اقبال (مستری) کا کلام

جاسم محمد

محفلین
اقبال (مستری) کا کلام​

آج ایک لڑی میں اپنا جواب ارسال کرتے ہوئے ہماری ذہنی رو بہکی تو یہ خیال آیا کہ کیوں نہ محفلین سے اس بارے میں مدد لی جائے۔

سوشل میڈیا کے اس دور میں علامہ اقبال اردو زبان کے مظلوم ترین شاعر کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔ یاروں نے انتہائی بیہودہ انداز میں خود ساختہ "اشعار" علامہ اقبال کے نام سے سوشل میڈیا پر پھیلادئیے۔ آئے دن ہماری طرح آپ بھی فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر فورمز پر ایسے "اشعار" وصول کرتے ہوں گے اور سر دھنتے ہوں گے۔

کرنے کا کام: آپ سے درخواست ہے کہ اس قسم کا کوئی بھی بیہودہ کلام وصول کرتے ہی اسے اقبال (مستری) کے نام سے آگے بڑھادیجیے۔

اقبال کے ساتھ ساتھ یہی کام آپ غالب اور فراز کی وصول شدہ شاعری کے ساتھ بھی روا رکھ سکتے ہیں۔

اردو محفل کا پسندیدہ شاعری کا زمرہ اس سلسلے میں آپ کے لیے ریفرنس کا کام دے سکتا ہے۔

فوری طور پر ہم اس لڑی کو آپ کی اس قسم کی کاوشوں کے لیے مختص کر رہے ہیں۔ آئیے اور اس کارِ خیر میں حصہ ڈالیے اور دیگر محفلین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرئیے۔
فوجی صحافی نے بھی اقبال مستری کا کلام پوسٹ کر دیا
 

سیما علی

لائبریرین
vOJsnI7_d.jpg

اقبال مستری اُردو محفل میں
 

مومن فرحین

لائبریرین
انکل آپ نے بہت ہی کام کی لڑی شروع کی ہے ۔ سچ میں یہ ایک بہت بڑا مسلہ ہے جو نہایت تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے ۔ اور آپ نے تو اس مسلے کا بہترین حل نکالا ہے ۔
 

زوجہ اظہر

محفلین
یہ شاہکار موصول ہوا تو سوچا اچھا ہے سارا کلام یکجا رہےگا (کاپی پیسٹ ہے)

*علامہ اقبال*
*نے تقریبا 80 سال پہلے لکھی تھی یہ باتیں کتنی سچ ہیں*
*کل مذہب پوچھ کر بخش دی تھی جان میری*
*آج فرقہ پوچھ کر اس نے ہی لے لی جان میری*....
*مت کرو رفع یدین پر اتنی بحث مسلمانو*
*نماز تو ان کی بھی ہوجاتی ہے جن کے ہاتھ نہیں ہوتے*
*تم ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑ نے پر بحث میں لگے رہو*
*اور دشمن تمہارے ہاتھ کاٹنے کی شازش میں لگے ہیں*
*زندگی کے فریب میں ہم نے ہزاروں سجدے قضا کر ڈالے*
*ہمارے جنّت کے سردار نے تو تیروں کی برسات میں بھی نماز قضا نہیں کی*
*سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے*
*خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے*
*لوگ کہتے ہیں کہ بس فرض ادا کرنا ہے*
*ایسا لگتا ہے کوئ قرض لیا ہو رب سے*
*تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں*
*تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے*
*کوئ جنّت کا طالب ہے تو کوئ غم سے پریشان ہے*
*ضرورت سجدہ کرواتی ہے عبادت کون کرتا ہے*
*کیا ہوا تیرے ماتھے پر ہے تو سجدے کا نشاں*
*کوئ ایسا سجدہ بھی کر جو چھوڑ جائے زمیں پر نشاں*
*پھر آج حق کیلٸے جاں فدا کرے کوئ*
*وفا بھی جھوم اٹھے یوں وفا کرے کوئ*
*نماز چودہ سو سالوں سے انتظار میں ہے*
*کہ مجھے صحابہ کی طرح ادا کرے کوئ*
*اک خدا ہی تو ہے جو سجدوں میں مان جاتا ہے*
*ورنہ یہ انسان تو جان لے کر بھی راضی نہیں ہوتا*
*دے دی اذاں مسجدوں میں حی الصلوہ حی الفلاح*
*اور لکھدیا باہر تخت پر اندر نہ آئے فلاں اور فلاں*...
*خوف ہوتا ہے شیطان کو بھی آج کے مسلمان کو دیکھ کر*
*نماز بھی پڑھتا ہے تو مسجد کا نام دیکھ کر*
*مسلمانوں کے ہر فرقے نے ایک دوسرے کو کافر کہا*....
*اک کافر ہی ہے جو اس نے ہم سب کو مسلمان کہا*......
طلب غور باتیں ہیں.
✨علم و ادب
 

ام اویس

محفلین
یہ شاہکار موصول ہوا تو سوچا اچھا ہے سارا کلام یکجا رہےگا (کاپی پیسٹ ہے)

*علامہ اقبال*
*نے تقریبا 80 سال پہلے لکھی تھی یہ باتیں کتنی سچ ہیں*
*کل مذہب پوچھ کر بخش دی تھی جان میری*
*آج فرقہ پوچھ کر اس نے ہی لے لی جان میری*....
*مت کرو رفع یدین پر اتنی بحث مسلمانو*
*نماز تو ان کی بھی ہوجاتی ہے جن کے ہاتھ نہیں ہوتے*
*تم ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑ نے پر بحث میں لگے رہو*
*اور دشمن تمہارے ہاتھ کاٹنے کی شازش میں لگے ہیں*
*زندگی کے فریب میں ہم نے ہزاروں سجدے قضا کر ڈالے*
*ہمارے جنّت کے سردار نے تو تیروں کی برسات میں بھی نماز قضا نہیں کی*
*سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے*
*خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے*
*لوگ کہتے ہیں کہ بس فرض ادا کرنا ہے*
*ایسا لگتا ہے کوئ قرض لیا ہو رب سے*
*تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں*
*تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے*
*کوئ جنّت کا طالب ہے تو کوئ غم سے پریشان ہے*
*ضرورت سجدہ کرواتی ہے عبادت کون کرتا ہے*
*کیا ہوا تیرے ماتھے پر ہے تو سجدے کا نشاں*
*کوئ ایسا سجدہ بھی کر جو چھوڑ جائے زمیں پر نشاں*
*پھر آج حق کیلٸے جاں فدا کرے کوئ*
*وفا بھی جھوم اٹھے یوں وفا کرے کوئ*
*نماز چودہ سو سالوں سے انتظار میں ہے*
*کہ مجھے صحابہ کی طرح ادا کرے کوئ*
*اک خدا ہی تو ہے جو سجدوں میں مان جاتا ہے*
*ورنہ یہ انسان تو جان لے کر بھی راضی نہیں ہوتا*
*دے دی اذاں مسجدوں میں حی الصلوہ حی الفلاح*
*اور لکھدیا باہر تخت پر اندر نہ آئے فلاں اور فلاں*...
*خوف ہوتا ہے شیطان کو بھی آج کے مسلمان کو دیکھ کر*
*نماز بھی پڑھتا ہے تو مسجد کا نام دیکھ کر*
*مسلمانوں کے ہر فرقے نے ایک دوسرے کو کافر کہا*....
*اک کافر ہی ہے جو اس نے ہم سب کو مسلمان کہا*......
طلب غور باتیں ہیں.
✨علم و ادب
توبہ استغفار کی ریٹنگ ہی نہیں ہے، یہاں بس وہی چل سکتی ہے۔
 
یہ شاہکار موصول ہوا تو سوچا اچھا ہے سارا کلام یکجا رہےگا (کاپی پیسٹ ہے)

*علامہ اقبال*
*نے تقریبا 80 سال پہلے لکھی تھی یہ باتیں کتنی سچ ہیں*
*کل مذہب پوچھ کر بخش دی تھی جان میری*
*آج فرقہ پوچھ کر اس نے ہی لے لی جان میری*....
*مت کرو رفع یدین پر اتنی بحث مسلمانو*
*نماز تو ان کی بھی ہوجاتی ہے جن کے ہاتھ نہیں ہوتے*
*تم ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑ نے پر بحث میں لگے رہو*
*اور دشمن تمہارے ہاتھ کاٹنے کی شازش میں لگے ہیں*
*زندگی کے فریب میں ہم نے ہزاروں سجدے قضا کر ڈالے*
*ہمارے جنّت کے سردار نے تو تیروں کی برسات میں بھی نماز قضا نہیں کی*
*سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے*
*خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے*
*لوگ کہتے ہیں کہ بس فرض ادا کرنا ہے*
*ایسا لگتا ہے کوئ قرض لیا ہو رب سے*
*تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں*
*تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے*
*کوئ جنّت کا طالب ہے تو کوئ غم سے پریشان ہے*
*ضرورت سجدہ کرواتی ہے عبادت کون کرتا ہے*
*کیا ہوا تیرے ماتھے پر ہے تو سجدے کا نشاں*
*کوئ ایسا سجدہ بھی کر جو چھوڑ جائے زمیں پر نشاں*
*پھر آج حق کیلٸے جاں فدا کرے کوئ*
*وفا بھی جھوم اٹھے یوں وفا کرے کوئ*
*نماز چودہ سو سالوں سے انتظار میں ہے*
*کہ مجھے صحابہ کی طرح ادا کرے کوئ*
*اک خدا ہی تو ہے جو سجدوں میں مان جاتا ہے*
*ورنہ یہ انسان تو جان لے کر بھی راضی نہیں ہوتا*
*دے دی اذاں مسجدوں میں حی الصلوہ حی الفلاح*
*اور لکھدیا باہر تخت پر اندر نہ آئے فلاں اور فلاں*...
*خوف ہوتا ہے شیطان کو بھی آج کے مسلمان کو دیکھ کر*
*نماز بھی پڑھتا ہے تو مسجد کا نام دیکھ کر*
*مسلمانوں کے ہر فرقے نے ایک دوسرے کو کافر کہا*....
*اک کافر ہی ہے جو اس نے ہم سب کو مسلمان کہا*......
طلب غور باتیں ہیں.
✨علم و ادب
بہت دردناک کلام ہے اقبال مستری کا!
 

زوجہ اظہر

محفلین
توبہ استغفار کی ریٹنگ ہی نہیں ہے، یہاں بس وہ4ی چل سکتی ہے۔

مزےدار بات یہ ہوئی جب نشاندہی کی کہ بھئی یہ علامہ کا نہیں مستری کا کلام ہے
ایک کا جواب تھا کہ بات تو سچ ہے چاہے اقبال کریں یا مستری
دوسرے کا جواب کچھ یوں تھا کہ اچھی بات تو کوئی بھی کرسکتا ہے پیغام اچھا تھا اس لئے بھیجا

افسوس ہی ہوا اور یہ میں آپکو تعلیم یافتہ لوگوں کی بات بتا رہی ہوں
 

جاسمن

لائبریرین
بہت مزے کا بھی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ لیکن ایک واقعہ کسی پروفیسر نے لکھا ہے اسی موضوع سے ملتا جلتا۔


"ماہرِ اقبالیات"

محمد ضیاء المصطفیٰ

میں رات تقریباً گیارہ بجے شالیمار ٹاؤن میٹرو اسٹیشن پہنچا، تو آخری بس بھی نکل چکی تھی۔۔۔ نیچے آیا اور رکشے کے انتظار میں کھڑا ہوگیا۔۔ تھوڑی ہی دیر میں رکشہ قریب آن رکا۔۔ میں نے بھاؤ تاؤ کیا اور وہاڑی چوک کا کہہ کر بیٹھ گیا۔۔۔ ایک صاحب پہلے ہی بیٹھے تھے جو وہاڑی چوک لاری اڈا ہی جا رہے تھے۔۔۔۔
سفید شلوار قمیض، نیلی واسکٹ پہنے گولڈن فریم کی عینک ناک پہ ٹِکا رکھی تھی۔۔۔ نہایت سلیقے سے بال کنگھی کیے ہوئے تھے۔۔۔ مٹھی بھر چمکدار داڑھی نہایت بھلی لگ رہی تھی۔۔۔ چہرے مہرے سے کافی پڑھے لکھے اور صاحب مطالعہ لگ رہے تھے۔۔۔
میرے ہاتھ میں رسول حمزہ توف کی کتاب "میرا داغستان" دیکھتے ہی، لے لی اور ایک دو صفحات پلٹنے کے بعد واپس کرتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ "کافی باذوق لگتے ہیں۔۔۔ لٹریچر کے سٹوڈنٹ ہیں؟" رکشے کے شور میں،میں نے فقط سر ہلانے پہ اکتفا کیا ۔۔ ان کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔۔۔
کہنے لگے "میں بنک منیجر ہوں لیکن ادب کے ساتھ گہرا لگاؤ ہے۔۔روزی روٹی کیلئے ہی بنک جوائن کر رکھا ہے ورنہ ہم تو پیدائشی ہی کتابوں کے رسیا ہیں"۔۔۔۔ذرا توقف کیا تو میں نے پوچھ لیا کہ "آپ کس ادیب کو پسند کرتے ہیں؟" انہوں نے فوراً کہا "علامہ اقبال کو" ۔۔۔۔ میں ذرا سیدھا ہوکے بیٹھ گیا۔۔۔۔
گفتگو کا سلسلہ بڑھاتے ہوئے کہنے لگے "میں چوتھی جماعت میں ہی گلستان و بوستان سعدی پڑھ چکا تھا۔۔۔۔ اور دسویں تک آتے آتے دیگر کئی کتب کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال کے تمام مجموعے اردو فارسی ازبر کر چکا تھا"۔۔۔ میں ذرا حیران ہوا کہ صرف بانگ درا کی حد تک حفظ کرنا تو تسلیم کیا جا سکتا ہے مگر ساری کتابیں۔۔۔۔۔؟ پھر میں نے سوچا کہ ہم ٹھہرے آج کے لونڈے صرف شارٹ اور سیلیکٹڈ سلیبس کی پیداوار۔۔۔ پرانے لوگ بڑے ریاضتی گزرے ہیں ۔۔۔ تو یہ بات ناممکن نہیں۔۔۔
انہوں نے پوچھا "آپ کہاں جا رہے ہیں" میں نے بتایا کہ "لاہور"۔۔۔ کہتے "ہاتھ ملائیے ہم نے بھی لاہور جانا ہے"۔۔۔۔
رکشے کے شور میں گفتگو میں دقت کو بھانپتے ہوئے کہنے لگے کہ "آپ بھی چونکہ ادب کے طالب علم ہیں لہذا اقبال پہ گفتگو بس میں ہی کریں گے آرام سے"۔۔۔۔
لوجی میری تو جان پہ بن آئی کہ مجھ سا گزارے کا سٹوڈنٹ کہاں اقبال کا فلسفہ ڈسکس کرے گا۔۔۔ ویسے بھی میں طویل سنجیدہ گفتگو سے ایسے گھبراتا ہوں جیسے حال کے طالب علم فزیکل ایگزام سے۔۔۔۔ خیر میں نے اپنے تئیں دماغ لڑانا شروع کردیا اور اقبال کی کتابوں کے نام یاد کرنے لگا ۔۔۔۔باقی تو ذہن میں آ گئے لیکن اقبال کا وہ مجموعہ کلام جو فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں ہے، اس کا نام ذہن سے محو ہوگیا۔۔۔ میں نے دل ہی دل میں کہا "لے بھئی ضیاء، تو اساتذہ کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کا نام بھی ڈبوئے گا، فلسفے تو رہے الگ تجھے تو کتابوں کے نام بھی نہیں آ رہے" ۔۔۔۔۔ دفعتاً مجھے خیال آیا کہ حضرت بنک سے متعلق ہیں تو اقبال کی کتاب "علم الاقتصاد" پہ بھی ضرور بحث فرمائیں گے۔۔۔ لیکن اس وقت مجھے علم الاقتصاد کے بابت صرف یہی ذہن میں آ رہا تھا کہ 1904 میں شائع ہوئی باقی اللہ اللہ خیر سلا۔۔۔۔
پھر میں نے سوچا کہ بندہ مولوی ٹائپ لگتا ہے اقبال کی شادیوں پہ ضرور آئے گا۔۔۔ اقبال کی بیویوں میں سردار بیگم اور مختار بیگم تو یاد تھیں ۔۔۔اب تیسری کا نام ذہن میں نہ آئے۔۔۔ میں نے اپنے آپ سے کہا " آج تیری ساری دانشوری نکل جائے گی، خیر۔۔۔۔۔ اللہ تے رکھ"
رکشہ رواں دواں تھا۔۔۔ چوک کمہاراں سے اڈے کی طرف جاتے ہوئے پہلے انڈر پاس پہ ایک عالمی سطح کا جمپ ہے۔۔۔ جب وہاں سے تیز رفتاری میں رکشا گزرا اور جھٹکا لگا تو صاحب زیر لب کچھ بڑبڑائے۔۔۔مجھے لگا کہ حضرت نے ضرور ارمغان حجاز سے کوئی فارسی مصرع ہی تلاوت کیا ہوگا۔۔۔میں ہور زیادہ "سُنگڑ" گیا۔۔۔
سوچا کہ ملتان سے لاہور کا سفر کافی طویل ہے اور یہ سر آئی تو ٹلنے والی نہیں۔۔۔ پھر خیال آیا یہ ضروری تھوڑی ہے کہ ہماری سیٹیں ایک ساتھ ہی ہوں، ممکن ہے مجھے سیٹ نمبر 5 مل جائے اور بزرگوں کو 42 نمبر۔۔۔۔لیکن اکٹھے بھی تو سیٹیں آ سکتیں ہیں۔۔۔ کیوں نہ چلتے رکشے سے چھلانگ لگا دی جائے، پھر یہ سوچ کر رک گیا کہ اگر گوڈے رگڑے گئے تو چھ ماہ تک تو عیادت پہ آنے والوں نے ناک میں دم کر دینا ہے۔۔۔
وہاڑی چوک رکشے سے اتر کر ٹکٹ لینے کےلئے جاتے ہوئے، ان صاحب نے کہا کہ سیٹیں اکٹھی کروا لیتے ہیں۔۔میری سٹی گم ہوگئی۔۔۔ ٹیبل پہ پہنچے تو انہوں نے سیٹ نمبر پندرہ اور سولہ بک کروا لی لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ کرایہ صرف اپنا دیا۔۔۔
گاڑی میں بیٹھ گئے تو کہنے لگے۔۔۔ اقبال کی شاعری آفاقی ہے۔۔۔میں نے اثبات میں سر ہلایا اور ذہن میں اقبال کے شعر گڈ مڈ ہونے لگے۔۔۔
گاڑی روانہ ہوئی تو کہنے لگے اقبال کا کوئی شعر سنائیے ۔۔۔۔میں تھوڑا سا جھجکا کہ کہیں پہلا شعر ہی غلط نہ ہو جائے۔۔۔۔۔ تو خود ہی کہنے لگے کہ لوجی آغاز ہم ہی کردیتے ہیں۔۔۔
اقبال کا شعر ملاحظہ فرمائیے
"خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے،
تسلی دل کو ہوتی ہے خدا کو یاد کرنے سے"
شعر سنتے ہی مجھے تسلی ہوگئی اور میرے اوسان بحال ہوگئے، میں نے سیٹ سے پشت لگاتے ہوئے گہری سانس لی اور ٹائی کو ڈھیلا کردیا۔۔۔ ہنسی اس لیے نہیں چھوٹی کہ پریشانی سے نکلتے ہوئے مجھے "لازا کَھن" لگتا ہے۔۔۔
کہنے لگے اب آپ سنائیے۔۔۔۔
اب تو مجھے بال جبریل کی پوری پوری غزلیں یاد آنے لگیں مگر میں نے کہا اقبال کا یہ شعر سنیے۔۔۔ کہنے لگے ارشاد۔۔۔ میں نے کہا
"وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں"۔۔۔
علامہ اقبال کا یہ عاشقِ صادق اش اش کر اٹھا اور فرطِ محبت میں علامہ اقبال کی عدم موجودگی میں میرے ماتھے پہ بوسا دے ڈالا۔
 

سید عمران

محفلین
بنظر سرسری محسوس ہوا کہ یہ اقبال جیسے عظیم المرتبہ ہستی کے نام پر مذاق اڑایا جارہا ہے، شاعر مشرق کو مستری کہا جارہا ہے،اور بین السطور اتنے شاندار کلام کو پھکڑ پن ظاہر کیا جارہا ہے۔حالاں کہ بھرپور غور و خوض کے باوجود ہمیں اس کلام میں پھکڑ پن تو کیا نظر آتا الٹا فصاحت و بلاغت کے چشمے پھوٹتے دکھائی دئیے۔ خیالات کی رفعت اور ندرت جس انتہا کو چھو رہی ہے وہاں تک ہر کس و ناکس کی رسائی کہاں۔ بطور نمونہ ذرا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
کسی کافر نے جو پوچھا کہ یہ کیا ہے مہینہ
شرم سے پانی ہوا میں رمضاں کہتے کہتے
اس شعر سے شاعر کے اس اعلیٰ ذوق کی نشاندہی ہوتی ہے جو زمانہ قدیم کے صوفیا کا خاصہ رہا ہے یعنی اپنے گناہوں پر انتائی درجہ شرمسار ہونا۔ جیسا کہ شعر مذکورہ میں شاعر ہورہا ہے کہ اس سے ماہ رمضان میں عبادتوں کا حق ادا نہیں ہورہا اور وہ سامنے والے کو یہ بتاتے ہوے شرمندہ ہورہا ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے کیوں کہ اگر سامنے والے نے پوچھ لیا کہ ماہ رمضان کا علم ہونے کے باوجود تم اس کا حق ادا کیوں نہیں کررہے تو میں کیا جواب دوں گا۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اب دیکھیے اگلے شعر میں شاعر کیسے خود کو پیوند خاک بنانے پر تلا ہوا ہے۔ عرض کرتا ہے کہ:
میرے شیلف میں جو گرد سے اٹی کتاب کا جو پوچھا
میں گڑھ کیا زمیں میں قرآں کہتے کہتے
ملاحظہ فرمائیے کہ شاعر کس طرح کتاب مقدس کی بطریق احسن صفائی ستھرائی کا انتظام نہ رکھ سکنے پر زمین میں گڑا جارہا ہے۔ حالاں کہ متعدد نیک و پاک باز لوگ شاہد ہیں کہ شاعر نے بارہا ماسی کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ روزانہ کی بنیاد پر کتاب مقدس کی صفائی ستھرائی کرتی رہے، تاکہ اس پر گرد نہ جمے نیز اس پر چڑھے جزدان کی وجہ سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بے فکر ہوکر نہ بیٹھ جائے بلکہ محنت مشقت کرکے اپنی روٹی روزی، اپنا رزق، اپنی کمائی حلال کرے ۔
لیکن ماسی کی سستی، کاہلی اور کام چوری کے باوجود شاعر کے ظرف کی وسعت اور گہرائی دیکھیے کہ ماسی کے دامنِ عفت پر ذرا آنچ نہیں آنے دے رہا ہے اور سارا الزام اپنے سر دھرے خود کو اعترافی مجرم ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔
اس طرح کے اعترافی بیان قدیم جدید شاعری میں دور دور تک نظر نہیں آتے۔ جانے لوگوں کی نگاہِ فہم و بصیرت کو کیا ہوگیا ہے کہ قریب کی چیز نظر نہیں آتی الٹا ہمہ وقت مضحکہ خیزی کے لیے چوکس و تیار رہتے ہیں۔
 

سید عمران

محفلین
اب ذرا مقطع ملاحظہ فرمائیے جس میں شاعر نے اپنا تخلص حیواں استعمال کیا ہے:
یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے
یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیواں کہتے کہتے
شاعر کو چھوڑ کر ذرا اس کے کلام کی برجستگی ملاحظہ فرمائیے۔ جس روانی سے بلند اقبال ہونے کے باوجود شاعر خود کو حیواں کہہ رہا ہے، ہے کسی میں اتنا دم کہ سرعام خود کو حیواں کہنے کی ہمت کرسکے۔ شاعری کی پوری تاریخ پر عمیق تحقیق کے باوجود کوئی ایسا شاعر نظر نہیں آتا جس کو یہ اوجِ خیال نصیب ہوا ہو کہ خود کو حیواں کہہ سکے۔
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بلند رتبہ اسی کو ملتا ہے جو خاکساری کے نئے ریکارڈ قائم کرے، ہر ہمہ شمہ کے مقدر میں یہ مناصب اعلیٰ کہاں۔
 

سید عمران

محفلین
توفیق نہ ہوئی مجھ کو اک وقت کی نماز کی
اور چپ ہوا موزن اذاں کہتے کہتے
شاعر کا پورا دیوان چھان مارنے پر یہ واحد شعر ایسا ملا ہے جس پر ہنستے ہنستے جتنا لوٹ پوٹ ہوا جائے کم ہے۔ پر اس کے باوجود یہ نقص شاعر کے بلند مرتبہ کو گہنانے کے لیے کافی ثابت نہیں ہوسکتا۔ دیکھا جائے تو کلام میں نقص کس شاعر کے یہاں نہیں پایا جاتا۔ کیا وجہ ہے کہ غالب نے راتوں کو اٹھ کر دنیا کی نگاہوں سے بچ بچا کے چوری چوری اپنا کتنا کلا ضائع کیا کس کو معلوم ہے۔ غالب کے اس عمل کے متعلق یقیناً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ضرور کوئی بات ہے۔
اب جہاں تک بات ہے کیڑے نکالنے کی تو آج کل لوگوں کا کام ہی یہی رہ گیا ہے۔ خود سے کچھ ہوتا نہیں چلے دوسروں کے کیڑے نکالنے۔ ارے اتنی ہمت و جرات ہے تو شاعر موصوف کی ٹکر کا کوئی ایک شعر تو بنا کر دکھائیں۔ سر ٹکرا ٹکرا کر رہ جائیں گے لیکن اس بلندی پر نہیں چڑھ پائیں گے جس پر شاعر مصنوعی سارے پر بیٹھ کر پہنچا ہے!!!
 
Top