اسکین دستیاب دلی غدر سے پہلے

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 17

شہید جفا

پائی نہ تیغِ عشق سے ہم نے کہیں پناہ
قرب حرم میں بھی ہیں تو قربانیوں میں ہم

3-جنوری 1661ء؁

شاہجہاں بادشاہ کی چاہیتی بیوی جس کا خطاب ممتاز محل تھا، جب مرنے لگی اور ان کا دم کھنچکر سینہ میں آ گیا تو لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے کہنے لگی، اچھی ذرا کوئی جہاں پناہ کو تو میرے پاس بلا لائے۔ مجھے کچھ وصیت کرنی ہے۔ بادشاہ سلامت اسی وقت محل میں تشریف لائے اور ممتاز محل کو جاں کنی کی حالت میں دیکھ کر زار قطار رونے لگے۔ ممتاز محل نے کہا۔ جہاں پناہ! میں نے اپنے بچوں کو بڑے چاؤ چوچلوں سے پالا ہے، اور ہاتھوں چھاؤں کی ہے۔ اگر میرے پیچھے یہ بے چین ہوئے تو مجھے قبر میں بے چینی ہو گی۔ خدا کو مان کے ان کو پیٹھ نہ دینا اور اس کی ہر طرح دلداری کرتے رہنا۔

بادشاہ سلامت : بیگم! تمہاری اولاد تو میری آنکھوں کا تارہ اور کلیجہ کا سکھ ہے۔ تمہارا کدھر خیال ہے میری جان تک ان کے لیے حاظر ہے۔

ممتاز محل : حضور، خدا رکھے آپ ٹھہرے مرد۔ مرد ان باتوں کو نہیں جان سکتے۔ سوکن کو سوکن کی اولاد ایک آنکھ نہیں بھاتی ہے۔ اور میاں کی پہلی بیوی کے بچوں کو بن ستائے رہتی ہی نہیں۔ بی سارہ رضی اللہ عنہا نے بی ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے جیتے جی حضرت اسمعیل علیہ السلام کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں سنسان جنگل میں جلتی بھلستی ریت پر پھکوا دیا تھا۔ اور موئے پیچھے تو کون کسی کا محافظ کرتا ہے اور رہیے گی تو دنیا دار بادشاہ۔


صفحہ 18

میں کون اور تو کون، دیکھئے میری آنکھ بند ہوتےہی ان پر کیا گزرتی ہے۔ اور میرے لاڈلے بچوں کو کس کس کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں۔

بادشاہ سلامت : تم خاطر جمع رکھو۔ میں ان شاء اللہ تعالٰی دوسری شادی ہی نہیں کرنے کگا۔ جوتمہارے پیچھے سوکن آئے اور تمہارے بچوں کو ستائے۔

ممتاز محل : بھلا قسم تو کھائیے۔

بادشاہ سلامت خدا کی قسم، رسول کی قسم۔ بس؟

ہاں بس۔ اب مجھے یقین آ گیا اور اب میں اطمینان کے ساتھ خدا کے ہاتن سدھارتی ہوں۔ لو اللہ بیلی۔ یہ کہتے کہتے ممتاز محل کا دم ہوا ہو گیا۔ ممتاز محل ماممتا کے کارن اولاد کے آرام کے لئے کیا کیا بند و بست نہ کر گئی مگر خدا کے سامنے نہ کسی شہزادی کی پیری چلتی ہے نہ کسی ملکہ کی۔ ممتاز محل کو اس بھید کی خبر نہ تھی کہ تیری کوکھ سے پیدا ہوئے بچے جن سب نے تیرے ہی پیٹ میں پاؤں پھیلائے ہیں جو سگے بھائی بہن کہلاتے ہیں، ایک دوسرے کے نگلنے کے لیے سانپ کے سپولیے اور اژدہے بن جائیں گے۔ اور ایک ایک کے خون کا پیاسا ہو گا۔ بھائی، بھائی کا گلا کاٹے گا۔ سولی پر چڑھائے گا۔ آنکھوں کو نکلوا کر پاؤں سے روندے گا۔ مردے کو بازاروں اور گلی کوچوں میں گھسٹوائے گا۔ جو کچھ کربلا میں ہوا ہے وہ دہلی آگرے میں پھر ہو گزرے گا۔ بوڑھا باپ شاہجاں آگرہ کے جیل خانہ میں نوجوان اور رشک قمر بیٹوں کی سُناونی پر سُناونی سُنے گا۔ اور ہوں نہ کر سکے گا۔ اس اجمال کی تفصیل ہم کیا لکھیں۔ اسکول کے اردو پڑھنے والے بچے بھی جانتے ہیں کہ حضرت عالمگیر متقی اور درویش صفت بادشاہ نے دارا شکوہ، میرزا شجاع، میرزا مراد وغیرہ کے قتل کرنے میں جس بے رحمی اور سنگدلی سےکام لیا اس کے تصور سے بدن کے رونگھٹے کھڑے ہوتے ہیں اور کلیجہ مُنہ کو آ جاتا ہے۔ سُنا ہے کہ دارا شکوہ کے


صفحہ 19

دو بیٹے تھے۔ ایک کا نام شپہر شکوہ اور دوسرے کا نام سلیماں شکوہ تھا۔ سپہر شکوہ نے دارا شکوہ کا مرتے دم تک ساتھ نہ چھوڑا اور دارا شکوہ کی شہادت کے بعد وہ گوالیار کے جیل خانہ میں مدت تک جیتا رہا۔ سلیماں شکوہ جان بچانے کے لیے بے نام و نشاں ہو گیا۔ اور عالمگیر کے ہاتھ نہ لگا۔ مہینوں جنگل بیابانوں میں پڑا پھرتا رہا۔ انسان کی صورت سے ایسا ڈرتا تھا، جس طرح جنگلی ہرن پرچھائیں سے بھڑکتا ہے۔ قضا و قدر اسے سری نگر کی سرحد میں لے پہنچی۔ صبح کا سہانہ وقت تھا ایک چشمہ کے کنارے پتھر کے سہاری سے گھانس کے مخملی بچھونے پر بیٹھا ہوااپنی صورت پانی کے آبدار ائینہ میں دیکھ رہا تھا جو سری نگر کا راجہ پویوش گھوڑے پر سوار شاہانہ لباس پہنے ہتھیار لگائے ہاتھ پر باز بٹھائے شکار کھیلتا ہوا اتفاقاً آن پہنچا۔ سلیماں شکوہ کی دلفریب شکل بڑی بڑی تیموری غلاف دار آنکھیں، سیاہ اور کمان جیسی کھنچی تنی بھویں، اونچی ناک، چھوٹا دھانہ، پتلے ہونٹ، لال لال رخسار، چاند سے پیشانی، سر سے پاؤں تک نور کے سانچہ میں ڈھلا ہوا، دیکھ کر حیرا ن ہو گیا۔

راجہ : تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو۔

شاہزادہ : سچ سچ کہاوں یا جھوٹ۔

راجہ سچ ہی کہو۔ سچ دنیا میں بڑی چیز ہے۔

شاہزادہ سچ کہنے میں مجھے جان کا خوف ہے۔

راجہ : جان کا خوف دل سے نکال ڈالو۔ اب تم سری نگر کی حد میں آگئے ہو۔ خدا چاہے تو تمہارا بال بھی بیکا نہ ہو گا۔

شاہزدہ : میرا نام سلیمان شکوہ ہے۔ شاہجہان بادشاہ دہلی کا پوتا اور دارا شکوہ کا بیٹا ہوں۔ مگر قسمت کا ہیٹا ہوں۔ باپ کا قتل، بھائی کی گرفتاری، چچا جان کی غداری، اپنی مصیبت اس طرح سُنائی کہ راجہ روتے روتے دیوانہ ہو گیا۔ اور بڑی تعظیم


صفحہ 20

تکریم سے شہر میں لے گیا اور خاص محل میں ٹھہرایا۔ اور فرمایا جب تک میری جان میں جان ہے، میں آپ کا حامی اور مدد گار ہوں۔ آپ پاؤں پھیلا کر بے کھٹکا سوئیے اور جو کچھ دال دلیا موجود ہے وہ کھائیے۔ سلیماں شکوہ نے کچھ کم تین برس بسم اللہ کے گنبد میں کاٹے۔ اور سری نگر میں رہ کر راجہ کی بدولت خوب خوب عیش کیے۔ مگر عالمگیر اس کی فکر سے غافل نہ تھا۔ اور آخراُسن نے معلوم کر لیا کہ میرا شکار سری نگر کا راجہ لے اُڑا ہے۔ پہلے تو صلح و آشتی کے خط راجہ کو بھیجے کہ ہمارا آپ کا واحد معاملہ ہے۔ اچھے دل بُرے نہ کرو اور سلیماں شکوہ کو میرے پاس بھیج دو۔ مگر جب دیکھا کہ راجہ کسی طرح نرمنہیں ہوتا اور ٹکا سا جواب دیتا ہے تو لشکر کشی کی دھمکی دی۔ مگر راجہ بات کا پکا اور قول کا سچا تھا۔ وہ عالمگیر کے اس ڈراوے کو بھی خاطر میں نہ لایا۔ اور سلیماں شکوہ کو نہ بھیجنا تھا اور نہ بھیجا۔ اورنگ زیب کے دل میں بھتیجے کی زندگی کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ اس نے اسکے پکڑوا بہلانے کے واسطے ایک اور جُل کھیلا، اور ایک اور راجہ کو جو بڑا مدبر اور عقیل تھا، اور سری نگر والے راجہ سے اُس کی دانت کاٹی روٹی تھی بیچ میں ڈالا اور سلیماں شکوہ کے بھیج دینے کی اُس سے سفارش چاہی۔ مدبر راجہ نے اس کام کا بیڑا اُٹھایا۔ اور دوست کو ایسا جھانسا دیا کہ اس نے بے گناہ سلیمان شکوہ کو پابزنجیر کر کے دہلی روانہ کر دیا۔ سلیماں شکوہ کا دہلی میں داخل ہونا حضرت یوسف علیہ السلام کے پہلے پہل مصر میں داخل ہونے کے برابر تھا۔ بازاروں میں خلقت کے ہجوم ٹھٹھ لگ گئے تھے۔ تھالی پھینکو تو سروں پر ہی جاتی تھی۔ تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ در و دیوار اور چھت اور کوٹھوں پر عورتیں اور بچے پٹے پڑے تھے اور اُس نامراد کی نوجوانی پر آٹھ آٹھ آنسو رو رہے تھے۔ جب اُس کی سارے شہر میں تشہیر ہو لی تو نواب سعد اللہ خاں وزیر کو حکم ہوا کہ تم جاؤ اور اُس نالائق کا سر اپنے روبرو کٹوا کر ہمارے سامنے لاؤ۔ مگر جب سعد اللہ خاں نے


صفحہ 21

جا کر سلیماں شکوہ کی پیاری صورت دیکھی تو جی جان سے اس پر فدا ہو گیا اور اس کا دل بھر آیا۔ کئی گھنٹہ تک اس سوچ میں رہا کہ اس یوسفِ ثانی کو بے سبب بے وجہ کیونکہ جلاد کے حوالہ کر دوں۔ آخرکار رحم دل وزیر ایک منصوبہ سوچ کر حضور میں حاضر ہوا اور دست بستہ عرض کی۔ جہاں پناہ، قیدی سے حسب دستور پوچھا گیا کہ اگر کوئیارمان یا حسرت تیرے دل میں ہو تو بیان کر۔ قیدی نے کہا کہ میری آخری آرزو یہ ہے کہ مرنے سے پہلے ایک بار بادشاہ ظل اللہ کا دیدار دیکھ لوں۔ چونکہ حجت شرعی تھی اس لیے اس کے قتل میں درنگ کی گئی۔ اب جو حکم سلطانی ہو بجا لائیں۔

عالمگیر (ناک بھوں چڑھا کر) خیر اب تع مغرب کا وقت قریب ہے۔ اس وقت ہم اس ناشدنی کو اپنے سامنے نہیں بلا سکتے ہیں۔ کل دس بجے دن کے اس کو اور جلاد دونوں کو دربار میں حاضر کرو۔ سعد اللہ خاں سلام کر کے دل میں خوش ہوتا ہوا پیچھے ہٹا اور رات کی رات سلیماں شکوہ کی جان بچ گئی۔ سعد اللہ خاں نے یہ تدبیر محض اس مصلحت سے کی تھی کہ شاید عالمگیر اپنے بھتیجے کے حسن و جمال کو دیکھ کر پسیج جائے اور اس بے خطا کی خطا معاف ہو جائے۔ بات کی بات میں صبح ہو گئی۔ اور گل نے کسی مقتولِ جفا کے ماتم میں اپنا نازک پیرہن چاک کر ڈالا اور باغ کا پتہ پتہ اُوس کے آنسوؤں سے رونے میں مشغول ہوا۔ آفتاب نکل آیا اور اس کی لمبی کرنیں جو شفق کے سرخی طے کر کے زمیں پر پہنچیں تو یہ معلوم ہوا کہ کسی نوجوان خورشید رخسار کا سر نیزہ پر چڑھایا گیا ہے۔ جس کی شہ رگوں سے خوں ٹپک رہا ہے۔

دیوان عالم میں اورنگ زیب عالمگیر نے تخت جواہر نگار پر جلوس فرمایا۔ وزیر، امیر، منصبدار، ہفت ہزاری، پنچ ہزاری، خاص و عام اپنے اپنے رتبہ اور عہدہ کے


صفحہ 22

کے مقاموں پر دست بستہ کھڑے ہوئے۔ جس وقت سلیماں شکوہ دس (10) سپاہیوں کی حراست میں تلواروں کے سایہ تلے دیوان عام کی تیسری سیڑھی پر پہنچا تو اتفاقاً اُس کی آہنی بیڑی پتھر سے جا لگی اور اُس کی جھنکار سے سارا ایوان گونج اُٹھا۔ بیڑی زبان حال سے ظفرؔ کا یہ شعر پڑھکر گالمگیر کو سُناتی تھی :

پائے کوباں کوئی زنداں میں نیا ہے مجنوں
آتی آواز سلاسل کبھی ایسی تو نہ تھی

حکم ہوا کہ بیڑی کاٹ دی جائے۔ صرف ہاتھوں میں سونے کی زنجیر پڑی رہے۔ سلیمان شکوہ نے جب اپنے تئیں عالمگیر کے آگے اور جلاو کو ننگی تلوار لئے پیچھے دیکھا تو تھرتھر کانپنے لگا۔ چاند سے چہرے کو گہن لگ گیا۔ منہ کے اندر زبان خشک ہو گئی۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئیں۔ دل دھڑکنے لگا۔ سر پھرنے لگا۔ سارا دربار پیکر تصویر بن گیا تھا۔ اور اُس مظلوم کا منہ تک رہا تھا۔ عالمگیر نے جھلا کر سلیماں شکوہ سے کہا۔ کہو برخوردار کیا حال ہے۔

سلیماں شکوہ (شعر)

حالِ من از ہجر دارا کمتر از یعقوب نیست
او پسر گم کردہ بود و من پدر گم کردہ ام

عالمگیر : سعد اللہ خاں تم نے دیکھا۔ موت سر پر کھیل رہی ہے اور حواس وہ درست ہیں کہ شعر تصنیف ہو رہے ہیں۔ اور جو زندگی کی کچھ دنوں آس ہو تو شاید آسمان کے تارے توڑ لائے۔ یہ زندہ رکھنے کے قابل ہے؟ توبہ توبہ! افعی کشتن و بچہ اش رانگاہ داشتن کار خرد منداں نیست۔" بہت اچھا۔ اگر آپ اپنے ابا جان کے فراق میں بے چین ہیں تو ہم آپ کو ابھی اُن کے پاس ہمایوں کے مقبرہ میں دست بدست پہنچوائے دیتے ہیں۔

سلیماں شکوہ : عالمگیر سے مخاطب ہو کر، شعر

پس از مُردن گر آئی بے مروت بر مزارِ من
بہ تعظیم تو خوش مستانہ برخیر و غبارِ من


صفحہ 23

عالمگیر، جلاد سے مخاطب ہو کر۔ ہُوں۔ ہُوں کے ساتھ پیچھے سے جلاد کی تلوار سلیماں شکوہ کی گردن پر پڑی اور اُس بیکس کا سر تن سے جدا ہو کر چار قدم دور جا پڑا۔ اِنا لِلہِ و اِنا اِلیہِ راجِعون۔

میری جان! یہ جھوٹی کہانیاں نہیں ہیں، سچے قصے ہیں۔ا گر آپ کو یقین نہ ہو تو میرے ساتھ ہمایوں کے مقبرے میں تشریف لے چلئیے۔ مقبرے کے صحن میں سنگ مرمر کی مزار کے پاس جو دراصل دارا شکوہ کا مرقد ہے۔

میں آپ کو اس نامراد کی قبر دکھا سکتا ہوں۔ جس پر حسرت کا شامیانہ کھنچا ہوا ہے اور یاس و الم کی جھالر لٹک رہی ہے۔ داغ :

حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر
کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے
حکیم سید ناصر نذیر فراقؔ دہلوی

مرحومہ کی یاد

تجکو کیونکر کہوں زباں سے نہیں
حسرتیں تیری دل میں رکھتا ہوں

جان کے ساتھ ہیں ترے ارماں
میں انہیں کے لیے تو زندہ ہوں

دیکھتا ہوں نشانیاں تیری
کھو کے تیرے پتے کو پاتا ہوں

داغ کی طرح جل رہا ہے دل
پھول کی طرح ڈبڈباتا ہوں

تو نہیں کیوں کہ تیری آنکھوں کے
کتنے تارے ہیں جنکو گنتا ہوں

دانے دانے میں ہیں یہاں خرمن
پتے پتے سے گل کھلاتا ہوں

قرب روحی میں بعد کو کیا دخل
اس کو میں دھیان میں بھی لاتا ہوں

یہ تو ممکن نیہں کہ تو نہ رہے
تو نہیں اور میں تو میں کیا ہوں
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ کتاب 3

ہندوستان کے چار نامور شہنشاہوں کی

شاہی سیر کشمیر

یعنی

مغل اعظم شہشاہ اکبر
شہشاہ جہانگیر
شہنشاہ شاہجہاں
اور شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر

کی سیاحت کشمیر کے دلچسپ و پُر لُطف حالات و کوائف

مرتبہ

محمد الدین فوقؔ

ذی الحجہ 1348ھ مطابق مئی 1930ء

مطبوعہ کریمی پریس لاہور میں باہتمام میر قدرت اللہ پرنٹر چھپی۔


صفحہ 4

ایسی عالمگیر شہرت حاصل ہوئی ہے۔ میں نے اکبر نامہ ابو الفضل سے بعض اقتباسات کئے ہیں جو نہ صرف شائقین فن تاریخ کے لیے دلچسپ ہوں گے، بلکہ جن سے اس زمانہ کے شاہانہ دورہ کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آ جائے گا۔ اور یہ بھی معلوم ہو گا کہ خاندان مغلیہ کا وہ نامور تاجدار جو اپنی پائدار شہرت صفحہ تاریخ پر چھوڑ گیا ہے کس راستہ سے کشمیر گیا تھا۔ اور کشمیر کا پرانا راستہ کون سا تھا۔

عہد اکبری کو شروع ہوئے چونتیسواں برس تھا۔ جب دربار (۱) اکبری نے اس سیر کشمیر کا ارادہ کیا۔ جس کا بیان آج لکھ رہے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے لاہور سے کشمیر تک اس وقت نہ کوئی سڑک تیار تھی نہ شاہراہ موجود۔ راستے کا پتہ لگانا اور اسے صاف کر کے شاہی جلوس کے گذرنے کے قابل بنانا۔ یہ کام سفر مینا آگے آگے کرتے جاتے تھے۔ اور جلوس شاہی پیچھے پیچھے آ رہا تھا۔ جو مقامات راہ میں آتے تھے ان کے انتظام کی دیکھ بھال وہاں کے عاملوں کا عزل و نصب یہ سب کام ساتھ ساتھ ہوتے جاتے تھے۔ کیا زمانہ تھا۔ کیسے سفر تھے اور کیسے مسافر۔ ابو الفضل کی روح کے حق میں دل سے دعا نکلتی ہے جس کا قلم معجز رقم اس سفر کی تصویر الفاظ میں کھینچ گیا ہے۔ لاہور سے روانگی ملاحظہ ہوَ

شب شازدہم اودی بہشت از سپری شدن دو ساعت و چہل دہشت دقیقہ از آب راوی گزشتند و نزدیک سرائے مادہو سنگھ نزول ہمایوں شد۔ سہ ہزار سنگ تراشان کوہ کن و خارا شگافانِ فرہات و فن دو ہزار بیلداران کار گزا۔ ہ سرکردگی قاسم خاں دوستوری یافتند۔ تانشیب و فراز ایں راہ شگرف را ہموار سازند دریں منزل سیالکوٹ و جاد ریتول زین خاں کوکہ دادند۔ راجہ بھگونت داس و راجہ ٹوڈرمل و قلیج خاں را بدر الملک لاہور گذاشتند تا ہمگی مہمات بہ
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(۱) اس سفر میں زین خاں کوکہ، شاہزادہ سلیم، شہزادہ سلطان راؤ، مرزا خان خانان، حکیم ابو الفتح، جگن ناتھ، رام داس، ابو الفضل فیضی، سلطان خسرو، سلیکن یعنی جہانگیر کا بیٹا، مرزا کیقباد و خلف مرزا حکیم وغیرہ نامور امرائے دربار بادشاہ کے جلوس میں تھے۔


صفحہ 5

بہدیدانیاں سر انجام باید۔"

راوی سے پار ہوتے ہی پہلا پڑاؤ شاہدرہ تھا۔ وہاں سے ایمن آباد، ایمن آباد سے سوہدرہ۔ یہاں راجہ رورا اس نواح کا جاگیر دار ملاقات کے لیے حاضر ہوا۔ اور علاوہ خلعت اور ایک سو ایک گھوڑے انعام پانے کے چند چند پرگنے اسے اور مل گئے۔ چوتھی منزل (۱) کنار دریائے چناب پر تھی۔ اور پانچویں سیالکوٹ کے مضافات میں جے پور کھیڑی اور بھبر چھٹی اور ساتویں منزلیں ہوئیں۔ اب پہاڑی علاقہ شروع ہوا۔ بادشاہ گھوڑے پر اور کچھ پیادہ پہاڑ پر چڑھے۔

غازی کوٹ پر آٹھویں منزل ہوئی اور نویں راجوریؔ پر۔ قاسم خاں نے پہلے ہی پہنچ کر خیمے لگا رکھے تھے۔ ان میں اُترے۔ یہاں مشکل کا سامنا تھا آگے کئی راہیں نکلتی تھیں اور ہر ایک برف سے اٹی ہوئی۔ واقف کار آدمیوں کو راستہ ڈھونڈنے اور بہترین راستہ انتخاب کرنے کے لئے روانہ کر دیا۔ انہوں نے پیر پنچال کو پسند کیا۔ اور ادھر کو چلے۔ آگے رتن پنچال کے قریب ایک موضع ہے تھنہ، وہاں آرام کیا۔ یہاں سے کشمیری زبان شروع ہوتی ہے۔ بادشاہ نے جب لوگوں کو یہاں کشمیری زبان بولتے سُنا تو بولے۔ "ولایت ہا از یکدیگر بکوہ و دریا وہا موں و زبان جدا کردو۔" اکبر کو جو چیز نہ صرف اپنے خاندان کے بادشاہوں سے بلکہ دنیا کے تاریخی لوگوںمیں بیشتر سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ اسکی وہ خداداد قوتِ ادراک ہے جس کی بدولت وہ ملک داری کی باریک سے باریک باتوں کو سمجھ جاتا تھا۔ اور باوجود ذی علم نہ ہونے کے نہایت سلیس اور سادہ الفاظ میں ان باریکیوں کو ادا کر دیتا تھا۔ کون نہیں جانتا کہ زبان کی یگانگت بہت بڑا رشتۂ اتحاد اور زبان کی جدائی بہت بڑا ذریعہ علیحدگی ہے ۔ لیکن قدرتی جغرافی حدود کو جو ملکوں کے درمیان حد فاضل ہیں، زبان اور زبان کو کوہ و دریا وہاموں سے بہ حیثیت حد فاضل ہونے کے تشبیہ دینا اسی کا حصہ تھا۔ کاش اہل ملک اس نکتہ پر
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(۱) منزل کا لفظ یہاں ایک دن کے سفر کے معنی میں استعمال نہیں کیا گیا بلکہ ایک ایک مقام کے لئے خواہ وہ کتنے ہی وقت میں طے ہو۔


صفحہ ۶

اس زمانے میں غور کریں اور خود اپنی تخریب کی کوشش نہ کریں۔ جہاں جہاں زبان کی علیحدگی کو کوشش ہو رہی ہے، ایک بڑی حد فاضل ایک قوم اور دوسری قوم میں اور ایک صوبہ اور دوسرے صوبہ میں کھڑی کی جا رہی ہے۔ جو کہ و دریا سے بڑھ کر علیحدہ کرنے والی ثابت ہو گی۔ اکبر کا حکیمانہ قول دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا۔اور میں نے چند الفاظ ایسےلکھ دیئے ہیں جو گو مضمون موجودہ سے غیر متعلق ہیں۔ مگر نہایت ضروری ہیں۔ اب احوال سفر کی طرف غور کیجیے۔

بیرم کل پر گیارہویں منزل ہوئی۔ ابو الفضل لکھتا ہے کہ نہایت دلکشا جگہ ہے۔ اور آب و ہوا اور رنگا رنگ کے پھولوں میں بے مثال ہے۔ کیوں نہ ہو، کشمیر کا علاقہ شروع ہو گیا ہے۔ ایک سے ایک جگہ بڑھ کر آئے گی۔ بارہواں پڑاؤ، پوشانہ تھا۔ اس کی مختصر تعریف یہ ہے "کوہ ہائے پردخت و بسیار گل و چشمہائے جاں پرور۔" یہاں پر یہ لطیفہ ہوا۔ اب برفانی پہاڑ آنے لگے۔ بادشاہ کے ہندوستانی ہمراہی گھبرائے۔ نہ آگے جانے کی ہمت نہ پیچھے جانے کی جرأت۔ بادشاہ نے خود ان کو تسلی دی اور پیر پنجال کا پہاڑ ختم کر کے موضع دونیا میں پہنچے۔ اس تیرھویں منزل کی کیفیت ابو الفضل نے مختصر لفظوںمیں یوں بیان کی ہے۔

"از سختیٔ سرما سخن سراید یا شگرفتی برف و سراسیمگیٔ ہندی نژاداں بارنماید۔ از بلندی کریو حرف زند۔ یا داستان تنگی راہ برگزار در از نشیب و فراز ایں مرحلہ باز گوید۔ یا از چشمہ و درخت و گُل برنویسد۔" اب پہاڑ کے ندی نالوں کی بہتات کی یہ حالت تھی کہ ایک منزل میں چوالیس پُل گزرنے پڑے۔ ہیرہ پور پر قیام ہوا۔ مرزا یوسف خاں نے اس مقام کو خیمہ و خرگاہ سے آراستہ کر رکھا تھا۔ یہاں سب نے آرام کیا۔ یونتو بھنبر سے چل کر جو جگہ رستے میں پڑی، سفر کی سختی کے لحاظ سے ایک سے ایک دشوار اور خوبصورتی کے لحاظ سے ایک سے ایک دلاویز مگر ہیرہ پور پہنچ کر عجیب حالت ہوئی۔ میں ترجمہ کر فارسی


صفحہ ۷

عبارت کا لطف کیوں گھٹاؤں۔ ابو الفضل سے ہی سن لیجئے۔ "از نیرنگئی درخت زار و شگفتگیٔ گلہاؤ شگرفئی ہوا و نغمہ سرائی آبشار ہا زماں زماں حیرت می افرو دوآنہ دگئی راہ را اہول می برد۔ لیکن امروز کراز کوہستان بدشت گزارشد۔ شگفت نما بشے کرد۔ جہانے دیگر پدید آمد۔ ونو بہشتے نقاب از رو بر گرفت۔ عاتیان را سبب بیں را محنت راہ یکبارگی فراموش شد۔و نگا ہاں خدا پرست بہ خرمئی دیگر شعدند۔"

پندرہواں مقام جس کا نام اس مختصر سفر نامہ میں درج ہے سرینگر ہے۔ پچیسویں ماہ خرداد کو سرینگر پہنچے۔ سرینگر کے مقامات گو اب بھی خوشنما ہیں۔ مگر خاص شہر اب سیاح کے دل پر عموماً بہت اچھا نقش نہیں چھوڑتا۔ اس وقت شہر زیادہ خوش رنگ اور باشندے زیادہ خوشحال اور خوش مذاق ہوں گے۔کہ ابو الفضل لکھتا ہے۔ "سرینگر بزرگ شہرے است بہ دراز آباد۔ رود بار بہت (جہلم) ازمیان آں برگزرو۔ دوراں بدہ تیرچو میں کا خہا تابہ پنج آشیانہ برسا زند و برفراز بامہا لالہ و رنگا رنگ گل بکا رند۔ دور بہاراں رشک افزائے گلستاں گرود۔" ابو الفضل نے جو سحر نثر میں کیا ہے، وہی جادو بیانی ان کا بھائی فیضی نظم میں کرتا ہے۔ اس کے قصیدے کے یہ شعر کشمیر کی شان میں نہایت مشہور ہیں۔

ہزار قافلہ عیش میکند شبگیر
کہ بار عیش کشاید بہ عرصہ کشمیر
درد بجائے گیا زعفراں ہمی روید
کہ آب و خاکِ طرب را چنیں بود تاثیر
زمین اوچودں بے غماں طرف خیز است
سپہر کردہ مگر خاکِ او بیادہ خمیر

سری نگر میں جاتے ہی جو چیز آجکل بھی سب سے نئی اور دلچسپ معلوم ہوتی ہے وہ وہاں کی متحرک آبادی ہے جو کوٹھی نما کشتیوں میں رہتی ہے۔ جنہیں انگریزی میں "ہوس بوٹ" کہتے ہیں۔ جب تک جی چاہا ایک جگہ ٹھہرے، ذرا جی اکتایا یا کشتی کو آگے لے گئے۔ جن کشتیوں میں انگریز سیاح فروکش ہوتے ہیں، وہ نہایت آراستہ نظر آتی ہیں۔ چھت پھولوں کے گملوں سے


صفحہ ۸

سجی ہوتی ہے۔ شاک کو ان آبی مکانوں کے خوش پوش مکیں چھت پر کرسیاں بچھا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور کشتیاں آہستہ آہستہ چلتی جاتی ہیں تو عجب بہار دیتی ہیں۔ مگر موجودہ حالت اور اس زمانہ کی حالت کا مقابلہ کرنے کے لئے ذرا تخیل سے مدد لیجئے۔ اب ایک وقت میں چند صد سے زیادہ ایسی کشتیاں سری نگر کے قریب نظیر نہیں آتیں۔ اس وقت کی رونق کا اندازہ اس سے کیجیے کہ ایک ہزار سے اوپر کشتی بادشاہ اور خاصان دربار کی موجود تھی۔ اور لوگوں کی کشتیوں کا تو شمار ہی نہیں۔ ابو الفضل لکھتا ہے :

"دریں ملک از سی ہزار کشتی افزوں است۔ لیکن سزوار نشیمن کشو خدائے بنود۔ کار آگیانِ خدمت گزار در کمتر فرصتے گزیں کاخہائے دریائی سر انجام نمودند۔ و گلزارے بر سطح دریا اساس نہا دند و نام ادران و نزدیکان نیز بہ بہین روشے آراستہ شدد شہر ساتنے بر فراز دریا آبادی گرفت۔

ان انتخابات میں میں نے فقط وہ حصے لیے ہیں جو غیر معمولی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اگر جزویات کا ذکر بھی کیا جاتا جو بجائے خود کم دلچسپ نہیں تو اس سے بہت زیادہ لکھا جا سکتا تھا۔ ان حالات کو پڑھ کر زبان سے اکبر کی عالی ہمتی کی بیساختہ داد نکلتی ہے۔ اور عہد اکبری کی عظمت و شان کے ساتھ جو چیز اکبر کی پائیدار ہر دلعزیزی کا باعث ہوئی۔ اس کا ذکر کئے بغیر اس مضمون کو ختم کرنا زیبا نہیں۔ رعیت کے آرام اور غریبوں کی حفاظت پر اس شہنشاہ عادل اور اس کے فاضل وزراء کو اس قدر توجہ تھی کہ سری نگر میں پہنچتے ہی حکم دیا کہ شاہی لشکر کا کوئی شخص رعیت کے مکانوں میں نہ اُترے اور اپنی آسائش کا بند و بست آپ کرے۔ اور جب سب فرو کش ہوئے اور ہر طرح سے اطمینان ہوا تو خاص آدمی تعینات کئے گئے جو "پاسبانی زیر دستاں و کاشتکاراں" میں کوشش کریں۔ (از رسالہ مخزن اپریل 1910ء؁ جلد 19 نمبر 1)

اکبر اور کشمیر

جب اکبر پہلی مرتبہ کشمیر آیا ہے، اس وقت مرزا یوسف خاں گورنر کشمیر تھا۔ اکبر نے اسی کے


صفحہ ۹

مکان میں قیام کیا۔ سلطان شہاب الدین کے نام پر شہاب الدین پورہ دریا کے کنارے ایک دلکش جگہ تھی۔ بادشاہ یہاں کی سیر سے بہت محظوظ ہوا۔

اہل حرم بھی چند دنوں کے بعد آ پہنچے۔ مریم مکانی اکبر کی والدہ بھی ساتھ تھی۔ اس نے بادشاہ کے پاس آنے کی خواہش کی۔ بادشاہ نے جواب میں لکھا۔

حاجی بسوئے کعبہ رعد از برائے حج
یارب بود کہ کعبہ بیاید بسوئے ما

کشمیر کا آخری بادشاہ یعقوب شاہ اکبری اقبال کی تاب نہ لا کر جان چھپائے پھرتا تھا۔ آخر گرفتاری کے خوف سے بادشاہ کے پاس عرضداشت بھیجی۔ ان نے جان بخشی کی اور 20 ہزار کی جاگیر مقرر کر کے کشتوار میں رہنے کا حکم دیا۔ جہاں وہ اس واقع کے پانچویں سال 1001ھ؁ میں اپنے بھائی کے ہاتھ سے مارا گیا۔

بادشاہ نے مراج و کامراج کی شیر کشتی کے ذریعہ کی۔ پٹن کے مقام پر جو بارہ مولا اور سری نگر کے درمیان مشہور پڑاؤ ہے۔ ہزار ہا روپے کی خیرات کی۔ بادشاہ کا حکم تھا کوئی افسر کوئی اہلکار، کوئی سپاہی رعایا کے کسی فرد کو خواہ کسی حیثیت اور کسی مذہب کا ہو تکلیف دے گا تو اس سے سخت باز پرس کی جائے گی۔ چنانچہ رعایا نہایت امن اور آرام سے رہی۔ بادشاہ ایک ماہ پانچ دن کی سیر کے بعد واپس لاہور آ گیا۔

بادشاہ 997ھ؁ کی سیر کشمیر میں نشاط افزا نظارے دیکھ چکا تھا۔ اور چاہتا تھا کہ ہر سال کشمیر آیا کرے مگر امرائے دولت برفباری کے خوف اور رستے کی تکلیفات کی وجہ سے اس کا ارادہ بدل دیا کرتے تھے۔ جب 1000ء؁ میں مرزا یادگار نے (جو مرزا یوسف خاں گورنر کشمیر کے بادشاہ کے ہمراہ آ جانے کی وجہ سے حکومت کشمیر کا عارضی ناظم اور مرزا کا بھتیجہ بھی تھا) خوشامدیوں اور مفسدیوں کےکہنے میں علم بغاوت بلند کر لیا۔ بلکہ خطبہ و سکہ بھی اپنے نام کا جاری کر دیا۔ تو بادشاہ باوجود امرائے دولت کے منع کرنیکے کشمیر کو روانہ ہو گیا۔ شورش کشمیر کس طرح ہوئی اور کسطرح مٹی یہ ایک طویل داستان ہے، مختصر یہ ہے کہ یادگار گرفتار ہو کر قتل کیا گیا۔ 51 روط تک اس نے کشمیرمیں سکہ و خطبہ اپنےنام کا جاری رکھا۔ باغیوں اور سرکشوں کی تحقیقات ہوئی۔ جو بانی مبانی تھے۔ ان کو سزائیں


صفحہ 10

ملیں اور باقی سب کے لئے عام معافی و جان بخشی کا اعلان ہوا۔ بادشاہ کے تلا دان کی رسم سری نگر میں ادا ہوئی۔ بادشاہ کے حکم سے ابو الفضل نے چودہ ہزار آدمیوں کو کھانا کھلایا۔ ابو الفضل لکھتا ہے "اس ملک میں چور گدا بہت کم پائے جاتے ہیں۔ بادشاہ زعفران کی سیر کو پانیور میں کشتی پر سوار ہو کر گیا۔ اس کی شادابی و نشاط بخشی اور خوشبو سے بہت خوش ہوا۔ پانچویں دن دیوالی تھی۔ حکم دیا کہ دریا کے کناروں پر کشتیوں کے اوپر اور مکانات کی چھتوں اور منڈیروں پر چراغ روشن کئے جائیں۔ حکم کی دیر تھی، شہر بقۂ نور بن گیا۔ امرائے کشمیر اور کشمیر کے شاہی خاندان سے وہی رشتہ قائم کیا جو اس نے راجپوتانہ کے ہندو راجاؤں سے کیا تھا۔ شمس الدین چک کی بیٹی کو حرم سرا میں داخل کیا۔ درحسین چک کی بیٹی کا نکاح شہزادہ سلیم سےکیا۔ ان جدید تعلقات سے کشمیر کی شورش بہت کچھ کم ہو گئی۔

بادشاہ کو کشمیر کی صنعت میں ایک سیاہی دکھائی گئی۔ جو پانی سے اور ہاتھ کے مٹانے سے محو نہ ہوتی تھی۔ اور لکھنے میں خط کر خراب نہ کرتی تھی۔ بادشاہ کشمیروں کی اس صنعت سے بہت خوش ہوا اور ان کی ذہانت کی تعریف کی۔ اسی سفر میں بادشاہ نے زینہ لنک کی سیر کی جو جھیل ولر کے درمیان سلطان زین العابدین نے پانی سے ایک جریب کے قریب بلند چبوترہ پر بڑے تکلف سے 114 گز لمبا اور 82 گز چوڑا بنایا تھا۔ نظام الدین طبقات اکبری میں لکھتا ہے۔ جس خوبی سے اس چبوترہ پر عمارات عالی پانی میں پتھر ڈلوا کر زین العابدین نے بنوائی ہیں۔ اس کی نظری ملک میں کہیں نظر نہیں آتی۔ بادشاہ براہ بارہ مولا پگھلی واپش لاہور آ گیا۔ پگھلی میں برف و بارش کی وجہ سے بادشاہ ایک ماہ تک رُکا رہا۔

اکبر تیسری مرتبہ 1005ھ؁ میں کشمیر گیا۔ آگرہ سےلاہور اور لاہور سے بھمبر میں آیا۔ یہاں فوج کے کئی حصے کئے۔ ایک حصہ اپنے لیے ایک حرم سرا کے لیے۔ ایک شہزادہ سلیم کے لئے۔ راجوری میں معمول سے زیادہ دن ٹھہرا اور وہاں عظیم پیمانہ پر ایک جشن کیا۔ پیر نچال کی برف جس کو دیکھ کر ہندوتانیوں اور پنچابیوں کے دم خشک ہو جاتے تھے کاٹ کر ہیرا پور آیا۔ یہاں سے حال نگری کی سیر کو گیا۔ جس کی ویرانی اس کی آبادی اور ج س کے کھنڈرات اس کی عالیشاں عمارتوں کا


صفحہ 11

پتہ بتاتے تھے۔ منزل بمنزل چلتا اور بعض مقامات میں گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کھیلتا ہوا سری نگر آ گیا۔ کوہ باراں کے نیچے پہاڑ کے دامن میں بہت سی زمین خلی پڑی تھی۔ بادشاہ نے اس کے گرد فصیل اور مکانات بنانے کا حکم دیا۔ اور پھر ایک قلعہ سنگین تعمیر کرایا جس نے کسانوں کی پراگندگی کو جو کمی بارش کی وجہ سے بڑھ رہی تھی، اور گرانی اجناس کو جو بادشاہی سپاہ کے آنے سے بہت زیادہ ہو گئی تھی ، دور کر دیا۔ شہر میں بادشاہ حکم سے بارہ مقامات پر عام لنگر جاری ہوتا جہاں ہر حاجتمند کو کھانا ملتا۔ اس کے علاوہ ہر یک شنبہ و اتوار کو عید گاہ میں قریباً 80 ہزار بھوکوں کو خوراک ملا کرتی۔

قلعہ کی تعمیرنے غریب آدمیوں کو مزدوری پر لگا کر جانکاہی و جان کندنی بچا دیا۔ بادشاہ کے پاس رپورٹ پہنچی کہ کارپردازان سلطنت اور ان کے ماتحت اہلکار زمینداروں پر بہت ظلم کرتے ہیں۔ بادشاہ گردہا کرو زمینداروں کی جمع معاف کر دی۔ ظالموں کو سزائیں دیں۔ اور کشا درزی کےلئے بہت کچھ مدد دی۔ بادشاہ نے سری نگر میں مرزا یوسف خاں گورنر کشمیر کا وہ محل بھی دیکھا۔ جس کے تین سو زینے تھے۔ شہاب الدین پورہ اور زیر لنک کی دلفریبیوں اور دلچسپیوں نے پھر اس کا دامن دل کھینچا۔ چنانچہ بادشاہ اس سفر میں بھی ان مقامات کی سیر سے محظوظ ہوا۔

بادشاہ کے حکم سے دریا میں ایک ایسا جہاز بنایا گیا جیسا سمندر میں چلتا ہے۔ بادشاہ نے اس میں بیٹھ کر دریا کی خوب سیر کی۔

کشمیریوں میں خصوصاً ہندو کشمیریوں میں ایک روایت ہے کہ 13 بھادوں کی رات کو دریائے بہت (جہلم) جو شہر کے اندر بہتا ہے پیدا ہوا تھا اس لئے سب لوگ اس رات کو خوشی مناتے ہیں۔ اکبر تو عجیب طبیعت لے کے آیا تھا۔ وہ سمجھتا تھا سب کا مذہب میرا مذہب ہے۔ اس نے حکم دیا بادشاہ بھی اس خوشی شریک ہو گا۔ چنانچہ دریا کے کناروں پر۔ پہاڑوں پر کشتیوں پر، مکانات پر چراغوں کی روشنی نے شہر کو نورستان بنا دیا۔


صفحہ 12

بادشاہ کے حکم سے ایک دلکشا مکان لکڑی کا جس کو کشمیر میں لڑی کہتے ہیں بنا دیا گیا۔ بادشاہ نے اس خوشی میں وہاں جشن کیا۔ اور لوگوں کو باریابی کا موقع دیا۔ اور انعام و اکرام عطا کئے۔

خزاں کے دن تھے۔ لیکن بادشاہ نے اس موسم میں بھی سری نگر کے باغوں یں سیب و شفتالو اور انگور و چنار کی فصل دیکھی۔ بادشاہ نے خزاں کی رنگ آمیزیوں پر بہار کا عالم دیکھ کر فرمایا :

ذوقِ فنا نیا فتۂ ورنہ در نظر
رنگیں تراز بہا، بود جلوہ خزاں

بادشاہ چاہتا تھا کہ کل ایام گرما و سرما اسی عشرت گاہ (کشمیر) میں بسر ہوں، لیکن بادشاہ کے ہمراہی اور اس کی فوجیں اور اہل حرم یہاں کے زمستان کا نام ہی سن کر لرز جاتے تھے۔ اس لئے بادشاہ گلزار زعفران (پانپور) میں سات روز قیام کرنے کے بعد پیر پنجال کی راہ سے لاہور واپس آ گیا۔ یہ سفر ایک ماہ دس روز میں طے کیا گیا۔

جہانگیر کشمیر میں

توزک جہانگیری کو پڑھیے۔ جہانگیر میں مظاہر فطرت و مناظر قدری کی ایک عجیب استعداد خداداد نظر آئے گی۔ اس کو باغوں اور پھولوں کا خاص شوق تھا۔ اور کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ جب کسی نے پھولوں کا کوئی گلدستہ پیش کیا ہے تو اس نے اپنی چلتی سواری ٹھہرا لی اور اس گلدستہ کو خود ہاتھ میں لیا ہے۔ اپنی عظیم الشان سلطنت کے بڑے بڑے تالابوں، جھیلوں اور آبشاروں کی حسن و خوبی کو خوب بیان کرتا ہے۔ اور ہمالیہ پہاڑ کے مناظر و مظاہر کی نہایت دلکش تصویر کھینچتا ہے وہ کشمیر بھی گیا اور کئی مرتبہ گیا۔ راتوں کی کیفیت کشمیر کے سبزہ زاروں مرغزاروں اور ڈل کے نظاروں سے وہ نہایت محظوظ ہوا۔ یہ تمام حالات اس نے اپنی


صفحہ 13

توزک میں اپنے قلم سے تفصیل کے ساتھ لکھے ہیں۔ یہاں صرف ناظرین کی تففن طبع کے لیے اس کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے بعض حالات میں اب بہت سا تفاوت ہے جیسے پرگنوں اور کشتیوں کی تعداد۔ محاصل کشمیر کا ذکر جن کو واقفکار ناظرین بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔

رستے کی کیفیتیں

حسن ابدال سے کشمیر تک جس راہ سے بادشاہ آیا۔ پچھتر (75)کوس کی مسافت تھی۔ جس کو بادشاہ نے 19 کوچ اور 9 مقام کر کے 25 روز میں طے کیا۔ حسن ابدال کا حال بادشاہ نے تفصیل سے لکھا ہے وہ لکھتا ہے کہ اس منزل سے آگے پہاڑ کے نشیب و فراز کثرت سے ہیں۔ سارے لشکر کا ایک ہی دفعہ گذرنا محال تھا۔ اس لئے یہ طے پایا کہ حضرت مریم مکانی بیگمات کے ساتھ توقف کریں اور سہولیت کے ساتھ تشریف لائیں۔ بیوتات کے امیر سامان مدار الملک اعتماد الدولہ وغیرہ کو حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے آدمی گزریں۔ رستم مرزا صفوی اور خان اعظم اور ان کی جماعت کو ہدایت ہوئی کہ پونچھ کی راہ سے آؤ۔ بادشاہ خود خدمتگاروں کے ساتھ موضع سلطان پور میں آیا۔ اس ملک کے آدمیوں کی زبانی سنا کہ غیر ایام برسات میں جب کہ بجلی اور بارش کا مطلق اثر نہیں ہوتا۔ اس پہاڑ سے صدائے ابر کی مانند آواز آتی رہتی ہے جس سے اس کا نام کہ گرج مشہور ہو گیا ہے۔ 20 سال ہوئے جب سے یہاں قلعہ کوہ ایک قلعہ بنایا گیا ہے۔ آواز کا آنا موقوف ہے۔ اس قلعہ کو گندھ گڑھ کہتے ہیں جو بظاہر گنج گڑھ معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ پہاڑ درختوں اور سبزہ کے نہ ہونے سے خشک اور برہنہ ہے۔ سلہر اور نوشہرہ کے حالات میں بادشاہ لکھتا ہے : "جہاں تک نظر کام کرتی تھی، یہ قطعہ سبزہ زاروں سے شگفتہ اور پھولوں سے گلریز نظر آتا تھا۔ سلہر میں ایک پھول دیکھا کہ اندام میں گل خطمی کے برابر اور رنگ میں رخ آتشیں تھا۔ اسی رنگ کے اور بھی بہت پھول تھے۔لیکن وہ سب چوٹے تھے۔ دور سے ان پھولوں کا نظارہ نہایت دلفریب معلوم ہوتا تھا۔ دامن کوہ میں بھی نہایت عجیب منظر تھا۔ یہاں سے گذر کر پگھلی کے علاقہ میں داخل ہوا جہاں معمولی برفباری سے بھی روشناس ہونا پڑا۔ چمبہ اس راہ میں کژرت سے تھا۔ شفتالو اور زرد آلو کے درختوں میں شگوفے لگے ہوئے تھے۔ صنوبر کے درخت مثل سرو کے دیدہ فریب تھے۔


صفحہ 14

پگھلی کا رئیس سلطان جبین مرزا زمیں بوس ہوا۔ اس نے اپنےمکان پر مجھے مدعو کیا۔ چونکہ والد ماجد (اکبر) بھی دوران سفر کشمیر میں اس کے گھر گئے تھے۔ اس لئے میں نے اس کی درخواست منظور کر لی اور اس کے ہمسروں میں اس کا درجہ بڑھایا۔ یہاں میوے بغیر پرورش کے خود رو ہوتے ہیں۔ اس علاقہ میں کشمیر کی روش پر خانہ و منازل چوب سے بناتے ہیں۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ چند منزل تک ایسی بستی نہین ہے۔ کہ وہاں غلہ اس قدر مل جائے کہ لشکر کگایت کرے اس لئے ہاتھیوں اور ہمراہیوں کے تحقیف ہوئی۔ جو بعد میں ہمارے ساتھ آ شامل ہوئے۔ پانچ کوس کے فاصلہ پر نین سُکھ کی ندی آئی جو بدخشاں اور تبت کے درمیانی پہاڑوں سے نکلتی ہے۔ ندی کی دونوں شاخوں پر دو پُل، ایک 17 گز، دوسرا 14 گز طولانی اور عرض میں صرف پانچ گز بنائے گئے۔ ہاتھیوں کو پایاب اُتارا اور سوار اور پیادے پُل پر سے اُترے۔ یہاں پُل لکڑی کے بنائے جاتے ہیں۔ اور سالہا سال برقرار رہتے ہیں۔ تین کوس کے قریب چل کر دریائے کشن گنگا کے کنارے پر منزل ہوئی۔ راہ میں ایک پہاڑ جس کا ارتفاع ڈیڑھ ڈیڑھ کوس ہے، واقعہ ہے۔ پُل سےگزر کر ایک آبشار آتا ہے۔ جو نہایت لطیف و صاف ہے۔ میں نے نہایت شوق سے سایۂ درخت میں اس کا پانی پیا۔ اُس پُل کے محاذ میں دوسرا پُل میں نے بھی تعمیر کرایا۔ پانی عمیق اور تند تھا۔ ہاتھیوں کو ننگا اس دریا سے عبور کرایا گیا۔ دریا کے مشرق میں عین پہاڑ پر میرے باپ کے حکم سے ایک پختہ سرائے پتھر اور چونے کی بنی ہوئی ہے۔

بادشاہ مقام بھول باس سے کچھ آگے نکل گیا تھا، کہ برف و باراں نے اُسے گھیر لیا۔ جہانگیر مع اہل حرم اس بلائے آسمانی سے بچنے کے لیے معتمد خاں مصنف اقبان مہ جہانگیری کے خیمہ میں جو بلکل خالی تھا، چلا گیا۔ اور وہاں شبانہ روز رہا۔ جب معتمد خاں کو خبر ہئی تو وہ پیادہ پا ڈھائی کوس کی مسافت کر کے دوڑا آیا۔ جو کچھ نقد و جنس اس کی بساط میں تھی۔ بادشاہ کے پیش کی۔ بادشاہ نہ نذر معاف کر دی اور فرمایا، متاع دنیا ہماری چشم ہمت میں ہیچ ہے۔ ہم جوہر اخلاص کو گراں بہا سے خریدتے ہیں۔


صفحہ 15

راجہ کشتواڑ کی حاضری

غرض 15 ربیع الاول 1029ھ؁ مطابق 10 مارچ 1620ء؁ کو سرحد کشمیر میں بادشاہ جب شہاب الدین پور میں آیا۔ تو دلاور خاں حاکم کشمیر بادشاہ کی پیشوائی کے لئے اس منزل پر حاضر ہوا۔ راجہ کشتواڑ کی سرکوبی کےلئے جو اپنے آپ کو سرکش و خود مختار سمجھتا تھا۔ دلاور خاں کو دس ہزار جنگی سواروں اور پیادہ کی جمیعت دے کر کشتواڑ روانہ کیا۔ راجہ دو ایک معمولی لڑائیوں کے بعد تاب مقاومت نہ لایا۔ گرفتار ہو کر جہانگیر کے حضور میں لایا گیا۔ جہانگیر لکھتا ہے راجہ کی شکل وجاہت سے خالی نہیں تھی۔ اس کی پوشش اہل ہند کی روش پر تھی۔ اور وہ ہندی اور کشمیری خوب بولتا تھا۔ وہ اپنے فرزندوں کو بادشاہ کی ملازمت میں دے کر مرحمت شاہی سے سرفراز ہوا۔

کشمیر کے قدیم فرمانروا

جہانگیر لکھتا ہے کشمیر اقلیم چہارم میں ہے۔ عرض اس کا خط استوا سے 35 درجہ اور طول اس کا جزیرہ سفید سے 105 درجہ ہے۔ اس ملک میں قدیم سے ہندو راجہ حکومت کرتے تھے۔ ان کی حکومت کی مدت چار ہزار سال بیان کی جاتی ہے۔ ان کا حال تاریخ راج ترنگنی میں جو والد ماجد کے حکم سے سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ ہو چکی ہے۔ مفصل مرقوم ہے۔ 712ھ؁ میں اس ملک نے نور اسلام سے روشنی پائی۔ 32 مسلمان بادشاہوں نے 282 برس اس ملک پر سلطنت کی ہے۔ 997ھ؁ میں والد ماجد نے اس کو فتح کیا۔ اور اس تاریخ سے ابتک کہ 35 سال ہوئے ہمارے قبضہ میں ہے۔

شہر سرینگر

شہر کا نام سرینگر ہے۔ اس کی آبادی کے اندر سے دریائے بہت (جہلم) گزرتا ہے۔ اس کے سرچشمہ کا نام ویرناگ ہے، وہ شہر سے چودہ کوس پر جانب جنوب واقع ہے۔ میں نے اس چشمہ کے اوپر ایک عمارت اور باغ ترتیب دیا ہے۔ شہر میں چار پل سنگ و چوب کے نہایت مستحکم بنے ہوئے ہیں۔ اس ملک کی اصطلاح میں پُل کو کدل کہتے ہیں۔ شہر میں 795ھ؁ میں ایک مسجد نہایت عالی سلطان سکندر نے بنائی تھی۔ ایک مدت کے بعد وہ جل گئی۔ 909ھ؁ میں ابراہیم ماگرے وزیر


صفحہ 16

سلطان حسین کے زمانہ میں دوبارہ تعمیر ہوئی۔ حکام کشمیر کی سب سے عمدہ یادگار یہی مسجد ہے۔ آدمیوں کی آمد و رفت اور غلہ وغیرہ کا کاروبار اکثر کشتیوں ہی کے ذریعہ ہوتا ہے۔ شہر اور پرگنوں میں 5070 کشتیاں اور 7400 ملاح ہیں۔

انتظام اور آمدنی وغیرہ

کشمیر میں 38 پرگنے ہیں جن کے دو حصے کئے گئے ہیں۔ بالائے آب کو مراج اور پایان آب کو کامراج کہتے ہیں۔ ہر خر وارتین من 8 سیر وزن حال ہے۔ کشمیری دو سیر کو ایک من اور چار من یعنی 8 سیر کو ایک ترکھ کہتے ہیں۔ ولایت کشمیر کی جمع 30 لاکھ 63 ہزار پچاس خروار اور گیارہ ترکھ ہے جو بحساب نقدی سات (7) کروڑ 46 لاکھ 70 ہزار دام ہوتی ہے۔

کشمیر کی بہار

جہانگیر اکثر کہا کرتا تھا۔ کہ کشمیر میری قلمرو میں بہشت روئے زمیں ہے اور اسی لئے ہر سال کشمیر کی سیر کو جاتا تھا۔ اس نے کشمیر کی بہت تعریف کی ہے۔ وہ لکھتا ہے۔ کشمیر ایک باغ ہے سدا بہار۔ قلعہ ہے آہنیں حصار، بادشاہوں کے لیے ایک گلشن عشرت افزا۔ درویشوں کے لئے ایک خلو تکڈہ دلکشا ہے۔ چمن خوش، آبشار دلکش۔ آب ہائے رواں شرح و بیان سے زیادہ اور چشمہ ساز حساب و شمار سے باہر ہیں۔ بہار میں کوہ و دشت اقسام شگوفہ سے مالا مال۔ در و دیوار اور صحن و بام گھروں کے مشعل لالہ سے بزم افروز ہیں۔ کشمیر میں لکٹری کے مکانات یک منزلہ سے 4 منزلہ تک بناتے ہیں اور چھتوں کو خاک پوش کر کے پیاز لالہ کو سال بہ سال لگاتے ہیں۔ موسم بہار میں وہ کھل کر نہایت خوشنما معلوم ہوتا ہے۔ "استاد حضور" نے جو تصویریں کھینچی ہیں وہ سو سے زیادہ ہیں۔

باشندوں کے حالات اور دیگر کوایف

اجناس اس ملک میں اول سال خوب پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے سال کم اور چھوٹا اور تیسرے سال مونگ کی دال کے برابر ہوتا ہے ۔ زمانہ سابق میں یہاں اچھا اور قد آور گھوڑا اور گاؤ اور گاؤ میشن بالکل


صفحہ 17

کمیاب تھ۔ تازہ طعام کھانے کا رواج بہت کم ہے۔ عموماً ایک وقت کا پکا ہوا دو وقت کھاتے ہیں۔ طعام میں نمک ڈالنے کا رواج اس قدر کم ہے کہ مردوں کے چہرہ پر نمک کا اثر نہیں ہے۔ عورت و مرد کا ملبوسات پسمینہ متعارت پٹو ہے۔ اس ملک کے باشندوں کا قول ہے کہ اگر ہم یہ نہ پہنیں تو ہوا کا اثر جسم پر ایسا ہوتا ہے کہ کھانا ہضم نہیں ہو سکتا۔ اس پٹو کا ایک کرتہ عورتیں تین چار سال تک پہنتی ہیں اور کبھی اسکو دھلواتی نہیں۔ بحالیکہ پانی یہ بہتات ہے کہ ہر محلہ میں نہر جاری ہے۔ اس گل زمین کے باشندے جدت فہم و ذکا اور جوہر رشادت سے آراستہ ہیں۔ کشمیری گول پگڑی پہنتے ہیں۔ آزار پہننا عیب جانتے ہیں۔ کرتہ دراز و فراغ سر سے پا تک پہنتے ہیں۔ اور کر باندھتے ہیں۔ اس ملک کے آدمی سوداگر اور اہل حرفت ہیں۔ سُنی، شیعہ اور ہنود کے علاوہ ایک فرقہ نور بخشی مذہب کا بھی ہے جو اہل سنت اہل تشیع دونوں کے برخلاف ہے۔ جہانگیر لکھتا ہے کہ عبادات و معاملات میں اس فرقہ نے اس قبیل کے تصرفات کئے ہیں۔ کہ ترفقہ عظیم ہو گیا ہے۔ میں نے ان کی کتاب موطۂ نور بخشہ علمائے ہندوستان کے پاس فتوے کے لئے بھیجی۔ جنہوں نے بالاتفاق لکھا کہ اس قسم کی کتاب کا مٹا دینا اور معدوم کر دیان واجبات و فرائض سے ہے۔ برہمنوں اور مسلمانوں کا لباس یکساں ہے لیکن برہمنوں کی مذہبی کتابیں سنسکرت زبان میں ہیں۔ وہ ان کو پڑھتے ہیں اور بت پرستی کی شرائط کو ادا کرتے ہیں۔ بت خانوں کی عمارتیں سنگین ہیں۔ اور بنیاد سے لیکر چھت تک ان میں تیس تیس چالیس چالیس من کے پتھر لگے ہوئے ہیں۔ شہر کے متصل کوہ ماراں یا ہری پربت ہے۔ جہاں والد ماجد نے ایک قلعہ بنوایا ہے۔ میں نے یہاں ایک باغ لگایا۔ جس کا نام نور افزا رکھا ہے۔

کشمیر میں نئی باتوں کا رواج

اقبال نامہ میں لکھا ہے کہ اکبر کے عہد میں کشمیر کا حاکم مرزا حیدر تھا۔ اس کے زمانہ میں کشمیر میں اسپ کلاں کی سواری اور بنائے عمارات دل نشیں اور اکثر وضع معقول کا رواج ہوا۔ اشجار میوہ دار کے پیوند لگانے کا رواج اکبر کے


صفحہ 18

زمانے سے پہلے تمام ہندوستان میں بھی نہ تھا۔ اس کو محمد قلی افشار داروغہ باغات کشمیر نے رواج دیا۔ اول کابل سے شاہ آلو کو منگوا کرپیوند دیا گیا تو یہاں کی آب و ہوا اس کو موافق آئی۔ جب اس میں کامیابی ہوئی تو اور بھی کئی درختوں کو آزمایا گیا۔ جن سے خوب شادابی بڑھی۔

دریائے جہلم کی سیر

جہانگیر لکھتا ہے جمعہ کو میں دیری ناگ کے سرچشمہ دریائے بہت (جہلم) کی سیر کو روانہ ہوا۔ پانچ کوس کشتی میں گیا۔ موضع پان پور کے باہر اترا لیکن کشتواڑ سے جب یہ خبر آئی کہ نصرالعرب کو (جس کو دلاور خاں حاکم کشتواڑ کی فتح اور راجہ کی گرفتاری کے بعد کشتواڑ کا محافظ بنا آیا تھا) کشتواڑیوں نےاس کے ظلم و تشدد کی وجہ سے ایک لڑائی میں مار ڈالا ہے تو تمام سیر متعفن ہو گئی۔

کشت زعفران

جہانگیر جب سیر کشمیر سے فارغ ہو کر ہندوستان کو واپس چلا تو زعفران کے پھول کھل رہے تھے۔ بادشاہ شہر سے کوچ کر کے موضع پان پور میں آیا۔ جو زعفران کی پیدائش کے لئے تمام کشمیر میں مشہور ہے۔ جہانگیر لکھتا ہے۔ جہان تک نظر کام کرتی تھی، پھول ہی پھول دکھائی دیتے تھے۔ اس کی نسیم دماغوں کو معطر کرتی تھی۔ زعفران کا مُنہ زمین سے پیوستہ ہوتا ہے۔ اس کے پھول کی پانچ پتیاں بنفشہ کے رنگ کی ہوتی ہیں، یہ معمولی سالوں میں 400 من یعنی 20 خراسانی من پیدا ہوتا ہے۔ نصف حصہ کالصہ یعنی بادشاہ کا ہوتا ہے۔ اور نصف حصہ رعایا کا۔ ایک سیر دس روپیہ کو فروخت ہوتا ہے۔ کبھی کبھی یہ نرخ کم و بیش بھی ہو جاتا ہے۔ گل زعفران کو تول کر کاریگر اپنے گھر لے جاتے ہیں اور زعفران اس میں سے نکالتے ہیں۔ وہ اس کو بادشاہی ملازموں کو دیتے ہیں۔ اور اپنی اجرت میں اُن سے زعفران کے وان کے برابر نمک لیتے ہیں۔ کشمیر میں نمک نہیں ہوتا۔ ہندوستان سے آتا ہے۔

کشمیر میں عمارات جہانگیری

بادشاہ چونکہ سفر کشمیر کے تجربہ سے برف باراں کی تکالیف اٹھا چکا تھا۔ اس لئے اس نے حکم دیا کہ کشمیر سے انتہائے کوہستان تک


صفحہ 19

ہر منزل میں بادشاہ اور اس کے اہل حرم کے لیے ایک عمارت عالیشان تعمیر کی جائے۔ کہ سرما اور بر میں خیموں میں گزارہ نہیں ہو سکتا۔ کشمیر کے معماران چابکدست اور کاروان زیرک نے بہت تھوڑے دنوں میں یہ عمارتیں تعمیر کر دیں۔ بادشاہ نے ایک باغ تعمیر کرایا۔ اس میں ایک تصویرخانہ بنوایا۔ جس میں سب سے اوپر اکبر اور ہمایوں کی تصویر تھی۔ پھر اپنی اور اپنے ہمعصر شاہ عباس والئے ایران کی۔ پھر درجہ بدرجہ شہزادوں اور امرائے خاص کی تصاویر رکھی گئیں۔

تھنہ دراجوری کے راستے واپسی

جہانگیر میں یہ بہت بڑی خوبی تھی کہ وہ جن مشہور اضلاع و مقامات میں سے گزرتا تھا۔ ان کے تاریخی حالات کی خوب تحقیقات کرتا اور وہاں کے باشندوں کی حالتیں، رسم و رواج، طرز معاشرت آب و ہوا، غرض ہر چیز کا بیان لکھتا۔ چنانچہ واپسی کے وقت جب وہ تھنہ میں پہنچا، جو پیر پنچال کے نشیب میں واقع ہے اور وہاں سے راجوری کو روانہ ہوا۔ تو اس منزل کی کیفیت میں لکھتا ہے کہ یہاں کے آدمی فارسی اور ہندی دونوں زبانیں بولتے ہیں۔ اصل زبان ان کی ہندی ہے۔ قرب و جوار کے سبب سے کشمیری بھی عام طور پر بولی جاتی ہے۔ یہاں کی عورتیں پشمینہ کا لباس نہیں پہنتیں۔ ہندوستان کی عورتوں کی طرح ناک میں نتھ کا استعمال کرتی ہیں۔ راجور کے باشندے پہلے زمانے میں ہندو تھے۔ یہاں کے رئیس کو راجہ کہتے ہیں۔ ہرچند یہاں مسلمان کثرت سے ہیں لیکن ہندو پنے کی رسمیں اُن میں جاری تھیں۔ یہاں تک تو ہوتا تھا۔ کہ ہندو عورتوں کی طرح مسلمان عورتیں بھی اپنے خاوند کے ساتھ زندہ دفن ہو جاتی تھیں۔ اکثر بضاعت اور جاہل آدمی اپنی لڑکیوں کو ہلاک کر ڈالتے تھے۔ ہندوؤں سے رشتہ داری بھی جاری تھی۔ لڑکی دیتے بھی تھے اور لیتے بھی تھے۔ جہانگیر لکھتا ہے کہ یہ حالات جب میرے گوش گزار ہوئے، تو میں نے سختی سے ایک فرمان جاری کیا۔ کہ پھر یہ باتیں نہ ہونے پائیں۔ اور جو کوئی ان کاموں کا


صفحہ 20

مرتکب ہو اس کو خوب سزا دی جائے۔ کسی مسلمان کا کسی ہندو کو لڑکی دے دینا سخت جرم قرار دیا گیا۔ لڑکی لینا چنداں جرم نہیں تھا۔

شاہجہان کی سیاحت کشمیر

شاہجہان عالم شہزادگی میں تو باپ کے ساتھ کئی مرتبہ کشمیر کی سیر کر چکا تھا۔ لیکن جب سے بادشاہ ہوا تھا نہ لاہور آیا تھا اور نہ کشمیر ہی گیا تھا۔ جلوس کے ساتویں سال یعنی 1043ھ؁ مطابق 1634ء؁ میں تیسری شعبان کو وہ اکبر آباد (آگرہ)سے لاہور کشمیر کی سیر کے لئے روانہ ہوا۔

بادشاہ عدل پرور اور رعایا گستر تھا۔ اُس نے حکم دیا کہ لشکر کے گذرنے سے رعایا پامال نہ ہو۔ اگر لوٹنے والے کے ہاتھوں میں زراعت کا ایک پودا بھی دیکھا جائے تو اس کے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں۔ اور صاحب کاشت کو اس کی قیمت دُگنی دلائی جائے۔ اور اگر کہیں بہ امر مجبوری افواج کی کثرت اور انبوہ عظیم اور راہوں کی تنگی خصوصاً کوہستانی رستوں کی مشکلات کی وجہ سے زراعت پامال بھی ہو تو خدا ترس امین اس کی برابر درد بنائیں اور رعیت کا حصہ رعیت کو اور جاگیردار کا حصہ جاگیردار کو بشرطیکہ دو ہزاری منصب سے کم درجہ رکھتا ہو، سرکار سے نقد دلایا جائے۔

دوستو! یہ خالی باتیں ہی نہ تھیں۔ طفل تسلیوں کے لئے کاغذی ناؤ ہی نہیں چلتی تھی۔ حصول انصاف کے لئے روپیہ پانی کی طرح بہا دینے کے باوجود مہینوں اور برسوں تک انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا۔ ان باتوں پر عمل ہوتا تھا۔ اور سختی سے ہوتا تھا۔ اور فوراً ہوتا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 21


بادشاہ 6 شوال کو لاہور پہنچا۔ آصف خاں (نور جہاں کے بھائی) نے اپنی عالیشان حویلی (۱) میں بادشاہ کی دعوت کی اور چھ لاکھ روپیہ پیشکس میں دیا۔ 24 ذیقعدہ کو بادشاہ کشمیر روانہ ہوا۔ لاہور سے بھمبر تک اپنے رعایا پرور احکام کی تعمیل کراتا آیا۔ یہاں اونٹوں کو چھوڑ دیا گیا۔ اور باربرداری کے لئے گھوڑے اور خچر مہیا کئے گئے۔ بھمبر سے کوہستان کشمیر اس زمانہ میں بارہ منزل اور 47 کوس تھا۔ جہانگیر نے گیارہ منزلوں میں عمارتیں تعمیر کرائی تھیں ہر ایک عمارت میں دولت خانہ خاص بھی بنایا۔ بادشاہ رستے کے مناظر دیکھتا۔ لوگوں کی فریادیں اور شکائتیں سنتا، رؤساء امرا کی نذریں قبول کرتا، 18 ذی الحجہ یعنی 24 دن کے بعد کشمیر کے دارالخلافہ سرینگر میں پہنچا۔ اس زمانہ میں ظفر خاں احسن گورنر کشمیر تھا۔ شاہجہاں ہر صبح و شام دلکشا باغوں میں بزم نشاط آراستہ کرتا۔ اور لالہ دریا حسین اشجار سراپا بہار و اشمار رنگیں، انہار و چشمہ و زلال و شیریں سے دل و دماغ کر فرحت بخشتا۔ بادشاہ نے محرم یہیں گزارا۔ 12 ربیع الاول کو محفل میلاد اپنے خاص اہتمام سے منعقد کی۔اور خاص و عام کو اس میں بلایا۔ اس موقعہ پر کشمیر کے علماء و فضلا، ۔۔۔۔۔۔ حفاظ کو خلعت گراں بہا مرحمت فرمائے۔ مدد معاش میں کسی کو جاگیر دی، کسی کا نقد روزینہ مقرر کر دیا۔ حکم دیا کہ ہرسال بادشاہ کی طرف سے محفل میلاد بارہ ہزار روپے کے خرچ سے ہوا کرے۔
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------
(۱) یہ حویلی 24 لاکھ کی لاگت سے بنی تھی۔ آصف خاں کے مرنے کے بعد دارا شکوہ کو ملی۔ سرائے میاں سلطان چاہ میاں سلطان، لنڈا بازار کا بہت سا حصہ اسی حویلی کے کھنڈرات پر آباد ہے۔



صفحہ 22

کشمیر میں بادشاہ قریباً تین مہینے تک رہا۔ 23 ربیع الاول کی کشتی کے رستے پانپور اور بج بہارہ سے ہوتا ہوا، اننت ناگ آیا جو اسلام خاں کی جاگیر میں تھا۔ بادشاہ نے اس کا نام اسلام خاں کے نام پر اسلام آباد رکھا۔ اور یہاں دلنشیں عمارتوں کی تعمیر کا حکم دیا۔

بادشاہ یہاں کشتی کی بجائے تخت رواں پر کہ خود ہی اس کا موجد بھی تھا، سوار ہوا۔ 7-ربیع الثانی کو رستے ہی میں جشن قمری کیا۔ قرب و جوار کے محتاجوں، غریبوں اور مستحقین کو خیرات و عطیات سے مالا مال کر دیا۔ 27-ربیع الثانی کو بھمبر میں منزل ہوئی۔ جو اس رستے سفرِ کشمیر کی آخری کوہستانی منزل ہے۔

اسی مقام پر بادشاہ کی پینتالیسویں سالگرہ کا جشن منعقد ہوا۔ شاہی کلاونت جگن ناتھ بادشاہ کے ساتھ رہتا تھا۔ اس نے ہندی دوہڑے سنا سنا کر بادشاہ کو ایسا محظوظ کیا۔ کہ بادشاہ نے حکم دیا اس کو روپیہ سے تولا جائے۔ اس کو تولا گیا۔ تو اس کا وزن ساڑھے چار ہزار روپئے کے برابر نکلا۔ جو بادشاہ کی طرف سے بطور انعام دے دیے گئے۔

بادشاہ گو اسی رستے کشمیر گیا تھا، لیکن روانگی کے وقت معمولی قیام ہواتھا۔ واپسی پر یہاں اپنی سالگرہ کے جشن کی وجہ سے اُسے کئی دن ٹھہرنا پڑا۔ او اس لئے کئی باتیں اس کے نوٹس میں لائی گئیں۔

جہانگیر کے سفر کشمیر میں ناظرین نے پڑھا ہو گا کہ علاقہ راجور میں مسلمان ہندوؤں سے لڑکیاں لیتے بھی تھے اور دیتے بھی تھے۔ جہانگیر کو جب قیام راجور کے ایام میں اس کا علم ہوا، تو اس نے اس رسم کو مٹانے کےلئے نہایت سخت احکام جاری کئے۔



صفحہ 23

شاہجہان بھمبر میں تھا۔ کہ اسی قسم کی شکائتیں اس کے بھی گوش گزار ہوئیں۔ اس کو بتایا گیا۔ کہ بھمبر کے مسلمان کلمہ تو پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے معنی نہیں جانتے۔ اسلام کی تعمیل سے قطعاً بے خبر ہیں۔ ہندوؤں سے رشتہ داریاں کرتے، ان سے بیٹیاں لیتے اور ان کو بیٹیاں دیتے ہیں۔ ہندو کی لڑکی جو مسلمان کی بیوی ہے، مرنے کے بعد دفن کی جاتی ہے۔ اور مسلمان کی لڑکی جو کسی ہندو کی عورت ہے، مرنے کے بعد جلائی جاتی ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا میرے باپ کے احکام کی پھر تجدید کی جائے۔ اور جس ہندو کے گھرمیں کوئی مسلمان عورت ہو، اگر وہ ہندو مسلمان ہو جائے تو عورت کا نکاح از سر نو اس سے کیا جائے۔ اور اگر وہ ہندو مسلمان نہ ہو تو مسلمان عورت کو اس سے علیحدہ کر لیا جائے۔ لیکن قبولیت مذہب کے معاملہ میں سختی نہ کی جائے۔ بھمبر کا راجہ جو ہندو تھا، اور جس کے محل میں کئی مسلمان عورتیں تھیں مسلمان ہو گیا۔ بادشاہ نے راجۂ دولتمند اس کو خطاب دیا۔ راجہ دولت مند کی تقلید جگہ جگہ ہونے لگی۔ یہاں تک کہ گجرات و بھمبر کے علاقہ میں چار سو ہندو جن کے گھروں میں مسلمان بیویاں تھیں ، مسلمان ہو گئے۔ بادشاہ نے مسلموں کو احکام شریعت اور آداب عبادت سکھانے کےلیے قاضی اور معلم مقرر کئے۔

بادشاہ جب بھمبر سے جوائی گجرات میں آیا تو قصبہ کے مشائخ و سادات نے یہ استغاثہ پیش کیا کہ بھمبر کی طرح یہاں بھی کئی ہندو مسلمان عورتوں کو اپنے تصرف میں رکھتے ہیں اور کئی مسجدوں پر انہوں نے قبضہ جما رکھا ہے۔ بلکہ ان کو مکانات کی شکلوں میں تبدیل کر لیا ہے۔ بادشاہ نے شیخ محمود گجراتی کو اس مقدمہ کی چھان بین اور تحقیقات کے لئے مقرر کیا۔



صفحہ 24

اُن نے تحقیقات کرنے کے بعد بادشاہ کے حکم سے کئی مسلمان عورتوں کو ہندوؤں کے قبضہ سے نکالا۔ اور متدین اور پرہیز گار مسلمانوں کے ساتھ اُن کے نکاح کئے۔ کئی مسجدیں ہندوؤں سے واپس لیں جن کی شکلیں تبدیل کر دی گئی تھیں۔ ان کی تعمیر و مرمت کے لئے روپیہ بھی انہی سے لیا۔ جن لوگوں نے قرآن مجید کی نہ صرف بے ادبی کی تھی، بلکہ مسلمانوں کی دل آزاری کےلئے مسلمانوں کو دکھا دکھا کر جلایا کرتے تھے، بعد از ثبوت ان کو قتل گاہ میں لے جا کر پھانسی دی گئی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ مہمات شرعی کے متکفل سارے پنجاب میں اس بات کی تحقیق کریں کہ کہاں کہاں مسلمان عورتیں ہندوؤں کے قبضہ میں ہیں۔ اور جہاں کہیں ایسی صورت ہو فوراً احکام شاہی کی تعمیل کرائی جائے۔

بادشاہ 25 شوال 1049ھ؁ کو پونچھ کے راستے سے پھر کشمیر کو روانہ ہوا۔ اس زمانہ میں بھی ظفر خاں احسن ہی گورنر تھا۔ اس سفر کی تین باتیں قابل ذکر ہیں، ایک تو یہ کہ سلطان مراد (ٹرکی کا سفیر) ارسلان آقا بادشاہ کی خدمت میں آیا۔ چونکہ بادشاہ ان دنوں کشمیر میں تھا۔ اس لئے سفیر روم کو بھی کشمیر ہی میں بُلوا لیا گیا۔ جہاں بادشاہ نے اس کو کشمیر کی خوب سیر کرائی۔

ڈل اور ولر کے کناروں پر نواب علی مردان خاں نے اس کثرت اور اس خوبی سے چراغوں کی روشنی کرائی۔ کہ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ شاہجہان نے سُنا کہ ان ایام میں سنگ سفید پر جو سری نگر سے دو تین منزل کے فاصلہ پر ہے۔ بڑی بہار ہے۔ رستہ ہر چند بڑا دشوار گزار



صفحہ 25

اور ناہموار بتایا گیا۔ اور یہ بھی کہا گیا کہ وہاں موقع بے موقع عموماً بارش ہوتی رہتی ہے۔ لیکن بادشاہ نے فرمایا وہ جگہ ضرور دیکھنی چاہیے۔ چنانچہ ضروری سامان کے ساتھ تیاریاں شروع ہو گئیں۔ ابھی منزل مقصود پر پہونچنے بھی نہیں تھے کہ مینہ اس زور سے برسا اور ہوا میں ایسی خُنکی پیدا ہو گئی کہ سوار اور پیدل اور انسان اور حیوان سب لرزہ براندام ہو گئے۔ جنس پختہ یا خام جیسی ہمراہ تھی ویسی ہی رہی۔ نہ اس کو کھانے پکانے کی فرصت ملی اور نہ اس کی مناسب احتیاط ہو سکی۔ تین چار روز تک بارش اور ہوا کا برابر ساتھ رہا۔ آسمانوں اور پہاڑوں سے پانی کے نالے بہتے تھے اور پتھروں سے پانی اس زور سے ٹکرا رہا تھا کہ دور دور تک آواز جاتی تھی۔ بلکہ کیچڑ اور پانی کی طغیانی سے راہیں بالکل ناپید ہو گئیں۔ بادشاہ ہمراہیوں سمیت واپس آیا۔ رستے میں پانی کی شدت اور دلدل کی کثرت کی وجہ سے آدمی اور گھوڑے بہت ضائے ہوئے۔ چار کوس کی منزل چھ پہر میں طے کی گئی۔ اور مینہ نے پھر بھی فرصت نہ دی۔

اس سال طغیانی و سیلاب سے ڈل کے چار ہزار گھر اور دریا کے کنارے پر جو گاؤں آباد تھے، ان میں سے چار ہزار گھر اور پرگنات بھمبر وغیرہ کے دیہات میں سے چار سو ستسی گھر خس و خاشاک کی طرح بہ گئے۔ اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ زراعت کا کیا حال ہوا ہو گا۔ اور قحط کی شدت اور اجناس کی نایابی نے کیا ستم ڈھایا ہو گا۔ سرینگر میں صدہا مکانات منہدم ہو گئے۔ کئی دنوں تک بازار بند رہے۔ اور آمد و رفت بالکل موقوف ہو گئی۔ بادشاہ اس مرتبہ 6 ماہ تک کشمیر رہا۔ لیکن قحط و سیلاب کی خوفناک حالت دیکھ کر 7-جمادی الثانی 1050ھ؁ کو واپس روانہ ہوا۔ اور ۔۔۔۔ شعبان کو لاہور پہنچ گیا۔


صفحہ 26

بادشاہ نے لاہور پہنچ کر ڈیڑھ لاکھ روپیہ کشمیر کے قحط زدوں لوگوں کی امداد کے لئے بھیجا۔ ظفر خاں احسن ناظم کشمیر نے رعایا کی طرف سے بادشاہ کا شکریہ ادا کیا اور عرض کیا کہ اگر تیس ہزار روپیہ تخم ریزی کے لئے زمینداروں کو مزید مرحمت ہو، تو ملک آبادی و خوشحالی کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ بادشاہ نے اسے منظور کرلیا۔

تیسری مرتبہ بادشاہ 6-صفر 1054ھ؁ کو لاہور سے کشمیر کی طرف روانہ ہوا۔ اس زمانہ میں بھی ظفر خاں احسنؔ ناظم کشمیر تھا۔ اسی سفر میں بادشاہ نے چشمہ ویر ناگ کی مرمت کا حکم دیا۔ اور چشمہ کے منبع پر ایک آبشار تعمیر کرائی۔ جس کے ایک پتھر پر ع: از چشمہ بہشت برو آمدست جُو، تاریخ تعمیر کندہ ہے۔

چشمہ بہت 1073۔ جوئے 19-1054ھ

بادشاہ کی پیاری بیٹی جہاں آرا بیگم نے جو بادشاہ بیگم کے خطاب سے ملقد تھی، صفاپور میں جو بادشاہ بیگم کی جاگیر میں اور اپنی خوبیوں اور اپنے دلکش مناظر کی وجہ سے اسم بامسمیٰ تھا، بادشاہ کی ضیافت کی۔ اور ماتش مل کے ارد گرد ایسی دیدہ فروز روشنی کی کہ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ شہزادی نے بہت سا نقد و جواہر بادشاہ کی پیشکس میں دیا۔

بادشاہ نے چوتھا یعنی آخری سفر کشمیر جلوس، بست و پنجم 1060ھ؁ و 1061ھ؁ میں کیا۔ اس سفر میں بادشاہ اپنے بیٹے دارا شکوہ کے مرشد ملا شاہ بدخشانی کی ملاقات کےلئے اس مسجد (۱) میں گیا۔ جو جہاں آرا بیگم نے اپنے بھائی دارا شکوہ کے پیر کی خوشنودی کے لئے چالیس ہزار روپے کی لاگت سے زیارت حضرت مخدوم صاحب
-------------------------------------------------------------------------------------
(۱) یہ مسجد افسوس ہے سالہا سال سے موجودہ حکومت کشمیر نے ضبط کر رکھی ہے۔



صفحہ 27

قرب میں تعمیر کرائی تھی۔ اور جس کے اطراف میں فقراء و طلبا کے رہنے کے لیے مکانات بھی تعمیر کرائے گئے تھے۔ ملاشاہ نے جو اپنی حق آگاہی و صفا کیشی کی وجہ سے پنجاب و کشمیر میں بہت مشہور تھے، بادشاہ کی آمد پر ایک نظم پڑھی۔ جس کا پہلا شعر یہ ہے :

امروز شاہ شاہاں مہماں شد است مارا
جبرئیل با ملائک درباں شد است مارا

بادشاہ مسجد میں گیا۔ اور حضرت شاہ صاحب کے پاس دیر تک بیٹھ کر ان کی نصیحت اموز باتیں سُنتا رہا۔ اس زمانہ میں کشمیر کا گورنر حسن بیگ خاں تھا۔ جس کا عہد حکومت صرف 2/1-1 سال ہی رہا ہے۔

جب بادشاہ کشمیر میں تھا، تو لوگ خشک سالی کی وجہ سے بہت بے چین تھے۔ آخر مینہ برسا، تو ایسا برسا کہ زراعت تو ایک طرف، گزار اور سبزہ زار اور ثمرہ دار درخت سب تباہ ہو گئے۔ اس وقت بادشاہ کو کشمیر میں آئے ہوئے دو ماہ ہو چکے تھے۔ طبیعت اس قسم کے واقعات دیکھ کر بہت پراگندہ ہو گئی۔ فرمایا۔ لاہور اور شاہجہان آباد کے باغات و مرغزار و مصفیٰ و مجلیٰ مکانات چھوڑ کر محض حط نفس کے لئے اس مسافت بعیدہ کو طے کرنا اور مختلف پیرایوں میں خلق خدا کو مصیبت و تکلیف میں مبتلا کرنا ناخدا پرستوں کے نزدیک مناسب نہیں ہے۔ دریا کو عبور کرنے میں پُل جو بہت پرانا تھا، ٹوٹ گیا۔ ڈھائی سو آدمی، کئی جانور، اور بہت سا اسباب دریا میں جا پڑا جس میں سے ایک سو آدمی طعمئہ نہنگ اجل ہو گئے۔ اس سے بادشاہ کی طبیعت اور بھی مکدر ہو گئی۔ اور پھر جب تک کہ وہ بادشاہ رہا، یعنی 1068ھ؁ تک کشمیر میں نہیں آیا۔


صفحہ 28

اورنگ زیب عالمگیر اور جنتِ کشمیر

سیر کشمیر کا شوق عالمگیر کے لئے جدی ورثہ تھا۔ اکبر، جہانگیر، شاہجہان ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی کئی دفعہ کشمیر کی سیر سے محظوظ ہو چکے۔ عالمگیر بھی برسوں سے کشمیر کو جنت نظیر سن رہا تھا۔ آخر ششم سال جلوس 1073ھ؁ میں رمضا کے مہینہ میں کہ پچیسویں تاریخ تھی۔ قلعہ لاہور سے سفر کشمیر کے لئے باہر نکلا۔

اہل حرم کی کئی پالکیاں ساتھ نہیں۔ ہاتھی، گھوڑتے، فوج، لشکر کا انبوہ کثیر تھا۔ شان و شوکت اور جاہ جلال کے ساتھ رستے کے نشیب و فراز کی تکالیف اٹھاتا بعض دلکش مقامات کی سیر کرتا اور کئی کئی دن وہاں ٹھہرتا 5 ذیقعدہ کے مہینہ میں سرینگر پہنچ گیا۔ اس سفر میں کئی جانور اور کئی آدمی پہاڑی دشوار گزار راہوں کی نذر ہو کر غاروں میں گرتے رہے۔ ایک فیل کوہ پیکر بھی پہاڑ کے ڈھلوان سے قلابازیاں کھاتا اپنی لپیٹ میں بہت سے لشکروں اور کئی کنیزوں کو لیکر چاہ عدم میں جا پہنچا۔

کشمیر میں عالگیر کا ایک نہایت معتگر افسر راجہ رگناتھ متصدی مہمات دیوانی کے عہدہ پر تھا۔ وہ بادشاہ کی موجودگی ہی میں انتقال کر گیا۔ بادشاہ نے اس کے مرنے کا بڑا غم کیا۔ اور وزارت کا منصب جلیل القدر فاضل خاں میر سامان کو عنایت کیا۔ جو عالمگیر کے آخری عہد حکومت میں کشمیر کا گورنر بھی ہو گیا۔

شاہجہان کے زمانہ سے اُناسی ہزار روپیہ بوساطت صدر الصدور


صفحہ 29

ارباب استحقاق کو بلا تمیز مذہت و ملت ملتا تھا۔ اور مہینوں کے حساب سے اس کی تقسیم اس طرح ہوتی تھی۔ محرم اور ربیع الاول میں بارہ بارہ ہزار روپیہ، رجب میں دس ہزار روپیہ، شعبان میں پندرہ ہزار روپیہ، رمضان میں بیس (20) ہزار روپیہ، باقی سات مہینے خالی رہتے تھے۔ عالمگیر نے حکم دیا کہ اس خیرات کے علاوہ باقی سات مہینوں میں دس (ّ10) دس (10) ہزار روپیہ فی ماہ کے حساب سے خیرات دی جایا کرے۔ غرض سالانہ خیرات کی رقم جو اناسی ہزار تھی، اب ایک لاکھ انچاس ہزار تک کر دی گئی۔

"بادشاہ نامہ عالمگیری" نے اس بات کی تصریح نہیں کی کہ یہہ خیرات سارے ہندوستان کے لئے تھی، یا صرف کشمیر کے لئے، لیکن اس کا ذکر چونکہ کشمیر کے حالات میں ہے۔ اس لئے خیال ہے کہ اس خیرات کا تعقل کشمیر ہی سے ہے۔

17-ذیقعدہ کو بادشاہ کی عمر کا سینتالہسواں سال شروع ہوا۔ جشن قمری میں کئی مستحقین کو انعام و اکرام ملے۔ اسی جگہ بادشاہ کو اپنے وزیر اعظم فاضل خاں کے متعلق جس کی عمر ستر (70) سال کی تھی، اطلاع ملی کہ وہ یگانہ روزگار جامع العلوم ہمیشہ کے لئے رخصت ہو گیا۔ لاہور میں اُس نے اپنا مقبرہ بنورایا تھا، وہیں دفن ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ بادشاہ کو اس کے مرنے کا بہت سخت صدمہ ہوا۔ یہاں تک کہ عید الضحیٰ کا دربار اور تمام مراسم ملتوی کر دیئے گئے۔ فاضلخان کا بھتیجا بادشاہ کے پاس آیا۔ اس کو تسلی و تشفی دینے کے بعد خلعت و منصب عطا کیا گیا۔



صفحہ 30

بادشاہ نے ڈل کی سیر کی۔ ڈل کے دونوں طرف چراغاں کیا گیا۔ عجب کیفیت تھی۔ یہاں سے دیری ناگ کے چشمہ پر گیا۔ جہاں اس کے باپ (شاہجہان) اور دادا جہانگری) نے دلنشیں اور خوبصورت عمارتیں تعمیر کرائی تھیں ۔ اور افسوس ہے آج جن میں سے بہت سی مٹ چکی ہیں۔ اور بہت سی کھنڈرات کی صورت میں موجود ہیں۔ صرف چشمہ کے گرد جو چاروں طرف عمارت ہے وہ موجود ہے۔ گو اس کی حالت بھی ابتر ہے۔ پان پور میں زعفران زار کو دیکھا۔ لیکن کچھ رستے کی تکلیفات، آدمیوں اور جانوروں کے اتلاف، اور وزیر اور دیوان کی موت کی وجہ سے بادشاہ کا غنچۂ خاظر چمنستان کشمیر میں ناشگفتہ ہی رہا۔بلکہ فرمایا کہ ضروری امورات ملکی کے بغیر یہاں صرف سیر و شکار کے لئے بادشاہوں کا آنا رائے صائب کے خلاف ہے۔ آخر بادشاہ تین ماہ کے قیام کے بعد 7 صفر کو لاہور واپس چلا آیا۔

-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

تمام شد۔
 
Top