مجھ سے میرا تعلق!

ماہی احمد

لائبریرین
فی الحال تو بس یہی شعر ذہن میں آ رہا ہے۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا تو نہ بن،اپنا تو بن
یہی باااااات۔۔۔۔۔ اس موضوع پر یہی شعر آتا میرے ذہن میں بھی۔۔۔
چیتا مارا آپ نے تو۔۔۔:bighug:
 

سیما علی

لائبریرین
ماہی احمد بٹیا
بہت خوب صورت بات اپنا تعلق اپنے آپ سے پہلے پہل تو بڑا جارحانہ تھا ۔اور بڑی زور دار لڑائی رہتی اپنے آپ سے اور ذرا سا خالی وقت ملتا اپنے آپ سے نبرد آزما رہتے ۔۔۔
آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو
پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا اپنے آپ سے تعلق دوستانہ ہوتا گیا ۔۔سروس کی وجہ سے اپنا آپ تین حصوں میں بٹا رہتا ۔۔ایک دفتر کے نام دوسرا گھر کے نام۔ تیسرا بچوں کے نام اور ہر دم کوشش رہتی کہ کوئی بھی نظر انداز نہ ہو اس میں انسان اپنا آپ نظرانداز کرتا ہے ۔۔لیکن وہ شروع کا جارحانہ رویہ اپنے آپ سے تعلق کو مضبوط بھی کرتا گیا۔اپنے آپ کو معاف کرنا سیکھا اور غلطیوں سے سیکھنے کا عمل جاری رہا۔اور اصلاح کرکے سکون ملتا ۔پر اپنے آپ کو نظر انداز کرنے کا عمل ۔ہم نے باربار کیا ۔ کیونکہ سب ہماری اولین ترجیح ہوتے کیونکہ سب کی ذمہ داری نبھاتے خود کو توجہ دینے کا وقت نہیں ملتا۔پھر نوکری کے ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی تو مصروفیت اسقدر زیادہ ہوئی کہ کئی کئی دن اپنے آپ یاد ہی نہ رہتا۔لیکن آہستہ آہستہ اپنا آپ سمیٹنا شروع کیا تو پھر لطف آنا شروع ہوا ۔اور سب سے زیادہ سکون ملا اللّہ سے لو لگانے میں اس میں جو مزا آیا وہ کسی بات میں نہیں ہر رشتہ صاف صاف نظر آتا ہے اپنا آپ تو کرسٹل کلیر بُرائیاں کھل کھل کے سامنے آتی ہیں اپنی کمزوریاں نظر آنے لگیں تو زندگی آسان ہونے لگتی ہے اور جب اللّہ میاں ابھی آپ ارادہ کریں اور اُسے پایہٓ تکمیل تک پہنچا دیں تو قربان اُس مالکِ برحق کے صد شکر ہے اُسکا کہ ابھی لاڈ کیا اور ابھی اُس پروردگار نے نواز دیا سچ ہم اس لائق نہیں جس قدر اُس نے نوازش ہے ہم اگر اپنے روئیں روئیں سے شکرُ ادا کریں تو حق ادا نہ ہو سکے گا ۔ بس اب ہمارا اپنے آپ سے شکر صد شکر ہے بہت بہترین تعلق ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کرم ہے ۔
 
یہ تو آپ نے بجا فرمایا۔۔۔۔ میرا اس متعلق اندازِ فکر یہ ہے کہ جو شخص خود اپنا خیال نہیں رکھ سکتا (کہ یہ ایک انتہائی بنیادی بات ہے) وہ پھر کسی دوسرے کا خیال بھی اس طرح نہیں رکھ سکتا جیسا کہ اس دوسرے شخص کا حق ہے (ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ یہاں ہم کسی مخصوص رشتے کی بات کر رہے ہیں، جیسے کہ ماں۔۔۔۔ ایک ماں اپنے بچوں کو اپنی ذات کی اہمیت کیسے سیکھائے گی جب وہ خود اپنی ذات کو اہمیت نہ دیتی ہو گی)۔۔۔۔ اپنی ذات کا حق ادا کرنا، مجھے لگتا ہے، پہلی اور بنیادی بات ہے۔۔۔۔ مگر یہ خودغرضی سے ہٹ کر ایک بات کر رہی ہوں، خود غرضی ایک الگ چیز ہے:)
ماہی آپ نے درست فرمایا
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اللہ پاک کے بعد ہم اپنے پہلے ساتھی ہیں۔۔۔ ہم اپنے پہلے دوست، پہلے دشمن، پہلے خیر خواہ اور پہلے نقاد ہیں۔۔۔۔ ہمارا ہم سے یہ تعلق کیسا ہونا چاہئیے؟؟؟
یہ موضوع کچھ وقت سے زیر غور تھا۔۔۔۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ ہم ساری دنیا کے ساتھ نیکی کرتے ہیں مگر اپنے ساتھ بھلائی کرنا بھول جاتے ہیں۔۔۔۔ ہم اپنے خود سے تعلق کو کبھی اس نظر سے نہیں دیکھتے کہ اسے بھی وقت کی ضرورت ہے۔۔۔ میں چاہتی ہوں محفلین اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں۔۔۔۔ آپ کا اپنے ساتھ کیسا تعلق ہے، اس کی بہتری کے لئیے آپ کیا کرتے ہیں؟ اور آپ کی نظر میں تعلق کی اس نوعیت کی کیا اہمیت ہے؟
(میں گزارش ہے کہ گفتگو کو عمومی انداز میں زیر بحث لایا جائے کیونکہ شاید یہاں ذاتیات میں دخل کے امکانات زیادہ ہیں۔۔۔۔)
ماہی احمد ، اس دھاگے کی طرف متوجہ کرنے کا بہت شکریہ۔ بہت اچھا موضوع ہے اور اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ ایک کثیرجہتی موضوع ہے اور اس پر کئی مختلف زاویوں سے بات کی جاسکتی ہے ۔ میں اس بارے میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ آدمی کو اپنے ساتھ سچا اور ایماندار ہونا چاہئے، خود کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے ۔
 

ماہی احمد

لائبریرین
ماہی احمد ، اس دھاگے کی طرف متوجہ کرنے کا بہت شکریہ۔ بہت اچھا موضوع ہے اور اس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ ایک کثیرجہتی موضوع ہے اور اس پر کئی مختلف زاویوں سے بات کی جاسکتی ہے ۔ میں اس بارے میں صرف یہ کہنا چاہوں گا کہ آدمی کو اپنے ساتھ سچا اور ایماندار ہونا چاہئے، خود کو دھوکہ نہیں دینا چاہئے ۔
اپنے ساتھ سچا ہونا بھی خاصا مشکل کام ہے۔۔۔۔ خود کو دھوکے میں رکھنے اور ایک فریب کی خوشنما دنیا بنا کر اسے میں جیے جانے سے انسان کی گروتھ رُک جاتی ہے۔۔۔۔
یہ دو پوائنٹس، سچائی اور ایمانداری، دوستی کی پہلی شرط ہیں۔۔۔۔ بہت شکریہ:)
کیا ہی اچھا ہو اگر آپ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے نکالیں اور ان جہتوں کے متعلق سرسری بات کریں:)
(پس نوشت: بہت سی باتیں ہم جانتے ہوتے ہیں، لیکن کسی ایک موضوع کے نیچے ان کی دُہرائی اکثر اوقات ایک نیا زاویہ نگاہ دیتی ہے۔۔۔۔ جیسے یہی سچائی اور ایمانداری کی بات)
 

ماہی احمد

لائبریرین
ماہی احمد بٹیا
بہت خوب صورت بات اپنا تعلق اپنے آپ سے پہلے پہل تو بڑا جارحانہ تھا ۔اور بڑی زور دار لڑائی رہتی اپنے آپ سے اور ذرا سا خالی وقت ملتا اپنے آپ سے نبرد آزما رہتے ۔۔۔
آپ اپنا غبار تھے ہم تو
یاد تھے یادگار تھے ہم تو
پردگی! ہم سے کیوں رکھا پردہ
تیرے ہی پردہ دار تھے ہم تو
ہم نے کیوں خود پہ اعتبار کیا
سخت بے اعتبار تھے ہم تو
پھر وقت کے ساتھ ساتھ ہمارا اپنے آپ سے تعلق دوستانہ ہوتا گیا ۔۔سروس کی وجہ سے اپنا آپ تین حصوں میں بٹا رہتا ۔۔ایک دفتر کے نام دوسرا گھر کے نام۔ تیسرا بچوں کے نام اور ہر دم کوشش رہتی کہ کوئی بھی نظر انداز نہ ہو اس میں انسان اپنا آپ نظرانداز کرتا ہے ۔۔لیکن وہ شروع کا جارحانہ رویہ اپنے آپ سے تعلق کو مضبوط بھی کرتا گیا۔اپنے آپ کو معاف کرنا سیکھا اور غلطیوں سے سیکھنے کا عمل جاری رہا۔اور اصلاح کرکے سکون ملتا ۔پر اپنے آپ کو نظر انداز کرنے کا عمل ۔ہم نے باربار کیا ۔ کیونکہ سب ہماری اولین ترجیح ہوتے کیونکہ سب کی ذمہ داری نبھاتے خود کو توجہ دینے کا وقت نہیں ملتا۔پھر نوکری کے ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھی تو مصروفیت اسقدر زیادہ ہوئی کہ کئی کئی دن اپنے آپ یاد ہی نہ رہتا۔لیکن آہستہ آہستہ اپنا آپ سمیٹنا شروع کیا تو پھر لطف آنا شروع ہوا ۔اور سب سے زیادہ سکون ملا اللّہ سے لو لگانے میں اس میں جو مزا آیا وہ کسی بات میں نہیں ہر رشتہ صاف صاف نظر آتا ہے اپنا آپ تو کرسٹل کلیر بُرائیاں کھل کھل کے سامنے آتی ہیں اپنی کمزوریاں نظر آنے لگیں تو زندگی آسان ہونے لگتی ہے اور جب اللّہ میاں ابھی آپ ارادہ کریں اور اُسے پایہٓ تکمیل تک پہنچا دیں تو قربان اُس مالکِ برحق کے صد شکر ہے اُسکا کہ ابھی لاڈ کیا اور ابھی اُس پروردگار نے نواز دیا سچ ہم اس لائق نہیں جس قدر اُس نے نوازش ہے ہم اگر اپنے روئیں روئیں سے شکرُ ادا کریں تو حق ادا نہ ہو سکے گا ۔ بس اب ہمارا اپنے آپ سے شکر صد شکر ہے بہت بہترین تعلق ہے کیونکہ یہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا کرم ہے ۔
ارے واہ آنی! بے شک اللہ پاک کرم ہے کہ وہ سمجھ بوجھ عطا کرے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق بھی:)
مجھے ایک بات نہیں سمجھ آ رہی۔۔۔۔ یہاں بار بار ایک ہی نکتہ سامنے آ رہا کہ دیگر رشتوں کی ذمہ داریاں ہمیں خود سے لاپرواہ کر دیتی ہے۔۔۔۔۔ یہ کہ ایک عمومی رویہ ہے۔۔۔۔ اس میں کسی کا قصور بھی نہیں کیونکہ بیرونی دنیا کے ہر معاملہ میں آپ سے فوراً جواب طلبی ہوتی سو انہیں اگنور نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کا حل کیا ہو۔۔۔۔ کیونکہ یہ اچھی بات نہیں۔۔۔۔ آپ بیرونی دنیا کے معاملات میں جب اندر کی دنیا کو نیگلیکٹ کرتے ہیں تو ایک وقت آتا ہے جب ڈیپریشن اور سٹریس جیسی بیماریاں لاحق ہونے لگتی ہیں۔۔۔ دل اداس اور پریشان رہنے لگتا ہے اور پھر زندگی مشکل لگنے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ کیا ایسا نہیں کہ یہ ایک بنیادی بات تربیت میں شامل ہونی چاہیے۔۔۔۔ یعنی اس سب کو مینیج کرنا؟ تو کیا پھر اب خود اپنی تربیت کی ضرورت ہے؟ مطلب اٹس کنفیوزنگ!!!!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا ہی اچھا ہو اگر آپ اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ لمحے نکالیں اور ان جہتوں کے متعلق سرسری بات کریں:)
کوشش کروں گا کہ جلد ہی کچھ لکھ سکوں ۔ فی الوقت تو ذہن سنجیدہ گفتگو پر مائل نہیں ۔ :):):)
دراصل بائیں انگشتِ شہادت کے سرے پر ایک عدد معمولی سی چوٹ نے پچھلے دوہفتوں سےٹائپ کرنا دشوار بنایا ہوا ہے ۔ بہت ہی دردناک ٹائپنگ ہورہی ہے ۔ ایسے میں فلسفہ بگھارنا بہت مشکل ہے :)
 

ماہی احمد

لائبریرین
کوشش کروں گا کہ جلد ہی کچھ لکھ سکوں ۔ فی الوقت تو ذہن سنجیدہ گفتگو پر مائل نہیں ۔ :):):)
دراصل بائیں انگشتِ شہادت کے سرے پر ایک عدد معمولی سی چوٹ نے پچھلے دوہفتوں سےٹائپ کرنا دشوار بنایا ہوا ہے ۔ بہت ہی دردناک ٹائپنگ ہورہی ہے ۔ ایسے میں فلسفہ بگھارنا بہت مشکل ہے :)
اللہ پاک بہتر کریں، اپنی امان میں رکھے۔ آمین!
:)LOL::LOL::LOL: واقعی ایسے میں فلسفے کو بگھار لگانا مشکل ہے۔۔۔۔)
 

سیما علی

لائبریرین
ارے واہ آنی! بے شک اللہ پاک کرم ہے کہ وہ سمجھ بوجھ عطا کرے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق بھی:)
مجھے ایک بات نہیں سمجھ آ رہی۔۔۔۔ یہاں بار بار ایک ہی نکتہ سامنے آ رہا کہ دیگر رشتوں کی ذمہ داریاں ہمیں خود سے لاپرواہ کر دیتی ہے۔۔۔۔۔ یہ کہ ایک عمومی رویہ ہے۔۔۔۔ اس میں کسی کا قصور بھی نہیں کیونکہ بیرونی دنیا کے ہر معاملہ میں آپ سے فوراً جواب طلبی ہوتی سو انہیں اگنور نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کا حل کیا ہو۔۔۔۔ کیونکہ یہ اچھی بات نہیں۔۔۔۔ آپ بیرونی دنیا کے معاملات میں جب اندر کی دنیا کو نیگلیکٹ کرتے ہیں تو ایک وقت آتا ہے جب ڈیپریشن اور سٹریس جیسی بیماریاں لاحق ہونے لگتی ہیں۔۔۔ دل اداس اور پریشان رہنے لگتا ہے اور پھر زندگی مشکل لگنے لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ کیا ایسا نہیں کہ یہ ایک بنیادی بات تربیت میں شامل ہونی چاہیے۔۔۔۔ یعنی اس سب کو مینیج کرنا؟ تو کیا پھر اب خود اپنی تربیت کی ضرورت ہے؟ مطلب اٹس کنفیوزنگ!!!!
اصل فرق عورت اور مرد کا ہے دونوں کی سوچ الگ ہے بچے دونوں کے ہوتے ہیں مگر ماں کی سوچ مختلف ہوتی کیونکہ وہ تخلیق کار ہے اور کیونکہ بچہ اُسکے وجود کا حصہّ ہے تو اُسکو بال برابر ٹھیس دینا اُسے گوارہ نہیں اور عورت کو واحد جذبہ ممتا ہے جو اُسکو منفرد کرتا ہے ہر ماں اُنّیس بیس کے فرق سے ایک جیسی ہے اُس سب سے پہلی priority اُسکے بچے ہوتے ہیں اور ورکنگ مدرز کے لئیے بہت مشکل ہوتا ہے اس صورتحال میں وہ اپنا آپ فراموش کر دیتی ہیں یہ ایک فطری بات ہے جو بچیاں شادی سے پہلے جو اپنا یا گھر کا کوئی کام نہیں کرتیں وہ اپنا آپ بچوں میں کیسے بھول جاتیں ہیں ۔اور ایسا ہے کہ جس بات کی محرومی اُنھیں اپنے اندر نظر آتی ہے اُنکی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ اُنکی اُولادِ میں نہ ہو یہ بھی اپنی ذات کا ہی تجزیہ ہے کیونکہ انسان اپنی ذات کی نفی کسی صورت نہیں چاہتا اور اولاد وہ رشتہ ہے جو آپکا اپنے آپ سے تعلق اور مستحکم کردیتا ہے ۔۔تو عورت اپنے رشتوں سے تعلق جوڑتے ہوئے دراصل اپنا آپ ہی ڈھونڈتی ہے بس انداز ہر ایک کا مختلف ہے ۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
کوشش کروں گا کہ جلد ہی کچھ لکھ سکوں ۔ فی الوقت تو ذہن سنجیدہ گفتگو پر مائل نہیں ۔ :):):)
دراصل بائیں انگشتِ شہادت کے سرے پر ایک عدد معمولی سی چوٹ نے پچھلے دوہفتوں سےٹائپ کرنا دشوار بنایا ہوا ہے ۔ بہت ہی دردناک ٹائپنگ ہورہی ہے ۔ ایسے میں فلسفہ بگھارنا بہت مشکل ہے :)
دعا ہے کہ جلد از جلد آپکی انگشت شہادت کی چوٹ ٹھیک ہو جائے کیو نکہ ہماری نسل لکھتی اسی سے ہے ورنہ بچوں کو ہمٗ دیکھتے ہیں دونوں انگوٹھے ساری انگلیوں سے لکھ رہے ہیں:):)
 

ماہی احمد

لائبریرین
اصل فرق عورت اور مرد کا ہے دونوں کی سوچ الگ ہے بچے دونوں کے ہوتے ہیں مگر ماں کی سوچ مختلف ہوتی کیونکہ وہ تخلیق کار ہے اور کیونکہ بچہ اُسکے وجود کا حصہّ ہے تو اُسکو بال برابر ٹھیس دینا اُسے گوارہ نہیں اور عورت کو واحد جذبہ ممتا ہے جو اُسکو منفرد کرتا ہے ہر ماں اُنّیس بیس کے فرق سے ایک جیسی ہے اُس سب سے پہلی priority اُسکے بچے ہوتے ہیں اور ورکنگ مدرز کے لئیے بہت مشکل ہوتا ہے اس صورتحال میں وہ اپنا آپ فراموش کر دیتی ہیں یہ ایک فطری بات ہے جو بچیاں شادی سے پہلے جو اپنا یا گھر کا کوئی کام نہیں کرتیں وہ اپنا آپ بچوں میں کیسے بھول جاتیں ہیں ۔اور ایسا ہے کہ جس بات کی محرومی اُنھیں اپنے اندر نظر آتی ہے اُنکی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ اُنکی اُولادِ میں نہ ہو یہ بھی اپنی ذات کا ہی تجزیہ ہے کیونکہ انسان اپنی ذات کی نفی کسی صورت نہیں چاہتا اور اولاد وہ رشتہ ہے جو آپکا اپنے آپ سے تعلق اور مستحکم کردیتا ہے ۔۔تو عورت اپنے رشتوں سے تعلق جوڑتے ہوئے دراصل اپنا آپ ہی ڈھونڈتی ہے بس انداز ہر ایک کا مختلف ہے ۔۔۔۔۔
بہترین!!! یہ بہت خوب کہا آپ نے۔۔۔۔:)
 

تبسم

محفلین
ہماری ذات کے ہم پر حقوق ہیں، ہمارے جسم کا حق ہے کہ اُس کی غذائی ضروریات پوری ہوں، اُس کے آرام کی ضرورت پوری ہو ۔ ساتھ ساتھ ہماری روح کی ضروریات پوری ہوں۔ ہمارے ذہن و دل کو سکون و طمانیت کی فراہمی ممکن بنائی جائے۔ ان میں سے کسی بھی معاملے میں لاپرواہی نہیں ہونی چاہیے۔

ہم دوسروں کے حقوق ادا کرنا چاہیں تو بھی پہلے اپنے حقوق ادا کرنے ہوں گے۔جب ہمارا مزاج ٹھیک ہوگا ہمارا جسم تر و تاز ہ ہوگا تب ہی ہم دوسروں سے اچھا برتاؤ کر سکیں گے اور دوسروں کے کام آ سکیں گے۔

جس طرح کسی کی تیمارداری کرنے والے کا صحت مند ہونا ضرور ی ہے۔ اسی طرح دنیا کی ، اپنے ارد گرد کے انسانوں کی بھلائی سوچنے سے پہلے ، ہمارا اپنا بھلا ہونا چاہیے۔

لیکن اپنی ذات کے حقوق کی ادائیگی اور خود غرضی میں ایک باریک سا فرق ہے اور اسے سمجھنا بے حد ضروری ہے۔

اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ جو چیز انسان اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے۔

بالفرض ہمارے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے اور ہمارے پاس بہت کچھ ہے ایسے میں اگر ہم اپنے لئے اچھی چیز پسند کریں اور دوسروں کے لئے گھٹیا، تو یہ بے ایمانی ہوگی۔

دوسری صورت میں کہ جب ہمارے پاس وسائل محدود ہوں تب بھی ایسا کرنا مناسب نہیں کہ ایک اچھی اور ایک بری چیز میں سے ہم اچھی چیز اپنے لئے چُن لیں۔
بلکہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی چیز پسند کرنے کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم محدود وسائل میں قربانی دیں اور بہتر چیز اپنے بھائی کے لئے رکھیں اور بچ رہنے والی چیز سے اپنا گزارا کریں۔

ویسے یہ معاملہ کچھ اتنا سیدھ نہیں ہے اس لئے جو کچھ سمجھ آیا لکھ دیا۔ گاہے گاہے کچھ اور بھی لکھوں گا اگر کچھ سمجھ آیا تو۔
اپ نے بلکل ٹھیک لکھا ہے
 

تبسم

محفلین
شکریہ ماہی۔ لیکن تم نے اپنے متعلق تو لکھا ہی نہیں کہ تمہارے ماہی کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں۔

میرا تو مجھ سے گہرا تعلق ہے۔ میں خود ساختہ انسان ہوں۔ میں نے اللہ تعالٰی کے فضل سے خود کو بنایا ہے جسے انگریزی میں سیلف میڈ کہتے ہیں۔

ہاں تھوڑا بہت لاپرواہی بھی ہو جاتی ہے کہ اپنا خیال نہیں رکھتا۔ سونے جاگنے کا کوئی خاص وقت مقرر نہیں۔ کھانے میں بھی بے حد بد احتیاطی ہو جاتی ہے۔ جس پر خاتون خانہ کو سخت اعتراض ہوتا ہے۔ لیکن ان کی روک ٹوک کے باوجود میں باورچی خانے میں اپنی پسند کی خود ہی تخریب کاری کر لیتا ہوں۔

مزید دوسرے اراکین کے جواب پڑھ کر دیکھتا ہوں کہ یہ لڑی کس نہج پر جائے گی۔
یہ تو غلط ہے بھائی وہ منع کر رہی کیچن میں نہیں جانا چاہیے
 

شمشاد

لائبریرین
کون منع کر رہا ہے کہ باورچی خانے میں نہیں جانا چاہیے؟ میں تو دن میں درجنوں بار جاتا ہوں۔
 
Top