اردو میں ہمزہ لکھنے کے قواعد

فرید احمد

محفلین
بی بی سی اردو پر سے :
اُردو میں ہمزہ کے استعمال سے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ کچھ تو لاعلمی کے باعث اور کچھ اپنا نقطہء نظر دوسروں پر تھوپنے کی عادت کے باعث۔
انیسویں صدی کے کئی اُردو قواعد نویسوں نے ہمزہ کو حروفِ ابجد میں شامل کیا ہے۔ فتح محمد جالندھری بھی اسے حروفِ تہجّی میں شامل کرتے ہیں لیکن مولوی عبدالحق نے اسے زیر، زبر، پیش کی طرح ایک علامت قرار دیا ہے۔

قواعدِ اُردو میں مولوی صاحب رقم طراز ہیں:
’’ ہمزہ کو غلطی سے حروف میں شامِل کرلیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت ی اور واؤ کے ساتھ وہی کام کرتا ہے جو مدّ الف کے ساتھ کرتی ہے۔ یعنی جہاں ی یا واؤ کی آوازیں کھینچ کر نکالنی پڑیں وہاں بطور علامت ہمزہ لکھ دیتے ہیں۔‘‘

مولوی عبدالحق جیسے عالمِ اُردو اور جیّد قواعد داں نے بھی ہمزہ کے بیان میں ٹھوکر کھائی ہے کیونکہ ہمزہ ہرگز مدّ والا کام نہیں کرتا۔ یعنی آواز کو کھینچ کر لمبا نہیں کرتا۔

ابواللیث صدیقی اُردو کے ایک مُستند قواعد نویس ہیں انھوں نے ہمزہ کے مسئلے پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے لیکن انھوں نے بھی چونکہ تجزیئے کے روائتی اوزار استعمال کئے ہیں اس لئے معاملے کو پوری طرح سلجھا نہیں سکے۔ مثلاً مولوی عبدالحق کے تتبع میں انھوں نے بھی لکھا ہے کہ ہمزہ ہمیشہ ی یا واؤ کے ساتھ آتا ہے لیکن ی اگر لفظ کے آخر میں ہو تو ہمزہ لکھنے کی ضرورت نہیں مثلاً رای یا راے پر ہمزہ لگانے کی ضرورت نہیں۔

اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسکا تمام تر صوتیاتی ڈھانچا مقامی ہے البتہ تحریر کے لئے اُردو نے ایک غیر ملکی رسم الخط اپنایا، جسکے صوتیاتی اور املائی اصول و ضوابط ہندوستانی زبانوں سے مختلف تھے۔

اگر اس اصول کو درست مان لیا جائے تو پھر آئے، جائے وغیرہ میں بھی ہمزہ فالتو شمار ہونا چاہیئے لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔ شاید یہ کہنا مناسب ہو کہ ہمزہ کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے اِملاء کی نہیں صوتیات کی تفہیم ضروری ہے اور ہم اب اُسی طرف آنے والے ہیں لیکن پہلےہمزہ کی علامت کا تھوڑا سا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے۔

عربی املاء میں کوئی رکن (سِلے بل --Syllable ) واول سے شروع نہیں ہوسکتا۔

ی اور واٰؤ جب لفظ کے شروع میں ہوں تو یہ حروفِ صحیح (کانسو نینٹ) شمار ہوتے ہیں اور جو الفاظ بظاہر الف سے شروع ہوتے ہیں وہ دراصل ’ء‘ سے شروع ہوتے ہیں کیونکہ عربی میں الف بذاتِ خود کوئی آواز نہیں رکھتا اور محض ہمزہ کو واضح طور پر دکھانے کے لئے – یعنی اس کی نشان دہی کے لئے – ایک سیدھی لکیر کی حیثیت رکھتا ہے اور یاد رہے کہ عربی میں ہمزہ ایک واول نہیں بلکہ کانسونینٹ آواز ہے۔

اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسکا تمام تر صوتیاتی ڈھانچا مقامی ہے البتہ تحریر کے لئے اُردو نے ایک غیر ملکی رسم الخط اپنایا، جسکے صوتیاتی اور املائی اصول و ضوابط ہندوستانی زبانوں سے مختلف تھے۔ مثلاً عربی میں کوئی لفظ یا رکن واول آواز سے شروع نہیں ہو سکتا لیکن اُردو میں بے شمار الفاظ واول سے شروع ہوتے ہیں۔ جیسے اُبٹن، اُبال، اِکائی، اِکاون، انداز، انجان وغیرہ۔ چنانچہ اہلِ اُردو نے عربی املا میں سے الف لے کر اسے واول آوازوں کا آلہ بنایا۔ اُردو میں بھی الف بذاتِ خود محض ایک سیدھی لکیر ہے اور کسی آواز کی نمائندگی نہیں کرتا، البتہ جب اِس پر زبر یا پیش پڑتی ہے یا اسکے نیچے زیر لگا دی جاتی ہے تو اس میں مخصوص واول آواز پیدا ہو جاتی ہے۔

’بھارت‘ دو رکنی لفظ ہے جبکہ پاکستان کا لفظ تین ارکان پر مشتمل ہے: پا۔ کس۔ تان۔ اور پاکستانی کا لفظ چار رکنی ہے: پا۔ کس۔ تا۔ نی۔ اِس آحری مثال میں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ پہلا رکن ’پا‘ ایک واول آواز پر ختم ہو رہا ہے۔


(جب کوئی علامت نہ ہو تو تب بھی اس پر زبر تصّور کیا جاتا ہے) ظاہر ہے کہ الف کا یہ خصوصی اہتمام لفظ کی ابتداء کے لئے کیا گیا ہے۔ باقی تمام حروفِ صحیح پر تو زیر، زبر، پیش لگ ہی جاتی ہے۔

عربی نظامِ ہجّا کو ایک ہندوستانی زبان کے استعمال میں لانے کےلئے اس طرح کی راہ نکالنا ضروری تھا۔ خیر یہ تو ہوا الف کا استعمال جِسے ہم نے عربی املاء سے حاصل کیا اور اسے ہمزہ سے آزاد کر کے اس پر واول آوازوں کے اعراب لگا لِئے – لیکن خود ہمزہ کا کیاہوا؟

اہلِ اُردو نے اسے بھی اپنایا لیکن عربی کی طرح ایک حرفِ صحیح (کانسو نینٹ) کے طور پر نہیں بلکہ واول آوازوں کے ملاپ کو ظاہر کرنے والی علامت کے طور پر۔ اسکی وضاحت چند مثالوں سے ہو جائے گی۔ البتہ مثالیں پیش کرنے سے پہلے رکن یعنی سِلےبل کے تصوّر کو واضح کرنا ضروری ہے۔

تلفظ کی مختصر ترین اکائی کو رکن کہا جاتا ہے ۔ مثلاً سُن گُن کے لفظ میں دو ارکان ہیں سُن اور گُن۔ ’میرا‘ میں پہلا رکن ہے ’مے‘ اور دوسرا رکن ہے ’را‘۔ گویا ’میرا‘ کا لفظ بھی دو رکنی ہے۔ اسی طرح ’بھارت‘ دو رکنی لفظ ہے جبکہ پاکستان کا لفظ تین ارکان پر مشتمل ہے: پا۔ کس۔ تان۔ اور پاکستانی کا لفظ چار رکنی ہے: پا۔ کس۔ تا۔ نی۔ اِس آحری مثال میں ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ پہلا رکن ’پا‘ ایک واول آواز پر ختم ہو رہا ہے۔ جبکہ دوسرا رکن ’کس‘ ایک کانسو نینٹ پر ختم ہو رہا ہے۔ اسی طرح آخری دو ارکان (تا اور نی) بھی واول آواز پر ختم ہو رہے ہیں۔ یہ پس منظر بیان کرنے کے بعد ہم اصل مسئلے کا رُخ کرتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے اُردو میں ہمزہ کی بذاتِ خود کوئی صَوت
(آواز) نہیں ہے اور الف کی طرح یہ بھی دیگر آوازوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ یعنی جسطرح الف اپنے اوپر لگی ہوئی (یا تصّور کی ہوئی) زبر یا پیش کی نمائندگی کرتا ہے یا اپنے نیچے لگی ہوئی زیر کی آواز کا آلہ کار بنتا ہے اُسی طرح ہمزہ خود کوئی آواز نہیں دیتا بلکہ دو واول آوازوں کے مقامِ اتصّال کی خبر دیتا ہے۔

مثال کے طور پر ذیل کے الفاظ کو دیکھیئے:
آئی۔ آئے۔ جاؤ۔ لاؤ۔
اِن لفظوں کی تقسیم، ارکان میں یوں ہو گی۔
آ + ای
آ + اے
جا + او
لا + او
جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں ہر مثال میں پہلا رکن ایک واول آواز پر ختم ہو رہا ہے اور دوسرا رکن ایک واول آواز سے شروع ہو رہا ہے چنانچہ دونوں کے مِلاپ کی جگہ کو ظاہر کرنے کے لئے اُن کے اوپر ہمزہ لگا دیا گیا ہے۔

لیکن یہ اس معاملے کی ایک سادہ سی تشریح ہے۔ کیونکہ واؤ اور ی کے حروف بیک وقت واول بھی ہیں اور کانسونینٹ بھی۔ خاص طور پر ’ی‘ کا چلن خاصا ٹیڑھا ہے اور کئی بار یہ بولنے والے کے آبائی علاقے، طبقے یا تعلیمی و تہذیبی پس منظر کے مطابق رنگ بدل لیتی ہے۔ چنانچہ ہمزہ کے استعمال میں ’ی‘ کی نیرنگیء طبع خاصے گُل کھلاتی ہے۔

ہندوستان کا اُردو داں طبقہ جو ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط سے بخوبی آگاہ ہے وہ آئے، جائے کے ہجّوں میں ہمزہ کی بجائے ’ی‘ کے دو نقطے لگانے کا رجحان رکھتا ہے کیونکہ ہندی میں ’آئے‘ کے عمومی ہجّے (آ + یے) ہیں اور اکثر علاقوں میں دوسرے رکن کی ابتدائی ے کو سابقہ واول میں ضم کرنے کی بجائے اعلانیہ ادا کیا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے الفاظ کی املاء دو طرح سے ہو سکتی ہے:
کیے، دیے، لیے، پیے، یا
کِئے، دِئے، لِئے، پِئے
پہلی مثال میں ہمزہ غائب ہے اور صرف ’ی‘ سے کام چلایا گیا ہے جبکہ دوسری مثال میں درمیانی ’ی‘ غائب ہے صرف ہمزہ سے کام چلایا گیا ہے۔ ہجّوں کے لحاظ سے مکمل ترین شکل یہ بنتی ہے:
کیئے، دیئے، لیئے، پیئے۔

اب یہاں معاملہ ذاتی پسند یا نا پسند کا بھی آجاتا ہے چنانچہ ہمارے خیال میں پہلی مثال (کیے، دیے) کی تقلید تو ہرگز نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اس میں دو واول آوازوں کے ملاپ کی نشانی (ء) استعمال نہیں کی گئی۔ باقی دو صورتوں میں سے کوئی ایک اپنا کر اسے اُردو میں مستقل رواج دے دینا چاہیئے۔

ہمارا ذاتی ووٹ تیسری اور آخری صورت کی طرف ہے کیونکہ یہ مکمل ترین ہجّے ہیں اور تعظیمی خطاب میں خاص طور پر اِن کی ضرورت پڑے گی کیونکہ ہمزہ اور ’ی‘ کی شمولیت کے بغیر ادب آداب سے پکارنے کے الفاظ واضح طور پر نہیں لکھے جا سکیں گے۔ مثلاً درج ذیل تعظیمی صیغوں پر نگاہ ڈالئیے۔
آئیے، فرمائیے۔ کھائیے، لائیے۔ اگر اِن الفاظ میں ’ی‘ کے دو نقطوں کا اضافہ نہ کیا جائے تو پھر یہ
آئے، جائے، فرمائے اور کھائے سے مختلف نہ رہیں گے۔

اگر پہلے رکن کا اختتامی واول دوسرے رکن کے ایسے ابتدائی واوال میں ضم ہو رہا ہو جو او یا اُو کی آواز دے رہا ہو تو ہمزہ دوسرے رکن کے واؤ پر آئے گا۔ مثلاً آؤ۔ جاؤ۔ لیکن خاص طور پر دھیان رکھنے کی ضرورت ہے جب پہلا رکن بھی واؤ پر ختم ہو رہا ہو، مثلاً
اگر میں اسکو چُھوؤں تو وہ شرماجائے۔
جب تم پیر دھوؤ تو خشک ضرور کرنا۔
آپ نے دیکھا کہ اِن صورتوں میں ہمزہ ہمیشہ دوسرے واؤ پر آتا ہے۔

خلاصہ کلام:
• ہمزہ کی علامت دو واول آوازوں کے ملاپ کو ظاہر کرتی ہے۔
• ِلئے، دِئے، کِئے وغیرہ کو کئی طرح سے لکھا جا تا ہے لیکن مکمل
ترین ہجّے وہ ہیں جن میں ہمزہ اور ی دونوں استعمال ہوں۔
• تعظیمی خطاب آئیے، لائیے، کھائیے میں بھی یہی املائی اصول مدِنظر رکھنا چاہیئے۔
• جب دو واؤ متصّل ہوں تو ہمزہ دوسرے واؤ پر آئے گا مثلاً آنسو کی قیمت، لیکن آنسوؤں کا دریا۔

بی بی سی نے اسے بشکل فورم شائع کیا ہے، شائقین بی بی سی پر بھی اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔

ربط
 
خوب آرٹیکل

بہت ہی خوب آرٹیکل لکھا ہے اور کاوی صاحب آپ کا شکریہ شیئر کرنے کا۔ دراصل میں بھی اس معاملے پر حد سے زیادہ کنفیوژن کا شکار رہا ہوں اور میرا ایک سوال اسی حوالے سے اس بورڈ پر بھی موجود ہے۔ میں نے جنگ اخبار، بی بی سی اور کچھ اچھے پبلشرز (سنگِ میل) کی کتاب اسی حوالے سے چھانیں کہ کئے، لئے ، دیئے وغیرہ کی صحیح ہجّے سمجھ میں آجائے۔ بہرحال جب بابائے اردو کنفیوژ ہوں تو ہم پر تو جائز ہے۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
یا تو صاحب مضمون / آرٹیکل خود حددرجہ کنفیوژن کا شکار ہیں یا پھر قاری کو لسانی ابہام میں مبتلا کرنا مقصود ہے :shock:
 
کوئی اہمیت

سیدہ شگفتہ نے کہا:
یا تو صاحب مضمون / آرٹیکل خود حددرجہ کنفیوژن کا شکار ہیں یا پھر قاری کو لسانی ابہام میں مبتلا کرنا مقصود ہے :shock:

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم لوگ معیار کے شیدائی نہیں ہیں۔ آپ بی بی سی کی نشریات دیکھیں۔ جس زبان کی نشریات ہوگی اس میں زبان کا بڑا اعلیٰ معیار دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس کے برعکس پ‌ٹ‌و قومی زبان کا قومی چینل ہونے کے باوجود اردو زبان کا بہت خراب معیار پیش کرتا ہے (سکول کو sakool)۔ کہنا یہ تھا کہ کہیے، کہیئے، کہئے کسی عام لکھنے والے کے لیے شائد کوئی اہمیت نہ رکھتا ہو اور اسے یہ گفتگو ہی بے معنی لگے مگر اس کی بہت اہمیت ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
مضمون تو یقیناً اچھا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بات یہ لکھوں کہ اس محفل میں اب صحیح شکل میں ’قواعد‘ نظر آیا ہے ورنہ پمارے اکثر اراکین اسے ’قوائد‘ لکھتے آ رہے تھے اورمیں اس ضمن میں ایک پوسٹ کا ارادہ رکھتا تھا۔ کیہ بات البتہ صحیح نہیں لگی کہ محض ہندی کے اثر میں لوگ کچھ الفاظ میں ہمزہ استعمال نہیں کر رہے۔ ایک اور بات اسی سلسلے کی کمپیوٹنگ کی محفل میں پوسٹ کروں گا۔
 

الف عین

لائبریرین
مضمون تو یقیناً اچھا ہے۔ اس سلسلے میں ایک بات یہ لکھوں کہ اس محفل میں اب صحیح شکل میں ’قواعد‘ نظر آیا ہے ورنہ پمارے اکثر اراکین اسے ’قوائد‘ لکھتے آ رہے تھے اورمیں اس ضمن میں ایک پوسٹ کا ارادہ رکھتا تھا۔ کیہ بات البتہ صحیح نہیں لگی کہ محض ہندی کے اثر میں لوگ کچھ الفاظ میں ہمزہ استعمال نہیں کر رہے۔ ایک اور بات اسی سلسلے کی کمپیوٹنگ کی محفل میں پوسٹ کروں گا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم

دیوانِ غالب میں ہمزہ کے استعمال اور املاء کے حوالے سے یہ مضمون ایک بار پھر نظر سے گذرا(اگرچہ شارق مستقیم صاحب نے ایک ہی للکار میں ہمارا کام تمام کر دیا تھا کہ پھر احتراماً جراتِ لب کشائی ہی نہ رہی :) )۔ میں نے اس مضمون کو چند ایک بار مطالعہ کیا ہے اور ہر بار اسی اُلجھن سے دوچار ہونا پڑا جو پہلی بار پڑھنے پر بھی پیش آئی تھی ۔ میں اسی اُلجھن کو یہاں سوال کی صورت میں پیش کر رہی ہوں امید ہے کہ کوئی صاحب یا صاحبہ اس پر روشنی ڈالیں گی۔

اس مضمون کے مطالعے میں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ صاحبِ مضمون دراصل کہاں اپنی توجہ مرکوذ کرنا چاہ رہے ہیں ؟

یہ کہ اردو میں ہمزہ کی املاء پر علمی و تحقیقی نظر ڈالنی ہے ؟

یا

یہ کہ اردو کو کٹہرے میں کھڑا کرنا ہے کہ اس نے فلاں زبان کی بجائے فلاں زبان کا اثر قبول کیا ؟

اگر حُسنِ ظن یہ رکھا جائے کہ صاحبِ مضمون کا مقصد علمی و تحقیقی نظر ڈالنا ہے تو اُلجھن کا اگلا مرحلہ یہ ہے کہ صاحبِ مضمون نے صوت کی بنیادی اکائی کی جو تعریف پیش کی ہے وہ اُس سے مختلف ہے جو لسانیات کے طالب علم کے طور پر اب تک ہمارے علم میں ہے ۔

مضمون سے ایک اقتباس:

تلفظ کی مختصر ترین اکائی کو رکن کہا جاتا ہے ۔ مثلاً سُن گُن کے لفظ میں دو ارکان ہیں سُن اور گُن۔ ’میرا‘ میں پہلا رکن ہے ’مے‘ اور دوسرا رکن ہے ’را‘۔ گویا ’میرا‘ کا لفظ بھی دو رکنی ہے۔ اسی طرح ’بھارت‘ دو رکنی لفظ ہے جبکہ پاکستان کا لفظ تین ارکان پر مشتمل ہے: پا۔ کس۔ تان۔ اور پاکستانی کا لفظ چار رکنی ہے: پا۔ کس۔ تا۔ نی۔


جب یہ کہا جائے کہ تلفظ کی مختصر ترین اکائی کو رُکن کہتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ سُن گُن میں دو ارکان سُن اور گُن کیونکر ہو سکتے ہیں ؟ کیونکہ

سُن دراصل دوحروف پر مشتمل ہے یعنی (س + ن) اس میں س کی اپنی صوت ہے اور ن کی اپنی الگ صوت ہے ، پس سُن ایک سے زائد صوت پر مشتمل ہے تو اس کا مطلب یہ کہ یہ ایک سے زائد مختصر ترین اکائیوں پر مشتمل ہے نہ کہ خود اسے مختصر ترین اکائی کہا جائے ، اسی طرح گن ، مے ، را ، پا ، کس تا ، نی وغیرہ بھی ایک سے زائد مختصر ترین اکائیوں پر مشتمل ہیں بجائے اس کے کہ خود انھیں مختصر ترین اکائی مانا جائے ۔ ایسی صورت میں صاحبِ مضمون نے مختصر اکائی کی بنیاد پر ہمزہ کے استعمال کی جو تشریح پیش کی ہے اسے کس طرح جسٹیفائی کیا جائے ؟


مضمون سے مزید اقتباس:

اُردو زبان ہندوستان میں پیدا ہوئی اور اسکا تمام تر صوتیاتی ڈھانچا مقامی ہے البتہ تحریر کے لئے اُردو نے ایک غیر ملکی رسم الخط اپنایا، جسکے صوتیاتی اور املائی اصول و ضوابط ہندوستانی زبانوں سے مختلف تھے۔ مثلاً عربی ۔۔۔


صاحبَ مضمون کے اس خیال کے تحت اردو میں ہمزہ کی املاء کو عربی قواعد کی روشنی میں جانچا اور پرکھا جائے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان قواعد کی روشنی میں بھی اردو میں ہمزہ کی املاء کافی واضح ہے اور صاحبِ مضمون نے جن پیچیدگیوں کا ذکر کیا ہے وہ ان قواعد کے تحت بھی حل ہوتی نظر آتی ہیں ۔ پھر کیا سبب ہے کہ ہمزہ کی املاء کو اتنا پیچیدہ سمجھا جائے ۔

کسی بھی زبان میں (لسانیاتی سطح پر) جہاں متعدد امور، قواعد کے تحت بیان ، واضح اور وضع کئے جاتے ہیں وہیں کچھ امور ایسے بھی ہوتے ہیں جو سماعی ہوتے ہیں اور (یعنی) کسی بھی اصول یا قانون کی روشنی میں بیان نہیں کئے جاسکتے لیکن عُرفِ عام (عوام) میں چونکہ رائج ہو چکے ہوتے ہیں اس لئے انہیں علمِ لسانیات میں رد نہیں کیا جاتا بلکہ استثنائی طور پر سماعی کا درجہ دے کر اپنا لیا جاتا ہے ( واضح رہے کہ اِن سماعی امور کو کسی قاعدے کے کے بغیر ہی اپنایا اور بیان کیا جاتا ہے۔)

میرے ناقص علم کے مطابق کیئے ، لیئے ، کہیئے وغیرہ کے مقابلے میں

کیے ، لیے ، کہیے

یا پھر

کئے ، لئے ، کہئے

زیادہ مناسب املاء ہے


ہمزہ اور ی جداگانہ طور پر ایک دوسرے کی جگہ لے سکتے ہیں لیکن انہیں ایک ہی جگہ اکٹھا کرنا کیونکر مناسب ہے اور املائی اصول بن سکتا ہے ؟ یا پھر اسے استثنائی صورت سمجھا جائے ؟

ایک سوال یہ بھی ہے کہ جیسا کہ آخر میں (خلاصہ میں) صاحبِ مضمون نے ذکر کیا کہ

• ہمزہ کی علامت دو واول آوازوں کے ملاپ کو ظاہر کرتی ہے۔

سوال : کیا یہ ابھی محض ایک خیال یا رائے ہے یا اسے باقاعدہ اصول یا قانون کے طور پر اپنا لیا گیا ہے ؟

امید ہے کہ کوئی صاحب یا صاحبہ اٌلجھن رفع کرنے میں رہنمائی فرمائیں گے اور شاید کچھ مزید سوالات کے جواب بھی مل جائیں جو اس مضمون کو پڑھتے وقت سر اُٹھاتے ہیں ۔


شکریہ
 

الف عین

لائبریرین
یہ مضمون بھی میری بات کو تقویت دیتا ہے کہ ی کے بعد بھی واول کی آواز ہو تو ہمزہ کا استعمال کیا جائے۔ یعنی وادئِ فرات نہ کہ وادیِ فرات۔ البتّہ میں ’ئے‘ کے استعنمال کو ہی ہمیشہ ترجیح دیتا آیا ہوں۔ اور جب کہ یہ اپنا یونی کوڈ کیریکٹر ہے تو میں ئے لکھنے کے لئے ’ئ‘ اور ’ے‘ کی کنجیاں نہیں دباتا۔ میں نے ’ئے‘ کو آلٹ جی آر اور وائ کی کنجی پر اس کو میپ کر رکھا ہے اپنے کی بورڈ میں۔ دو واو تو میں ٹھیک کر چکا ہوں اکثر کی املاء میں، کہ دوسری پر ہمزہ ہو یعنی ’ؤ‘ (جو میرے کی بورڈ میں ان پیج کے مطابق برابر والی کنجی پر ہے)۔ دیوان میں وہاب اعجاز نے یہ حرف استعمال ہی نہیں کیا۔ ہر جگہ گاؤأں کو گاوں لکھا ہے۔ یہ بھی میں نے درست کر دیا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بی بی سی کے اس مضمون کو بھی ٹائپ کرنے والے نے وہی اغلاط کی ہیں۔ مقطۂ نظر کو نقطہ ء نظر!!
 
معذرت

سیدہ شگفتہ معافی چاہتا ہوں اگر آپ کو کوئی بات بری لگی ہو۔ مجھے آپ کی تحریر سے ایسا محسوس ہوا تھا کہ آپ اس بحث کو فضول سمجھ رہی ہیں حالانکہ مجھے اردو ٹائپنگ کے کیریئر میں اس مسئلے نے شروع سے سردرد میں مبتلا رکھا۔

میں کوئی علمی و تحقیقی آدمی تو ہوں نہیں تاہم کچھ عام فہم کے حوالے سے:

نئے = Na-ay
چاہئے = chahiyay

ایک طرح سے لکھے گئے الفاظ میں ایسا فرق کیوں ہے۔ یہ مضمون مجھے اس لیے پسند آیا تھا کہ اس مسئلے پر ایک بہت بڑا کنفیوژن ہے جو میں نے ہر جگہ دیکھا ہے۔ جنگ اخبار میں کبھی ہیڈ لائن میں 'نظریئے' اور کبھی 'نظریے' لکھا دیکھا۔ اسی طرح ہر جگہ یہی کنفیوژن، کہیں 'چاہیے'، کہیں 'چاہئے' کہیں 'چاہیئے'۔ میں مضمون کی نہیں مسئلہ کی تعریف کر رہا تھا۔

سنگِ میل پاکستان میں ایک بہت بڑا پبلشنگ کا نام ہے اور یہ معیار پر نظر مرکوز رکھتے ہیں۔ میں نے اپنی املاء بس اب ان سے ملا لی ہے۔ وہ رویے، نظریے، چاہیے، کیے، دیے ایسے لکھتے ہیں۔ اس سے میرے دماغ کی مزید چٹنی بننے سے رہ جاتی ہے۔

آخر میں ایک بار پھر معذرت خواہ ہوں۔
 

رضوان

محفلین
مشکور ہوں کہ آپ لوگ ایک اہم اور عام کنفیوژن دور کرنے کی سعی یا سعئ کر رہے ہیں مگر ابھی تک بات مکمل طور پر صاف نہیں ہوئی مزید وضاحت کی ضرورت ہے ہم جیسے کندذہنوں کی ذہنی گرہ کھولنے کے لیے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ یہ بھی مدنظر رہے کہ جدید دور کی کیا ضروریات ہیں اور کیا چلن فروغ پاگیا ہے۔ زندہ زبانوں کا اپنا وطیرہ ہوتا ہے عربی، فارسی، ہندی سے زیادہ اب اردو انگریزی سے متاثر ہورہی ہے۔ انگریزی سے اردو کا تعلق ڈیڑھ سو سال قبل سے ہے۔ لیکن آج اس تعلق کی نوعیت میں بنیادی فرق ہے۔ اب انگریزی اسے حاکموں کی زبان نہیں لگتی بلکہ آج اردو انگریزی کے ساتھ چلنا چاھتی ہے۔ اب اصطلاحات کےلیے عربی اور فارسی کے الفاظ اوق اور اجنبی تصور ہو رہے ہیں۔ ایک اور تازہ تبدیلی یہ ہے کہ اب اردو کے ٹکسال دہلی، لکھنؤ، لاہور اور کراچی نہیں رہے۔ کوئی لاکھ “میں نا مانوں“ الاپتا رہے لیکن آج ان علاقوں میں اردو ایک زبان نہیں بطور بولی کے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اب اردو کی محبت بدیس میں ہے یہ سوتے بدیس سے پھوٹ رہے ہیں ایک ناسٹلجیا کے روپ میں جو اسے سرحدوں اور نسلوں کی بندشوں سے چھڑانا چاہ رہے ہیں ۔اگر انہیں کامیابی ہوئی تو اردو نئے قواعد کے تحت اپنا سفر جاری رکھے گی کیونکہ اردو کو کوئی خطرہ باہر سے نہیں اسے خطرہ ہے
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
ایک اور تلخ حقیقت بھی ہے کہ اردو میں زیادہ شایع ہونے والی کتب نوعیت کے لحاظ سے مذہبی ہیں نہ کہ ادبی، یہی امیج اردو کو ایک تنگنائے میں دھکیلتا دکھائی دیتا ہے۔ مذہبی کتب کی زیادتی خود اردو کے ابلاغ اور رابطے کی دلیل ہے لیکن عصر حاضر کے سماجی مسائل اور عصری ادبی تقاضوں کے بغیر کوئی زبان کسطرح آگے بڑھ سکتی ہے۔
گیند لیکر میں بہت دور آگیا ہوں اس میداں میں پھر کبھی سہی ابھی تو ہمزہ ایک واول ہے یا کانسونینٹ یہ فیصلہ ہونا ہے۔

جدید اردو کا کیا چہرہ ہوگا یہ الفاظ “واول“ اور “کانسنینٹ“ بھی بتا رہے ہیں۔ کوئی بہت بڑا مدبر اور علمِ نجوم کا ماہر ہونا شرط نہیں۔ آج کی صحافتی زبان میں عربی فارسی کے بجائے انگریزی کے محاورے کا استعمال ہی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ آنے والے زمانے کی اردو کا روپ ۔۔۔۔۔۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
معذرت

شارق مستقیم نے کہا:
سیدہ شگفتہ معافی چاہتا ہوں اگر آپ کو کوئی بات بری لگی ہو۔ مجھے آپ کی تحریر سے ایسا محسوس ہوا تھا کہ آپ اس بحث کو فضول سمجھ رہی ہیں حالانکہ مجھے اردو ٹائپنگ کے کیریئر میں اس مسئلے نے شروع سے سردرد میں مبتلا رکھا۔

میں کوئی علمی و تحقیقی آدمی تو ہوں نہیں تاہم کچھ عام فہم کے حوالے سے:

نئے = Na-ay
چاہئے = chahiyay

ایک طرح سے لکھے گئے الفاظ میں ایسا فرق کیوں ہے۔ یہ مضمون مجھے اس لیے پسند آیا تھا کہ اس مسئلے پر ایک بہت بڑا کنفیوژن ہے جو میں نے ہر جگہ دیکھا ہے۔ جنگ اخبار میں کبھی ہیڈ لائن میں 'نظریئے' اور کبھی 'نظریے' لکھا دیکھا۔ اسی طرح ہر جگہ یہی کنفیوژن، کہیں 'چاہیے'، کہیں 'چاہئے' کہیں 'چاہیئے'۔ میں مضمون کی نہیں مسئلہ کی تعریف کر رہا تھا۔

سنگِ میل پاکستان میں ایک بہت بڑا پبلشنگ کا نام ہے اور یہ معیار پر نظر مرکوز رکھتے ہیں۔ میں نے اپنی املاء بس اب ان سے ملا لی ہے۔ وہ رویے، نظریے، چاہیے، کیے، دیے ایسے لکھتے ہیں۔ اس سے میرے دماغ کی مزید چٹنی بننے سے رہ جاتی ہے۔

آخر میں ایک بار پھر معذرت خواہ ہوں۔

السلام علیکم

آپ نے ایسا کچھ بھی نہیں کہا تھا جس میں معذرت کی گنجائش نکالی جا سکے ۔ یہ مضمون پڑھنے کے بعد میں تلاش میں رہی ہوں کہ اس مسئلے کی بابت کوئی مستند حوالہ / حوالہ جات مل جائیں ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رضوان صاحب

مشکور ہوں کہ آپ نے ان سوالات کو بھی زبان دے دی جو میں بھی یہاں چاہتی ہوں کہ ان پر بات ہو ۔ میں کوشش کروں گی کہ اپنی اب تک کی تلاش کو مختصراً پیش کرسکوں۔
 

جیسبادی

محفلین
رضوان نے انگریزی کے اثر کی بات اٹھائی ہے۔ انگریزی کے الفاظ اردو رسم الخط میں لکھتے ہوئے حرف "ی" کا استعمال بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً
کمپیوٹر=computer
میری تجویز ہے کہ اس صرف "کمپوٹر" لکھا جائے۔
اسی طرح
لائیسینس=liecnse
میری تجویز "لاسنس"
 

دوست

محفلین
ی کا استعمال آواز کے لحاظ‌سے ہوتا ہے۔
خود ہی سوچیے کمپوٹر اور کمپیوٹر میں computer کے قریب کونسا لفظ ہے۔
کم از کم ادھر پاکستان میں تو اسے کمپیوٹر ہی بولتے ہیں سب۔
 

رضوان

محفلین
بات پھر وہیں پہنچ جاتی ہے۔
ناقدیں اور اہلِ علم کے نزدیک اسکول اور سکول کم از کم 70 سال سے تصفیہ طلب ہے۔
عوام میں چلن اسکول کا ہی ہے۔
لیکن اغلاط کی نشاندہی اور درست سمت میں رہنمائی یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ آج اخبارات اور نشرواشاعت کے ادارے ہی اپنے اثر ونفوذ سے کوئی بات منواسکتے ہیں۔ کسی اور ادارے کے بس میں نہیں ہے۔
 

دوست

محفلین
اردو اصل میں ایک وسیع علاقے میں “بولی“ جاتی ہے۔
بولی کے ساتھ ساتھ اس کی لکھائی بھی بدل جاتی ہے۔کبھی نوٹ کیا آپ نے؟؟
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
رضوان نے کہا:
مشکور ہوں کہ آپ لوگ ایک اہم اور عام کنفیوژن دور کرنے کی سعی یا سعئ کر رہے ہیں مگر ابھی تک بات مکمل طور پر صاف نہیں ہوئی مزید وضاحت کی ضرورت ہے ہم جیسے کندذہنوں کی ذہنی گرہ کھولنے کے لیے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنا چاہوں گا کہ یہ بھی مدنظر رہے کہ جدید دور کی کیا ضروریات ہیں اور کیا چلن فروغ پاگیا ہے۔ زندہ زبانوں کا اپنا وطیرہ ہوتا ہے عربی، فارسی، ہندی سے زیادہ اب اردو انگریزی سے متاثر ہورہی ہے۔ انگریزی سے اردو کا تعلق ڈیڑھ سو سال قبل سے ہے۔ لیکن آج اس تعلق کی نوعیت میں بنیادی فرق ہے۔ اب انگریزی اسے حاکموں کی زبان نہیں لگتی بلکہ آج اردو انگریزی کے ساتھ چلنا چاھتی ہے۔ اب اصطلاحات کےلیے عربی اور فارسی کے الفاظ اوق اور اجنبی تصور ہو رہے ہیں۔ ایک اور تازہ تبدیلی یہ ہے کہ اب اردو کے ٹکسال دہلی، لکھنؤ، لاہور اور کراچی نہیں رہے۔ کوئی لاکھ “میں نا مانوں“ الاپتا رہے لیکن آج ان علاقوں میں اردو ایک زبان نہیں بطور بولی کے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اب اردو کی محبت بدیس میں ہے یہ سوتے بدیس سے پھوٹ رہے ہیں ایک ناسٹلجیا کے روپ میں جو اسے سرحدوں اور نسلوں کی بندشوں سے چھڑانا چاہ رہے ہیں ۔اگر انہیں کامیابی ہوئی تو اردو نئے قواعد کے تحت اپنا سفر جاری رکھے گی کیونکہ اردو کو کوئی خطرہ باہر سے نہیں اسے خطرہ ہے
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
ایک اور تلخ حقیقت بھی ہے کہ اردو میں زیادہ شایع ہونے والی کتب نوعیت کے لحاظ سے مذہبی ہیں نہ کہ ادبی، یہی امیج اردو کو ایک تنگنائے میں دھکیلتا دکھائی دیتا ہے۔ مذہبی کتب کی زیادتی خود اردو کے ابلاغ اور رابطے کی دلیل ہے لیکن عصر حاضر کے سماجی مسائل اور عصری ادبی تقاضوں کے بغیر کوئی زبان کسطرح آگے بڑھ سکتی ہے۔
گیند لیکر میں بہت دور آگیا ہوں اس میداں میں پھر کبھی سہی ابھی تو ہمزہ ایک واول ہے یا کانسونینٹ یہ فیصلہ ہونا ہے۔

جدید اردو کا کیا چہرہ ہوگا یہ الفاظ “واول“ اور “کانسنینٹ“ بھی بتا رہے ہیں۔ کوئی بہت بڑا مدبر اور علمِ نجوم کا ماہر ہونا شرط نہیں۔ آج کی صحافتی زبان میں عربی فارسی کے بجائے انگریزی کے محاورے کا استعمال ہی یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ آنے والے زمانے کی اردو کا روپ ۔۔۔۔۔۔


السلام علیکم

رضوان صاحب ، آپ عربی اسباق کے فورم میں مقدماتی اصطلاحات کے تانے بانے کو ایک بار مطالعہ کرلیجئے ۔ میں ان اصطلاحات کو وہاں مکمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں ۔ اس کے بعد یہاں آ کر دوبارہ ہمزہ کا مسئلہ دیکھتے ہیں

۔
 

قیصرانی

لائبریرین
دیکھئے محترم دوستو۔ پہلی بات یہ کرنا چاہوں‌گا کہ کیا اردو کی ابتداء اور اس کی ترقی کو ہم بالکل مقامی کہ سکتے ہیں؟ کیا یہ صرف برٍ صغیر میں ہی ایجاد ہوئی اور پروان چڑھی؟ یا اس کو ہم اردو بمعنی لشکر(وہی جو ہم سکول میں‌پڑھتے آئے ہیں) لیں(کہ یہ مختلف زبانوں‌سے بنی ایک زبان ہے )؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر اس کو ہر لحاظ سے مقامی مانیں تو پھر اس بات کا جائزہ لیں‌کہ اس پر اثرات کن کن زبانوں‌کے پڑے؟ رسم الخط عربی سے آیا کہ فارسی سے؟ اس کی گرائمر کس زبان سے آئی، یا کس سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے؟اس سے ملتی جلتی بے شمار باتیں‌ہیں جن کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ میں‌کوئی اردو دان نہیں؟‌اردو میری مادری اور پدری زبان بھی نہیں ہے۔ مجھے کوئی اردو دانی کا دعویٰ‌بھی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ کہا جاتا ہے کہ حروفٍ تہجی کیا ہیں؟‌مختلف آوازوں کو ظاہر کرنے والی اشکال ہیں ناں؟ اب ان سوالات کے جوابات اگر کوئی دوست دے سکے تو میں تہہ دل سے مشکور رہوں گا۔
بے بی ہاتھی
 

گل خان

محفلین
بھائیو۔۔۔۔میری بھی ایک الجھن دور کر دیں۔۔۔۔۔۔۔۔نوائے وقت۔۔اخبار میں بڑی 'ے' کے اوپر جو ہمزہ لکھا جاتا ہے۔۔۔وہ کون سا ہمزہ ہے۔۔کیا یہ عربی کا ہمزہ ہے یا فارسی کا؟ کیونکہ نوائے۔۔۔ حرف میں ہمزہ۔۔یعنی۔۔ء ۔۔ایسا نہی بلکہ ایک شوشہ سا ہوتا ہے۔۔۔۔ براہ مہربانی اس پر تفصیل سے روشنی ڈالیں۔۔۔۔شکریہ
 
Top