فریب کھا کر بھی

رشید حسرت

محفلین
اسے بُھلا نہ سکا میں کبھی، بُھلا کر بھی
قرِیب رہتا ہے دل کے، وہ دُور جا کر بھی

وہ جس کے ایک اِشارے پہ جان حاضر کی
اُسی نے منہ نہیں دیکھا کفن ہٹا کر بھی

وہ ایک دور کہ تنہائیوں تھیں بزم مثال
ابھی اکیلا ہوں محفل کوئی سجا کر بھی

غضب خُدا کا ستم گر جلائے چشم چراغ
کسی غریب کے دل کا دیّا بُجھا کر بھی

اگرچہ کرتا رہا ہوں بہت ادا کاری
رہی ہے آنکھ مگر نم سی مُسکرا بھی

کسی نے کھو دیا سب کُچھ ولے ہے سب سے امیر
گدا لگا کوئی مجبور جسم پا کر بھی

ہماری قوم ہے سویا ہؤا محل گویا
کرے گا کیا اِنہیں بیکار میں جگا کر بھی

وہ اپنے دور کی اِک عہد ساز ہستی تھے
بلوچ قوم کے سرخیل میر چاکرؔ بھی

غضب کا حوصلہ پایا ہے تُو نے میرے رشیدؔ
رکھا لبوں پہ تبسّم فریب کھا کر بھی

رشید حسرتؔ
 

صابرہ امین

لائبریرین
اسے بُھلا نہ سکا میں کبھی، بُھلا کر بھی
قرِیب رہتا ہے دل کے، وہ دُور جا کر بھی

وہ جس کے ایک اِشارے پہ جان حاضر کی
اُسی نے منہ نہیں دیکھا کفن ہٹا کر بھی

وہ ایک دور کہ تنہائیوں تھیں بزم مثال
ابھی اکیلا ہوں محفل کوئی سجا کر بھی

غضب خُدا کا ستم گر جلائے چشم چراغ
کسی غریب کے دل کا دیّا بُجھا کر بھی

اگرچہ کرتا رہا ہوں بہت ادا کاری
رہی ہے آنکھ مگر نم سی مُسکرا بھی

کسی نے کھو دیا سب کُچھ ولے ہے سب سے امیر
گدا لگا کوئی مجبور جسم پا کر بھی

ہماری قوم ہے سویا ہؤا محل گویا
کرے گا کیا اِنہیں بیکار میں جگا کر بھی

وہ اپنے دور کی اِک عہد ساز ہستی تھے
بلوچ قوم کے سرخیل میر چاکرؔ بھی

غضب کا حوصلہ پایا ہے تُو نے میرے رشیدؔ
رکھا لبوں پہ تبسّم فریب کھا کر بھی

رشید حسرتؔ
بہت سی داد قبول کیجیے ۔
 
Top