شمس و قمر ہمارے رب کی نشانی

سال نو کی آمد کے ساتھ یہ بحث شروع ہو گئی کہ یہ تو ہمارا سال ہی نہیں ہے۔ ہمارا کیا لینا دینا اس شمسی سال سے ہم مسلمان ہیں اور ہم تو ہجری/ قمری سال کو ہی اپنا مانتے ہیں۔ اس کائنات کے خالق نے جب سے یہ زمین و آسمان پیدا کئے ہیں تب سے مہینوں کی تعداد بارہ ہی ہے۔ قرآن سورج اور چاند کو اللہ کی نشانیاں قرار دیتا ہے۔ جیسے چاند ہمارا ہے ویسے ہی سورج بھی ہمارا ہے کیونکہ یہ دونوں ہمارے رب نے پیدا کئے ہیں۔ دونوں کے کچھ فرائض ہیں،کچھ مقررہ قاعدے اور راستے ہیں۔ جن کے وہ پابند ہیں۔ ہم چاہے شمسی کیلینڈر کو نہ مانیں مگر دن کا آغاز سورج کے طلوع اور اختتام سورج کے غروب سے ہی ہوتا ہے۔ ہمارے دینی شعائر( رمضان، عیدیں، حج ،عدت وغیرہ) اگر چاند سے منسوب ہیں تو دنیاوی معاملات ( دن رات کا آنا جانا، اناج وسبزیوں کی پیداوار، پھلوں کا پکنا، انسان ، جانور اور پودوں کی بڑھوتری اور خوراک وغیرہ ) سورج کے محتاج ہیں۔ ہم بھلا سورج کو کیسے غیر مسلموں کے حوالے کر سکتے ہیں؟؟۔ سورج بھی ہمارے رب کی نشانی ہے چاند بھی ۔ پس تعصب چھوڑیں دین ہمیں تنگ نظری نہیں سکھاتا۔ مومن کی نظر افلاک پر ہوتی ہے۔ اقبال نے فرمایا تھا

تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا۔

ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے

داماں کو وسعت دینے کی بےحد ضرورت ہے ۔۔۔

اگر برا نا مانیں تو میں کہوں، ہم شمسی سال کو اپنا نا بھی کہیں، سال گزرنے کا ملال ہمیں بھی ہوتا ہے۔ شمسی سال کے آخری دنوں کی کیفیت کیا ہم نے کبھی ذوالحجہ میں محسوس کی؟ دل پر ہاتھ رکھیں اور بتائیں کہ اسلامی سال کا آخری دن ہم ایسے ہی افسردہ ہوتے ہیں؟؟

کیا ہمارے شادی بیاہ، بچوں کی تاریخ پیدائش ، سکول کالج کے داخلے، دفاتر ، کیا شمسی کیلینڈر پر نہیں چل رہے؟ ہم میں سے کتنے ہیں جن کو اپنے بچوں کی تاریخ پیدائش ہجری سال کے مطابق یاد ہے؟ شادی کی تاریخ رکھتے ہوئے (محرم کے علاوہ) کب ہم نے ہجری /قمری مہینے /سال کا خیال رکھا؟

عرب اپنے ہاں دنوں اور مہینوں کو حساب قمری سال کے مطابق کیا کرتے تھے۔ پھر جب جزیرہ العرب مسلمان ہوا تو اپنے اسلامی کیلینڈر کی ضرورت پیش آئی ۔ یوں اسلامی سال مسلمانوں کی پہچان بنا۔اور اس کا آغاز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے کافی عرصہ بعد ہوا تھا۔خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ کے دور میں باہم مشورے سے جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت مدینہ فرمائی اسی سے اسلامی سال کا آغاز کیا گیا۔باہم مشاورت ہی سے محرم پہلا مہینہ طے ہوا۔

جبکہ قرآن میں سورہ التوبہ میں اللہ تعالی فرما تے ہیں

إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚذَٰلِكَالدِّينُالْقَيِّمُۚ(36)

ترجمہ : مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہی ہے ، اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ، ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں ۔ یہی درست دین ہے۔

جہاں تک نئے سال کو منانے یا مبارکباد کا تعلق ہے تو اس کی توجیح تو اسلامی سال کے ابتداء میں بھی نہیں ملتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے نئے سال سے متعلق کسی عمل کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو قرون اولی کا کوئی اور عمل تو مل نہ سکا؛ البتہ بعض کتب حدیث میں یہ روایت نگاہوں سے گذری کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتاتے تھے:

”اللّٰہُمَّ أدْخِلْہُ عَلَیْنَا بِالأمْنِ وَ الإیْمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالإسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِّنَ الرَّحْمٰنِ وَجِوَازٍمِّنَ الشَّیْطَانِ“ (المعجم الاوسط للطبرانی ۶/۲۲۱ حدیث: ۶۲۴۱ دارالحرمین قاہرہ) ترجمہ: اے اللہ اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام او راپنی رضامندی؛ نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما۔

آمین
 

شمشاد

لائبریرین
بہترین تحریر۔ سمجھنے والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔

یہ جو قمری سال منانے پر زور دیتے ہیں، ان میں کسی سے بھی پوچھ لو تمہاری تاریخ پیدائش کیا ہے، فوراً شمشی تاریخ بتائیں گے۔ زندگی کا ہر دن شمسی تاریخ کے حساب سے گزارتے ہیں، لیکن نیا سال منانے پر ان کو قمری سال یاد آتا ہے۔
 
ہمارے دینی شعائر( رمضان، عیدیں، حج ،عدت وغیرہ) اگر چاند سے منسوب ہیں تو دنیاوی معاملات ( دن رات کا آنا جانا، اناج وسبزیوں کی پیداوار، پھلوں کا پکنا، انسان ، جانور اور پودوں کی بڑھوتری اور خوراک وغیرہ ) سورج کے محتاج ہیں۔ ہم بھلا سورج کو کیسے غیر مسلموں کے حوالے کر سکتے ہیں؟؟۔ سورج بھی ہمارے رب کی نشانی ہے چاند بھی ۔
درست کہتی ہیں بٹیا! دنیوی معاملات میں شمسی کیلنڈر اب پوری دنیا نے اپنالیاہے۔ اب یہ یہود و نصارٰی کی پیروی کرنا نہیں کہلائے گا۔ یہ بھی آپ نے درست کہا کہ موسموں کی تبدیلی شمسی کیلنڈر کے حساب سے ہے۔

گرچہ اس بحث سے براہ راست تعلق نہیں لیکن ہم کہنا چاہتے ہیں کہ اب دفتری اوقات و معاملات میں ٹائی پہننا بھی یہودو نصاری کی پیروی نہیں رہا بلکہ پوری دنیا نے اسے اپنا لیا ہے۔
 
درست کہتی ہیں بٹیا! دنیوی معاملات میں شمسی کیلنڈر اب پوری دنیا نے اپنالیاہے۔ اب یہ یہود و نصارٰی کی پیروی کرنا نہیں کہلائے گا۔ یہ بھی آپ نے درست کہا کہ موسموں کی تبدیلی شمسی کیلنڈر کے حساب سے ہے۔

گرچہ اس بحث سے براہ راست تعلق نہیں لیکن ہم کہنا چاہتے ہیں کہ اب دفتری اوقات و معاملات میں ٹائی پہننا بھی یہودو نصاری کی پیروی نہیں رہا بلکہ پوری دنیا نے اسے اپنا لیا ہے۔
جی بدقسمتی سے ایسا ہی ہے۔ تقسیم سے پہلے ہندو پانی مسلم پانی کی صدا لگائی سنائی دیتیں تھیں ، بھلا پانی بھی ہندو مسلم ہوا ہے؟ یہی حال اب چاند ہمارا ہے سورج ان کا ہے کی صورت میں سنائی دیتی ہیں۔ وسعت قلبی اور وسعت نظری کا فقدان ہے۔
 
Top