شکوۂِ اربابِ وفا بھی سن لے

عاطف ملک

محفلین
ہمیں موبائل گیمنگ(mobile gaming) کا شوق ہے بلکہ جنون کہیے تو بے جا نہ ہو گا۔ہینڈز فری (handsfree) خراب کیا ہوئے،جان پر بن آئی۔چاروناچار وقت نکال کے اپنے شہر کے معروف بازار کا رخ کیا اور متعدد دکانوں کی خاک چھانی کہ اپنی ضرورت کے مطابق گیمنگ ہینڈز فری(gaming handsfree) خریدیں لیکن کہیں سے مراد بر نہ آئی۔
حالت یہ ہو گئی کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔
چنانچہ اس مرتبہ مصمم ارادے کے ساتھ ایک دکان میں داخل ہوئے کہ اب یہاں سے ہینڈزفری خرید کر ہی نکلیں گے۔
صاحبِ دکان سے تعارف کرایا اور عرض کی کہ ہمارے سابقہ ہینڈزفری،جو کہ ہمارے پاس موجود تھے،نہ سہی ان سے ملتا جلتا کچھ دکھا دیں۔
جناب نے کمالِ بے نیازی سے ایک ہینڈزفری سامنے رکھی جو ابتدائی آزمائش میں سرخرو ٹھہری،یعنی آواز کا معیار اچھا تھا۔قیمت پوچھی تو بتا دی گئی۔(اس دوران صاحبِ دکان نہ صرف ایک اور گاہک کے ساتھ مصروف تھے بلکہ موبائل پر بھی مشغول تھے۔)
اب ہمارا بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ یہ ہینڈزفری ہماری گیمنگ کی ضرورت کے مطابق ہیں یا نہیں؟
چنانچہ ان سے اجازت چاہتے ہوئے اپنی گیم چلائی اور ہینڈز فری چیک کرنے لگے۔چیک کرنے پر پتا چلا کہ ہینڈز فری کے دائیں چینل میں بائیں جبکہ بائیں چینل میں دائیں چینل کی آواز آرہی ہے جو کہ پب جی (pubg) جیسی گیم میں سیدھا سادھا موت کا پروانہ ہے۔
چنانچہ صاحبِ دکان کو اپنا مسئلہ بتایا جس پر وہ تھوڑے جزبز ہوئے لیکن ایک اور ہینڈزفری دکھائی جس کی آواز اتنی معیاری نہ تھی کہ ہمیں پسند آتی۔
اب کے ہم نے پچھلی ہینڈزفری یا ویسی ہی کوئی اور ہینڈزفری دکھانے کی "فرمائش" کی جس میں ایسا مسئلہ نہ ہو۔ساتھ ہی یہ پتا کرنے کے لیے کہ ہینڈزفری کے چینلز میں واقعی مسئلہ ہے یا ہماری غلط فہمی ہے سٹیریو ٹیسٹ(stereo test) چلا لیا۔دوبارہ چیک کرنے پر بھی وہی مسئلہ تشخیص ہوا۔
ہماری اس سرگرمی سے غالباً صاحبِ دکان سیخ پا ہو چکے تھے۔صورتحال کو بھانپتے ہوئے ہم نے ان سے ایک کی بجائے دو ہینڈزفری خریدنے کا فیصلہ کیا اور دو عدد وہی "خراب ہینڈزفری" پیک کرنے کا کہا۔
قیمت وصولی کی باری آئی تو ہم نے رعایت کی گذارش کی۔اس پر وہ صاحب تو جیسے پھٹ ہی پڑے کہ ہم نے ان کا جتنا وقت لیا ہے،اس پر تو انہیں ہم سے اضافی(ڈیڑھ گنا) پیسے وصول کرنے چاہیں۔ہم نے معذرت بھی کی اور اپنی مجبوری بھی بتائی لیکن وہ صاحب تھے کہ ٹھنڈے ہی نہیں ہو رہے تھے۔
چنانچہ ہم وہ دو عدد ہینڈز فری خرید کر یہ سوچتے ہوئے اپنے ہاسٹل کو لوٹ آئے کہ اسی مارکیٹ کے لوگ جب اپنے مریضوں کیلیے ہمارے ہسپتال کی ایمرجنسی میں آتے ہیں جہاں ڈاکٹر بہ یک وقت بیسیوں مریضوں کا علاج کر رہے ہوتے ہیں اور بار بار ان کا معائنہ کر رہے ہوتے ہیں تو یہ لوگ بطورِ لواحقین اس بات کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں کہ ہم ان کے بار بار اور مختلف رشتہ داروں کے الگ الگ آ کر ڈاکٹر سے مریض کی کیفیت کا احوال،خوارک اور ادویات کے متعلق معلومات پوچھنے پر ان کو ایک جیسا جواب دیں گے اور ہمارا لہجہ چوبیس چوبیس گھنٹوں کی ڈیوٹی کے دوران اس قدر دباؤ والے حالات میں بھی ٹھنڈا اور پرسکون رہے گا!
اور جو لوگ اپنی دکان پر رکھی اشیا کی منہ مانگی قیمت میں بھی صرف دس منٹ کا اضافی وقت لیے جانے کے باعث اضافہ جائز سمجھتے ہوں،وہ کس منہ سے نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے وقت کو بے قیمت سمجھتے ہوئے ان کے فیس لینے پر ان کو قصائی کہتے ہیں؟
رہ گئی اپنے کام کے دوران موبائل فون کے استعمال کی بات تو وہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔

عین​
 

سیما علی

لائبریرین
اور جو لوگ اپنی دکان پر رکھی اشیا کی منہ مانگی قیمت میں بھی صرف دس منٹ کا اضافی وقت لیے جانے کے باعث اضافہ جائز سمجھتے ہوں،وہ کس منہ سے نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کے وقت کو بے قیمت سمجھتے ہوئے ان کے فیس لینے پر ان کو قصائی کہتے ہیں؟
رہ گئی اپنے کام کے دوران موبائل فون کے استعمال کی بات تو وہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔
بالکل درست کہا آپ نے ہم ایسی قوم ہوگئیے ہیں اور ڈاکٹروں سے تو کچھ زیادہ ہی توقعات بلکہ اِنکو Supernatural سمجھتے ہیں -جب کسی اپنے قریبی کو ہسپتال لے کر جاتے ہیں تو بالکل بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں تھک جاتے ہیں اُنکے لئیے بھی رشتے ویسے ہی لازم و ملزوم ہیں جیسے ہمارے لئیے ہیں ۔۔رات رات بھر وہ اپنے پیاروں کو چھوڑ کر ہمارے پیاروں کی دیکھ بھال کر رہے ہوتے ہیں ۔اِنکی قدر بہت زیادہ ہوئی اِن دِنوں میں جب ہسپتال میں دن رات رہنا پڑا اور اِن کو رات دن ایک کرتے دیکھا۔
ایک فیملی جیسے دوست ڈاکٹر کو کو رونا میں اپنی جواں سال بیوی کو کھوتے دیکھا چھوٹے چھوٹے دو بچے ماں کے لئیے بلکتے دیکھے۔کیونکہ ڈاکٹر صاحب کو ہسپتال میں ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے کوڈ 19 ہوا ۔وہ تو روبصحت ہوئے پر بیچاری اہلیہ کو نہ بچا سکے جنکا قصور اُنکی اہلیہ ہونا تھا۔
بلاشبہ ڈاکٹر صاحب ہم آپ کی خدمات کی قدر جس طرح ہمیں کرنا چاہیے ویسے نہیں کرتے ۔۔۔ہم شرمندہ ہیں ۔ڈھیر ساری دعائیں اللّہ آپ لوگوں کو سلامت رکھے اور اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔۔آپ صد گی صد درست ہیں۔۔۔۔۔
 

Ali Baba

محفلین
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ہینڈز فری لینا اور کسی مریض کا معالج کے پاس جانا ایک جیسے ہی کام ہیں؟ یعنی ایک دکاندار اور ایک ڈاکٹر ایک جیسے ہی ہیں؟ یعنی دونوں کا مقصد صرف اپنا منافع کمانا ہوتا ہے؟
 

عاطف ملک

محفلین
بالکل درست کہا آپ نے ہم ایسی قوم ہوگئیے ہیں اور ڈاکٹروں سے تو کچھ زیادہ ہی توقعات بلکہ اِنکو Supernatural سمجھتے ہیں -جب کسی اپنے قریبی کو ہسپتال لے کر جاتے ہیں تو بالکل بھول جاتے ہیں کہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں تھک جاتے ہیں اُنکے لئیے بھی رشتے ویسے ہی لازم و ملزوم ہیں جیسے ہمارے لئیے ہیں ۔۔رات رات بھر وہ اپنے پیاروں کو چھوڑ کر ہمارے پیاروں کی دیکھ بھال کر رہے ہوتے ہیں ۔اِنکی قدر بہت زیادہ ہوئی اِن دِنوں میں جب ہسپتال میں دن رات رہنا پڑا اور اِن کو رات دن ایک کرتے دیکھا۔
ایک فیملی جیسے دوست ڈاکٹر کو کو رونا میں اپنی جواں سال بیوی کو کھوتے دیکھا چھوٹے چھوٹے دو بچے ماں کے لئیے بلکتے دیکھے۔کیونکہ ڈاکٹر صاحب کو ہسپتال میں ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے کوڈ 19 ہوا ۔وہ تو روبصحت ہوئے پر بیچاری اہلیہ کو نہ بچا سکے جنکا قصور اُنکی اہلیہ ہونا تھا۔
بلاشبہ ڈاکٹر صاحب ہم آپ کی خدمات کی قدر جس طرح ہمیں کرنا چاہیے ویسے نہیں کرتے ۔۔۔ہم شرمندہ ہیں ۔ڈھیر ساری دعائیں اللّہ آپ لوگوں کو سلامت رکھے اور اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔۔آپ صد گی صد درست ہیں۔۔۔۔۔
شکریہ۔
ویسے کچھ کچھ supernatural تو ہوتے ہی ہیں ہم:p
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک ہینڈز فری لینا اور کسی مریض کا معالج کے پاس جانا ایک جیسے ہی کام ہیں؟
کوئی بھی دو کام ایک جیسے نہیں ہو سکتے:)
لیکن دونوں کام ضرور ہیں۔
رہ گئی بات اہمیت کی،تو بصد احترام عرض کروں گا کہ وہ بھی ہر شخص کی ترجیحات پر منحصر ہے کہ اسے کون سا کام زیادہ اہم لگتا ہے۔
یعنی ایک دکاندار اور ایک ڈاکٹر ایک جیسے ہی ہیں؟
دونوں معاشرے کے فرد ہیں اور پروفیشنلز ہیں۔میں صرف پروفیشنلزم کی بات کر رہا تھا۔
اور ہمارے اس عمومی رویے کی بھی کہ ہم دوسروں کے رویے پر الزام لگانے سے پہلے نہ تو ان کے حالات سے مکمل آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی یہ دیکھتے ہیں کہ ویسے ہی حالات میں ہمیں کام کرنا پڑے تو ہمارا رویہ کیا ہو گا۔
یعنی دونوں کا مقصد صرف اپنا منافع کمانا ہوتا ہے؟

یہ بحث تو بہت لمبی ہے جناب۔
بہرحال پرائیویٹ سیٹ اپ میں ڈاکٹر اپنی خدمات کا معاوضہ لیتا ہے،کسی بھی دوسرے پیشہ ور شخص کی طرح۔اور آپ اس کی خدمات حاصل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے میں مکمل خود مختار ہوتے ہیں
 

Ali Baba

محفلین
یہ بحث تو بہت لمبی ہے جناب۔
بہرحال پرائیویٹ سیٹ اپ میں ڈاکٹر اپنی خدمات کا معاوضہ لیتا ہے،کسی بھی دوسرے پیشہ ور شخص کی طرح۔اور آپ اس کی خدمات حاصل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے میں مکمل خود مختار ہوتے ہیں
واقعی یہ بحث بہت لمبی ہے۔ ڈاکٹر کا ایک پرائیوٹ سیٹ اپ ہے، مریض اس کا گاہک ہے اور گاہک کو اختیار ہے جس کے پاس مرضی جائے اور اپنی سروسز بیچنے والے یعنی ڈاکٹر کا اختیار ہے کہ جتنا چاہے معاوضہ وصول کرے، یہاں تک تو سب ٹھیک ہے اور سب کچھ مارکیٹ کی ڈیمانڈ سپلائی کے مطابق ہے۔

لیکن مسئلہ اس سےذرا پیچھے ہے، یہی ڈاکٹر جو مارکیٹ کے مطابق اور پروفیشنلزم کے اصولوں کے عین مطابق اس معاشرے کے گاہکوں سے فیس لینا اپنا فرض سمجھتا ہے، پانچ دس بیس سال پہلے اسی معاشرے کے افراد کے پیسوں پر ایک طرح سے فی سبیل اللہ پڑھ کر یہاں تک پہنچا ہوتا ہے۔ کہاں سرکاری میڈیکل کالجوں کی نہ ہونے کے برابر فیسیں (جو کہ معاشرے کے ٹیکسوں سے پوری کی جاتی ہیں) اور کہاں پرائیوٹ میڈیکل کالجوں کی فیسیں۔ ڈاکٹر، اپنی ڈاکٹری سیکھتے وقت تو معاشرے سے سب کچھ وصول کر لیتا ہے لیکن جب اسی معاشرے کی خدمت کا موقع آتا ہے تو شکریہ تک ادا نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے کہ بھائیو اور بہنو مارکیٹ کی ڈیمانڈ اور سپلائی کے مطابق چلو۔

ایسے سب ڈاکٹروں سے مارکیٹ کے حساب سے انکی پانچ سال کی فیسیں بمع سود واپس لینی چاہئیں اور پھر ان سے کہنا چاہیئے کہ بھائی جی اپنی فیس جتنی مرضی رکھو، اللہ اکبر۔
 
Top