پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں توہین رسالت کے مقدمے میں ملزم کو قتل کردیا

Anees jan

محفلین
_113698605_6cdcb48b-c97f-416a-ac26-ab1986f4367e.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@SABIHULHUSSNAIN


پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں توہین رسالت کے مقدمے میں ملزم کو عدالت میں جج کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔

یہ واقعہ بدھ صبح سیشن جج شوکت علی کی عدالت میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق ملزم طاہر احمد نسیم کو عدالت میں مقدمے کی سماعت کے لیے لے جایا گیا تھا جہاں ایک شخص عدالت میں داخل ہوا اور ان پر فائرنگ کر دی۔

پولیس کے مطابق حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پشاور کے تھانہ شرقی میں موجود پولیس اہلکاروں نے بی بی سی اردو کے عزیز اللہ خان کو بتایا ہے کہ ملزم طاہر احمد نسیم پشاور کے رہائشی تھے اور گذشتہ کچھ عرصے سے توہین رسالت کے ایک مقدمے میں جیل میں تھے۔

پولیس کے مطابق جب طاہر احمد کو جیل سے عدالت میں پیش کرنے کے لیے لایا گیا تو وہاں موجود لوگوں کے مطابق اس دوران ایک شخص آیا اور طاہر احمد سے بحث کی جس کے بعد اُس شخص نے کمرۂ عدالت میں طاہر احمد پر فائرنگ کر دی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔

سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس پشاور منصور امان نے بی بی سی کو بتایا اس واقعہ کے بارے میں جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم جے آئی ٹی قائم کر دی گئی ہے جس میں ماہر اہلکار شامل ہیں تاکہ اس واقعہ کی تہہ تک پہنچا جا سکے
 

جاسم محمد

محفلین
_113698605_6cdcb48b-c97f-416a-ac26-ab1986f4367e.jpg

،تصویر کا ذریعہTWITTER/@SABIHULHUSSNAIN


پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں توہین رسالت کے مقدمے میں ملزم کو عدالت میں جج کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔

یہ واقعہ بدھ صبح سیشن جج شوکت علی کی عدالت میں پیش آیا۔ پولیس کے مطابق ملزم طاہر احمد نسیم کو عدالت میں مقدمے کی سماعت کے لیے لے جایا گیا تھا جہاں ایک شخص عدالت میں داخل ہوا اور ان پر فائرنگ کر دی۔

پولیس کے مطابق حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

پشاور کے تھانہ شرقی میں موجود پولیس اہلکاروں نے بی بی سی اردو کے عزیز اللہ خان کو بتایا ہے کہ ملزم طاہر احمد نسیم پشاور کے رہائشی تھے اور گذشتہ کچھ عرصے سے توہین رسالت کے ایک مقدمے میں جیل میں تھے۔

پولیس کے مطابق جب طاہر احمد کو جیل سے عدالت میں پیش کرنے کے لیے لایا گیا تو وہاں موجود لوگوں کے مطابق اس دوران ایک شخص آیا اور طاہر احمد سے بحث کی جس کے بعد اُس شخص نے کمرۂ عدالت میں طاہر احمد پر فائرنگ کر دی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔

سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس پشاور منصور امان نے بی بی سی کو بتایا اس واقعہ کے بارے میں جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم جے آئی ٹی قائم کر دی گئی ہے جس میں ماہر اہلکار شامل ہیں تاکہ اس واقعہ کی تہہ تک پہنچا جا سکے
جس ملک میں توہین رسالت کا ملزم جرم ثابت ہونے سے قبل ہی عدالت میں قتل کر دیا جائے۔ اس ملک میں عدل و انصاف پر انا للہ پڑھ لینا چاہیے
 

زیک

مسافر
زیک بھائی مذہب کو نشانے بنائے بغیر بھی یہ بات کہی جا سکتی تھی یا نہیں؟
حضور مذہب کو نشانہ تو قاتل نے بنایا اور یہاں لڑی بنانے والے کے عنوان میں “الحمدللّٰہ” شامل کرنے نے۔ جو کوئی بھی اس قتل کا دفاع کر رہا ہے وہ مذہب ہی کے نام پر کر رہا ہے۔ تو میں نے بھی اسی مذہب کی بات کی۔ اگر آپ کا مذہب آپ کو یہ سکھاتا ہے کہ ایسا قتل غلط ہے تو یقیناً آپ کے مذہب کا اس بد مذہب سے کوئی تعلق نہیں
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
مذکورہ شخص کی، گستاخیوں پر مبنی ویڈیوز موجود ہیں
عشق رسولؐ اور گستاخی کے الزام میں سزا کا نیا رجحان
30/07/2020 عدنان خان کاکڑ

ہم بچپن سے ہی نصابی کتب میں پڑھتے آئے ہیں کہ کیسے غازی علم دین شہید نے اس گستاخ پبلشر کو قتل کر دیا تھا جس نے ایک توہین آمیز کتاب شائع کی تھی۔ حکیم الامت علامہ اقبال جیسی جلیل القدر ہستی سے منسوب ہے کہ انہوں نے یہ سن کر فرمایا تھا ترکھانوں کا لڑکا بازی لے گیا ہے۔ انگریز راج تھا، وہ ہندو، مسلم، سکھ اور مسیحی سب کو تقریباً ایک نظر سے دیکھتے تھے اور سب کے لیے قانون مشترکہ تھا۔ اس لیے مسلمانوں کے جذبات کی انہوں نے پروا نہیں کی تو علم دین نے پبلشر کو قتل کر دیا۔ آج تک نصاب سے منبر تک علم دین نامی جوان کی تعریف کی جاتی ہے۔

سلمان تاثیر کا معاملہ آتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ممتاز قادری نے ایک شعلہ بیان مقرر کا بیان سنا کہ سلمان تاثیر نے اسلام کی شان میں گستاخی کی ہے۔ اس نے سلمان تاثیر کو قتل کر دیا۔ بعد میں شعلہ بیان مقرر نے عدالت میں حلف نامہ جمع کروایا کہ میں نے تو ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔

جب یہ معاملہ گرم تھا اس وقت تو مفتی تقی عثمانی خاموش رہے مگر کئی برس بعد سلمان تاثیر کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ’یہاں صورت حال جو تھی وہ ذرا مشکوک تھی، جیسا بیان کیا کہ آیا واقعتاً اس کی بات گستاخی رسول تک پہنچتی تھی یا نہیں پہنچتی تھی یہ بات واضح نہیں تھی اس حالت میں اس (ممتاز قادری) نے اس (سلمان تاثیر) کو قتل کیا۔ لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جذبہ اس کا بڑا نیک تھا۔ جذبہ یہی تھا کہ نبی ﷺ کی شان میں گستاخی ہوئی ہے لہذا میں اس کا بدلہ لوں گا۔ جذبہ نیک تھا۔ اس نیک جذبے کی وجہ سے اس شخص کے حق میں بھی نیک گمان رکھنا چاہیے۔ اور اس نے جو کچھ کیا وہ نبی کریم ﷺ کی تعظیم اور تکریم کی نیت سے کیا اس واسطے اللہ تعالی کے ہاں امید ہے کہ وہ [غیر واضح لفظ: محظوظ؟ ] ہی ہو گا اللہ کی رحمت سے‘ ۔

یعنی غیر واضح بات یا افواہ پر بھی کوئی کسی کو قتل کر دے تو قاتل کے نیک جذبے کی وجہ سے اس کے متعلق نیک گمان رکھنا چاہیے۔ مقتول کے متعلق گمان بد ہی رکھنا پڑے گا خواہ وہ معصوم ہی کیوں نا ہو۔

لیکن اس معاملے میں ایک نیا رجحان پریشان کن ہے۔ قاتل اب میٹرک اور ایف اے کی عمر کے بچے ہیں۔ ہم وہ لوگ تھے جن کے دادوں نانوں نے غیر مسلم دیکھے تھے اور ان سے تعلق واسطے رکھے تھے۔ تعلیم ضیا کے دور میں پائی لیکن بزرگوں نے انسانی زندگی کا کرنا اور فکری مخالفین کا بھی احترام سکھایا تھا۔ اب وہ نسل آ رہی ہے جس نے صرف یہود و ہنود کی دشمنی کا سبق پڑھ رکھا ہے۔ اس کے بزرگ اور اساتذہ، ضیائی برین واشنگ کا شکار رہے ہیں۔ وہ جو بھی کریں کم ہے۔

سنہ 2017 میں چنیوٹ کے گاؤں عاصیاں میں ایک مسجد کے اندر سوئے ہوئے تبلیغی جماعت کے دو افراد کو گاؤں کے ایک حافظ اکرام نامی نوجوان نے پھاوڑے کے وار کر کے قتل کر دیا۔ وجہ نزاع یہ بیان کی گئی کہ تبلیغی جماعت کے ان افراد کی عقائد کے معاملے پر حافظ اکرام نامی مقامی شخص سے بحث چھڑ گئی تھی۔ حافظ اکرام نے اپنے مسلک کے مولوی صاحب سے جب تبلیغی جماعت کے ان عقائد کا ذکر کیا تو انہوں نے اسے گستاخی رسول قرار دیا۔ چنانچہ حافظ اکرام نے خدا رسول کے راستے میں دین کی تبلیغ کے لیے نکلے ہوئے ان بزرگوں کو گستاخی کا مجرم جان کر قتل کر دیا۔

جنوری 2018 میں شبقدر کے نجی کالج اسلامیہ کالج کے پرنسپل سریر خان کو بارہویں جماعت کے طالب علم فہیم سے چھٹیاں کرنے کی وجہ پوچھی جس پر طیش میں آ کر طالب علم نے فائرنگ کر کے پرنسپل کو قتل کر دیا۔ فہیم، اسلام آباد فیض آباد چوک میں توہین رسالت کے حوالے سے منعقدہ خادم حسین رضوی کے احتجاج میں شرکت کے لئے کے لئے گیا تھا جس کی وجہ سے وہ کالج سے تین دن تک غیر حاضر رہا۔ غیر حاضری پر کالج کے پرنسپل کی طرف ڈانٹ پڑنے پر ملزم نے طیش میں آ کر پرنسپل سریر پر توہین مذہب کا الزام لگاتے ہوئے پستول سے فائر کر کے ہلاک کر دیا۔

سنہ 2019 میں پروفیسر خالد حمید کو بہاولپور میں ان کے کالج کے بی اے کے ایک طالب علم نے قتل کر دیا۔ اس طالب علم کا خیال تھا کہ پروفیسر خالد حمید کالج کی طرف سے نئے طلبا کے لیے جو ویلکم پارٹی ارینج کر رہے ہیں وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے جس سے فحاشی کو فروغ ملتا ہے۔

اور اب 2020 میں عدالت کے اندر گستاخی کے ایک ملزم کو ایک نوجوان نے قتل کر دیا ہے۔ ملزم کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ ذہنی مریض تھا۔ ذہنی مریض کے متعلق اسلامی نظام انصاف کی اس مضمون کے آخری حصے میں بات کرتے ہیں۔

ریاست اس اہم مسئلے سے نظریں چراتے ہوئے نصاب میں مزید انسان دشمنی کا زہر گھول رہی ہے۔ پنجاب حکومت کی حالیہ نصابی اور کتابی مہم دیکھ لیں۔ تو بس تیار رہیں کہ کسی وقت بھی ایک نوخیز سا لونڈا جیب سے ٹی ٹی نکالے گا اور آپ پر داغ دے گا کیونکہ آپ شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، یا پھر ہندو، سکھ، مسیحی یا احمدی ہونے کی وجہ سے اسے اللہ رسول کے دشمن دکھائی دے رہے ہوں گے۔

ان بچوں سے نا گورنر بچے گا، نا وزیر کبیر اور نا ہی عالم فاضل۔ سب ہتھیلیوں پر سر رکھے پھرا کریں گے۔ گورنر سلمان تاثیر کو قتل کیا جا چکا ہے، سابق نواز شریف پر اس الزام میں جوتا چلایا جا چکا ہے اور وزیر احسن اقبال پر گولی۔

اب اگر نیک جذبہ دیکھتے ہوئے کسی بھی شخص کو یہ اجازت دی جائے کہ وہ دوسرے کو قتل کرنے لگے تو انجام کیا ہو گا؟ اہل حدیث، دیوبندی، سید مودودی کی تعلیمات کے پیروکار، بریلوی، شیعہ، سب ہی ”واجب القتل گستاخ“ قرار پانے لگیں گے۔ جو قتل و غارت ہو گی اس کا تصور تو کریں۔ ان سب اکابرین اور عوام نے اپنی اپنی جان بچانی ہے تو بہتر یہی ہے کہ بچوں کو یہ تعلیم دی جائے کہ انصاف کرنا اور سزا دینا صرف حکمرانوں اور عدلیہ کا کام ہے۔ ماورائے قانون قتل کرنے والوں کی تعریف اور توصیف کو نصاب سے نکالا جائے اور میڈیا کو بھی اس سلسلے میں گائیڈ لائن جاری کی جائے۔

اسلامی نظام انصاف میں ایک تصور مرفوع القلم کا ہے۔ مرفوع القلم سے مراد وہ لوگ ہیں جن سے قلم اٹھایا جاتا ہے یعنی وہ اللہ کے نزدیک معذور ہوتے ہیں۔ ان سے ان کے اعمال کی بازپرس کر کے انہیں سزا نہیں دی جا سکتی ہے۔ اس کی وضاحت حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ سے روایت کردہ احادیث مبارکہ سے ہوتی ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قلم تین آدمیوں سے اٹھا لیا گیا ہے سونے والے سے یہاں تک کہ وہ بیدار ہو جائے۔ مجنوں سے یہاں تک کہ وہ صحت یاب ہو جائے۔ بچہ پر سے یہاں تک کہ بڑا (بالغ) ہو جائے۔ سنن ابی داؤد، سنن نسائی۔ اسی مفہوم کی روایت حضرت علیؓ کی روایت سے بھی جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں بیان کی گئی ہے۔

سنن ابی داؤد میں ایک روایت مندرج ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے پاس ایک دیوانی عورت کو لایا گیا جس نے زنا کیا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اس کے بارے میں لوگوں سے مشورہ طلب کیا اور حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے۔ اس عورت کے پاس سے حضرت علیؓ گزرے تو فرمایا کہ اس عورت کا کیا معاملہ ہے لوگوں نے کہا کہ یہ عورت پاگل ہے اس نے زنا کیا تھا حضرت عمرؓ نے حکم دیا سنگسار کرنے کا۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اسے واپس لے چلو پھر وہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور فرمایا کہ اے امیر المومنین کیا آپ کو معلوم نہیں کہ تین قسم کے افراد پر سے قلم اٹھا لیا گیا ہے۔ پاگل شخص سے یہاں تک کہ وہ صحیح تندرست ہو جائے، سونے والے شخص پر سے یہاں تک کہ وہ جاگ جائے۔ اور بچہ پر سے یہاں تک کہ اسے عقل آ جائے (بالغ ہو جائے ) ۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کیوں نہیں پھر حضرت علیؓ نے فرمایا پھر تیرا کیا خیال ہے اس عورت کے بارے میں اسے سنگسار کر دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کچھ نہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ پھر اسے چھوڑ دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اسے چھوڑ دیا اور تکبیر کہنے لگے (خوشی میں کہ ایک بڑی غلطی سے اللہ نے بچا لیا) ۔

جبکہ ہمارے نوجوانوں، بڑے بوڑھوں اور مفتی اعظم کہلانے والوں کا بھی یہ خیال ہے کہ خواہ کسی بچے پر گستاخی کا الزام لگے یا کسی پاگل پر، کسی استاد میں گستاخی نظر آنے لگے یا کسی حافظ قرآن یا تبلیغی بزرگ میں، اس کی تحقیق کیے بغیر اور معاملہ جانے بغیر اسے قتل کر دو تو قاتل غازی ہو گا اور اس کے ”نیک جذبے“ کی وجہ سے اس کے متعلق نیک گمان رکھنا چاہیے۔ اسلام کے نام پر قتل کرنے سے پہلے یہ تو جان لیں کہ اسلام اس بارے میں کیا حکم دیتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
مذہب کو نشانے بنائے بغیر بھی یہ بات کہی جا سکتی تھی یا نہیں؟
کیا مرتد ہونا ممکن ہے؟
30/07/2020 حاشر ابن ارشاد

ہم عموماً بلاسفیمی کا ترجمہ توہین کرتے ہیں تاہم یہ ترجمہ اس وسیع المعانی ترکیب کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔ بلاسفیمی مذہب کی نگاہ میں جرم اور گناہ کے توافق کی اعلی ترین مثال ہے اس لیے سامی مذاہب کی حد تک اس کی سزا بھی شدید ترین ہے۔ آج کے دن گرچہ عیسائیت اور یہودیت بلاسفیمی کی سزا کو تج چکے ہیں لیکن کچھ مسلمان ممالک میں اب بھی یہ ایک حد اور تعزیر کے طور پر رائج ہے۔ رہے ہندوازم، بدھ ازم اور سکھ ازم جیسے بڑے مذاہب یا فلسفوں کے پیروکار، تو وہ بلاسفیمی کو کبھی بھی قانونی دائرے میں نہیں لائے۔

اکثر مسلمان ممالک میں بلاسفیمی کے حوالے سے کوئی نہ کوئی قانون سازی موجود ہے تاہم پچاس اسلامی ممالک میں صرف چند ملک ایسے ہیں جہاں بلاسفیمی کی سزا موت ہے۔ ان ممالک میں شیعہ فکر کا مرکز ایران اور سنی وہابی فکر کا مرکز سعودی عرب نمایاں ہیں۔ یہاں یہ بات محل نظر ہے کہ یہ دونوں ممالک مذہب کی بالکل جدا گانہ تشریح کرتے ہیں لیکن ایک مذہبی ریاست ہونے کے ناتے بلاسفیمی کی شدید ترین سزا پر متفق نظر آتے ہیں۔ اس فہرست میں اور نمایاں ممالک افغانستان، قطر، متحدہ عرب امارات، موریطانیہ، یمن اور پاکستان شامل ہیں۔

بلاسفیمی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ یہودیت اور عیسائیت میں بلاسفیمی کو خدا کے خلاف جرم قرار دیا گیا ہے اور صدیوں اس کا ارتکاب کرنے والے موت کی سزا کے مستحق ٹھہرے ہیں تاہم وقت کے تقاضوں کے پیش نظر اس کی تعریف بدلتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ سائنس دانوں کی تحقیق اور فلسفیوں کے افکار کو بھی بلاسفیمی کے زمرے میں ڈالا گیا۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مذہبی پیشواؤں نے بلاسفیمی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور لاکھوں لوگ صدیوں پر محیط ایک کشمکش میں اس کا شکار بنے تاہم اجتماعی معاشرتی شعور کے ارتقاء کا ایک لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بلاسفیمی کو عیسائی اور یہودی معاشروں میں جرائم کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تاہم اب بھی ان مذاہب کے سخت گیر شارح اس کو ایک گناہ کبیرہ گردانتے ہیں۔

اسلامی طرز فکر میں اب بھی بلاسفیمی کو ایک گناہ کے ساتھ ساتھ جرم بھی سمجھا جاتا ہے اگرچہ اس کی قانونی تشریحات میں بہت سے داخلی تضادات موجود ہیں۔ جن ممالک میں بلاسفیمی کے لیے موت کی سزا مقرر ہے وہاں اس کا ناتہ شارحین ارتداد سے جوڑتے ہیں اور اس پر حد جاری کرتے ہیں۔ حدود کے بارے میں یہ اتفاق ہے کہ اس کی نص براہ راست قرآن سے برآمد کی جاتی ہے لیکن اس معاملے میں جمہور علماء کا یہ اتفاق فراموش کر دیا جاتا ہے کیونکہ قرآن میں بلاسفیمی کسی بھی صورت جرم کے طور پر مذکور نہیں۔ اسی طرح قرآن میں ارتداد کی بھی کسی دنیاوی سزا کا ذکر نہیں۔ کن لوگوں کو قتل کیا جا سکتا ہے، اس پر قرآن میں سیر حاصل مواد ہے لیکن اس فہرست میں مرتد یا گستاخ کسی بھی طرح شامل نہیں ہیں۔

اس کے بعد سیرت کے کچھ واقعات، کچھ روایات اور احادیث سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ رسول اللہ کے دور میں توہین اور ارتداد کی سزا موت دی گئی تھی لیکن یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ یہ نتائج قرآن کی تعلیم سے براہ راست متصادم ہیں۔ سورۃ بقرہ کی آیت 256 میں یہ واضح ہے کہ دین کے معاملے میں کوئی جبر ممکن نہیں ہے۔ قرآن کے کچھ مفسرین اس مشکل سے نکلنے کے لیے بعض اوقات دور کی کوڑی لانے سے پرہیز نہیں کرتے جیسا کہ مودودی صاحب سورۃ التوبہ کی بارہویں آیت سے یہ استدلال لاتے ہیں کہ مرتد مباح الدم ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ اس آیت کو جس طرح مرضی پڑھ لیجیے، اس سے کسی بھی طرح یہ مطلب نکالنا ممکن نہیں ہے۔ روایات کو پڑھیے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی اسی طرح کی تشریح سے کام چلایا گیا ہے اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی کی گئی ہے۔

مثال کے طور پر ابن خطل کا واقعہ اس ضمن میں بار بار پیش کیا جاتا ہے کہ توہین کے جرم میں اسے اس حال میں قتل کر دیا گیا کہ وہ محفوظ رہنے کی خاطر کعبہ کے پردوں میں لپٹا ہوا تھا اور وہ بھی ایسے دن جب مکہ میں فتح کے بعد ہر ایک کے لیے عام معافی کا اعلان تھا۔ اس سے نتیجہ یہ نکالا گیا کہ توہین کا مرتکب ہر حال میں موت کا سزاوار ہے۔

وہ لوگ جنہوں نے یہ واقعہ براہ راست کسی ماخذ سے پڑھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ابن خطل کی کہانی تھی کیا۔ عبداللہ ابن خطل کو ٹیکس وصولی مہم پر ایک غلام کے ہمراہ مدینہ سے روانہ کیا گیا تھا۔ راستے میں انہوں نے غلام کو قتل کر دیا اور رقم کے ساتھ فرار ہو کر مکہ پہنچ گئے۔ چونکہ یہ معلوم تھا کہ ان کے خلاف غبن اور قتل کا مقدمہ اسلامی اصول کے مطابق تو صرف موت تھا جس کا اعلان مدنی ریاست میں کر دیا گیا تھا تو ابن خطل مرتد ہو کر مکہ میں پناہ گزین ہو گئے۔ فتح مکہ کے وقت وہ مکہ میں موجود واحد شخص تھے جو باقاعدہ ایک اسلامی عدالت سے سزا یافتہ تھے اور اس سزا کا اطلاق ان کے پکڑے جانے پر کر دیا گیا۔ باقی اہل مکہ جنگی حریف تھے اور جنگ میں کیے گئے قتل خواہ وہ ہندہ اور وحشی کے ہاتھوں حضرت حمزہ کی شہادت ہی کیوں نہ ہو، جنگ کا ناگزیر لازمہ سمجھے گئے اور اس پر کسی سے تعرض نہیں کیا گیا۔ اسی طرح وہ لوگ جو برسوں سے اسلام اور نبوت کا ٹھٹھا اڑاتے تھے، ان پر بھی کسی جرم میں مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ باقی روایات کا بھی بغور جائزہ لیا جائے تو وہ اس کسوٹی پر کھری نہیں اتریں گی جس سے موت کی سزا کا تعین کرنا مقصود ہے۔ اب یہ بات بتانا ہمارے خطیب کیوں مناسب نہیں سمجھتے، یہ تو وہی بہتر بتا سکتے ہیں

اس بات پر یہاں سانس لیتے ہیں اور پھر تیسرے بنیادی ماخذ کا جائزہ لے لیتے ہیں یعنی کہ اصول فقہ۔ پاکستان میں حنفی فقہ قانون سازی کی بنیاد ہے۔ احناف توہین کو ارتداد کے زمرے میں گنتے ہیں اور رائے یہ ہے کہ جرم کا مرتکب اگر مسلمان ہو تو اسے موت کی سزا دی جا سکتی ہے لیکن ساتھ ساتھ مجرم کو تین دن کی مہلت بھی دی جائے گی جس دوران وہ توبہ کر سکتا ہے اور توبہ پر سزا ساقط ہو جائے گی۔ پوچھیے کہ ہمارے توہین کے قانون میں یہ گنجائش کہاں گئی؟ اس سے بھی دل چسپ امر یہ ہے کہ احناف کے نزدیک غیر مسلم پر یہ حد جاری نہیں ہو سکتی۔ کیا ہمارا قانون یہ تفریق کرتا ہے؟

مالکی اور حنبلی فقہ میں ارتداد پر توبہ کی گنجائش نہیں ہے، اسی طرح غیر مسلم مجرم اگر اسلام قبول کر لے تو اس کی سزا موقوف ہو جاتی ہے۔ ویسے ہمارے یہاں مالکی فقہ پر کیا کوئی قانون بنایا گیا ہے؟

شافعی توبہ کا دروازہ کھلا رکھنے کے قائل ہیں یعنی کہ مجرم کی توبہ کی صورت میں سزا معاف کر دی جائے گی۔

فقہہ جعفریہ میں بھی موت کی سزا ہے لیکن مسلمان کے لیے، غیر مسلم اسلام قبول کر کے سزا سے بچ سکتا ہے۔
تمام مکتبہ ہائے فکر اس حوالے سے تین باتوں پر متفق ہیں

1۔ مسلم اور غیر مسلم کی سزا یکساں نہیں ہو گی کیونکہ توہین کا بنیادی مقدمہ ارتداد سے جڑے گا اور غیر مسلم مرتد نہیں ہو سکتا

2۔ توہین اپنی نوع میں اس وقت تک جرم نہیں ہے جب تک اسے ارتداد کے درجے میں ثابت نہ کر دیا جائے

3۔ کسی بھی صورت میں یہ فیصلہ کہ جرم ثابت ہوا یا نہیں، صرف عدالت کا دائرہ کار ہے اور ملزم کو صفائی کا موقع دیے بغیر حد جاری کرنا یا تعزیر نافذ کرنا ممکن نہیں ہے

4۔ مباح الدم، یعنی جس کا قتل جائز ہو، صرف ریاست اور عدالت سے مشروط ہے۔ کسی ایک شخص یا گروہ کے پاس کسی کو مباح الدم سمجھ کر قتل کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس معاملے میں یہ توجیہ کہ عدالت یا ریاست یہ سزا نہیں دے رہی، قتل کو جواز نہیں بخش سکتی

ان تمام موشگافیوں میں وہ نکتہ جو ہمارے اکثر احباب نظر انداز کر جاتے ہیں وہ ہے ارتداد کا مقدمہ۔ چلیے ہم یہ بحث نہیں کرتے کہ ارتداد قرآن کی رو سے جرم نہیں ہے اور بربنائے بحث اس کا جرم ہونا تسلیم کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد ارتداد کی تعریف متعین کرنا ضروری ہے۔ اس لیے ہم نے ایک سخت گیر موقف رکھنے والے ادارے جامعہ بنوریہ کے دارالافتا سے جاری کردہ تعریف آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ مرتد کون ہے؟ اس سوال کا جواب علامہ محمد یوسف یہ دیتے ہیں۔

”مرتد وہ شخص ہے کہ اپنی مرضی اور رضامندی سے اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام سے پھر جائے“

ستانوے فی صد آبادی والے مسلم ملک مین کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی مرضی اور رضامندی سے اسلام قبول کیا ہے؟ سوائے ایسے بالغ مردوں کے جو کسی دوسرے مذہب سے اسلام میں داخل ہوئے، کوئی بھی شخص اس تعریف پر پورا نہیں اترے گا۔ ہمارا اسلام پیدائش کے اتفاق سے زیادہ کچھ نہیں اس لیے اس ملک میں یوسف یوحنا جیسے پندرہ بیس لوگوں کو چھوڑ کر کسی کا ارتداد ممکن ہی نہیں۔ ایک قمیض خریدنے جائیں تو۔ لوگ پندرہ قمیضوں کو پرکھ کر ایک کا انتخاب کرتے ہیں، اس طرح مذہب کا مرضی اور رضامندی سے انتخاب بھی اس وقت ممکن ہے جب اور کچھ نہیں تو دس بارہ بنیادی مذاہب کا تقابل تو کسی نے کیا ہو۔ یہ کہنا کہ ہم مرضی اور رضامندی سے مسلمان ہوئے ہیں، اتنی ہی حقیقت ہے جتنا یہ کہنا کہ ہم اپنی مرضی اور رضامندی سے پیدا ہوئے ہیں۔

ارتداد کا کوئی مقدمہ کسی ایسے مسلمان پر قائم کرنا ممکن ہی نہیں جو ”پیدائشی مسلمان“ ہو اس لیے یہ ساری فقہی اور قانونی عمارت جو بڑی محنت سے اس ملک پر قابض آمروں نے کھڑی کی تھی بغیر کسی بنیاد کے ہے اور بغیر بنیاد کے عمارت مکینوں کے لیے تحفظ کا نہیں، موت کا پیغام ہوتی ہے۔

بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ پاکستان میں ایک اور رجحان جو اب فروغ پا رہا ہے، اس میں سکہ بند مذہبی معذرت خواہ اکثر بہت خوشنما لبادے میں لپیٹ کر توہین کے نام پر کیے گئے جرائم کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

یہ معذرت خواہ اس بات سے تو مکر نہیں پاتے کہ فقہی لحاظ سے بھی توہین کے ملزم سے پوچھے بغیر اس جرم کا فیصلہ ممکن نہیں اور وہ اگر جرم سے انکاری ہو تو خواہ شواہد کتنے ہی مضبوط ہوں اسے مجرم قرار دینا ممکن نہیں۔ اور اگر کسی طرح ارتداد ثابت ہو بھی جائے تو عدالت توبہ کے لیے تین دن کی مہلت دینے کی پابند ہے۔ اور مجرم صرف اس صورت ٹھہرائے گی جب تین دن بعد بھی ملزم توہین پر مصر ریے۔ رہے ذمی تو ان پر یہ حد جاری کرنا ممکن ہی نہیں۔

اب اس دلیل کے بعد یہ ظاہر ہے کہ ملزم یا تو مجرم قرار پائے گا یا پھر معصوم۔ اور ریاست کے لیے محض ایک مجرم مباح الدم ہو گا۔ اب اس کے بعد مسئلہ رہ گیا ان لوگوں کا جو اپنے ہاتھ میں قانون لیں اور کسی ”ملزم“ کو قتل کردیں۔ یہاں چونکہ ہمدردی اور معذرت خواہی آڑے آتی ہے اس لیے تقی عثمانی صاحب جیسے حضرات ایک نیا راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ وہ الگ بات ہے کہ یہ راستہ اپنی ہی تراشی گئی دلیل کی کھائی میں گر کر فنا ہو جاتا ہے۔ اس دلیل کی رو سے اگر یہ امکان ہو کہ ایک شخص کسی کو گستاخ سمجھ کر قتل کر دے تو وہ ایسا اس لیے کرتا ہے کی گستاخ ارتداد کے باعث مباح الدم ہے، لہذا قاتل کو قصاصاً سزائے موت نہیں دی جانی چاہیے۔

اب کوئی پوچھے کہ اے شیخ الاسلام، پہلے آپ کہتے ہیں کہ ملزم کو صفائی کا موقع دیے بغیر حد جاری کرنا ممکن نہیں اور حد جاری کرنے کے بعد بھی توبہ کا موقع دیے بغیر اسے قتل کرنا ممکن نہیں تو مارے جانے والے کو کوئی مرتد کیسے ثابت کر سکتا ہے۔ نہ وہ قبر سے اٹھ کو صفائی دے سکتا ہے اور نہ ہی اب توبہ کرنا اس کے لیے ممکن ہے۔ ہر حال میں قاتل نے ایک معصوم کو قتل کیا ہے اور اس کی کوئی صفائی دینا ممکن نہیں ہے۔ لیکن چھوڑیے جناب، اس ملک میں جبہ اور دستار والوں سے سوال ممکن نہیں ہے۔

بحث کو یہاں سمیٹتے ہیں۔ توہین اور ارتداد کے نام پر قانون سازی کم ازکم اسلام کی رو سے ممکن نہیں ہے لیکن کمال یہ ہے کہ اسلام کا کندھا استعمال کر کے شدت پسندی کو فروغ دینے والی یہ بندوق چلائی جاتی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ فقہی لحاظ سے یہ قانون بن گیا ہے تو بھی اس کے تحت مقدمہ کبھی بھی براہ راست توہین کا نہیں ہو گا بلکہ براستہ ارتداد ہو گا اور کسی ”پیدائشی مسلمان“ کا ارتداد ایک ناممکن امر ہے۔ رہے ہمارے خطیب اور علماء دین تو ان کی خلعت احمریں بے گناہوں کے خون سے سرخ ہے اور وہ اسے وجہ افتخار سمجھتے ہیں اس لیے ان سے خیر کی توقع عبث ہے۔ ملک میں اب ان قوانین پر بات کرنا بھی توہین گنا جاتا ہے تو معنی خیز مکالمہ کیسے ہو۔ نوجوانوں کو عشق کے نام پر سر اتارنا سکھایا جاتا ہے۔ قاتل محترم ٹھہرتے ہیں اور مقتولین کے خاندان بھی در بدر ہو جاتے ہیں۔ اور یہ سب روز بروز بدتر ہوا چلا جاتا ہے۔

جدلیاتی مادیت یہ بتاتی ہے کہ فرد کی اصلاح اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ معاشرتی ڈھانچہ درست نہ کر دیا جائے اور معاشرتی اصلاح کے لیے جو سیاسی ارادیت درکار ہے وہ موہوم نہیں بلکہ معدوم ہے۔

تو گھوم پھر کر نتیجہ وہی نکلا جو فیض صاحب نے نکالا تھا کہ یہ ملک ایسے ہی چلتا رہے گا۔ انسان ایک دن سب فنا ہو جائیں گے اور آخر میں، بس نام رہے گا اللہ کا۔ ۔ ۔
 

جاسم محمد

محفلین
جو کوئی بھی اس قتل کا دفاع کر رہا ہے وہ مذہب ہی کے نام پر کر رہا ہے۔
ایک ’مرتد‘ کی موت قوم کی ’حیات‘ ہے
30/07/2020 سید مجاہد علی

ایڈیشنل سیشن جج پشاور کی عدالت میں ایک نوجوان نے ایک معمر شخص کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ ملک کے قانون نے اپریل 2018 میں اس شخص کے خلاف کسی طالب علم کی شکایت پر توہین مذہب و رسالت کا مقدمہ قائم کیا تھا لیکن دو برس سے زائد مدت گزرنے کے باوجود فاضل عدالتیں مقدمہ کا فیصلہ کرکے ملزم کو رہا کرنے یا سزا دینے کا حکم نہیں دےسکی تھیں۔ بالآخر ایک نوجوان کو خواب میں عندیہ دیا گیا اور اس نے بھری عدالت میں توہین ’مذہب ‘ کے مرتکب کو قتل کرکے ’مناسب‘ سزا دے دی۔

ممتاز قادری کے جہاد کی طرح سوشل میڈیا پر اس نوجوان کی شجاعت پر بھی واہ واہ کے ڈونگرے برسائے جارہے ہیں اور بتایا جارہا ہے کہ ملک کا نظام اور جج خوف اور لالچ کی وجہ سے توہین کے مرتکبین کو سزا نہیں دے پاتے، اس لئے تحفظ ناموس رسول ﷺ کا کام بھی مسلمانوں کو خود ہی کرنا پڑے گا۔ (برسراقتدار جماعت تحریک انصاف کے ایک منتخب رکن صوبائی اسمبلی نے تو سوشل میڈیا پر قاتل کی تصویر گلاب کے پھولوں سےڈھانپ دی…و-مسعود) ملک میں عقیدہ، مسلک، مذہب کی مسخ شدہ تفہیم اور لاعلمی و جہالت کی بنیاد پر جو جذباتی اور سنسنی خیز صورت پیدا کی گئی ہے، پشاور میں ہونے والا قتل اس کا تازہ نمونہ ہے۔ مذہب کی توقیر اور حفاظت ناموس رسول ﷺ کے نام پر ہونے والا نہ تو یہ پہلا قتل ہے اور نہ ہی اسے آخری سمجھا جائے۔

ملک کے بلسفیمی قانون میں جنرل ضیا الحق کے دور میں شامل کی گئی متعدد شقات کے تحت مذہبی تقدیس کے جو معیار مقرر کئے گئے ہیں اور اس قانون کے تحت الزام کی زد پر آنے والے لوگوں کے ساتھ جو سلوک رو ا رکھنے کی روایت گزشتہ تین دہائیوں میں مستحکم کی گئی ہے، اس کی روشنی میں بس یہ غور کرلیا جائے کہ اس طریقہ پر چلتے ہوئے اس ملک میں آباد لوگوں میں گولیوں کا نشانہ بننے والا آخری شخص کون ہوگا۔ پشاور کے قتل سے پہلے پنجاب اسمبلی میں ’تحفظ بنیاد اسلام ‘کے نام سے منظور ہونے والے قانون کی روشنی میں یہ جان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ پشاور کی عدالت میں چلنے والی گولیوں کی آواز ہر گلی، محلے اور ہر گھر میں گونجنے والی ہے۔ قطرہ قطرہ مرنے والی اور تیزی سے ہلاکت کی طرف قدم اٹھاتی اس قوم کے لئے نیا پاکستان یا مدینہ ریاست بنانے کا اہتمام کرنے کی ضرورت نہیں۔ مذہب کی حفاظت کا جو منصب اس قوم نے خود پر مسلط کیا ہے اور شہادت کا جو جذبہ علمائے دین، استاد، دانشور، صحافی اور حکمرانوں نے مل کر اہل پاکستان میں پیدا کیا ہے، اس میں اب فرد نہیں بلکہ قوم کے سینے پر بارود باندھ کر اسے خود کشی پر آمادہ کر لیا گیا ہے۔

خود کش دھماکہ کرنے والے ایک فرد کو گمراہ کہا جا سکتا ہے، اسے دہشت گرد قرار دے کر اس کے خلاف اعلان جنگ ہو سکتا ہے، ملکی افواج ان دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لئے سرگرم عمل ہوسکتی ہیں لیکن جب جہاد کا ایسا انوکھا جذبہ پوری قوم میں بیدار ہوجائے جس کا مظاہرہ آج پشاور کی عدالت میں دیکھنے میں آیا ہے تو اسے قومی عارضہ نہیں، اعزاز کہا جائے گا۔ ایسے میں اس وقت کا انتظار واجب ہو چکا ہے جب کسی ایک ممتاز قادری کا مقبرہ کافی نہیں ہوگا بلکہ بلکہ پاکستان کی مقدس سرزمین میں آباد رہنے والے گروہ کا اجتماعی مقبرہ بنے گا جو خود کو قوم کہلاتی تھی لیکن جس میں قوموں والی کوئی خوبی باقی نہیں رہی تھی۔ تاریخی تناظر میں قوموں کی ہلاکت کوئی عجیب بات نہیں ہے لیکن ایسی قوم کی مثال تلاش کرنا ممکن نہیں ہوگا جس نے اجتماعی خود کشی کو جہاد کا نام دے کر خود کو تباہ و برباد کیا ہو۔ البتہ اس سوال کا جواب شاید ہم اپنی زندگی میں تلاش نہ کر پائیں کہ ایسے کسی اجتماعی مقبرے کو بھی انفرادی مزاروں کی طرح یادگار سمجھتے ہوئے عقیدت سے دیکھا جائے گا یا باقی ماندہ دنیا کے لوگ اس سے عبرت حاصل کریں گے اور ایک تباہ شدہ قوم کے کھنڈرات کو آنے والی نسلوں کے لئے سبق آموز قرار دیں گے۔

پشاور کا قتل ’تعمیر ملت اسلامیہ ‘کی طرف ایک قدم ہے۔ قتل کرنے والے نوجوان نے شاید ایسا نہیں سوچا ہوگا۔ البتہ اس بھیانک جرم کو تحسین کی نگاہ سے دیکھنے والے، اس کی یہی تعبیر کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مفکرین سے لے کر محلوں و دیہات کی مساجد تک ایسے نابغے مل جائیں گے جو ایسی قتل و غارت گری کو پاکستان ہی نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے زندگی کا پیغام قرار دیں گے۔ یہی کامل جذبہ ممتاز قادریوں کو شہید قرار دیتا ہے اور اسی حوصلہ کی وجہ سے ملک کے نوجوانوں کو یہ خواب آتے ہیں کہ ایک مرتد اور گمراہ، عدالت کے کٹہرے میں تو کھڑا ہے لیکن منصف کے ہاتھ اسے سزا دیتے ہوئے کانپ رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں پر مفاد اور لالچ کی پٹی بندھی ہے۔ اس لئے اے نوجوان! اٹھ اور اپنا مقدس فریضہ ادا کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جا۔

نوجوان، عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ملزم سے کلمہ سنانے کی فرمائش کرتا ہے۔ گویا اس نے دینی حجت پوری کر دی۔ حیران بوڑھا جب اس اچانک سوال کا جواب دینے میں ناکام رہا تو نوجوان پر اس کا قتل واجب ہوگیا۔ اس نے ریوالور نکالا اور ایک مرتد کو ہلاک کر دیا۔ اس نوجوان کے دماغ میں راستی اور صداقت کا جو پیغام راسخ کیا گیا ہے، اس میں ریاست، حکومت یا قانون نام کا کوئی مبینہ یا آلودہ تصور موجود نہیں ہے۔ اس خواب میں ایک مرتد کو ہلاک کرکے ہی قوم کو گمراہی اور ہلاکت سے بچایا جاسکتا ہے۔ نوجوان موقع سے ہی گرفتار ہو گیا، نہ فرار ہونے کی کوشش کی اور نہ اپنے جرم سے انکار کیا بلکہ اعزاز کے ساتھ اس کارنامہ کو قبول کیا کہ یہی اس پر فرض تھا اور ملت اسلامیہ کی طرف سے قرض بھی۔ اب پولیس بتا رہی ہے کہ وہ پاکستانی نہیں بلکہ افغانی باشندہ ہے۔ کیا اس عذر خواہی سے اس خواب کو دھندلایا جا سکتا ہے جو اس ملک کے طول و عرض میں ہزاروں لاکھوں نوجوانوں کے دل و دماغ میں پیوست کیا گیا ہے؟

پشاور میں تو ایک نوجوان نے ایک ایسے بوڑھے کو ہلاک کیا ہے جس کے عقیدے کے بارے میں صرف خبر اور ایف آئی آر سے ہی علم ہوسکتا ہے۔ مرنے والے کو تو دو سوا دو سال کی حراست کے دوران اپنا عقیدہ تو کجا اپنا مؤقف بیان کرنے کی اجازت بھی نہیں ملی۔ یہ حق تو ملتان جیل میں اسی شہر کی یونیورسٹی میں تعلیم دینے والے جنید حفیظ تک کو نہیں دیا جا سکا جو گزشتہ سات برس سے اس حق کے لئے فریاد کررہا ہے اور دنیا کے تمام اہم دارالحکومتوں سے اس ناانصافی کے تدارک کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ جنید حفیظ کو یہ حق اس وقت بھی نہیں مل سکا جب اس کا جری وکیل راشد رحمان اس کے حق دفاع کا مطالبہ کرتے ہوئے خود قاتلوں کی گولیوں کا شکار ہو گیا۔ اس ملک میں تقدیس مذہب کی حفاظت کے نام پر ایسے قانون نافذ کئے گئے ہیں کہ جن پر حرف اعتراض اٹھانے کے جرم میں ملک کے سب سے بڑے صوبے کا گورنر اپنے ہی محافظ کے ہاتھوں گولیوں کا نشانہ بنا تھا۔ بعد میں سپریم کورٹ حکم جاری کرتی رہے کہ انسان کے بنائے ہوئے قانون حکم خداوندی نہیں ہیں کہ ان پر حرف زنی نہ ہو سکے لیکن اس ملک کی عدالتوں کے فیصلے نقار خانے میں طوطی کی آواز بن چکے ہیں۔

ممتاز قادری کو ملک کے معزز ترین لوگوں نے دلی عقیدت و احترام کے ساتھ لحد میں اتارا اور اب اس کا مقبرہ مرادیں و آرزوئیں پوری کرنے کا مرکز بن چکا ہے۔ جب گولی چلا کر اور پھانسی پر چڑھ کر یہ اعزاز حاصل ہوتا ہو تو نوجوان، مرتدوں کو ہلاک کرنے کے خواب کیوں نہ دیکھیں اور وہ بھری عدالت میں کیوں نہ ایک گمراہ کو سزا دینے کے لئے پہنچیں۔ دراصل گزشتہ نصف صدی کے دوران ملک کے نوجوانوں کو یہی نصاب ازبر کروایا گیا ہے۔ اب تو اس درخت کے پھل دینے کا وقت ہے۔ اسلام کا پرچم اٹھائے ہوئے ان نوجوانوں کو صرف تحفظ ناموس رسالت یا ’تحفظ بنیاد اسلام‘ جیسے قانون بنا کر مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔ اس پوری نسل کو ذہنی اور فکری طور پر دو ٹوک فیصلے کرنے اور ٹھوس نتیجہ دیکھنے کے لئے تیار کیا گیا ہے۔

ملک کے وزیر خارجہ قومی اسمبلی میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی شرائط پورا کرنے کے لئے قانون سازی کو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں قرار دیتے ہوئے اپوزیشن کی چلتی ہوئی زبانیں خاموش کروانا چاہتے ہیں۔ وزیراعظم مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں اقلیتی مسلمانوں کے خلاف مودی حکومت کے جبر کو دہشت گردی اور انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیتے ہیں اور آرمی چیف دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کا اعلان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پاکستان یہ جنگ جیتنے والا دنیا کا واحد ملک ہے۔ یہ سارے لیڈر ہی اپنی اپنی جگہ درست ہوں گے لیکن اپنے گھروں میں مفلوک الحالی اور عسرت و تنگ دستی کے باوجود تقدیس مذہب کے لئے ہتھیار اٹھانے کا خواب دیکھنے والے نوجوان ان بلند بانگ دعوؤں کو نہیں جانتے۔ وہ تو الحاد کے خلاف جہاد کو ہی قومی اور دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔ دنیا اس ’فرض شناسی‘ کو دہشت گردی کہتی ہے۔ قوم کے لیڈر اس سے درگزر کرنا قومی مفاد میں سمجھتے ہیں۔ اس تضاد میں قوم مادی سرخروئی کی بجائے ابدی حیات کا راستہ ہی اختیار کرسکتی ہے۔ اہل پاکستان کو اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں ہے۔ انہیں بتا دیا گیا ہے کہ وہ اسلام کی حفاظت کے لئے چنے ہوئے لوگ ہیں۔

پشاور کی عدالت میں گولی چلانے والے نوجوان کو عزت سے رہا کردینا چاہئے۔ اس نے اگر کوئی قانون توڑا ہے تو پہلے اسے قانون شکنی پر آمادہ کرنے والوں کی گرفت ہونی چاہئے۔ پہلے سیاست دان، ملا، صحافی اور استاد کو کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ اس نوجوان نے وہی کیا جو اس ملک کی مسجدوں اور درس گاہوں نے اسے سکھایا ہے۔
 

Anees jan

محفلین
عَدالتوں پر تالا لگا دِیا جانا چاہیے۔
تالا تو بہرحال نہیں لگانا چاہیے
اگرچہ امیر ،، بیرونی پشت پناہی کے حامل لوگ،، طاقتور مگرمچھ اس جال سے آسانی سے نکل جاتے ہیں
مگر "نادار "غریب"وہ! جن کا کوئی نہ ہو"" بیگناہ ہونے کے باوجود بھی اس جال کو نہیں توڑ سکتے

ماضیِ قریب و بعید و حال کے دسیوں واقعات بطورِ دلیل پیش کیے جا سکتے ہیں
 
تالا تو بہرحال نہیں لگانا چاہیے
اگرچہ امیر ،، بیرونی پشت پناہی کے حامل لوگ،، طاقتور مگرمچھ اس جال سے آسانی سے نکل جاتے ہیں
مگر "نادار "غریب"وہ! جن کا کوئی نہ ہو"" بیگناہ ہونے کے باوجود بھی اس جال کو نہیں توڑ سکتے

ماضیِ قریب و بعید و حال کے دسیوں واقعات بطورِ دلیل پیش کیے جا سکتے ہیں
تالا لگانا بہتر حل ہے۔ عامۃ الناس اپنے فیصلے خود نپٹانا سیکھیں۔ جو فرد، ادارہ، یا گروہ زیادہ طاقت وَر ہو، وُہ اپنے آپ کو منوا لے، بزورِ بازو۔
 

جاسم محمد

محفلین
آسیہ مسیح کو رہا کر کے عدالتیں اپنا وقار اور اعتماد کھو چکی ہیں
تالا لگانا بہتر حل ہے۔ عامۃ الناس اپنے فیصلے خود نپٹانا سیکھیں۔ جو فرد، ادارہ، یا گروہ زیادہ طاقت وَر ہو، وُہ اپنے آپ کو منوا لے، بزورِ بازو۔
اگر تمام مقدمات کے فیصلے ان مشتعل جتھوں کے ذریعہ ہی کروانا مقصود ہے تو پھر عدالتیں کیا ملک کے ہر ادارے اور محکمے کو تالے لگا دیں۔
 
ایک قتل ہوا۔ دوسرے کو شاید سزائے موت ہو جائے گی۔ اِن دونوں کے اصل معاملات اور نیتوں کے حالات تب جا کر کھلیں گے سو جنابِ من، ہمارے لیے اس لِحاظ سے یہ موضوعی مسائل ہیں۔ اَلمیہ یہ ہے کہ یہاں عامۃ الناس کی اکثریت کو عدالت اور عدالتی فیصلوں اور دلیل و منطق سے کوئی غرض نہ رہی ہے، یہ ایک تشوِیش ناک امر ہے۔ اگر یہ فرد قادیانی تھا، کافر تھا، یا جو کچھ بھی تھا، اس کا اِحاطہء عدالت میں خُون کر دیا جانا افسوس ناک ہے اور یہ خُون دراصل عدالتی نظام کا کیا گیا ہے کہ جس پر شاید کسی کو بھروسا نہیں رہا، اس لیے اگر ریاستی ادارے رِٹ منوانے سے قاصر ہیں، اسلحہ احاطہء عدالت تک پہنچ پاتا ہے، اور ایک فریق دوسرے کو قتل کر دیتا ہے، تو یہ صورت حال غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ عدالتوں کو تالا لگانے کی بات اسی تناظر میں کی گئی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہاں عامۃ الناس کی اکثریت کو عدالت اور عدالتی فیصلوں اور دلیل و منطق سے کوئی غرض نہ رہی ہے، یہ ایک تشوِیش ناک امر ہے۔
عدالتوں کو ٹھیک کرناچیف جسٹس پاکستان کا کام ہے۔ حکومت اس کیلئے ہر قسم کا تعاون فراہم کر چکی ہے۔
 
Top