تین عورتیں تین کہانیاں

تین عورتیں، تین کہانیاں

تین عورتیں تین کہانیاں نام سُنتے یا پڑھتے ہی ذہن اخبار جہاں کے رنگین صفحوں کی طرف چل دوڑتا ہے جس میں (تین عورتیں، تین کہانیاں) کے نام سے کہانی کا ہونا کامیابی اور قاری کو اپنی طرف راغب کرنے کا ضروری عنصر سمجھا جاتا رہاہے۔ نام ہی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس میں کہانی خواتین کے مثلث گروپ کے گرد گھومتی ہے۔ جس میں یا تو ساس، بہو اور بیٹی کبھی سالی، بیوی اور بہن یا پھر اسی طرح کے رشتوں کے دمیان گھریلو ناچاقی کا ہونا لازم ہوا کرتا تھا اور جتنی ذہنی اذیت ان کہانیوں نے ہماری گھریلو خواتین کو دی ہے شاید ہی کسی اور ذرائع سے انھیں یہ اذیت نصیب ہوئی ہو۔ شریف اور سیدھی سادھی خواتین ان کہانیوں کو پڑھ کر ہائے، ہائے کا وِرد کرتی تو چالاک اور تیزطرار عورتیں ان کہانیوں سے گُر سیکھتی۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جولائی 2020، ٹیکنالوجی اور مصروف ترین دور میں بندہ ناچیز کو (تین عورتیں ، تین کہانیاں) کا عنوان کیسے ذہن میں آیا اور اس سے بھی بڑھ کر ایک مضمون نما کہانی لکھنے کی طرف آنا ضرور دال میں کچھ تو کالا ہے۔ اور اس دال میں کالے پن کا پورا سہرہ "علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی" کو جاتا ہے۔ گزشتہ برس کسی خیر خواہ نے یہ مشورہ دیا تھا کہ "علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی" سے بی ایڈ کرلیں کافی سودمند ثابت ہوسکتا ہے لیکن اتنا سود مند ثابت ہوگا، کہ جنس کی پہچان بھی نہیں ہوگی یہ کبھی سوچا نہیں تھا۔

بی ایڈ (5۔2) سالہ کورس کے پہلے سیمسٹر میں جب ہمارے کورس کوڈ 6401 کی ٹیچر "ہنی رضا Honey Raza" مقرر ہوئی تو جب ان سے اسائمنٹ معلومات کیلئے رابطہ کرتا رہتا تو میں انھیں ( السلام علیکم سر) لکھ کر مخاطب کرتا اور جواب ملنے پر (شکریہ سر) کا جواب دیتا، اور یہ سلسلہ چلتا رہا لیکن جب ایک بار ان کا Voice Message گروپ میں آیا تو سن کر 440 والٹ کا جھٹکا لگا اور شکر کیا کہ اچھا ہوا کبھی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور میم کو سر کہنے کے بعد بھی ان کے جوابات سے کبھی محروم نہیں ہونا پڑا اور اچھے نمبرات بھی ملے اور سیمسٹر بھی پورا ہوا۔
سنا تھا تاریخ خود کو دہراتی ہے لیکن اتنا جلدی دہرائے گی اسکا اندازہ دوسرے سیمسٹر میں ہوا جب کورس کوڈ 8609 کی ٹیچر "فرحت شہاب رضا Farhat Shahab Raza" سے سامنا ہوا۔ اب ان تینوں ناموں فرحت، شہاب اور رضا میں کون سا نام خواتین کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن ہماری تو قسمت ہی ایسی ہے کیا کریں انھیں مسیج کیا (السلام علیکم سر ) اور باقی روداد لکھی، جواب بھی ملا اور حسب روایت (شکریہ سر) کا جواب بھی دیا لیکن انھوں نے تصحیح کی اور لکھا (میم ) اور پھر مارے شرمندگی کے جواب ہی نہیں دے پایا.
اور اس بار یعنی تیسرے سیمسٹر میں 6497 کے ٹیچر کا موبائل نمبر پر مسیج آیا اسائمنٹ جمع کروانے کے حوالے سے اور آخر میں اپنا نام ڈاکٹر نسیم سرور Dr Nasim Sarwar درج تھا۔ اب چونکہ پہلے ہی دوبار میں دھوکا کھا چکا تھا سوچا کیاکروں جواب دوں یا نہ دوں اور آخر کار میں نے جواب دیا (Ok Ma'am) لیکن شومئی قسمت اس بار بھی نشانہ صحیح جگہ نہیں لگا اور مسیج آیا (Dear Student, Dr Muhammad Nasim Sarwar) اب میں نے سوچا کہ کیاکروں سر دیوار پہ دے ماروں یا دیوار سر پہ ماروں لیکن خربوزہ چھری پہ گرے یا چھری خربوزے پہ نقصان تو خربوزے کا ہی ہوگا اور پھر وہ خربوزہ یعنی کے طالب علم "علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی" کا ہو تو سونے پہ سہاگہ۔ اب جہاں بہت کچھ جھیل رہے ہیں ، سیکھ رہے ہیں وہاں اُمید ہے یہ مسئلہ بھی مسئلہ کشمیر کی طرح گھمبیر نہیں ہوگا اور ہم اس جنسی پہچان جیسے مسئلے پر بھی اپنی گرفت بٹھا لینگے اور سر کو سر اور میم کو میم کہنے کی پوزیشن میں آجائینگے (انشاء اللہ)

وقار علی
(19 جولائی 2020)
 
آخری تدوین:
تین عورتیں تین کہانیاں نام سُنتے یا پڑھتے ہی ذہن اُردو ڈائجسٹ کی رنگین صفحوں کی طرف چل دوڑتا ہے جس میں (تین عورتیں، تین کہانیاں) کے نام سے کہانی کا ہونا کامیابی اور قاری کو اپنی طرف راغب کرنے کا ضروری عنصر سمجھا جاتا رہاہے
تین عورتیں تین کہانیاں اردو ڈائجسٹ کا نہیں بلکہ "اخبارِ جہاں" ک مقبول سلسلہ رہا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
آخری تدوین:
اب جہاں بہت کچھ جھیل رہے ہیں ، سیکھ رہے ہیں وہاں اُمید ہے یہ مسئلہ بھی مسئلہ کشمیر کی طرح گھمبیر نہیں ہوگا اور ہم اس جنسی پہچان جیسے مسئلے پر بھی اپنی گرفت بٹھا لینگے اور سر کو سر اور میم کو میم کہنے کی پوزیشن میں آجائینگے (انشاء اللہ)
ایک پرانے محلے دار لڑکے ”ذیشان“ کا تقریباً 20 سال بعد کہیں ذکر ہو رہا تھا تو پتہ چلا کہ اُن کی شادی ’’مس وقار‘‘ کے ساتھ ہوئی ہے۔ ہمیں بھی یہ سن کر بقول آپ کے 440 واٹ کا جھٹکا لگا تھا کہ ”اللہ خیر کرے کہیں پاکستان میں بھی تو یہ سلسلہ شروع نہیں ہو گیا جو کہ آج تک مذہبی و معاشرتی اقدار سے متصادم اور خلافِ فطرت سمجھا جاتا تھا۔“ بہرحال ”وقار علی“ ہمیں بھی آپ کو مخاطب کرتے ہوئے محترم یا محترمہ لکھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ کہیں جانے اَن جانے میں حقیقت کے برعکس الفاظ کے چناؤ سے ہمیں بھی شرمساری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ واضح رہے کہ خاکسار کو ”ذیشان“ نامی لڑکی دیکھنے کا بھی شرف حاصل رہا ہے جبکہ اکثر و بیشتر یہ نام صرف لڑکوں کے لیے ہی مخصوص رہا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک پرانے محلے دار لڑکے ”ذیشان“ کا تقریباً 20 سال بعد کہیں ذکر ہو رہا تھا تو پتہ چلا کہ اُن کی شادی ’’مس وقار‘‘ کے ساتھ ہوئی ہے۔ ہمیں بھی یہ سن کر بقول آپ کے 440 واٹ کا جھٹکا لگا تھا کہ ”اللہ خیر کرے کہیں پاکستان میں بھی تو یہ سلسلہ شروع نہیں ہو گیا جو کہ آج تک مذہبی و معاشرتی اقدار سے متصادم اور خلافِ فطرت سمجھا جاتا تھا۔“ بہرحال ”وقار علی“ ہمیں بھی آپ کو مخاطب کرتے ہوئے محترم یا محترمہ لکھنے کی ہمت نہ ہوئی کہ کہیں جانے اَن جانے میں حقیقت کے برعکس الفاظ کے چناؤ سے ہمیں بھی شرمساری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ واضح رہے کہ خاکسار کو ”ذیشان“ نامی لڑکی دیکھنے کا بھی شرف حاصل رہا ہے جبکہ اکثر و بیشتر یہ نام صرف لڑکوں کے لیے ہی مخصوص رہا ہے۔
سر میں جب ایم بی اے کر رہی تھی تو کچھ نئے بچوں کے نام سن کے بڑی حیرت ہوئی ایک بچے کا نام انم اور دوسرے کا نام دعا۔کلاس میں حاضری کے دوران انکشاف ہوا دونوں لڑکے ہیں۔ ایک انم خان دوسرے دعا احمد۔۔۔۔۔۔۔
 
Top