گُلِ یاسمیں

لائبریرین
ہم نے اطمینان کی سانس بھری تھی کہ چلو طویل عرصہ بعد حصولِ سکون کے آثار ہویدا ہوئے۔۔۔
پھر حصولِ سکون کے آثار ۔۔۔۔ چھوووووو ہو گئے نا؟؟؟
تاہم لگا سیما علی صاحبہ نے درپردہ کسی کے ساتھ ہمدردی جتائی جو ہمارے لیے بے دردی کا باعث بن گئی۔۔۔
معلوم نہیں کیا درد اور کیا بے درد۔۔۔۔ چھوڑئیے سیما آپا کی ہمدردی کا تذکرہ۔۔۔
ہمیں تو یہ ٹپکا ذہن میں
رہا نہ دل میں وہ بے درد اور درد رہا
مقیم کون ہوا ہے مقام کس کا تھا
ہم آئے تھے یہاں کسی کی رخصتی کا جشن منانے تاہم دیکھا کوئی تبدیلی نہیں آئی۔۔۔
ہمیں تو یہاں رہتے کہیں ڈھول باجوں کی آواز سنائی نہ دی ، نہ کہیں شہنائی بجی۔
تبدیلی آئے گی۔۔۔۔ ضرور آئے گی، لیکن ملک میں۔
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
(پھر سے) تو ہی آئی نظر جدھر دیکھا
:whew::whew::whew:
یعنی کہ۔۔۔ یہ تو کمال ہی ہو گیا۔۔۔
جدھر دیکھتے ہیں ، ہم نظر آتے ہیں۔ ہاں تو موسم ِ بہار جو ہے۔
 

سید عمران

محفلین
اسقدر عجیب محسوس ہوتا ہے “ہے گا” یا معلوم پڑ جائے گا پتا نہیں کہاں سے آئے یہ لفظ اُردو میں ہمارے ایک خالہ زاد بھائی تو اسقدر تنگ کرتے ہیں اپنی بھاوج کو جب بھی وہ کہتی ہیں کھانا ڈال دوں تو فوراً اپنی پلیٹ ہٹا لیتے بھابھی جانوروں کو کھانا ڈال کر دیا جاتا ہے اور انسانوں کی پلیٹوں میں سلیقے سے نکال کے سجا کے پیش کیا جاتا ہے :):):):)
کہیں پہنچانے کو بولا جاتا ہے چھوڑ دوں؟؟؟
اب بھلا کوئی ان سے پوچھے۔۔۔
کیوں چھوڑ دو زندگی بھر کا ساتھ؟؟؟
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
آپ کیوں ہمارے درمیان آگئیں؟؟؟
کس نے بلایا تھا؟؟؟
اپنا دستخط دیکھیں اور۔۔۔
جائیے کروشیا سیکھیں!!!
سیکھا ہوا ہے۔۔۔ اب تو سکھانا چاہتے ہیں محترم۔
کل چھٹی کا فائدہ اٹھائیے اور آپ بھی کروشیا اور اون لے کر بیٹھئیے گا، آپ کو بھی سکھاتے ہیں۔
کیا مطلب۔۔۔ کس نے بلانا تھا۔۔۔ ہم کسی پر ظلم نہیں برداشت کر سکتے۔ اپنے بھائی پر تو بالکل بھی نہیں۔
سمجھ گئے یا سمجھائیں پھر سے۔

محمد عدنان اکبری نقیبی بھائی۔۔۔ ہم نے آپ کے بھائی کا دھیان باتوں میں لگا لیا ہے۔۔۔ آپ جان بچائیے اب۔:LOL:
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
نہیں۔۔۔
زیر کرتے ہیں ہم گل کو آج کل!!!

جی جی بالکل زیر سمجھئیے ۔۔۔۔۔ :ROFLMAO::ROFLMAO::ROFLMAO:

ہماری سر اٹھانے کی مجال کہاں ۔

پہنائے زماں کے سینے پر اِک موج انگڑائی لیتی ہے
اِس آب و گِل کی دلدل میں اِک چاپ سنائی دیتی ہے :rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ہاشم ندیم کی "بچپن کا دسمبر" پڑھ رہی ہوں۔
اور آپ کی یہ تحریر بار بار ذہن میں آتی ہے۔
نیٹ پہ موجود ہے، ضرور پڑھیے گا۔
 

سید عمران

محفلین
ہم نے ٹیوشن پڑھائی۔۔۔
بچوں کے منہ لگنا آسان کام نہیں۔ ہمیں بڑے بڑوں کے منہ لگنے کا دعویٰ تھا، پر ایک دن پہاڑ کے نیچے آگئے۔
ان دنوں چھوٹی ممانی پر بوریت کا بھوت سوار تھا۔ نانا پڑھنے پڑھانے میں مصروف رہتے اور نانی گھر کے کاموں میں مشغول یا نوکرانی کے سر پر سوار۔ ماموں ناشتہ کرتے ہی کام پر چلے جاتے۔ چھوٹے ماموں کی شادی کے شروع دنوں میں تو مہمانوں کی خوب آمد و رفت رہی۔ سارا گھر مہمانوں سے بھرا رہتا۔ پھر ایک ایک کرکے سب رخصت ہونے لگے،گہماگہمی ماند پڑگئی اور زندگی ایک ڈھب پر آگئی۔
بے ڈھب ممانی کو ڈھب کی زندگی کی یہ ڈھب ایک آنکھ نہ بھائی۔ سارا دن بے چینی سے ادھر سے ادھر پھرتی رہتیں۔ نانی گھر کے کاموں میں اتنا مصروف ہوتیں کہ ساس بہو کے جھگڑے کی فرصت بھی نہیں ملتی، چناں چہ چھوٹی ممانی اس مشغلہ سے بھی محروم تھیں۔ ایک دن اچانک ان پر انکشاف ہوا کہ اس بوریت کا واحد علاج مصروفیت ہے اور مصروفیت کا واحد راستہ بچوں کو ٹیوشن پڑھانا۔ انہوں نے ٹیوشن پڑھانے کی ضد پکڑ لی۔
پہلے پہل تو ہر بات کی طرح ان کی اس بات کو بھی طرح دی گئی لیکن یہ طرح انہوں نے لی نہیں، بلکہ اس طرح کو اور طرح سے طرح دے گئیں، اس طرح تھک ہار کر سب نے ہار مان لی۔ اب چھوٹی ممانی زور و شور سے محلہ کے بچوں کو گھیرنے میں لگ گئیں۔بچے تو شاید ان کے دام میں آجاتے لیکن مائیں ممانی کی سوچ سے زیادہ کائیاں نکلیں۔ وہ چھوٹی ممانی سے ہزار سوال کرتیں جن کا ایک جواب بھی نہیں ملتا۔ مائیں بچوں کو چھوٹی ممانی کی پہنچ سے دور رکھنے لگیں۔
اس دن ایک ماں بغیر تفتیش کے اپنا بچہ چھوٹی ممانی کے حوالہ کرگئی، تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ بچہ سوتیلا ہے، سوتیلی ماں کو بچہ سے جان چھڑانے کا موقع مل گیا اور چھوٹی ممانی کو پہلا پہلا شکار۔ چھوٹی ممانی تندہی سے بچہ پر محنت کرنے لگیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بچہ کی کلاس میں پوزیشن آگئی۔تمام بدکی ہوئی ماؤں نے دھڑا دھڑ اپنے بچوں کو چھوٹی ممانی کے حوالے کرنا شروع کردیا۔ چھوٹی ممانی کی لاٹری نکل آئی۔ بوریت کا علاج بھی مل گیا اور آمدنی کا ذریعہ بھی۔ دن ہنسی خوشی گزرنے لگے اور راتیں خوشگوار۔
ایک دن فون آیا کہ چھوٹی ممانی کی والدہ بیمار ہیں۔ انہوں نے فون سنتے ہی ہمیں فون کھڑکا دیا:
’’بہت ضروری کام ہے۔ فوراً آجاؤ۔‘‘ فون فوراً بند کردیا گیا۔ ہم فوراً نانی کے گھر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ روانگی کے لیے چھوٹی ممانی کا سامان بھی تیار ہے اور ہمیں دینے کے لیے ہدایت نامہ بھی:
’’ والدہ بیمار ہیں۔ میں چند دنوں کے لیے جارہی ہوں۔تمہیں روزانہ شام کو چار بجے آنا ہے۔‘‘
’’کس خوشی میں؟‘‘ سوال پوچھنا لازمی تھا۔
’’خوشی وشی کوئی نہیں ۔ چار بجے بچے ٹیوشن پڑھنے آئیں گے۔ میرے واپس آنے تک انہیں ٹیوشن پڑھانی ہے۔‘‘
’’ہمیں کسی کو پڑھانا نہیں آتا۔ خود پڑھ لیتے ہیں،اماں کے لیے یہی بہت ہے۔‘‘
’’مجھے تمہاری کوئی تقریر نہیں سننی۔ ویسے بھی جلدی میں ہوں۔ باہر ڈرائیور انتظار کررہا ہے۔ اب آ گئے ہو تو بچوں کو پڑھا کر جانا۔‘‘
چھوٹی ممانی جھٹ بیگ اٹھا فٹ گاڑی میں بیٹھ یہ جا وہ جا۔ ہم اپنی جا ہاتھ ملتے کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔
چار بجے بچوں کی آمد شروع ہوئی۔ ایک چھوٹا سا بچہ بڑا سا بیگ اٹھائے آن وارد ہوا۔ ہمیں دیکھ کر معصومیت سے پوچھا:
’’مس کہاں ہیں؟‘‘
’’کام سے گئیں ہیں۔ آج ہم تمہیں پڑھائیں گے۔‘‘
’’آپ؟‘‘ معصومیت بھری طنزیہ مسکراہٹ لیے کنفرم کیا گیا۔ ہم اسے کنفرم کرانے کے حربے سوچ ہی رہے تھے کہ بڑی سی بچی چھوٹا سا بیگ تھامے چلی آئی۔
’’آج آپ پڑھائیں گے؟‘‘ شک بھری نگاہوں سے یقین بھری بات پوچھی۔
’’ آپ لوگوں کی مس ضروری کام سے گئی ہیں ایک دو دن میں آجائیں گی۔ تب تک ہم آپ کو پڑھائیں گے۔‘‘
’’آپ کو پڑھانا آتا بھی ہے یا فضول میں ٹائم ضائع کریں گے؟‘‘ فضول سی لڑکی نے فضول سا منہ بنا کر پوچھا۔ ہم فضول سے سوال کا فضول سا جواب دینے ہی والے تھے کہ اچانک بچوں کے ریوڑ کے ریوڑ آنے لگے۔ شروع میں تو ہم نے گنتی کی پھر تھک کر چھوڑ دی۔
اب ایک ایک کرکے پڑھانے کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے فضول سی لڑکی سے کہا:
’’اردو کی کتاب نکالو۔‘‘ کتاب نکال لی۔ کتاب تو نکلوالی پر اسے پڑھائیں کیسے۔ ابھی اسی شش و پنج میں مبتلا تھے کہ فضول سی لڑکی نے ہماری فضول سی مشکل آسان کردی:
’’سر آج یہ نظم پڑھائیں۔‘‘
’’تم پڑھو، ہم سنیں گے، کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو پوچھ لینا۔‘‘ اپنے تئیں علامہ بن رہے تھے۔
فضول سی لڑکی نے علامہ کی نظم پہاڑ اور گلہری پڑھی۔ ایک جگہ رک کر بولی:
’’اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘
‘‘کس کا؟‘‘
‘‘یہی۔۔۔
بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اس نے
مجھے درخت پہ چڑھنا سکھا دیا اس نے‘‘
‘‘کیا سمجھ میں نہیں آیا؟‘‘
‘‘یہ دیا۔‘‘
’’کیا دیا؟‘‘
’’ دیا تو وہ ہوتا ہے نا ں جو جلا کر گھمایا جاتا ہے۔‘‘ ہاتھ سے دئیے کی شکل بنا کر باقاعدہ گھما کر دکھایا گیا۔
’’وہ بھی دیا ہے مگر یہاں کوئی اور دیا ہے۔‘‘
’’دیا کتنی طرح کا ہوتا ہے۔‘‘
’’ابھی تو دو ہی طرح کا سمجھو۔‘‘
’’ یعنی تیسری طرح کا دیا بھی ہوتا ہے، وہ دیا کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’وہ رکھ کے دیا ہوتا ہے۔‘‘ ہم نے الفاظ کو عملی جامہ پہنایا۔ پھر اسے بسورتا چھوڑ کر دوسرے بچہ کی طرف متوجہ ہوئے۔
’’تم مس سے کیا پڑھتے ہو ؟‘‘
’’ٹو کا ٹیبل۔‘‘
’’سناؤ۔‘‘
’’ٹو ون زا ٹو، ٹو فائو زا ایٹ ٹو ٹین زا ٹوویلو۔‘‘
الٹا سیدھا ٹیبل سنا کر جان چھڑائی ۔ ہم نے الٹا سیدھا سن کر جان بچائی۔ اگلے بچہ کو دیکھا۔ دیکھا کہ وہ ہمیں ہی دیکھ رہا ہے۔
’’ہمیں کیوں دیکھ رہے ہو اپنی کتاب میں دیکھو۔‘‘
’’وہ نہیں لایا ۔‘‘
’’تو خود کیوں آگئے۔‘‘
’’کاپی لایا ہوں۔‘‘
’’اسی میں دیکھتے رہتے۔‘‘
’’دیکھا تھا پر دیکھتے دیکھتے تھک گیا۔‘‘
’’دکھاؤ کاپی۔‘‘ اس نے دکھائی کاپی۔
’’اس میں پوئم لکھی ہے تم نے یاد کی؟‘‘
’’جی۔‘‘
’’سناؤ۔‘‘
’’ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار ، ہاؤ انڈر ٹو یو آر، اپ ابا ان دس پائی۔‘‘
’’یہ کیسی پوئم ہے ؟‘‘ ہم نے غصہ سے پوچھا۔ اس نے کچھ اور سمجھا۔
’’اچھی پوئم ہے۔‘‘
’’افوہ! یہ کیسی یاد کی ہے؟‘‘ ہمارا پارہ ہائی ہونے لگا۔
’’بہت دیر لگا کر یاد کی ہے۔‘‘ خون کھولادینے والا جواب۔
’’اور یہ پائی کیا ہے اسکائی ہوتا ہے۔‘‘ بعد میں معلوم ہوا ان دنوں بچہ کے یہاں پائی بہت بن رہی تھی۔ اسے پائی کے حال پر چھوڑ کر اگلی بچی سے نمٹے۔
’’تم نے کچھ پڑھا؟‘‘
’’جی۔‘‘ سنجیدگی سے مختصر جواب ملا۔ ہم نے سکون کا سانس لیا۔ کوئی تو پڑھائی کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔ باقی بچے سب ہم پر گئے ہیں۔
’’ اپنا کام چیک کراؤ۔‘‘
فوراً سائنس کی کاپی آگے کردی۔
’’ یہ کیا بنایا ہے؟‘‘
’’دنیاکا نقشہ ہے۔‘‘
’’ایسی دنیا کائنات میں کہاں ہوتی ہے؟‘‘
’’سر اتنی تفصیل تو مس نے نہیں بتائی۔‘‘
’’کیا نہیں بتائی۔‘‘
’’یہی اس دنیا کا ایڈریس۔‘‘
’’عجیب بے وقوف لڑکی ہو۔ اس طرح کی دنیا تم نے کہاں دیکھی ہے۔ کیا کتاب سے دیکھ کر نقشہ بنایا ہے؟‘‘
’’نہیں سر ، مس کہتی ہیں کچھ خود بھی نیا سوچو، دماغ لڑاؤ، تو میں نے خود سے اس دنیا کا نقشہ بنایا ہے۔‘‘ فخریہ انداز میں بتایا۔ دل چاہا کاپی اس کے منہ پر دے ماریں لیکن یہ سوچ کر غصہ پر قابو پایاکہ چھوٹی ممانی سے شکایت کردے گی۔ صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے بچہ کو بلایا:
’’تمہارا کیا کام ہے۔‘‘
’’سر ناصر۔‘‘جھجکتے ہوئے کہا۔
’’ابے۔۔۔‘‘ غصہ کو دبایا۔
’’ہم نے تمہارا نام نہیں کام پوچھا ہے۔ اور تم سر کس کے ہو؟‘‘
’’سر، سر میں نےآپ کو کہا ہے، میں سر نہیں ہوں بغیر سر کے صرف ناصر ہوں۔‘‘
’’اچھا زیادہ سر سر کر کے سر نہ دُکھاؤ، کام دِکھاؤ۔‘‘
معاشرتی علوم کی کتاب کھول دی گئی۔
’’پڑھو، کیا لکھا ہے۔‘‘
’’سر لکھا ہے ہم چاول بیرون ملک برآمد کرتے ہیں۔‘‘ پڑھتے پڑھتے رُک گیا۔
’’آگے پڑھو۔‘‘
’’سر ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘
’’وہ کیا؟‘‘
’’برآمد کا مطلب ہے نکلنا، تو ہم بیرون ملک چاول کیسے نکالتے ہیں؟‘‘ اپنے تئیں علمیت جھاڑی گئی۔
’’ برآمد کا مطلب نکلنا کہاں سے نکالا؟‘‘ دانت پیس پیس کے ہمارے جبڑے دُکھنے لگے۔
’’سر کل ٹی وی پر دکھا رہے تھے کہ پولیس نے چھاپا مار کر گودام سے چینی برآمد کرلی۔ یعنی چینی باہر نکال لی کیوں کہ پہلے وہ گودام کے اندر رکھی تھی۔‘‘ صدی کا عظیم انکشاف ہو رہا تھا۔
’’بسسس۔ چپ ہوجاؤ۔ ‘‘
ارے یار انہیں کیسے پڑھائیں، کیسے سمجھائیں۔ یہ ہمارے بس کا روگ نہیں۔ ہم نے اپنا سر پکڑلیا۔ بال اس لیے نہیں نوچے کہ جاتے آسانی سے ہیں آتے مشکل سے ہیں۔
’’چلو سب اپنے اپنے گھر جاؤ۔ چھٹی ہوگئی۔‘‘
’’ سر آپ نے ہمیں کچھ نہیں پڑھایا۔ ہم مس سے شکایت کریں گے۔‘‘ فضول سی لڑکی جاتے جاتے فضول سی دھکمی دیتی گئی۔ ہمارے منہ سے فضول سے جملے نکلنے والے تھے کہ بچوں کی اخلاق باختگی کا خوف آڑے آگیا۔کوئی اور ہوتا تو اچھی طرح آڑے ہاتھوں لیتے۔
’’اور ہاں، مس کے واپس آنے تک سب کی چھٹی ہے۔ ‘‘
سب بچے خوشی سے شور مچاتے ہوئے اچھلتے کودتے چلے گئے۔
بچوں کو چھٹی کی جتنی خوشی ہوئی ہمیں اس عذاب سے نکلنے کی اس سے زیادہ ہوئی۔

رہی بات چھوٹی ممانی سے نمٹنے کی تو وہ مشکل ہمیں اس مشکل کے آگے اونٹ کے منہ والا زیرہ لگ رہی تھی!!!
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
برآمد کا مطلب ہے نکلنا، تو ہم بیرون ملک چاول کیسے نکالتے ہیں؟‘‘ اپنے تئیں علمیت جھاڑی گئی۔
’’ برآمد کا مطلب نکلنا کہاں سے نکالا؟‘‘ دانت پیس پیس کے ہمارے جبڑے دکھنے لگے۔
بہت خوب بہت خوب دیکھا خواتین میں کتنا صبر ہوتا ہے ہم نے بہت ٹیوشن پڑھائی پتھر کا دل کرنا پڑتا ہے دانت نہیں پیسنا 🤓
 

سیما علی

لائبریرین
فضول سی لڑکی جاتے جاتے فضول سی دھکمی دیتی گئی۔ ہمارے منہ سے فضول سے جملے نکلنے والے تھے کہ بچوں کی اخلاق باختگی کا خوف آڑے آگیا۔کوئی اور ہوتا تو اچھی طرح آڑے ہاتھوں لیتے۔
ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا 🤩
 

سیما علی

لائبریرین
مذاق کی بات الگ
بہت زبردست تحریر ⭐️⭐️⭐️⭐️⭐️
ماشاءاللہ ماشا اللہ اسقدر خوبصورت انداز ایک ایک لفظ پُر اثر پڑھنے والا ہپنٹائیزڈ ہوجاتا ہے اور ایک ایک لفظ محسوس کرتا یہ بہت کم ہوتا ہے!!!!! اس کم عمری میں یہ حال ہے تو پختگی آتے آتے کیا کریں گے ۔۔۔۔۔
سلامت رہیے شاد و آباد رہیے اور پھر دلوں کے حال بھی تو بتانے ہیں :dancing::dancing::dancing::dancing::dancing::dancing::dancing:
 
آخری تدوین:
Top