معجزۂ قرآن!

یہ بات ہر مسلمان نے لازما سنی اور پڑھی ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ کو عطا کیے گئے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ قرآنِ کریم ہے۔
قرآنِ کریم کے معجزہ ہونے کی علمائے دین نے ہر دور میں اپنے اپنے ذوق کے مطابق مختلف توجیہات و تشریحات پیش کی ہیں، مثلاً یہ کہ دیگر کتب کے برعکس یہ کتاب حفظ کرنے میں آسان ہے اور نبی پاکﷺ کی بعثتِ مبارکہ کے بعد سے آج ہر دور میں اس کے کتاب کو حفظ کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود رہی ہے۔ یہ بھی کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی اس کتاب کے متن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، اور قرآن کریم کے قدیم ترین نسخوں کی بازیابی کے بعد اس دعوے کی کسی حد تک سائنسی تصدیق بھی ہوچکی (اگرچہ ہم ایمانی معاملات کو سائنسی توجیہات پر موقوف کرنے کے بوجوہ قائل نہیں)۔ اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس کے متن میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہونا خود اس کتاب کے دعوے کی دلیل ہے جس میں ربِ کائنات کا فرمانا ہے اس کی حفاظت کا ذمہ اس کا ہے۔ ثالثا، کچھ تاریخی واقعات کی حرف بہ حرف پیش گوئی کو بھی قرآنِ پاک کا اعجاز قرار دیا جاتا ہے، جیسے کہ رومیوں کا ساسانیوں سے شکست کے کچھ عرصے بعد ان پر دوبارہ غالب آجانا سب کی سب بلاشبہ اپنی جگہ درست ہیں۔ چونکہ یہ علمی مباحث ہیں اس لیے عوام کی اکثریت ان سے کما حقہ واقفیت نہیں رکھتی۔

اس طرح اور کئی توجیہات پیش کی جاسکتی ہے جو علمائے کرام نے قرآن کے معجزہ ہونے کے باب میں بیان کی ہیں، جنہیں خوفِ طوالت کے سبب یہاں نقل نہیں کیا جارہا۔ تاہم جو بات اعجازِ قرآن کے ذیل میں سب سے زیادہ بیان کی جاتی ہے وہ اس کی فصاحت و بلاغت ہے! یہ ایک ایسی بات ہے جو شاید غیر عرب مسلمانوں، اور خصوصا ہم برصغیر کے باسیوں کے لیے سمجھنا ذرا مشکل ہے۔ اس کی ایک وجہ تو شاید یہ ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت کا معجزات کے بارے میں تصور محض خرقِ عادت افعال کے ظہور تک محدود ہے۔ اس لیے ہمیں آتشِ نمرود، عصائے موسیٰؑ، دمِ عیسیٰؑ، شق القمر وغیرہ جیسے معجزات تو آرام سے سمجھ آجاتے ہیں، لیکن قرآنِ کریم کا اعجاز اچھی طرح ہم پر واضح نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں جو لوگ عربی سے واقف ہوتے ہیں، ان کا عربی زبان سے پہلا تعارف ہی قرآنی عربی کے ذریعے ہوتا ہے اور چونکہ عربی ہمارے معاشرے میں محض مذہبی زبان ہو کر رہ گئی ہے، اور مذہبی متون کا فہم حاصل کرنے کے لیے سیکھی سکھائی جاتی ہے، اس لیے ہم عام بول چال کی عربی اور عربی کے مختلف مقامی لہجوں سے واقف ہی نہیں ہوتے۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی طرف اس تحریر میں توجہ دلانا مقصود ہے۔

گزشتہ چار سال سے زائد ایک عرب ملک میں گزارنے اور عربی بولنے والوں کے ساتھ ہوئے انٹریکشنز (خصوصا عرب سوشل میڈیا کا جائزہ لینے کے بعد) مجھے قرآنِ کریم کا یہ اعجاز کچھ کچھ سمجھ آنے لگا ہے، اور اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ واقعی قرآن کی فصاحت و بلاغت ہی ہر توجیہ و تشریح سے بڑھ کر اس کا معجزہ ہے۔ کیسے؟ حقیقت یہ ہے کہ عربی ایک بہت متنوع اور گہری زبان ہے جس کے کئی مقامی لہجے ہیں، جن میں سے کچھ تو باہم قابلِ فہم بھی نہیں۔ مثلا مغربی لہجہ جو تونس، الجزائز، مراکش وغیرہ میں مستعمل ہے، وہ خلیجی یا مصری عربی بولنے والوں کے سمجھنا بہت دشوار ہے۔ چلیں یہ تو جغرافیائی طور پر بہت دور علاقے ہیں، خود جزیرۃ العرب میں ہی دیکھیں تو آپ کو کئی مقامی لہجے مل جائیں گے جن میں آپس میں کچھ نہ کچھ فرق ہوتا ہے۔ ان سب لہجوں کے اوپر ایک معیاری ڈائلکٹ ہے، جس کو ماڈرن اسٹینڈرڈ عربی، یا خود عربی زبان میں ’’فُصحیٰ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ ڈائلکٹ ہے جو بطور مضمون اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے اور زیادہ تر فارمل کمیونیکیشن اسی ڈائلکٹ میں ہوتی ہے۔ جدید فصحیٰ قرآنی عربی کی ہی ایک نسبتاً سلیس شکل ہے جس کے قواعد کو کچھ آسان بنایا گیا ہے اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس کی وکیبلری میں کچھ اضافے کیے گئے ہیں۔ دلچسپ بات مگر یہ ہے کہ عام بول چال میں یہ لہجہ بالکل بھی استعمال نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ عرب سوشل میڈیا کا جائز لیں تو پتہ چلتا ہے کہ لوگ زیادہ تر بات اپنے مقامی لہجوں میں ہی کرتے ہیں۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ فصحی ایک فصیح لہجہ ہے اور اس پر عبور رکھنا ہر کسی کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اگر آپ گلیوں بازاروں میں کسی معمولی تعلیم یافتہ آدمی سے فصحی میں کچھ کہیں تو اکثر انہیں بات سمجھ ہی نہیں آتی، یا سمجھنے میں بہت دشواری ہوتی ہے۔ میرے بہت کولیگز نے مجھے بتایا کہ انہیں اسکول کالج کی تعلیم کے دوران عربی سب سے مشکل مضمون لگتا تھا (کیونکہ نصاب میں فصحیٰ ہی پڑھائی جاتی ہے)۔

مقصد اس لمبی تمہید کا یہ عرض کرنا ہے کہ خود اہل زبان کے لیے ایک نسبتاً آسان معیاری ڈائلکٹ کو سمجھنا اور اس میں اظہار بیان کرنا ایک مشکل امر ہے، اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگ بھی اس پر قادر نہیں ہوتے۔ اب اس کو قرآنِ مجید کے تناظر میں دیکھیں کہ جس کی زبان فصاحت و بلاغت کے معاملے میں جدید فصحیٰ سے بھی کہیں گنا اعلیٰ درجہ کی ہے! جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اگر آپ عرب سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ عرب لوگ عام بات چیت کے لیے کس قدر خام اور سادہ زبان استعمال کرتے ہیں، جبکہ جدید فصحیٰ میں اظہار خیال کرنے کے لیے ایک خاص علمی استعداد درکار ہوتی ہے۔ اب سوچیں کہ ہمارے سرکار دو عالم نبی پاک ﷺ، جنہوں نے اس دنیا میں کسی سے علم حاصل نہیں کیا، جن کو اللہ پاک نے اپنی حکمت کے تحت عمداً لکھنا پڑھنا (کم از کم معروف معنی میں) نہیں سکھایا ۔۔۔ انﷺ کی زبانِ مبارک سے ایسا کلام جاری ہوا جس کی فصاحت کا یہ عالم تھا کہ اسے دیکھ کر انﷺ کے دور کے بڑے بڑے شاعر بے ساختہ پکار اٹھے کہ یہ کسی انسان کا کلام ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔ سو ہمارے آقائے نامدار نبی الامی ﷺ کی زبان مبارک سے ایسی اعلیٰ و ارفع زبان پر مبنی کلام کا جاری ہونا، جو عام لوگ استعمال نہیں کرتے ۔۔۔ سوائے معجزے کے اور کچھ ہو سکتا ہے؟؟؟؟

اللھم صلی علی سیدنا و مولانا محمد و علی آلِ محمد و علی آلہ و اصحابہ و بارک وسلم
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
سبحان اللہ
اللھم صلی علی سیدنا و مولانا محمد و علی آلِ محمد و علی آلہ و اصحابہ و بارک وسلم

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فصاحت و بلاغت

اہل عرب فصاحت و بلاغت میں تمام اقوام عالم سے برتر اور افضل تھے۔ انہیں اپنے اس وصف پر اتنا ناز تھا کہ وہ اپنے سوا تمام اقوام عالم کو عجمی (گونگا) کہتے تھے۔ ان فصحاء و بلغاء میں بھی حضور ﷺ کی شانِ فصاحت عدیم المثال تھی۔حضور کی شانِ فصاحت کا کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا تھا۔ حضور کے کلام میں بلا کی سلاست و روانی تھی۔ یوں معلوم ہوتا کہ کلمات نور کے سانچے میں ڈھل کر زبان اقدس سے ادا ہو رہے ہیں۔ جو بات زبان مبارک سے نکلتی وہ ہر عیب سے پاک ہوتی ، اس میں تکلف کا شائبہ تک نہ ہوتا۔

اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو جوامع الکلم سے نوازا تھا ۔ یعنی الفاظ قلیل ہوتے لیکن لطائف اور معانی کا ایک سمندر ان میں موجزن ہوتا تھا۔حضور کی زبان مبارک سے ایسے حکیمانہ جملے صادر ہوتے جو حکمت و دانائی میں اپنی مثال نہیں رکھتے تھے۔عرب کے مختلف خطوں میں جو عربی بولی جاتی تھی اس میں بڑا تفاوت ہوتا تھا۔ سرکار دوعالم ﷺ کا وطن مبارک اگرچہ حجاز تھا لیکن حضور ﷺاہل حجاز کی لغت میں بھی جب گفتگو فرماتے تو فصاحت و بلاغت کے چمن آباد ہوجاتے اور عرب کے دیگر علاقوں کی علاقائی زبانوں میں بھی اس سلاست و قادرالکلامی سے گفتگو فرماتے کہ سننے والی حیران ہوجاتے۔ حضور ﷺجب بھی کسی کو مخاطب فرماتے تو اس کی علاقائی زبان میں خطاب فرماتے۔ اسی زبان کے محاورے استمعال فرماتے۔ انہیں کی شان فصاحت کا مقابلہ کرتے ، یہاں تک کہ صحابہ کرام جب کسی دوسرے علاقہ کی زبان میں حضور کو گفتگو کرتے سنتے تو کئی الفاظ کی تشریح و وضاحت کیلیے اپنے آقا کی طرف رجوع کرتے۔

ذوالمعشار ہمدانی سے اس وقت ملاقات ہوئی جب حضورﷺ تبوک سے واپس تشریف لائے تھے۔ بنی نہد کے خطیب طہفہ النہدی ، قطن بن حارثہ ، اشعت بن قیس ، وائل بن حجر الکندی اور حضرموت کے قبیلوں کے روسا اور یمن کے بادشاہوں سے گفتگو فرماتے تو انہیں کی زبان اور انہیں کے لہجہ سے۔بطور مثال ہادی برحقﷺ کا ایک مکتوب یہاں پیش کررہا ہوں جو سرکار نے قبیلہ ہمدان کے سردار ذوالمعشار الہمدانی کی طرف اس کی زبان میں لکھا تھا

ان لکم فراعھا و وھاطھا و عزازھا۔ تاکلون علافھا و ترعون عفاءفھا لنا من دفئھم و صرامھم ما سلموا بالمیثاق والامانۃ و لھم من الصدقۃ الثلب والناب والفصیل۔ والفارض والداجن و الکبش الحوری و علیھم فیھا الصالغ و لقارح(الشفا،)

(اس کے ترجمہ کی ضرورت نہیں یہ سارے جملے اہل عرب کے لیے بھی غریب اور مشکل ہیں)

قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر متعدد علاقائی زبانوں کے نمونے تقل کئے ہیں۔

بنی نہد قبیلہ کے سردار طہفہ کے لیے حضور کے ارشادات ، وائل بن حجر کے نام حضور ﷺ کاگرامی نامہ ، مختلف قبائل کے روسا اور سلاطین کے طرف حضور ﷺ کے مکتوبات

اگرچہ ہم ان کلمات میں سے اکثر کو نہیں سمجھ سکتے لیکن ان میں جو روانی اور سلاست، جو جزالت اور فصاحت ہے ، پڑھنے والا سمجھے بغیر اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔جب عرب کی ان علاقائی زبانوں میں ،جو متداول نہ تھیں، حضور ﷺ کی فصاحت و بلاغت کا سمندر یوں ٹھاٹھیں مار رہا ہو کہ پڑھنے اور سننے والے سمجھے بغیر ان کی فصاحت و جزالت سے لطف اندوز ہوتے تو روزمرہ زبان میں جو شیرینی اور دلکشی ہوگی اس کا کون اندازہ لگا سکتا ہے۔

کئی ادباء نے سرور عالم ﷺ کے جوامع الکلم اور حکیمانہ اقوال کے مجموعے تالیف کیے ہیں جو عربی زبان کا طرہ امتیاز ہیں اور اہل عرب کے لیے فخر و مباہات کا باعث ہیں۔ جوامع الکلم اور اقوال حکمت کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں۔

1۔ “المسلمین تتکافا دمآءھم”
تمام مسلمانوں کا خون مساوی ہےیعنی قصاص و دیت میں کسی شخص کو اس کی ثروت اور اس کے خاندان کے پیش نظر ترجیح نہیں دی جائے گی بلکہ سب کا قصاص یکساں ہوگا۔

2۔”یسعی بذمتھم ادناھم”
اگر کوئی کم درجے والا مسلمان کسی قوم کو امان دے گا یا عہد کرئے گا تو سب مسلمانوں پر اس کی پابندی لازمی ہوگی۔

3۔”وھم ید علی من سواھم”
تمام مسلمان دشمن کے مقابلہ میں یکجان ہوں گے۔

یہ تین چھوٹے چھوٹے جملے ہیں لیکن اگر ان میں غور کیا جائے تو ان میں علم و حکمت کے چشمے ابلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی تشریح میں بڑے بڑے دفاتر لکھے جاسکتے ہیں۔

حضور ﷺ کے متعدد ارشادات جو جوامع الکلم میں سے ہیں اور ان کا دامن حکمت کے انمول موتیوں سے معمور ہے ان میں سے چند یہاں درج کیے جاتے ہیں۔

1۔ “الناس کاسنان المشط”
تمام انسان اس طرح برابر ہیں جس طرح کنگھی کے دندانے

2۔”والمر مع من احب”
ہر انسان کو اس کی معیت حاصل ہوگی جس کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے

3۔ “لاخیر فی صحبۃ من لایری لک ما تری لہ”
اس شخص کی ہم نشینی میں کوئی فائدہ نہیں کہ تو اس کے بارے میں خیرکی تمنا کرے اور وہ تمہیں زک پہنچانے کے منصوبے بناتا رہے۔

4۔ “والناس معادن”
لوگوں کے مزاج مختلف قسم کے ہوتے ہیں جس طرح زمین میں مختلف قسم کی معدنیات ہوتی ہیں

5۔ “وما ھلک امرو عرف قدرہ”
جو اپنی قدر پہچانتا ہے وہ ہلاک نہیں ہوتا

6۔ “المستشار موتمن و ھو بالخیار مالم یتکلم”
جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہے۔ جب تک وہ اپنی رائے کا اظہار نہ کرے بلکہ خاموش رہے اسے اختیار ہے کہ وہ مشورہ دے یا نہ دے

7۔”رحم اللہ عبدا قال خیرا مغنم اوسکت فسلم اللہ تعالی”
اس شخص پر رحم فرمائے جو اچھی بات زبان سے نکالتا ہے اور اس سے فائدہ پہنچتا ہے یا سکوت اختیار کرتا ہے اور تمام لوگوں کی ایذارسانی سے محفوظ رہتا ہے۔

یہاں علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے حضور پرنور علیہ الصلوۃ والسلام کی جوامع الکلمات کی بہت سے نادر مثالیں درج کی ہیں۔ ان کے پڑھنے سے یقینا نورِبصیرت میں اضافہ ہوتا ہے

۔اقتباس از ضیاالنبی جلد پنجم صفحہ 275 از جسٹس پیرمحمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ
 

حسرت جاوید

محفلین
یہ بات ہر مسلمان نے لازما سنی اور پڑھی ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ کو عطا کیے گئے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ قرآنِ کریم ہے۔
سنی تو کئی دفعہ ہے شاید لیکن علماء کی طرف سے پیش کی گئیں توجیحات اور آپ کی طرف سے بھی دی گئی دلیل کبھی دل کو نہیں لگے۔ خدا بالفرض اپنا آخری نبی اگر چائینہ میں بھیجتا اور قران اگر اس اعتبار سے چائینیز زبان میں ہوتا تو آج ہم اسے اعلیٰ و ارفع ثابت کرنے میں تلے ہوتے۔ لاجک یا دلیل کا کھوکھلا پن ہی یہی ہے کہ وہ عمل رونما ہونے کے بعد 'بنائی' جاتی ہے اس لیے یہ کبھی معروضی نہیں ہوتی اور 'اختلاف' کا وجود اسی کھوکھلے پن کے سبب ہے۔
 
سنی تو کئی دفعہ ہے شاید لیکن علماء کی طرف سے پیش کی گئیں توجیحات اور آپ کی طرف سے بھی دی گئی دلیل کبھی دل کو نہیں لگے۔ خدا بالفرض اپنا آخری نبی اگر چائینہ میں بھیجتا اور قران اگر اس اعتبار سے چائینیز زبان میں ہوتا تو آج ہم اسے اعلیٰ و ارفع ثابت کرنے میں تلے ہوتے۔ لاجک یا دلیل کا کھوکھلا پن ہی یہی ہے کہ وہ عمل رونما ہونے کے بعد 'بنائی' جاتی ہے اس لیے یہ کبھی معروضی نہیں ہوتی اور 'اختلاف' کا وجود اسی کھوکھلے پن کے سبب ہے۔
کج بحثی کی اس سے بہتر مثال شاید کوئی دوسری نہ مل سکے! چونکہ آنجناب پہلے ہی نہ ماننے کا فیصلہ فرما چکے، سو ایک ایسی بات پر امکانی بحث، چند بھاری بھرکم الفاظ کا جامہ چڑھا کر، قائم کرنے کی سعی فرمانے لگے جس کا اصل مضمون سے کچھ لینا دینا ہی نہیں!
پہلی بات تو یہ کہ امر واقعہ یہ ہے کہ خدا نے اپنا نبی چین میں نہیں بھیجا، سو اب "یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا" کی گردان چہ معنی دارد؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا نبی چین میں بھیجتا تو حجت تام کرنے کے لیے فصاحت و بلاغت کے بجائے کچھ اور مظاہر دکھلاتا اور چینی زبان کا دیگر زبانوں سے افصح ہونا ثابت کرنا سرے سے ایک نان ایشو ہوتا!
خیر، واپس مدعے کی طرف آتے ہیں. اصل مضمون میں تو کہیں یہ دعوی کیا ہی نہیں گیا کہ عربی دنیا کی دیگر تمام زبانوں سے زیادہ فصیح تر ہے (یہ ایک الگ بحث ہے). میرے خیال میں آپ نے مضمون کا عنوان دیکھ کر ہی جواب لکھ مارا، پورا مضمون اگر پڑھ لیتے تو اتنا ارریلیونٹ جواب نہ دیتے. اگر آپ کی جانب سے قائم کیے گئے امکان تسلیم کر بھی لیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ یہاں سببِ اعجاز فصاحت و بلاغت ہے، اور وہ کسی بھی زبان میں ہو سکتی ہے!
 
آخری تدوین:

حسرت جاوید

محفلین
آپ کی اندازِ گفتگو سے آپ کے شدتِ جذبات واضح ہیں اور جذبات میں شاید انسان کو انتہائی سادہ سی بات سمجھنے میں بھی بہت دشواری ہوتی ہیں حالانکہ میری بات نہایت مختصر اور سادہ ہے نہ کہ آپ کی ذات یا ایمان پہ حملہ ہے لیکن آپ کا ردِ عمل بالکل اس کے بر عکس ہے۔
کج بحثی کی اس سے بہتر مثال شاید کوئی دوسری نہ مل سکے! چونکہ آنجناب پہلے ہی نہ ماننے کا فیصلہ فرما چکے، سو ایک ایسی بات پر امکانی بحث، چند بھاری بھرکم الفاظ کا جامہ چڑھا کر، قائم کرنے کی سعی فرمانے لگے جس کا اصل مضمون سے کچھ لینا دینا ہی نہیں!
میں نے محض ایک چھوٹا سا نقطہ اٹھایا ہے اور اسے ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب آپ اسے جو مرضی سمجھ لیں وہ آپ کی ذات پہ منحصر ہے۔ اول تو یہ کہ یہ میں یہ کہیں بھی نہیں کہا کہ میں اسے مانتا ہوں یا میں اسے نہیں مانتا، میں نے محض اتنا واضح کیا ہے کہ جو توجیحات عمومی طور پر پیش کی جاتی ہیں یا جو آپ نے پیش کی ہیں وہ اتنی ٹھوس نہیں ہیں جو آپ کے دعوے کو درست ثابت کریں۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر آپ کے تبصرے کا محور میری ذات کی بجائے میری بات ہوتی۔ دوم یہ کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ محض ہوائی دعویٰ کرنے کے ان بھاری بھر کم الفاظ کی نشاندہی کر دیتے تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہوتی کہ آیا میں نے واقعی ایسا کیا ہے یا محض آپ اسے جذباتی رنگ دینے کی ناکام سعی فرما رہے ہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ امر واقعہ یہ ہے کہ خدا نے اپنا نبی چین میں نہیں بھیجا، سو اب "یوں ہوتا تو کیا ہوتا، یوں ہوتا تو کیا ہوتا" کی گردان چہ معنی دارد؟ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا نبی چین میں بھیجتا تو حجت تام کرنے کے لیے فصاحت و بلاغت کے بجائے کچھ اور مظاہر دکھلاتا اور چینی زبان کا دیگر زبانوں سے افصح ہونا ثابت کرنا سرے سے ایک نان ایشو ہوتا!
یہ محض ایک مثال تھی اور اس سے آگے میں نے اس کی ہلکی سی وضاحت بھی کی ہے اگر آپ تھوڑی سی توجہ مزید دے دیں تو سمجھنے میں مشکل نہیں ہو گی۔
اجک یا دلیل کا کھوکھلا پن ہی یہی ہے کہ وہ عمل رونما ہونے کے بعد 'بنائی' جاتی ہے اس لیے یہ کبھی معروضی نہیں ہوتی اور 'اختلاف' کا وجود اسی کھوکھلے پن کے سبب ہے۔
اب آپ کی اسی بات کو دوبارہ لے لے لیتے ہیں کہ اگر خدا 'اپنا نبی چین میں بھیجتا تو حجت تام کرنے کے لیے فصاحت و بلاغت کے بجائے کچھ اور مظاہر دکھلاتا اور چینی زبان کا دیگر زبانوں سے افصح ہونا ثابت کرنا سرے سے ایک نان ایشو ہوتا' کیا یہ جملہ محض خدا کی طرف قیاس آرائی نہیں ہے؟ خدا کی ذات جو چاہے کرے کر سکتی ہے وہ حجت تام کے لیے ان مفروضوں اور مظاہر کی پابند نہیں ہے جو انسان سوچتا ہے یا گمان کرتا ہے۔ انسان ہمیشہ واقعہ ہو جانے کے بعد توجیحات تلاش کرتا ہے (شاید خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یا اپنا ایمان مزید 'مضبوط' کرنے کے لیے)، اس لیے یہ ضروری نہیں کہ ویسا ہی ہو جیسا انسان گمان کر رہا ہے جب تک کہ خود خدا واضح طور پر اسے بیان نہ کر دے کہ واقعی ایسا ہے۔ امید ہے میں کچھ کچھ بات واضح کر پایا ہوں!
خیر، واپس مدعے کی طرف آتے ہیں. اصل مضمون میں تو ک
ہیں یہ دعوی کیا ہی نہیں گیا کہ عربی دنیا کی دیگر تمام زبانوں سے زیادہ فصیح تر ہے (یہ ایک الگ بحث ہے).
آپ میرا مراسلہ دوبارہ پڑھیں۔ کیا میں نے کہیں یہ دعویٰ کیا ہے یا اس پہ بحث کی ہے کہ کون سی زبان زیادہ فصیح تر ہے یا یہ محض آپ نے خود سے اخذ کر لیا ہے؟
میرے خیال میں آپ نے مضمون کا عنوان دیکھ کر ہی جواب لکھ مارا، پورا مضمون اگر پڑھ لیتے تو اتنا ارریلیونٹ جواب نہ دیتے.
افسوس کے ساتھ آپ کا خیال درست نہیں ہے اور یہ بھی کہ مراسلہ کلی طور پر متعلقہ ہے۔

اگر آپ کی جانب سے قائم کیے گئے امکان تسلیم کر بھی لیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ یہاں سببِ اعجاز فصاحت و بلاغت ہے، اور وہ کسی بھی زبان میں ہو سکتی ہے!
میری طرف سی کسی امکان کو قائم نہیں کیا گیا بلکہ یہ بتانے کو کوشش گئی ہے کہ 'دلیل ہمیشہ کھوکھلی ہوتی ہے کیونکہ یہ انسانی قیاس آرائیوں پہ مشتمل ہوتی ہے کہ چونکہ ایسے ہے تو لازما ویسے ہو گا' اس لیے مذہب 'ایمان لانے' کا نام ہے نہ کہ اس ایمان کو دلیلوں سے ثابت کرنے کا نام۔ معجزہ ثابت کرنا تو بہت دور کی بات ہے ہم خدا کی ذات کو بھی دلیل سے ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ ہر دلیل کے جواب میں مخالف دلیل موجود ہے اور وجہ اس کی وہی ہے جو میں نے اپنے پہلے مراسلے میں بیان کی ہے۔ یہ بات کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ خدا نہیں ہے بلکہ دلیل کا کھوکھلا پن بتلانا مقصود ہے۔ اس لیے ہم خدا کی ذات پر 'ایمان' لاتے ہیں۔ خود خدا قران پاک میں کہتا ہے کہ انسان بہت کم جانتا ہے۔ آپ کا یہ کہنا کہ 'سببِ اعجاز فصاحت و بلاغت ہے' بھی ایک قیاس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ کنفرمیشن بائس سے تھوڑا باہر نکل کر سوچیں، بات اتنی مشکل نہیں ہے اور نہ ہی آپ کی ذات یا ایمان پہ حملہ ہے!
 
آخری تدوین:
پیغمبر کا معجزہ حالات و واقعات پر منحصر ہوتا ہے
جیسے ضربِ کلیمی سے دریا میں راستے بننا۔ یہ معجزہ جس گھڑی واقعہ ہوا اس وقتِ حضرت موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو دریا عبور کرنا تاکہ لشکر فرعون سے نجات حاصل ہو سو یہ معجزہ ظاہر ہوا
اسی طرح جب عربوں کو اپنے زبان وبیان پر ناز تھا۔۔تب اس امر کی ضرورت تھی کہ ایسا کوئی ہو جس کا کلام ان سے زیادہ فصیح و بلیغ ہو۔ سو اسی ضرورت کو پورا کرنے کا کام نزول قرآن نے کیا
 
آپ کی اندازِ گفتگو سے آپ کے شدتِ جذبات واضح ہیں اور جذبات میں شاید انسان کو انتہائی سادہ سی بات سمجھنے میں بھی بہت دشواری ہوتی ہیں حالانکہ میری بات نہایت مختصر اور سادہ ہے نہ کہ آپ کی ذات یا ایمان پہ حملہ ہے لیکن آپ کا ردِ عمل بالکل اس کے بر عکس ہے۔

میں نے محض ایک چھوٹا سا نقطہ اٹھایا ہے اور اسے ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب آپ اسے جو مرضی سمجھ لیں وہ آپ کی ذات پہ منحصر ہے۔ اول تو یہ کہ یہ میں یہ کہیں بھی نہیں کہا کہ میں اسے مانتا ہوں یا میں اسے نہیں مانتا، میں نے محض اتنا واضح کیا ہے کہ جو توجیحات عمومی طور پر پیش کی جاتی ہیں یا جو آپ نے پیش کی ہیں وہ اتنی ٹھوس نہیں ہیں جو آپ کے دعوے کو درست ثابت کریں۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر آپ کے تبصرے کا محور میری ذات کی بجائے میری بات ہوتی۔ دوم یہ کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ محض ہوائی دعویٰ کرنے کے ان بھاری بھر کم الفاظ کی نشاندہی کر دیتے تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہوتی کہ آیا میں نے واقعی ایسا کیا ہے یا محض آپ اسے جذباتی رنگ دینے کی ناکام سعی فرما رہے ہیں۔
یہ محض ایک مثال تھی اور اس سے آگے میں نے اس کی ہلکی سی وضاحت بھی کی ہے اگر آپ تھوڑی سی توجہ مزید دے دیں تو سمجھنے میں مشکل نہیں ہو گی۔
اب آپ کی اسی بات کو دوبارہ لے لے لیتے ہیں کہ اگر خدا 'اپنا نبی چین میں بھیجتا تو حجت تام کرنے کے لیے فصاحت و بلاغت کے بجائے کچھ اور مظاہر دکھلاتا اور چینی زبان کا دیگر زبانوں سے افصح ہونا ثابت کرنا سرے سے ایک نان ایشو ہوتا' کیا یہ جملہ محض خدا کی طرف قیاس آرائی نہیں ہے؟ خدا کی ذات جو چاہے کرے کر سکتی ہے وہ حجت تام کے لیے ان مفروضوں اور مظاہر کی پابند نہیں ہے جو انسان سوچتا ہے یا گمان کرتا ہے۔ انسان ہمیشہ واقعہ ہو جانے کے بعد توجیحات تلاش کرتا ہے (شاید خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یا اپنا ایمان مزید 'مضبوط' کرنے کے لیے)، اس لیے یہ ضروری نہیں کہ ویسا ہی ہو جیسا انسان گمان کر رہا ہے جب تک کہ خود خدا واضح طور پر اسے بیان نہ کر دے کہ واقعی ایسا ہے۔ امید ہے میں کچھ کچھ بات واضح کر پایا ہوں!

آپ میرا مراسلہ دوبارہ پڑھیں۔ کیا میں نے کہیں یہ دعویٰ کیا ہے یا اس پہ بحث کی ہے کہ کون سی زبان زیادہ فصیح تر ہے یا یہ محض آپ نے خود سے اخذ کر لیا ہے؟
افسوس کے ساتھ آپ کا خیال درست نہیں ہے اور یہ بھی کہ مراسلہ کلی طور پر متعلقہ ہے۔

میری طرف سی کسی امکان کو قائم نہیں کیا گیا بلکہ یہ بتانے کو کوشش گئی ہے کہ 'دلیل ہمیشہ کھوکھلی ہوتی ہے کیونکہ یہ انسانی قیاس آرائیوں پہ مشتمل ہوتی ہے کہ چونکہ ایسے ہے تو لازما ویسے ہو گا' اس لیے مذہب 'ایمان لانے' کا نام ہے نہ کہ اس ایمان کو دلیلوں سے ثابت کرنے کا نام۔ معجزہ ثابت کرنا تو بہت دور کی بات ہے ہم خدا کی ذات کو بھی دلیل سے ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ ہر دلیل کے جواب میں مخالف دلیل موجود ہے اور وجہ اس کی وہی ہے جو میں نے اپنے پہلے مراسلے میں بیان کی ہے۔ یہ بات کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ خدا نہیں ہے بلکہ دلیل کا کھوکھلا پن بتلانا مقصود ہے۔ اس لیے ہم خدا کی ذات پر 'ایمان' لاتے ہیں۔ خود خدا قران پاک میں کہتا ہے کہ انسان بہت کم جانتا ہے۔ آپ کا یہ کہنا کہ 'سببِ اعجاز فصاحت و بلاغت ہے' بھی ایک قیاس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ کنفرمیشن بائس سے تھوڑا باہر نکل کر سوچیں، بات اتنی مشکل نہیں ہے اور نہ ہی آپ کی ذات یا ایمان پہ حملہ ہے!
ا

ایک بار اس بات کے لیے داستانِ امیر حمزہ گھڑ لی گئی ہے جس کا سارے فسانے میں کوئی ذکر ہی نہیں۔
افسوس کے آپ نے مراسلے اقتباسات تو خوب کشید کر لیے، مگر انہیں غور سے پڑھنا شاید پھر بھی گوارا نہیں کیا۔
ہم نے یہاں قرآن کو معجزہ ’’ثابت کرنے‘‘ کی بحث کی ہی نہیں، نہ ہی کسی منکر کو اس کا قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہماری بات کو یہاں کسی دلیل کی احتیاج ہو۔
ہم نے یہاں محض مسلمانوں کا قرآنِ کریم معجزہ ہونے کی بابت اعتقاد بیان کیا ۔۔۔ اور اس حوالے سے پیش کی گئی مختلف توجیہات و تشریحات ذکر کیں، اور آخر میں اپنے تجربے اور فہم کی بنیاد پر یہ نکتہ اٹھایا کہ بغیر کسی رسمی و غیر رسمی تعلیم کے، کسی شخص کی زبان سے اس قدر فصیح اور بلیغ کلام کا جاری ہونے کی کوئی فزیکل توجیہ فراہم نہیں کی جاسکتی ۔۔۔ سو یہ ایک خرقِ عادت اور میٹافزیکل واقعہ ہی کہا جائے گا ۔۔۔ اور ایسے ہی خرقِ عادت میٹافزیکل عوامل کو عرف میں معجزہ کہا جاتا ہے ۔۔۔ بس ہمارا مدعا اتنا ہی تھا ۔۔۔ آپ یہ بتائیں کہ اس پر آپ کا اصل اعتراض کیا ہے؟
آپ کی باقی باتیں محض ٹینجٹس ہیں ۔۔۔ اصل بحث سے قطعا غیر متعلق۔ ہم نے چین کے حوالے سے جو مثال دی، ہمارا قیاس نہیں بلکہ آپ کے پہلے مراسلے میں اٹھائے گئے شبہے کا جواب تھا۔ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ خدا نے اپنے نبی ﷺ کو عرب میں بھیجا، اس کی مرضی ۔۔۔ کہیں اور مبعوث فرماتا تو بھی اس کی مشیت ہوتی ۔۔۔ ہمیں نہ اس صورت میں کوئی اشکال یا اعتراض ہے نہ اُس صورت میں ہوتا۔
اور ہم نے جو یہ کہا کہ ’’سبب اعجاز ۔۔۔الخ‘‘ ۔۔۔ یہ بھی آپ کے ہی اس وہم جواب کہا تھا کہ اگر قرآن کسی اور زبان میں نازل ہوتا تو ہم کیا توجیہ کر رہے ہوتے؟ ۔۔۔ مقصد یہی سمجھانا تھا کہ ہم اگر قرآن کے اعجاز کو فصاحت و بلاغت کے تناظر میں بیان کر رہے تو یہ محض عربی کے ساتھ مخصوص نہیں ۔۔۔
خیر، بحث برائے بحث کا نہ میں قائل ہوں، نہ اس کے لیے میرے پاس وقت ہے۔
میں نے اپنی تحریر کا مرکزی نکتہ اوپر بیان کردیا ہے، اگر آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہے تو وہ ذکر کریں۔
 

حسرت جاوید

محفلین
قبلہ محترم ایک تو آپ جذباتی بہت جلدی ہو جاتے ہیں، اس لیے میرے مراسلے سے اپنی مرضی کے نتائج اخذ کر جاتے ہیں۔ آپ نے پھر وہی روش اختیار کی ہے جو اپنے پچھلے مراسلے میں کی ہے، مسئلہ آپ کو بات سے ہے یا میرے اقتباسات لینے سے؟ اسے آپ کی ہٹ دھرمی سمجھوں یا یہ نتیجہ اخذ کروں کہ مذہبی لوگوں میں بات سننے کا حوصلہ ہی نہیں اس لیے وہ بات پہ بات کرنے کی بجائے 'ٹارگٹ' کرنے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں؟ آپ خود ہی میرے مراسلے سے اپنی مرضی کے نتائج اخذ کر کے خود ہی ان پہ ڈھنڈورا پیٹی جا رہے ہیں۔ بہتر یہی ہے آپ پہلے بحث کے آداب سیکھ لیں۔
ہم نے یہاں قرآن کو معجزہ ’’ثابت کرنے‘‘ کی بحث کی ہی نہیں۔
اب میں نے قران کو معجزہ ثابت کرنے والی بات یا دعویٰ کہاں کیا ہے؟ آپ اس کی نشاندہی کریں ذرا؟ آپ نے پچھلوں باتوں کی بھی نشاندہی نہیں کی اور مجھے یقین کی حد تک گمان ہے آپ اس دفعہ بھی آئیں گے، مزید دو چار الزام لگائیں گے اور چلتے بنیں گے۔
نہ ہی کسی منکر کو اس کا قائل کرنے کی کوشش کی کہ ہماری بات کو یہاں کسی دلیل کی احتیاج ہو۔
اس کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے۔
نسان ہمیشہ واقعہ ہو جانے کے بعد توجیحات تلاش کرتا ہے (شاید خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یا اپنا ایمان مزید 'مضبوط' کرنے کے لیے)
دلیل کسی منکر کو قائل کرنے تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان وقتا فوقتا خود کو دلیل مہیا کرتا رہتا ہے کہ جو وہ سوچ رہا وہ صحیح ہے اور خود کو تسلی دیتا رہتا ہے کہ وہ صحیح راستے پر ہے۔
ہم نے یہاں محض مسلمانوں کا قرآنِ کریم معجزہ ہونے کی بابت اعتقاد بیان کیا ۔۔۔ اور اس حوالے سے پیش کی گئی مختلف توجیہات و تشریحات ذکر کیں،
مجھے آپ کے اعتقادات سے کوئی لینا دینا نہیں، اس لیے میں نے نہ انہیں چھیڑا اور نہ ان کا ذکر کرنا مناسب سمجھا ہے۔
آخر میں اپنے تجربے اور فہم کی بنیاد پر یہ نکتہ اٹھایا کہ بغیر کسی رسمی و غیر رسمی تعلیم کے، کسی شخص کی زبان سے اس قدر فصیح اور بلیغ کلام کا جاری ہونے کی کوئی فزیکل توجیہ فراہم نہیں کی جاسکتی
میرا جس پہ اعتراض تھا وہ یہی نقطہ ہے۔ کیا آپ کا تجربہ اور فہم دونوں ناقص نہیں؟ (انسان ہونے کے ناتے) اور یہی بات خود خدا انسان کے متعلق قران میں کہتا ہے کہ انسان بہت کم علم ہے۔ اس لیے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ 'کسی شخص کی زبان سے اس قدر فصیح اور بلیغ کلام کا جاری ہونے کی کوئی فزیکل توجیہ فراہم نہیں کی جاسکتی' محض آپ کا قیاس ہے۔ اول تو یہ کہ زبانوں میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں آتی رہتی ہیں، آپ نے اس پر کتنی تحقیق کی ہے؟ آپ نے اس دور کی جب قران اترا تھا قران کے علاوہ عربی زبان کی کتنی کتابوں کا تجزیہ کر کے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے؟ آپ حال کی سیٹنگ میں ماضی کا موازنہ کر رہے ہیں۔ دوم یہ کہ 'توجیہ فراہم نہیں کی جا سکتی' یہ نتیجہ بھی آپ کے اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پہ محض قیاس ہے، علم کا نہ ہونا الگ بات ہے اور کم علمی کی بنیاد پہ منطقی نتیجہ اخذ کرنا اور بات، جو آپ نے کیا ہے۔ آج ہمیں کئی ایسوں چیزوں کا علم ہے جن کا ماضی میں نہیں تھا، مثال کے طور پر ماضی میں کئی جید علماء اپنی اس بات پر ضد کی حدتک قائم تھے کہ زمین چپٹی ہے اور سورج زمین کے گرد گھومتا ہے اور اس کے دلائل وہ اور کہیں نہیں بلکہ قران و حدیث سے دیا کرتے تھے، اس وقت یہ گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ یہ غلط ہیں۔ اگر آج آپ کی بات کی کوئی توجیہ فراہم نہیں کی جا سکتی یا آپ کا تجربہ و فہم ابھی اس مقام پر نہیں کہ آپ کو اس کی توجیہ فراہم کر سکے تو اس سے منطقی نتیجہ یہ قطعی اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ 'توجیہ فراہم نہیں کی جا سکتی'۔
ہم نے چین کے حوالے سے جو مثال دی، ہمارا قیاس نہیں بلکہ آپ کے پہلے مراسلے میں اٹھائے گئے شبہے کا جواب تھا۔ ہم تو یہی کہتے ہیں کہ خدا نے اپنے نبی ﷺ کو عرب میں بھیجا، اس کی مرضی ۔۔۔ کہیں اور مبعوث فرماتا تو بھی اس کی مشیت ہوتی ۔۔۔ ہمیں نہ اس صورت میں کوئی اشکال یا اعتراض ہے نہ اُس صورت میں ہوتا۔
اب آپ میرا مراسلہ پڑھیں جس سے آپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے۔
اب آپ کی اسی بات کو دوبارہ لے لے لیتے ہیں کہ اگر خدا 'اپنا نبی چین میں بھیجتا تو حجت تام کرنے کے لیے فصاحت و بلاغت کے بجائے کچھ اور مظاہر دکھلاتا اور چینی زبان کا دیگر زبانوں سے افصح ہونا ثابت کرنا سرے سے ایک نان ایشو ہوتا' کیا یہ جملہ محض خدا کی طرف قیاس آرائی نہیں ہے؟ خدا کی ذات جو چاہے کرے کر سکتی ہے وہ حجت تام کے لیے ان مفروضوں اور مظاہر کی پابند نہیں ہے جو انسان سوچتا ہے یا گمان کرتا ہے۔ انسان ہمیشہ واقعہ ہو جانے کے بعد توجیحات تلاش کرتا ہے (شاید خود کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یا اپنا ایمان مزید 'مضبوط' کرنے کے لیے)، اس لیے یہ ضروری نہیں کہ ویسا ہی ہو جیسا انسان گمان کر رہا ہے جب تک کہ خود خدا واضح طور پر اسے بیان نہ کر دے کہ واقعی ایسا ہے۔ امید ہے میں کچھ کچھ بات واضح کر پایا ہوں!
یہاں اصل نکتہ یہ نہیں تھا کہ نبی چین میں آتا یا عرب میں بلکہ یہ تھا بلکہ آپ کا یہ کہنا کہ 'حجت تام کرنے کے لیے فصاحت و بلاغت کے بجائے کچھ اور مظاہر دکھلاتا اور چینی زبان کا دیگر زبانوں سے افصح ہونا ثابت کرنا سرے سے ایک نان ایشو ہوتا' قیاس ہے کہ خدا ایسا کرتا۔
آپ خود اپنے تجربے اور فہم کی بنیاد پہ اپنی قیاس آرائیوں کو حتمی یقین کا درجہ دے کر اپنے اعتقادات پہ قائم رہیں، میری ذات کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں لیکن اسے عالمی سچائی کے طور پر پیش نہ کریں کہ جس نتیجے پہ میں پہنچا ہوں وہی صحیح ہے۔
 
آخری تدوین:

فاخر رضا

محفلین
hasrat
محمد احسن راحل

قرآن کریم معجزہ ہے. اسے اہل زبان مانتے ہیں. آج نہیں چودہ سو سال پہلے. آج بھی قرآن کا دعویٰ قرآن ہی میں لکھا ہے
اس کا کوئی جواب لائے
108. سورۃ ‎الكوثر:
اِنَّاۤ اَعۡطَیۡنٰکَ الۡکَوۡثَرَ ؕ﴿۱﴾
۱۔ بیشک ہم نے ہی آپ کو کوثر عطا فرمایا۔
108. سورۃ ‎الكوثر:
فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ ؕ﴿۲﴾
۲۔ لہٰذا آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی دیں
108. سورۃ ‎الكوثر:
اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ٪﴿۳﴾
۳۔ یقینا آپ کا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔۔
 

فاخر رضا

محفلین
قرآن مجید اللہ کا کلام ہے اور یہ معجزہ ہے. اگر کوئی نہیں مانتا تو اس جیسی سورہ بنا لائے.
معجزہ کی تعریف یہ ہے کہ
ایسا کام جو مافوق العقل ہو اور کافر یا مشرک کو لاجواب کرنے کے لئے انجام دیا جائے.
اس طرح قرآن مجید معجزہ ہے. اس کے سامنے سب اہل زبان عاجز ہوگئے.
 

سیما علی

لائبریرین
سو ہمارے آقائے نامدار نبی الامی ﷺ کی زبان مبارک سے ایسی اعلیٰ و ارفع زبان پر مبنی کلام کا جاری ہونا، جو عام لوگ استعمال نہیں کرتے ۔۔۔ سوائے معجزے کے اور کچھ ہو سکتا ہے؟؟؟؟

اللھم صلی علی سیدنا و مولانا محمد و علی آلِ محمد و علی آلہ و اصحابہ و بارک وسلم
سبحان اللّہ

قدرت نے ’’اعجاز قرآن‘‘ سے کام لیا اور ’’صاحب قرآن ‘‘ ﷺ کو فصاحت و بلاغت کے حسن و جمال سے آراستہ و پیراستہ کیا ۔اس طرح خالق نطق و بیان نے اپنے نبی آخرالزماں ﷺ کو سر زمین عرب پر ’’افصح العرب‘‘ بنا کر بھیجا۔۔۔۔۔
الفاظ آیتیں ہیں تو فقرے ہیں سورتیں
گویا کہ بولتا ہوا قرآن ہیں مصطفیﷺ
 
پھر وہی ڈھاک کے تین پات!
میں نے ایک بات جو اپنے ذاتی تجربے اور فہم کے مطابق محسوس کی، بیان کر دی.
آپ مگر مسلسل یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آپ کو اعتراض کس بات پر ہے؟؟؟ سیدھے سادے الفاظ میں بتائیں کہ آپ کا مدعا کیا ہے؟
1. قرآن کو معجزہ نہیں کہنا چاہیے؟
2. قرآن کی فصاحت غیر معمولی نہیں؟
3. کسی بے پڑھے ہوئے انسان کا اچانک اعلی اور نفیس ترین اسلوب میں کوئی کلام پیش کر دینا ایک عام سی بات ہے؟
... یا ان کے علاوہ کچھ؟
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
راحل بھائی چھوڑیں ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب نہ ہی دیں تو اچھا ہے ورنہ غیر مسلم بھی اگر اہلِ علم ہو تو قرآن کی حقانیت کے مقابلے میں نہیں آتا
اور hasrat صاحب کیوں خود کو ہلکان فرما رہیں ہیں یہ معاملات عقیدہ رکھنے والوں کے ہیں اور آپ کے مراسلات بتاتے ہیں کہ آپ بہت علم رکھتے ہیں اور بڑے بڑے سورماؤں کو اپنے دلائل سے چاروں شانے چت کرنے میں کمال رکھتے ہیں پھر جائیں اپنے لیول والوں سے بات کریں کیوں مولویوں پر اپنا وقت ضائع فرما رہے ہیں
 
آخری تدوین:

حسرت جاوید

محفلین
راحل بھائی چھوڑیں ایسے لوگوں کی باتوں کا جواب نہ ہی دیں تو اچھا ہے ورنہ غیر مسلم بھی اگر اہلِ علم ہو تو قرآن کی حقانیت کے سامنے مقابلے میں نہیں آتا
اور hasrat صاحب کیوں خود کو ہلکان فرما رہیں ہیں یہ معاملات عقیدہ رکھنے والوں کے ہیں اور آپ کے مراسلات بتاتے ہیں کہ آپ بہت علم رکھتے ہیں اور بڑے بڑے سورماؤں کو اپنے دلائل سے چاروں شانے چت کرنے میں کمال رکھتے ہیں پھر جائیں اپنے لیول والوں سے بات کریں کیوں مولویوں پر اپنا وقت ضائع فرما رہے ہیں
قران کی حقانیت پہ کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے اور یہاں بات حقانیت پہ ہو ہی نہیں رہی۔ اللہ پاک نبی کے ذریعے مخلوق کو زمینی خداؤں کی بجائے حقیقی خدا کے تابع ہونے کا پیغام دیتے ہیں تاکہ وہ ہدایت اور سیدھے راستے سے ہمکنار ہوں۔ لیکن انسان شروع سے کم ظرف ہے وہ پیغام کی روح کو سمجھنے کی بجائے خدا سے مسحور ہو کر خدا سے وہ وہ چیزیں قیاس کرتا ہے جن سے ایمان کا قطعی کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ ہی خدا کا کوئی تقاضا ہے کہ ان چیزوں پہ ایمان لایا جائے۔
میں نے یہ کہیں دعویٰ نہیں کیا کہ میں بہت علم رکھتا ہوں بلکہ اس کے برعکس میں بار بار ایک ہی نکتہ دہرا رہا ہوں کہ انسان بہت کم علم ہے (میرے سمیت) اس کو ایسے قیاس کو یقین کا درجہ دینا زیب نہیں دیتا جس کا اسے حقیقی علم نہیں ہے۔ نہ ہی یہاں کسی کو چت کرنا یا نیچا دکھانا مقصود ہے بلکہ محض اتنا بتانا ہے کہ میں صاحبِ لڑی کی توجیح سے اتفاق نہیں رکھتا اور اس کی بنیادی وجہ میں نے اپنے پہلے مراسلے میں انتہائی مختصر طریقے سے (بغیر کسی ذاتی الزام تراشی کے) بیان کی تھی لیکن صاحب بار بار اسے جذباتی رنگ دے کر ٹارگٹنگ لہجے میں مخاطب ہیں۔
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
پھر وہی ڈھاک کے تین پات!
میں نے ایک بات جو اپنے ذاتی تجربے اور فہم کے مطابق محسوس کی، بیان کر دی.
آپ مگر مسلسل یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آپ کو اعتراض کس بات پر ہے؟؟؟ سیدھے سادے الفاظ میں بتائیں کہ آپ کا مدعا کیا ہے؟
1. قرآن کو معجزہ نہیں کہنا چاہیے؟
2. قرآن کی فصاحت غیر معمولی نہیں؟
3. کسی بے پڑھے ہوئے انسان کا اچانک اعلی اور نفیس ترین اسلوب میں کوئی کلام پیش کر دینا ایک عام سی بات ہے؟
... یا ان کے علاوہ کچھ؟
قرآن مجید جس دور میں نازل ہوا وہ فصاحت و بلاغت اورمنطق و حکمت کا دور تھا چنانچہ جب اسے فصیح وبلیغ ادبیوں ' عالموں اور شاعروں کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ بے ساختہ پکا ر اُٹھا۔۔۔۔۔۔
'' خدا کی قسم یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے ''
اور تمام نبیوں کے معجزے اُنکی زندگیوں کے ساتھ ہی ختم ہوگیے مگر آپ ﷺمعجزہ تا قیامت قرآنِ مجید کی صورت میں رہے گا!!؟
 

حسرت جاوید

محفلین
میں نے ایک بات جو اپنے ذاتی تجربے اور فہم کے مطابق محسوس کی، بیان کر دی.
مختصرا یہ کہ آپ نے جو توجیح اپنے ذاتی تجربے اور فہم کے مطابق محسوس کی میں اس سے قائل نہیں ہوں (وہ میرے دل کو نہیں لگی، اول مراسلہ)۔
آپ مگر مسلسل یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آپ کو اعتراض کس بات پر ہے؟؟؟ سیدھے سادے الفاظ میں بتائیں کہ آپ کا مدعا کیا ہے؟
انسان کم علم اور ناقص العقل ہے اس لیے اسے اپنے گمان یا قیاس کو حقیقت سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے جس کا اس سے رب باری تعالی نے تقاضا نہیں کیا۔
1. قرآن کو معجزہ نہیں کہنا چاہیے؟
آپ کے اپنے ہی الفاظ میں کیا یہاں بحث قران کو معجزہ ثابت کرنے پہ چل رہی ہے؟
2. قرآن کی فصاحت غیر معمولی نہیں؟
ظاہر ہے رب کا کلام ہے وہ جس زبان میں بھی نازل ہو گا، بہترین ہو گا۔
3. کسی بے پڑھے ہوئے انسان کا اچانک اعلی اور نفیس ترین اسلوب میں کوئی کلام پیش کر دینا ایک عام سی بات ہے؟
جو رب بے پڑھے کو نبی بنا سکتا ہے، کیا وہ اسے ایسی قوتِ اظہار نہیں بخش سکتا؟ رب جو چاہے کر سکتا ہے لیکن ہم پر لازم نہیں کہ ہم ان سے اپنی سمجھ کے مطابق قیاس آرائیاں کریں اور ان کو حقیقت کا درجہ دیں۔
 
آخری تدوین:
عجیب آدمی ہیں آپ، خود اپنی ہی بات کی تردید کیے چلے جاتے ہیں.
آپ کے اپنے ہی الفاظ میں کیا یہاں بحث قران کو معجزہ ثابت کرنے پہ چل رہی ہے؟
اثبات و انکار کا مرحلہ تو تب آئے گا جب آپ کا اس بابت کوئی موقف سامنے آئے. ہم نے تو اپنا عقیدہ بیان کردیا کہ ہم قرآن پاک کو معجزہ سمجھتے ہیں. آپ کا طرز عمل عجیب ہے کہ اس پر اعتراض کرنا بھی چاہ رہے ہیں لیکن اعتراض ہے کیا، وہ صاف الفاظ میں بیان بھی نہیں کرتے.
جو رب بے پڑھے کو نبی بنا سکتا ہے، کیا وہ اسے ایسی قوتِ اظہار نہیں بخش سکتا؟
اس کے برعکس دعوی کیا کس نے ہے؟؟؟ معجزہ تو ہوتا ہی اللہ کی قدرت کا مظہر جو اس کے انبیاء علیھم الصلوٰۃ و السلام کے ہاتھ ظاہر ہوتا ہے. دم عیسیٰ علیہ السلام سے مردے زندہ ہوجاتے تھے ... مگر سب کا یہی ماننا ہے کہ اس میں اصل قدرت اللہ تبارک و تعالی کی تھی. بعینہ قرآن پاک کی غیر معمولی فصاحت و بلاغت اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس کا جاری ہونا اللہ کی ہی قدرت کا مظہر ہے. اس میں کون سی قیاس آرائی شامل ہو گئی؟؟؟

مختصرا یہ کہ آپ نے جو توجیح اپنے ذاتی تجربے اور فہم کے مطابق محسوس کی میں اس سے قائل نہیں ہوں
میں نے اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ کہا تھا کہ خود اہل زبان کے لیے فصحی میں احسن طریقے سے کلام کرنا ایک مشکل امر ہے جو ایک خاص علمی استعداد پیدا کیے بغیر ممکن نہیں ... تو پھر قرآن جیسے فصیح ترین کلام کا ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بغیر کسی دنیاوی تعلیم و تعلم کے جاری ہو جانا ایک معجزاتی عمل ہی کہلائے گا.
اتنی آسان سی بات آپ کو سمجھ نہیں آ سکی یا آپ کے دل کو نہیں لگ سکی، تو ٹھیک ہے، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ... آپ اپنے فہم کے مطابق قرآن پاک کا معجزاتی وصف بیان کردیں ... اور اگر آپ سرے قرآن پاک کے معجزہ ہونے کے ہی قائل نہیں تو کھل کر بیان کریں، تاکہ بحث کا پیراڈائم تو طے ہو سکے ... اس بے مقصد آنا کانی سے کیا حاصل؟
 

حسرت جاوید

محفلین
عجیب آدمی ہیں آپ، خود اپنی ہی بات کی تردید کیے چلے جاتے ہیں.
پھر وہی الزام تراشی وہ بھی بغیر کسی نشان دہی کے۔ جاری رکھیے کہ فطرت بدل نہیں سکتی۔
اثبات و انکار کا مرحلہ تو تب آئے گا جب آپ کا اس بابت کوئی موقف سامنے آئے. ہم نے تو اپنا عقیدہ بیان کردیا کہ ہم قرآن پاک کو معجزہ سمجھتے ہیں. آپ کا طرز عمل عجیب ہے کہ اس پر اعتراض کرنا بھی چاہ رہے ہیں لیکن اعتراض ہے کیا، وہ صاف الفاظ میں بیان بھی نہیں کرتے.
اس پر آپ ہی کا جواب حاضر ہے۔
ہم نے یہاں قرآن کو معجزہ ’’ثابت کرنے‘‘ کی بحث کی ہی نہیں،
قرآن پاک کی غیر معمولی فصاحت و بلاغت اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اس کا جاری ہونا اللہ کی ہی قدرت کا مظہر ہے. اس میں کون سی قیاس آرائی شامل ہو گئی؟؟؟
دنیا میں ہر شے اللہ ہی کی قدرت کا مظہر ہے کیونکہ رب خود سپریم ہے جو چاہے کر سکتا ہے اس کے لیے انسان کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ 'اگر ایسے ہے، ویسے ہے تو وہ معجزہ ہے'۔ اگر آپ کو یہی ایک معمولی سی بات بھی سمجھ نہیں آ رہی تو بحث کو یہیں ختم کر دیتے ہیں مزید طول دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ آپ اپنے اعتقادات پہ قائم رہیے مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں۔
میں نے اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ کہا تھا کہ خود اہل زبان کے لیے فصحی میں احسن طریقے سے کلام کرنا ایک مشکل امر ہے جو ایک خاص علمی استعداد پیدا کیے بغیر ممکن نہیں ... تو پھر قرآن جیسے فصیح ترین کلام کا ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے بغیر کسی دنیاوی تعلیم و تعلم کے جاری ہو جانا ایک معجزاتی عمل ہی کہلائے گا.
اتنی آسان سی بات آپ کو سمجھ نہیں آ سکی یا آپ کے دل کو نہیں لگ سکی، تو ٹھیک ہے، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ... آپ اپنے فہم کے مطابق قرآن پاک کا معجزاتی وصف بیان کردیں ... اور اگر آپ سرے قرآن پاک کے معجزہ ہونے کے ہی قائل نہیں تو کھل کر بیان کریں، تاکہ بحث کا پیراڈائم تو طے ہو سکے ... اس بے مقصد آنا کانی سے کیا حاصل؟
میرے بھائی اتنی سادہ سی بات آپ کو سمجھ کیوں نہیں آ رہی جو میں نے اوپر بھی بیان کی ہے اور یہاں پھر دہرا دیتا ہوں کہ رب ہر چیز پر قادر ہے، جو رب بے پڑھے کو نبی بنانے پر قادر ہے وہ اسے قوتِ اظہار بخشنے پر بھی ہے، پھر اس کے لیے زبان اور طرزِ بیان چاہے کچھ بھی ہو۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ فصاحت و بلاغت کی تمہید باندھ کر اسے معجزہ ثابت کیا جائے (اور یہی عین قیاس ہے کہ چونکہ یوں ہے تو اس لیے یوں ہو گا) اور یہ معاملہ صرف حضور پاک تک محدود نہیں بلکہ رب جن جن انبیاء سے مخاطب ہوا ہے سب کے ساتھ ہے۔ یہ تخمینے لگانے والا کام صرف انسان کرتے ہیں صرف اس لیے کہ وہ خود کو یقین دلا سکیں کہ وہ واقعی صحیح راستے پر ہیں۔
اس بحث کو مزید طول دینے کی میری کوئی نیت نہیں۔ والسلام۔ سلامت رہیے۔
 
آخری تدوین:
بحث آگے بڑھ بھی نہیں سکتی جب تک آپ خود اپنی تضاد بیانی ختم نہیں کردیتے اور کھل کر اپنا موقف بیان نہیں کرتے. نجانے آنجناب کی کون سی مجبوری ہے کہ آپ اب بھی اسی آنا کانی پر مجبور ہیں. بھائی اگر آپ قرآن کے معجزاتی ہونے کے قائل نہیں تو ایک بار کھل کر کہہ دیں. ایک طرف آپ خدا کو قادر مطلق بھی کہہ رہے ہیں، دوسری طرف آپ کو اسکے مظاہر قدرت کو معجزہ کہے جانے پر اعتراض ہے! ارے بھائی اگر خدا کی قدرت کا کوئی مظہر خرق عادت ہو تو اس کو معجزہ کہنے میں کیس قیاس آرائی ... اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس میں کوئی خرق عادت بات نہیں تو پھر اس کی کوئی طبیعیاتی توجیہ بیان کردیں. لیکن نہیں، آپ بار بار ایک نئی بات چھیڑ کر خلط مبحث کردیتے ہیں. اللہ کے دیگر انبیا سے مخاطب ہونے کو کس نے غیر معجزاتی کہا ہے؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ یا تو آنجناب سرے معجزات کے قائل ہی نہیں یا پھر معجزات کا درست فہم نہیں رکھتے. خواہ مخواہ معجزات کو اللہ کی قدرت کے خلاف ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں.
آخری بات یہ کہ اصل مضمون کا مدعا ہرگز قرآن پاک کے معجزاتی یا غیر معجزاتی ہونے کی بحث قائم کرنا نہیں تھا ... نفس مضمون سے بات واضح ہے اور ویسے بھی مسلمانوں (کی کم از کم واضح اکثریت) کے نزدیک تو یہ ایک طرح سے axiomatic بات ہے. آنجناب مگر اس بنیادی axiom پر ہی معترض ہوئے ... تو ظاہر ہے ایسے میں بات اثبات و انکار کی طرف جائے گی ہی. جب تک آپ کا موقف واضح نہیں ہوگا، بحث کا پیراڈائم ہی متعین نہیں ہوسکتا اور یہی ہو رہا ہے ... آنجناب کی طرف سے آئیں بائیں شائیں!
 
آخری تدوین:
Top