آپ بولنے کے آداب بھی نہیں جانتے، بہلول نے پھر دامن جھاڑا اور تھوڑا سا اور آگے چل کر بیٹھ گئے۔ شیخ صاحب پھر وہاں جا پہنچے سلام کیا۔ بہلول نے سلام کا جواب دیا، پھر وہی سوال کیا کہ کون ہو؟ شیخ صاحب نے کہا، جنید بغدادی جو کھانے اور بولنے کے آداب نہیں جانتا۔ بہلول نے اچھا سونے کے آداب ہی بتا دیں؟ کہا نماز عشاء کے بعد، ذکر و تسبیح، سورہ اور وہ سارے آداب بتا دیئے جو روایات میں ذکر ہوئے ہیں۔ بہلول نے کہا آپ یہ بھی نہیں جانتے، اٹھ کر آگے چلنا ہی چاہتے تھے کہ شیخ صاحب نے دامن پکڑ لیا اور کہا جب میں نہیں جانتا تو بتانا آپ پر واجب ہے۔ بہلول نے کہا جو آداب آپ بتا رہے ہيں وہ فرع ہیں اور اصل کچھ اور ہے، اصل یہ ہے کہ جو کھا رہے ہیں وہ حلال ہے یا حرام، لقمہِ حرام کو جتنا بھی آداب سے کھاؤ گے وہ دل میں تاریکی ہی لائے گا نور و ہدایت نہیں، شیخ صاحب نے کہا جزاک اللہ۔ بہلول نے کہا کلام میں اصل یہ ہے کہ جو بولو اللہ کی رضا و خوشنودی کیلئے بولو اگر کسی دنیاوی غرض کیلئے بولو گے یا بیہودہ بول بولو گے تو وہ وبال جان بن جائے گا۔ سونے میں اصل یہ ہے کہ دیکھو دل میں کسی مؤمن یا مسلمان کا بغض لیکر یا حسد و کینہ لیکر تو نہیں سو رہے، دنیا کی محبت، مال کی فکر میں تو نہیں سو رہے، کسی کا حق گردن پر لیکر تو نہيں سو رہے.
 

سیما علی

لائبریرین
ہم سب انسان؛ ہمارا خُدا ایک ہی خُدا ہے۔ وَإِلَ۔ٰهُكُمْ إِلَ۔ٰهٌ وَاحِدٌ ۖ لَّا إِلَ۔ٰهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَ۔ٰنُ الرَّحِيمُ ۔ تمہارا الٰہ ایک ہی الٰہ ہے، اُس رحمان اور رحیم کے سوا کوئی اور الٰہ نہیں ہے2: 163

اور ابتدا میں ہم ایک ہی امّت تھے۔ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَة ً 2:213

ہمیں ایک نفس سے پیدا کیاگیا۔يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً ۚ ۔ لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا ئے۔قرآن 4:1

ہم سب حضرت آدم اور حوّا علیہ السلام کی اولاد ہیں جو کہ مٹّی سے پیدا کیے گئے۔ اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام میں اپنی روح سے پھونکا اوران کوزندگی بخشی اور ہم میں سے ہر انسان میں اللہ کی روح کا جوہر ہےاور ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہی عکس سے پیدا کیا ہے۔ہم سب خطاکار ہیں اور ہم سب کے سب کبھی اپنی غلطیوں سے کبھی دوسروں کی غلطیوں سےسیکھنے کے مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ ہم میں سے کوئی بھی ایمانی، جسمانی، روحانی اور جذباتی طور پر ایک حالت پر جامد نہیں بلکہ ہر لمحہ تبدیل ہو رہا ہے۔ کبھی ترقّی کی طرف اور کبھی تنزّلی کی طرف۔ ایک حالت سے دوسری حالت تک کا سفرطے کرتا چلا جا رہا ہے۔ ہر انسان کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے۔ زیادہ تر لوگ صرف ظاہری اعتبار سے جانچتے اور پر کھتے ہیں۔ باطن کی مکمّل صورت صرف ہمارا رب ہی جانتا ہے۔ اور وہ سب سے زیادہ عدل کرنے والی ذات ہی ہر ایک کے عمل کا فیصلہ خود ہی کرے گی۔ اس لیے ہم کسی کی نیّت اور عمل کو پرکھنے کی ذمہ داری نہیں دیے گئے۔ ہم میں سے ہر ایک دوسرے سے جدا اور منفرد ہے جو کہ بہترین خالق کی تخلیق ہے۔ نہ ہمیں اپنے آپ کو کسی سے بہتر خیال کرنا چاہیے نہ کسی سے کمتر اور نہ ہی ایک دوسرے سے موازنہ کرنا چاہیے۔ ہر ذی روح انسان صرف اس ذمہ داری کا مکلّف ہے جس کی وسعت اللہ تعالیٰ نے اسے دے رکھی ہے۔لَا يُكَلِّفُ اللَّ۔هُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۔2:286
اے انسان، تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف چلا جا رہا ہے، اور اُس سے ملنے والا ہے 84:6 ۔ ہم سب ایک ہی منزل کے مسافر ہیں کہ ہم سب اپنے رب کی طرف واپسی کا سفر طے کر رہے ہیں۔ خواہ کوئی آگے یا پیچھے ہو؛ سب اپنے اپنے راستوں پر اپنی رفتار، توفیق، استطاعت، کوشش، ہدایت اور عقل کے مطابق چلے جا رہے ہیں۔ ہر کوئی موجودہ لمحے میں ایک کیفیّت، مقام اور امتحان سے گزر رہا ہے جس کو بہت شفیق مہربان رب نے بہترین اور دیرینہ مفاد کے لیے ایک پرفیکٹ تقدیر کی صورت میں ترتیب دیا ہے۔ اور وہ شفیق ربّ ہر ایک سے محبّت رکھتا ہے۔ نفرتیں توصرف ہم انسان ہی اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔ ہر شخص محبّت اور عزّت کا حقدارہوتا ہے؛ خواہ اس کا پیشہ جو بھی ہو۔ موسیقی، اداکاری یا کوئی بھی آرٹ وغیرہ؛ اس کی صلاحیّت بھی بہت مہربان ربّ نے ہی اسے دی ہے اوریہ سب پیشے زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ ہی وجود میں آئے ہیں۔ نہ زمانے کو برا بھلا کہیں اور نہ ہی کسی انسان سے دل میں کراہیت اور نفرت رکھیں۔ زمانے کو برا بھلا کہنا اللہ تعالیٰ کو نعوذباللہ برا بھلا کہنے کے مترادف ہے۔ اس مفہوم کی ایک حدیثِ قدسی مستند اور معروف ہے۔ انسانوں سے نفرت کی بجائے خیر خواہی کے جذبات دل میں رکھیں۔ ضروری نہیں کہ جو ہم دوسروں کے لیے اچھا سمجھ رہے ہوں وہ واقعی ان کے حق میں بہتر ہو۔ اس لیےدوسروں کو نصیحت کرنے کا دائرہ کارحکمت کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی نیّت، کوشش اور صریح شرک اور فحش کاموں سے روکنے تک ہی محدود رکھیں۔

آج کل بنی نوع انسان کو سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک دوسرے کو ایکسیپٹ کرنا سیکھ جائیں۔ ہم اپنی عقل کے مطابق کسی کو جج نہ کریں۔ ہم کسی کو بہت پیار سے سمجھا سکتے ہیں مگر کسی کا دل بدل نہیں سکتے۔ کسی کا ظاہری نظر آنے والا گناہ ہمیں اس کی خیر خواہی اور اس کے لیے بہترین کامیابی یعنی کہ جنّت میں داخل کیے جانے کی خواہش سے روک نہ دے۔ دعوت و تبلیغ کے کام کا مؤثر ترین طریقہ خود اپنے عمل اور کردار کی مثال پیش کرنا ہے۔

جب ہم یہ جان لیں گے کہ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ ہم اکیلے جنّت میں جائیں بلکہ ہماری خواہش یہ ہونی چاہیے کہ سب کے سب نیکوکار انسان جنّت میں ہمارے ساتھ ہوں۔ وہ جنّت جہاں ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کوئی بغض، کوئی نفرت، کوئی حسد کا جذبہ نہیں ہو گا۔اور وہ خواہشات جن کے پیچھے آج ہم ہلکان ہو رہے ہیں ان کا نام و نشان باقی نہ رہے گا۔ اور آخرکار ہم اپنے رب کے چہرے کے دیدار اور اس سے ملاقات کے بعد کسی بھی طرح کے پست خیال کے بارے میں سوچ ہی کیسے سکیں گے؟ کہ جس ربّ کی تلاش اور اس سے ملاقات کے لیے ہم اس دنیا کے کٹھن سفر سے گزر رہے ہیں۔ کیا جنّت کی کوئی نعمت یا کوئی نفسانی خواہش یا لذّت بھی اس کا مقابلہ کر سکتی ہے؟؟؟؟؟؟؟
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ تعالى کی عبادت ہماری تخلیق کا مقصد اور اسکی ذاتِ با برکت پرپختہ یقین ہماری زندگی ہے۔۔
ہم اکثر کہتے ہیں ہمیں یقین ہے کہ ایسے ضرور ہو گا ۔لیکن ہمیں کہنا یہ چاہیئے کہ مجھے اپنے رب پر یقین ہے یہ ضرور ہو گا کیونکہ:
"میرا رب ہر چیز پر قادر ہے"
ہم سب اس کے محتاج ہیں وہ کن فرماتا ہے تو تمام کام سنور جاتے ہیں۔دوسری طرف ہم اپنے رب کی عبادت تو کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں ہم کوئی کوتاہی تو نہیں کر رہے۔ ہم اپنے اللہ سے دن رات چلتے پھرتے ہزاروں دعائیں کرتے ہیں لیکن ہمیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ یہ قبول ہونگی بھی یا نہیں۔ ہم اپنے رب پر بھروسہ تو کرتے ہیں لیکن مشکل حالات میں ہم ڈر جاتے ہیں گبھرا جاتے ہیں ہمارے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں۔
کبھی دعاؤں کی قبولیت کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرتے ہیں تو کبھی تھک کر فورًا سجدے میں گر کر اللہ رب العزت کے سامنے گڑگڑانے لگتے ہیں۔ کبھی بڑی سے بڑی آزمائش کا سامنا بہادری سے کرتے ہوئے صبر کا دامن نہیں چھوڑتے تو کبھی چھوٹی سی مشکل پر شکوے شکایت کرنے لگتے ہیں۔
ہمارا رب تو یقین ہے ٹوٹے ہوئے دلوں کا۔
اُمید ہے ویران رستوں کی۔ہمارا رب تو وہ ہے جس کر نظر سمندر کی جھاگ میں اور اسکی بے پناہ گہرائی میں سے بھی سب سے چھوٹے حشرات پر بھی ہے۔جس کے حکم سے بڑے سے بڑے پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ دے۔تو پھر چھوٹی سی بات کیوں ہم دل ہار جاتے ہیں۔ہمارا تو یقین ایسا ہونا چاہئیے کے اگر ہم آسمان اور زمین کے درمیان اٹکے ہوئے بھی ہوں تو ہمیں اپنے رب پر یہ توکل ہونا چاہئے کے وہ ہمیں گرنے نہیں دے گا۔ دعائیں ضرور سن لی جاتی ہیں آزمائشیں ختم ہو جاتی ہیں اسے سب معلوم ہے ہمارے تمام کام ایک مقررہ وقت پر ہی ہونے ہوتے ہیں چاہے ہم جتنے بھی گلے شکوے کیوں نہ کر لیں۔
ہم نے سنا تو ہے کہ
"تم چاہ بھی نہیں سکتے جب تک اللہ نہ چاہے"
ڈر کو نکالیں اپنے دل سے اور یقین پختہ کریں صبر کریں کیونکہ صبر سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں ۔
اور معجزے بھی تو یقین رکھنے والوں کیلیئے ہی ہوتے ہیں۔
اللہ پاک اجر کی توفیق عطا فرمائے (آمین)۔
 

سید عمران

محفلین
موٹیویشنل اسپیکر نے بیوی کو فون کیا اور کہا؛
کسی نے میری گاڑی کا اسٹئیرنگ، بریکیں، ایکسیلیٹر، گئیر سب کچھ چوری کر لیا ہے۔
مطلب اس دنیا کو کیسے سدھارا جائے۔
ظاہر ہے میں پولیس میں رپورٹ تو لکھواؤں گا۔
لیکن مجھے بطور ایک درمند انسان سارے پہلو پہ غور بھی کرنا ہے کہ اس روییے کہ پیچھے کیا کیا محرکات ہیں۔ کیا بیروزگاری ہے یا تربیت کی کمی، ڈپریشن یا پھر کوئی نفسیاتی مسائل۔ مجھے اس پہ بات کرنی ہوگی کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ مجھے اس پہ بات کرنی ہوگی کہ لوگ ایسا کرنا کس طرح چھوڑ سکتے ہیں۔ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے ایسے واقعے ہمارے معاشرے میں رونما ہوتے ہیں۔
بیوی: بول چکے؟
اب میری بات غور سے سنو۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید تم پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے ہو۔
ایک منٹ کے لیے مکمل سناٹا چھا گیا۔ اس کے بعد موٹیویشنل اسپیکر کی انتہائی دھیمی آواز آئی؛
" تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں پچھلی سیٹ پر ہی بیٹھا ہوں"
بیوی بولی : آتے ہوئے چھ انڈے، ایک ڈبل روٹی، ایک لیٹر دودھ، ایک پاؤ دہی، ایک گڈی ہرے دھنیے کی لیتے آنا۔ اور ہاں دھنیا سونگھ لینا. پچھلی بار بھی میتھی اٹھا لائے تھے"🤣🤣🤣
 

سیما علی

لائبریرین
تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں پچھلی سیٹ پر ہی بیٹھا ہوں"
بیوی بولی : آتے ہوئے چھ انڈے، ایک ڈبل روٹی، ایک لیٹر دودھ، ایک پاؤ دہی، ایک گڈی ہرے دھنیے کی لیتے آنا۔ اور ہاں دھنیا سونگھ لینا. پچھلی بار بھی میتھی اٹھا لائے تھے"🤣🤣🤣
:rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 

محمداحمد

لائبریرین
موٹیویشنل اسپیکر نے بیوی کو فون کیا اور کہا؛
کسی نے میری گاڑی کا اسٹئیرنگ، بریکیں، ایکسیلیٹر، گئیر سب کچھ چوری کر لیا ہے۔
مطلب اس دنیا کو کیسے سدھارا جائے۔
ظاہر ہے میں پولیس میں رپورٹ تو لکھواؤں گا۔
لیکن مجھے بطور ایک درمند انسان سارے پہلو پہ غور بھی کرنا ہے کہ اس روییے کہ پیچھے کیا کیا محرکات ہیں۔ کیا بیروزگاری ہے یا تربیت کی کمی، ڈپریشن یا پھر کوئی نفسیاتی مسائل۔ مجھے اس پہ بات کرنی ہوگی کہ لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں۔ مجھے اس پہ بات کرنی ہوگی کہ لوگ ایسا کرنا کس طرح چھوڑ سکتے ہیں۔ کیا اسباب ہیں جن کی وجہ سے ایسے واقعے ہمارے معاشرے میں رونما ہوتے ہیں۔
بیوی: بول چکے؟
اب میری بات غور سے سنو۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید تم پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے ہو۔
ایک منٹ کے لیے مکمل سناٹا چھا گیا۔ اس کے بعد موٹیویشنل اسپیکر کی انتہائی دھیمی آواز آئی؛
" تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ میں پچھلی سیٹ پر ہی بیٹھا ہوں"
بیوی بولی : آتے ہوئے چھ انڈے، ایک ڈبل روٹی، ایک لیٹر دودھ، ایک پاؤ دہی، ایک گڈی ہرے دھنیے کی لیتے آنا۔ اور ہاں دھنیا سونگھ لینا. پچھلی بار بھی میتھی اٹھا لائے تھے"🤣🤣🤣

:ROFLMAO::ROFLMAO:

ویسے یہ لطیفہ میں نے پہلے بھی پڑھا ہے تب موٹی ویشنل اسپیکر کا ذکر نہیں تھا۔ :)

موٹی ویشنل اسپیکرز سے خار کھانا اور موقع بے موقع انہیں رگڑ دینا بھی آج کل فیشن میں شامل ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک عالم دین پنسل سے بیٹھے کچھ لکھ رہے تھے ان کا بیٹا قریب آیا اور تتلاتے ہوئے دریافت کیا : بابا آپ کیا لکھ رہے ہیں؟۔
اس عالم دین نے مسکراتے ہوئے اپنے بیٹے سے فرمایا : بیٹا میرے لکھنے سے بھی زیادہ اہم یہ پنسل ہے جس سے میں بیٹھا لکھ رہا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ جب تم بڑے ہو جاؤ تو تم اس پنسل کی طرح بنو۔
اس بچے نے تعجب آمیز نگاہوں سے باپ کو دیکھا اور پھر بڑے غور سے پنسل کو گھورنے لگا اور وہ اس کی کسی ایسی خصوصیت کو تلاش کرنے لگا جس کی بنیاد پر بابا جان اس سے پنسل جیسا بننے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
بڑی دیر تک پنسل کو دیکھنے کے بعد اسے کوئی ایسی چیز نظر نہ آئی جو اس کے ذہن کو کھٹکتی اور اب بچے سے رہا نہ گیا آخر کار باپ سے معلوم کربیٹھا۔
بابا جان اس پنسل میں ایسی کون سی خصوصیت ہے جس کے سبب آپ کی خواہش یہ ہے کہ میں بڑا ہو کر اس جیسا بنوں۔
اس عالم نے کہا : اس پنسل میں ۵ اہم خصوصیات ہیں اور تم یہ کوشش کرو کہ بڑے ہو کر تمہارے اندر بھی یہیں خصوصیات پیدا ہوں۔

1۔ تم بڑے بڑے کارنامے انجام دے سکتے ہو لیکن کبھی یہ مت بھولو کہ کوئی ہاتھ ہے جو تمہیں چلا رہا ہے اور تم سے یہ کارنامے کروا رہا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا دست قدرت ہے۔

2۔ کبھی کبھی جب اس کی نوک گھس جاتی ہے تو کٹر یا چاقو وغیرہ سے اسے تراشا جاتا ہے اگرچہ یہ ایک اذیت ناک چیز ہوتی ہے لیکن بہرحال اس کی نوک تیز ہو جاتی ہے اور پھر یہ اچھے سے کام کرنے لگتی ہے پس تمہیں بھی یہ جان لینا چاہیئے کہ انسان کو اگر کوئی دکھ اور صدمہ پہونچتا ہے وہ اس لئے ہوتا ہے تا کہ تم بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کر سکو۔

3۔ پنسل یہ اجازت دیتی ہے کہ اگر کچھ غلط تحریر ہو جائے تو تم ربر سے اسے مٹا کر اپنی غلطی کی اصلاح کر سکو پس تم یہ سمجھ لو کہ ایک غلطی کو صحیح کرنا غلطی نہیں ہے۔

4۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ پنسل کی لکڑی اور اس کا خول لکھنے اور تحریر کرنے کے کام نہیں آتا بلکہ لکھنے کے کام ہمیشہ وہ مغز آتا ہے جو اس لکڑی کے اندر چھپا ہوا ہوتا ہے پس ہمیشہ تم اس چیز کا خیال رکھو کہ تمہارے جسم کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ہے بلکہ اس کے اندر چھپی تمہاری روح اور ضمیر قدر و قیمت والا ہے جسم نہیں۔

5۔ پنسل جب کچھ لکھتی ہے تو اپنے کچھ نقوش کاغذ پر چھوڑ دیتی ہے جو مدتوں کاغذ پر دیکھے جا سکتے ہیں پس تم بھی یہ بات سمجھ لو کہ تم جو بھی کام کرو گے اس کے نقوش تمہارے بعد باقی رہیں گے اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم کیسے نقوش چھوڑ کر جاتے ہو پس کسی عمل کو انجام دینے سے پہلے کئی بار غور و فکر کر لو کہ کہیں تم کچھ غلط تو نہیں کر رہے ہو۔
9X48inr.jpg

اچھی بات ہے۔
 

سید عمران

محفلین
:ROFLMAO::ROFLMAO:

ویسے یہ لطیفہ میں نے پہلے بھی پڑھا ہے تب موٹی ویشنل اسپیکر کا ذکر نہیں تھا۔ :)

موٹی ویشنل اسپیکرز سے خار کھانا اور موقع بے موقع انہیں رگڑ دینا بھی آج کل فیشن میں شامل ہے۔ :)
اس مضمون میں خار کھانا یا رگڑا لگانا تو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملا!!!
:unsure::unsure::unsure:
 

محمداحمد

لائبریرین
اس مضمون میں خار کھانا یا رگڑا لگانا تو ڈھونڈے سے بھی نہیں ملا!!!
:unsure::unsure::unsure:

ایک شخص جو سو لوگوں کے بیچ کھڑا ہو کر دانائی کی باتیں کیا کرتا ہو۔ اُس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا ہوگا۔ اُس کردار سے خار نکالنے کے مترادف ہی ہوگا نا۔
 

سید عمران

محفلین
ایک شخص جو سو لوگوں کے بیچ کھڑا ہو کر دانائی کی باتیں کیا کرتا ہو۔ اُس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا ہوگا۔ اُس کردار سے خار نکالنے کے مترادف ہی ہوگا نا۔
یہ وہ شخص نہیں ہے جو سو لوگوں کے بیچ دانائی کی باتیں کرتا ہے۔۔۔
یہ کوئی اور ہے!!!
 
Top