پیمرا نے سماجی اور مذہبی اقدار کے منافی دو مقبول ڈراموں پر پابندی عائد کر دی

سین خے

محفلین
سیّد پرویز مُشرف کے زمانے میں ایک چینل سے عصمت جی کے افسانوں کو ڈرامائی شکل میں ڈھالا گیا تھا اور منٹو جی کے افسانے بھی میں نے دیکھے تھے اس سِیریز میں، اس لیے یہ بات ریکارڈ کے برخلاف ہے کہ ایسے ڈرامے آن ائیر نہیں ہوئے۔ہاں یہ مگر دھیان ہی رہے کہ پیارے اور راج دُلارے محفلین کی جانب سے ان ڈراموں کے لِنک کی فرمائش کرنا گناہ کی ذیل میں تصور کیا جا سکتا ہے۔

پاکستانی ڈراموں سے دلچسپی کم ہی رہی ہے اسلئے معلوم نہیں تھا۔
لنک کی شائد دلچسپی لینے والے محفلین کو ضرورت نہیں پڑے گی۔ خود سرچ کر لیں گے :)
 

احمد محمد

محفلین
ہمارے معاشرے میں کم ہی سہی لیکن ایسی کہانیاں سننے میں آجاتی ہیں۔ دونوں کرداروں کا انجام جب برا دکھایا گیا ہے تو ایک طرح سے یہ سبق آموز کہانیاں تھیں۔

پیشگی معذرت کے ساتھ اول تو یہ کہ برائی کی تشہیر بھی ایک طرح کی برائی ہی ہے۔

دوم یہ کہ ڈراموں کی کافی اقساط ہوتی ہیں، آخری قسط کو چھوڑ کر تمام اقساط میں برائی کا پلڑا بھاری دیکھایا جاتا ہے۔ اگر برائی دیکھا کر اصلاح کرنا ہی مقصود ہے تو پہلی قسط میں اشارہ کنایہ میں برائی دیکھا کر باقی تمام اقساط اس کے نتائج (consequences) دیکھائیں تو اصلاح بھی ہو۔

سوئم یہ کہ ایسی ایسی شیطانی تراکیب دیکھائی جاتی ہیں جو اکثر عوام کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ ڈرامے میں برائی کا اختتام عبرتناک کرنے کے لیے برے کردار سے کوئی غلطی سرزد کروائی جاتی ہے جس سے اس کا ڈراپ سین ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسے کئی مظلومین و مقتولین ملیں گے جن کے ساتھ ہوئے ظلم کا ڈراپ سین آج تک نہیں ہوا۔ شاید ایسے ہی آگاہی پر مبنی ڈرامے دیکھ کر حقیقت میں ظالم نہ تو کوئی سراغ چھوڑتا ہے اور اگر چھوڑ بھی جائے تو بدقسمتی سے ڈراموں جیسا انجام اسکا مقدر نہیں بنتا۔

چہارم یہ کہ اگر ایسے ہی معاشرہ کی اصلاح عین ممکن ہے تو جتنے درندہ صفت انسان گزرے ہیں ان کی آپ بیتیاں کتابوں کی شکل میں شائع کرنی چاہیے یا پھر ان کی درندگی کو فلمایا جانا چاہیے مگر یاد رہے ایسا کرنا ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے مترادف ہوگا جو اس ظلم کا شکار ہوئے ہوں گے۔


ہمارے ناظرین کو شکر کرنا چاہئے کہ کبھی منٹو اور عصمت چغتائی کے لکھے افسانوں وغیرہ پر ڈرامے اور فلمیں نہیں بنائی گئیں۔ اپنی مادری زبان کے لٹریچر کے بارے میں لگتا ہے آگاہی ہے ہی نہیں۔

اول تو یہ کہ منٹو اور عصمت نے وہ لکھا جو انہوں نے دیکھا، من گھڑت اور دوسرے معاشروں کی برائیوں کی تشہیر نہیں کی۔

دوم یہ کہ اگر اس وقت میڈیا آج جیسا ہی ہوتا تو یقیناً منٹو اور عصمت کے مضامین بھی اور ہی ہوتے۔

سوئم یہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ منٹو اور عصمت نے برائیوں کو کہانی اور افسانوی شکل ضرور دی ہے مگر اُن کے اِن اقدام کو بنیاد بنا کر ضروری تو نہیں کہ ہم اب ان ڈراموں کی تائید کریں۔

چہارم یہ کہ آج کل اکثر برائی کی لذت کے لیے ڈرامے فلمیں دیکھتے ہیں نا کہ نصیحت پکڑنے کو، کیوں کہ اگر اصلاح اور نصیحت پکڑنے کو دیکھتے ہوتے تو ہر آنے والے ایسے ڈراموں کی ریٹنگ نسبتاً کم ہونی چاہیے تھی نہ کہ زیادہ۔
 

سیما علی

لائبریرین
ڈرامہ "پیار کے صدقے" میں سسر اپنی بہو پر غلط نظر رکھے ہوئے ہے۔ ڈرامہ سیریل" عشقیہ" اور" جلن" میں دیور بھا بھی کا عشق مٹکا جیسی اقسام کی کہانیاں چل رہی ہیں۔ رشتوں کے تقدس کو تحفظ دینے اور ناظرین کے احتجاج پر یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
اس سے بھی زیادہ اخلاقی قدروں کوپامال کرتے ہوئے ڈرامے بن رہے ہیں۔ پیمرا سوتا رہتا ہے ۔جب سوشل میڈیا ہاہاکار مچاتا ہے۔تو یہ جاگتا ہے ۔۔۔۔ماضی میں پی ٹی وی ہر موضوع پر ڈرامے بناتا “خدا کی بستی”خیالات کو تمثیل کے رنگ میں ظاہر کیا جاتا تھا۔معاشرتی برُائیوں کو اُجاگر کیا جاتا مگر بے حد خوش اسلوبی کے ساتھ۔۔۔
 

بابا-جی

محفلین
جو ڈرامے ماضی میں مقبول ہوئے، اُن کو سامنے رکھیں۔ آج اُسی انداز میں ڈرامے لکھے جائیں تو وہ مقبُول نہ ہو پائیں گے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فی زمانہ غیر متعلقہ ہو چکے ہیں۔ اُنہیں حظ اٹھانے کے لئے یا ناسٹلجیائی جذبات کی تسکین کے لیے دیکھا جاتا ہے۔ جو کچھ زمانے کا چلن ہے، وہ کمرشل ادب میں سامنے آ جاتا ہے۔جو مکس چاٹ بِک رہی ہے، معاشرے میں اُس کی ڈیمانڈ موجود ہے۔ ایک نہایت جاندار اور عُمدہ سکرپٹ، جو کسی مانے جانے ادیب کا لکھا ہوا ہو، مگر دس پندرہ برس قبل کا ہو تو، اس سکرپٹ کو کوئی پروڈیوسر ہاتھ نہیں لگائے گا۔ یُوں بھی مُختلف چینلز کے آنے سے ناظر بٹ چکا ہے اور ڈرامے کی مقبُولیت کے لیے یُوٹیوب اور دیگر ذرائع پر تشہیر کر کے ناظرین کی اکثریت کو اپنی جانب راغب کیا جاتا ہے مگر وہ پی ٹی وی کا سا کرشمہ نہیں کہ سبھی ناظرین چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے، وہی ڈراما دیکھتے تھے جو کہ اُس وقت آن ائیر ہو رہا ہوتا تھا۔ بہ الفاظِ دیگر، پہلے ناظر ٹی وی کی گرفت میں تھا، اور اب یہ صورت ہے کہ ٹی وی چینلز ناظر کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ ہاں، مگر یہ سچ ہے کہ معیاری شے کی ڈیمانڈ بھی ہمیشہ رہتی ہے چاہے اس کے دیکھنے والے تعداد میں بہت کم ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں کچھ معیاری ڈرامے ضرور سامنے آ جاتے ہیں۔
 

سین خے

محفلین
پیشگی معذرت کے ساتھ اول تو یہ کہ برائی کی تشہیر بھی ایک طرح کی برائی ہی ہے۔

دوم یہ کہ ڈراموں کی کافی اقساط ہوتی ہیں، آخری قسط کو چھوڑ کر تمام اقساط میں برائی کا پلڑا بھاری دیکھایا جاتا ہے۔ اگر برائی دیکھا کر اصلاح کرنا ہی مقصود ہے تو پہلی قسط میں اشارہ کنایہ میں برائی دیکھا کر باقی تمام اقساط اس کے نتائج (consequences) دیکھائیں تو اصلاح بھی ہو۔

سوئم یہ کہ ایسی ایسی شیطانی تراکیب دیکھائی جاتی ہیں جو اکثر عوام کے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتی۔ مزید یہ کہ ڈرامے میں برائی کا اختتام عبرتناک کرنے کے لیے برے کردار سے کوئی غلطی سرزد کروائی جاتی ہے جس سے اس کا ڈراپ سین ہوتا ہے جبکہ حقیقت میں ایسے کئی مظلومین و مقتولین ملیں گے جن کے ساتھ ہوئے ظلم کا ڈراپ سین آج تک نہیں ہوا۔ شاید ایسے ہی آگاہی پر مبنی ڈرامے دیکھ کر حقیقت میں ظالم نہ تو کوئی سراغ چھوڑتا ہے اور اگر چھوڑ بھی جائے تو بدقسمتی سے ڈراموں جیسا انجام اسکا مقدر نہیں بنتا۔

چہارم یہ کہ اگر ایسے ہی معاشرہ کی اصلاح عین ممکن ہے تو جتنے درندہ صفت انسان گزرے ہیں ان کی آپ بیتیاں کتابوں کی شکل میں شائع کرنی چاہیے یا پھر ان کی درندگی کو فلمایا جانا چاہیے مگر یاد رہے ایسا کرنا ان کے زخموں پر نمک پاشی کرنے مترادف ہوگا جو اس ظلم کا شکار ہوئے ہوں گے۔




اول تو یہ کہ منٹو اور عصمت نے وہ لکھا جو انہوں نے دیکھا، من گھڑت اور دوسرے معاشروں کی برائیوں کی تشہیر نہیں کی۔

دوم یہ کہ اگر اس وقت میڈیا آج جیسا ہی ہوتا تو یقیناً منٹو اور عصمت کے مضامین بھی اور ہی ہوتے۔

سوئم یہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ منٹو اور عصمت نے برائیوں کو کہانی اور افسانوی شکل ضرور دی ہے مگر اُن کے اِن اقدام کو بنیاد بنا کر ضروری تو نہیں کہ ہم اب ان ڈراموں کی تائید کریں۔

چہارم یہ کہ آج کل اکثر برائی کی لذت کے لیے ڈرامے فلمیں دیکھتے ہیں نا کہ نصیحت پکڑنے کو، کیوں کہ اگر اصلاح اور نصیحت پکڑنے کو دیکھتے ہوتے تو ہر آنے والے ایسے ڈراموں کی ریٹنگ نسبتاً کم ہونی چاہیے تھی نہ کہ زیادہ۔

اختلاف کرنے کے لئے معذرت کی ضرورت نہیں ہوتی ہے :) بس کسی پر ذاتی حملے نہ کئے جائیں جو کہ آپ نے نہیں کئے ہیں تو اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے :)

آپ سے ایک دو سوال کرنا چاہوں گی کیا آپ نے یہ دونوں ڈرامے دیکھے تھے؟

دوسرا کہ برائی پر کس طرح بات چیت کی جا سکتی ہے؟ آپ کے نزدیک کیسی حدود ہونی چاہئیں کہ برائی کو دیکھ کر برائی کوئی نہ سیکھے؟ کیونکہ اگر یہی ڈر رہا کہ کوئی برائی دیکھ کر سیکھ رہا ہے تو اس طرح تو پھر کسی بھی برائی پر کبھی بھی بات نہیں کی جا سکے گی۔

کیا اخبارات اور سوشل میڈیا وغیرہ پر قتل چوری کرپشن وغیرہ کی خبروں پر بھی پابندی لگا دینی چاہئے کہ کہیں کوئی سیکھ نہ لے؟ ہمارے حکمرانوں کی کرپشن کے طریقوں اور ترکیبوں سے تو بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے کیا کریں ان کے بارے میں تفصیلات جاننے پر بھی پابندی ہونی چاہئے؟ اور ان پر سوشل میڈیا پر بات چیت پر بھی؟ سوشل میڈیا پر تو اپنے اپنے لیڈران کی ہر بری اور گھٹیا حرکت کو ڈیفینڈ کیا جاتا ہے۔ دفاع کرنے والے یہ نہیں سوچتے ہیں کہ ہم ایک اور نیا برا حکمران بنا رہے ہیں۔ جس برائی کا دفاع کیا جا رہا ہے ہو سکتا ہے کوئی اس پر عمل کر ڈالے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب بھی ہو رہا ہے اور یہ ہوتا رہے گا۔

برائی انسان کے ساتھ پیدا ہوئی ہے۔ پہلا قتل کسی سے سیکھ کر نہیں کیا گیا تھا بلکہ بغیر سیکھے ہو گیا تھا۔ اور ہر برائی بغیر سیکھے ہی شروع ہوئی ہوگی کیونکہ انسان میں صلاحیت موجود ہے۔ بچنا ہمارا امتحان ہے۔
 
آخری تدوین:

سین خے

محفلین
اور جہاں تک نمک پاشی کی بات ہے تو ایک مزے کی بات اپنے بارے میں بتاتی ہوں۔ ایک بہت بڑا ادارہ ہے جس کی وجہ سے بہت تکلیف ہمیں اٹھانا پڑی۔ اس ادارے کی اکثر تعریفیں بھی ہوتی ہیں بلکہ ان متعلقہ افراد کے بارے میں خبریں بھی پڑھنے میں آجاتی ہیں۔ لیکن ہم کچھ نہیں کر سکتے ہیں صبر کرنا پڑتا ہے اور ان افراد کی تعریفیں بھی برداشت کرنا پڑتی ہیں کیونکہ ہم کمزور ہیں :) ہم تو اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ کر خاموش ہو گئے ہیں :) جس دن ان کی برائی سب کے سامنے آئے گی وہی ہماری جیت کا دن ہوگا کیونکہ انصاف تو ملنے نہیں والا ہے۔ ہو سکتا ہے کبھی آئے ںھی نہیں لیکن نجانے کیوں امید لگا کر سکون ملتا ہے۔ امید پر ہی دنیا قائم ہے۔
 
آخری تدوین:

احمد محمد

محفلین
آپ سے ایک دو سوال کرنا چاہوں گی کیا آپ نے یہ دونوں ڈرامے دیکھے تھے؟
نہیں۔ یہ کیا کوئی بھی ڈراما نہیں دیکھتا۔ صرف اور صرف سائنس فکشن موویز، بائیو پِکس اور ڈاکیومنٹری دیکھتا ہوں اگر وقت ہو تو۔ مختصراً، صرف وہ دیکھتا ہوں جس سے مجھے علم حاصل ہو۔

دوسرا کہ برائی پر کس طرح بات چیت کی جا سکتی ہے؟ آپ کے نزدیک کیسی حدود ہونی چاہئیں کہ برائی کو دیکھ کر برائی کوئی نہ سیکھے؟ کیونکہ اگر یہی ڈر رہا کہ کوئی برائی دیکھ کر سیکھ رہا ہے تو اس طرح تو پھر کسی بھی برائی پر کبھی بھی بات نہیں کی جا سکے گی۔

کیا اخبارات اور سوشل میڈیا وغیرہ پر قتل چوری کرپشن وغیرہ کی خبروں پر بھی پابندی لگا دینی چاہئے کہ کہیں کوئی سیکھ نہ لے؟

مندرجہ بالا دونوں اقتباسات کا ایک ہی جواب ہے کہ برائی پر بات ہونی چاہیے، میں اس کا مخالف ہرگز نہیں، اعتراض تو برائی کی demonstration یا ڈرامائی تشکیل پر ہے۔ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔

پہلا قتل کسی سے سیکھ کر نہیں کیا گیا تھا بلکہ بغیر سیکھے ہو گیا تھا۔

یہاں آپ خود اپنے نقطہ کی زد میں آ گئی ہیں۔ یقیناً پہلا قتل انسان نے سیکھ کر نہیں کیا مگر اس قتل کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ تو live demonstration کو دیکھ کر ہی سیکھا تھا نا، اور یہی میرا بات کرنے کا مقصد تھا۔
 

سین خے

محفلین
نہیں۔ یہ کیا کوئی بھی ڈراما نہیں دیکھتا۔ صرف اور صرف سائنس فکشن موویز، بائیو پِکس اور ڈاکیومنٹری دیکھتا ہوں اگر وقت ہو تو۔ مختصراً، صرف وہ دیکھتا ہوں جس سے مجھے علم حاصل ہو۔

۔

اچھی بات ہے :) جی میں نے بھی ان ڈراموں کی ہر قسط تفصیل سے نہیں دیکھی ہے کیونکہ پاکستانی ڈرامے مجھے معیاری نہیں لگتے ہیں۔ ان کو ذرا برداشت کرنا مشکل ہے :) اس کی وجہ کمزور پلاٹ، ڈائیلاگ اور ڈائیریکشن وغیرہ ہے۔ چونکہ ان پر کافی شور مچا ہوا تھا تو تجسس میں اقساط فارورڈ کر کر کے دیکھی ہیں۔

ان ڈراموں میں صرف ان کرداروں کا برا انجام نہیں دکھایا گیا تھا بلکہ جس اذیت اور تکلیف سے متاثرین گزرے تھے اس کو بھی دکھایا گیا ہے۔ ان کی مجبوری، بے بسی اور کمزوری کو اچھی طرح فلمایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ متاثرین کو بعد میں ہمت پکڑتے اور مقابلہ کرتے ہوئے بھی دکھایا ہے۔ یہ متنازعہ موضوعات ضرور تھے لیکن ان کو اچھا کر کے نہیں دکھایا گیا تھا۔ ان کی برائی ہر ہر جگہ اور بار بار اجاگر کی گئی تھی جیسا کہ آجکل کے پاکستانی ڈراموں میں ہو رہا ہے کہ ایک ہی جیسی باتیں بار بار کر کے کہانی کو طول دیا جاتا ہے

مندرجہ بالا دونوں اقتباسات کا ایک ہی جواب ہے کہ برائی پر بات ہونی چاہیے، میں اس کا مخالف ہرگز نہیں، اعتراض تو برائی کی demonstration یا ڈرامائی تشکیل پر ہے۔ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔
۔

ڈرامائی شکل نہ سہی لیکن حقیقی عکس بندی کی شکل میں ہمارے پاس ہر برائی آج کل موجود ہے۔ جرائم کی خفیہ ویڈیوز اور سی سی ٹی وی فوٹیج سب ہی کچھ ایک عام ناظر کی دسترس میں ہے۔ ان سب پر پروگرامز بنتے ہیں۔ اور ہر قسم کی تفصیل دکھائی جاتی ہے۔

یہاں آپ خود اپنے نقطہ کی زد میں آ گئی ہیں۔ یقیناً پہلا قتل انسان نے سیکھ کر نہیں کیا مگر اس قتل کو ٹھکانے لگانے کا طریقہ تو live demonstration کو دیکھ کر ہی سیکھا تھا نا، اور یہی میرا بات کرنے کا مقصد تھا۔

جی ٹھکانے لگانے کا طریقہ انسان نے کسی اور جاندار سے سیکھ لیا تھا لیکن کیا باقی سب برائیاں بھی انسان نے دوسرے جانداروں سے سیکھی ہیں؟ انسان سب سے ذہین مخلوق ہے اور اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کی صلاحیت اور طاقت لے کر پیدا ہوا ہے۔ ہم اپنی تمام بری حرکتوں کے خود ذمہ دار ہیں اور اسی لئے جزا اور سزا کا فیصلہ بھی ہے ورنہ ہر چیز کا ذمہ دار انسان نے شیطان کو قرار دے کر خود کو بری الذمہ کر لینا تھا۔


میں آپ کا پوئنٹ آف ویو سمجھ گئی ہوں۔ دس سال قبل میرا موقف بھی آپ کے ہی جیسا تھا۔ میں ایسی چیزوں سے گھبراتی تھی لیکن مجھے اب لگتا ہے کہ برائی کو لگا لپٹا رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ انسان کے illusions اور fantasy میں زندہ رہنے سے بہتر یہ ہے کہ وہ کڑوی کسیلی گولی نگل لے اور حقیقی دنیا اور اس کے مسائل کا حل سوچے۔ اگر خدا نہ کرے کسی کو ایسی سچوئیشن سے واسطہ پڑے تو وہ ذہنی طور پر تیار ہو اور اسے ان حالات کا مقابلہ کرنا آتا ہو۔ کیونکہ ایسے مسائل ہمارے یہاں بہت کم ہی سہی لیکن سننے یا دیکھنے میں آجاتے ہیں۔

یہ میری رائے ہے اور اس سے ہر کوئی متفق نہیں ہوگا :) مجھے لگتا ہے کہ جو انسان کو جھنجھوڑ کر رکھ دے وہ لکھ بھی دینا چاہئے اور دکھا بھی دینا چاہئے لیکن برائی ہی برائی رہے اور اس سے کراہیت محسوس ہو۔ اس کو اچھائی کے لبادے میں لپیٹ کر اور اس کے لئے justifications دے کر اسے نہ دکھایا جائے۔
 

جاسم محمد

محفلین
’پیارکے صدقے‘ اور’عشقیہ‘ کے بعد ڈراما ’جلن‘ پربھی پابندی عائد
ویب ڈیسک جمع۔ء 11 ستمبر 2020
2079269-jalan-1599801140-487-640x480.jpg

پیمرا نے سماجی اور مذہبی اقدار کے منافی مواد نشر کرنے پر ڈراما ’جلن‘ پر پابندی لگائی ہے فوٹوفائل


پاکستان الیکٹرانک میڈیاریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) نے ڈرامہ ’’پیار کے صدقے‘‘ اور’’عشقیہ‘‘ کے بعد ’‘جلن‘‘ پر بھی پابندی عائد کردی۔

گزشتہ روزپیمرا کے آفیشل ٹوئٹراکاؤنٹ پرجاری کی جانے والی پریس ریلیزکے مطابق پیمرا نے نجی چینل کے ڈرامے ’’جلن‘‘ کی نشریات پرفوری طورپرمکمل پابندی عائد کردی ہے۔ مذکورہ ڈراما سیریل میں سماجی اورمذہبی اقدار کے منافی مواد نشر کرنے پر شدید عوامی ردعمل اورشکایات موصول ہورہی تھیں۔

چینل کی جانب سے ڈرامہ کے اسکرپٹ میں خاطرخواہ تبدیلی نہ ہونے پر کارروائی کرتے ہوئے پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 27 کے تحت مذکورہ ڈراما نشر کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ چینل انتظامیہ کو بارہا متنبہ کیا گیا تھا کہ ڈرامے کے مواد کا جائزہ لیں اوراسکرپٹ کو پاکستانی اقدار کے مطابق بنائیں بصورت دیگر پیمرا آرڈیننس کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ پیمرا نے مورخہ 18 اگست کو تمام چینلز کومفصل مراسلہ/ ہدایت نامہ جاری کیا تھا اور ڈراموں کے مواد کو پاکستانی اقدار کے مطابق بنائے جانے سے متعلق حتمی ہدایت نامہ جاری کیا تھا۔ تاہم چینل انتظامیہ کی جانب سے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی کو حتمی قدم اٹھاتے ہوئے ڈراما سیریل ’’جلن‘‘کی نشریات پر پابندی عائد کرنا پڑی جس پر اے آر وائی ڈیجیٹل کو فوری عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔

اس سے قبل پیمرا سماجی اور مذہبی اقدار کے منافی مواد نشر کرنے پر ڈراما سیریل ’’پیار کے صدقے‘‘اور ’’عشقیہ‘‘کے نشر مکرر پر بھی پابندی عائد کرچکا ہے۔

واضح رہے کہ ڈراما سیریل’’جلن‘‘کی کہانی دو بہنوں منال خان اوراریبہ حبیب کے گرد گھومتی ہے ۔ اداکارعماد عرفانی نے ڈرامے میں اریبہ حبیب کے شوہر کا کردار نبھایا ہے ۔ ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ منال خان اپنی ہی بہن کے شوہرپربری نظررکھتی ہے جب کہ ڈرامے میں کچھ مناظر ایسے ہیں جنہیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔
 

بابا-جی

محفلین
’پیارکے صدقے‘ اور’عشقیہ‘ کے بعد ڈراما ’جلن‘ پربھی پابندی عائد
ویب ڈیسک جمع۔ء 11 ستمبر 2020
2079269-jalan-1599801140-487-640x480.jpg

پیمرا نے سماجی اور مذہبی اقدار کے منافی مواد نشر کرنے پر ڈراما ’جلن‘ پر پابندی لگائی ہے فوٹوفائل


پاکستان الیکٹرانک میڈیاریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) نے ڈرامہ ’’پیار کے صدقے‘‘ اور’’عشقیہ‘‘ کے بعد ’‘جلن‘‘ پر بھی پابندی عائد کردی۔

گزشتہ روزپیمرا کے آفیشل ٹوئٹراکاؤنٹ پرجاری کی جانے والی پریس ریلیزکے مطابق پیمرا نے نجی چینل کے ڈرامے ’’جلن‘‘ کی نشریات پرفوری طورپرمکمل پابندی عائد کردی ہے۔ مذکورہ ڈراما سیریل میں سماجی اورمذہبی اقدار کے منافی مواد نشر کرنے پر شدید عوامی ردعمل اورشکایات موصول ہورہی تھیں۔

چینل کی جانب سے ڈرامہ کے اسکرپٹ میں خاطرخواہ تبدیلی نہ ہونے پر کارروائی کرتے ہوئے پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 27 کے تحت مذکورہ ڈراما نشر کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ چینل انتظامیہ کو بارہا متنبہ کیا گیا تھا کہ ڈرامے کے مواد کا جائزہ لیں اوراسکرپٹ کو پاکستانی اقدار کے مطابق بنائیں بصورت دیگر پیمرا آرڈیننس کے تحت کارروائی کی جائے گی۔

یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ پیمرا نے مورخہ 18 اگست کو تمام چینلز کومفصل مراسلہ/ ہدایت نامہ جاری کیا تھا اور ڈراموں کے مواد کو پاکستانی اقدار کے مطابق بنائے جانے سے متعلق حتمی ہدایت نامہ جاری کیا تھا۔ تاہم چینل انتظامیہ کی جانب سے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہ ہونے کی صورت میں اتھارٹی کو حتمی قدم اٹھاتے ہوئے ڈراما سیریل ’’جلن‘‘کی نشریات پر پابندی عائد کرنا پڑی جس پر اے آر وائی ڈیجیٹل کو فوری عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔

اس سے قبل پیمرا سماجی اور مذہبی اقدار کے منافی مواد نشر کرنے پر ڈراما سیریل ’’پیار کے صدقے‘‘اور ’’عشقیہ‘‘کے نشر مکرر پر بھی پابندی عائد کرچکا ہے۔

واضح رہے کہ ڈراما سیریل’’جلن‘‘کی کہانی دو بہنوں منال خان اوراریبہ حبیب کے گرد گھومتی ہے ۔ اداکارعماد عرفانی نے ڈرامے میں اریبہ حبیب کے شوہر کا کردار نبھایا ہے ۔ ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ منال خان اپنی ہی بہن کے شوہرپربری نظررکھتی ہے جب کہ ڈرامے میں کچھ مناظر ایسے ہیں جنہیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھا جاسکتا۔
مُعاشرے کا حال دیکھیں، اور اس کی اقدار کا حال مُلاحظہ کریں تو رائٹرز فرشتے لگتے ہیں۔
 
Top