یکم جولائی ۔۔۔ اسرائیل کے عزائم

پوری دنیا اس وقت عالمی وبا کے تدارک اور حفاظت کے لئے کوشاں ہے مگر اس وقت اسرائیل کچھ نئے اقدامات میں مصروف ہے۔
یکم جولائی کی تاریخ جوں جوں قریب آ رہی ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق، فلسطینی علاقوں اور بعض عرب ملکوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لئے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ اس دن مغربی کنارے کے تقریباً تیس فیصد حصے کو ضم کر لیا جائے گا۔
اوسلو ایکارڈ میں طے ہوا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین دونوں الگ الگ ریاستیں کے طور پر ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کریں گی۔ اگرچہ اسرائیل نے مذاکرت کی میز پر تو تسلیم کیا تھا مگر زمینی حقائق کچھ اور تھے۔ فلسطینوں پر ظلم کی چکی چلتی رہی ۔گزشتہ سال ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ڈیل آف سنچری کے نام سے نیا پلان سامنے آیا جس نے اس اوسلو ایکارڈ کو اپنی موت آپ مار دیا ہے۔ اس ڈیل کے حوالے سے کافی تفصیلات سے ہم سب واقف ہیں۔ فلسطین کو فوج رکھنے کا اختیار نہیں پولیس فورس رکھ سکتے ہیں۔ دوسرا وہ اسرائیل کی ذیلی ریاست کے طور پر ہو گی۔ جس کے تمام اختیاری امور اسرائیل کے ہاتھ میں ہوں گے۔ اور پہلے قدم کے طور پر امریکی سفارتخانے کی یروشلم منتقلی تھی۔ اسرائیل نے ٹرمپ کے امریکی سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے اور ڈیل آف سنچری کے اظہار تشکر کے لئے ایک سکہ جاری کیا تھا جس پر ایرانی بادشاہ سائرس اور ٹرمپ کی تصاویر تھیں۔
اسی ڈیل آف سنچری کے تحت یکم جولائی کو مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کر دیا جائے گا۔
اس وقت جبکہ ساری دنیا کرونا کی بیماری سے لڑ رہی ہے اسرائیل اپنے کام میں مصروف ہے۔ فلسطینوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا۔ جو علاقے ابھی اسرائیل میں ضم کئے جائیں گے ان میں لاکھوں کی فلسطینی آبادی کہاں جائے گی؟ افسوس تو یہ ہے کہ اس ساری ڈیل میں کچھ اپنوں کے نام بھی آتے ہیں۔ یکم جولائی کو بھی جو ہونے جارہا ہے اس میں بھی کچھ اپنے ملوث ہیں۔

ہاتھ میری تباہی میں انکا بھی تھا
جن کو اپنا سمجھتا رہا آج تک
غیر تو غیر ہیں غیر سے کیا گلہ
میرا غیروں کی جانب اشارہ نہیں

دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاج ہو رہا ہے۔ مگر ہمیشہ کی طرح یہ آواز کچھ دن بعد پس منظر میں چلی جائے۔ دکھ اپنی جگہ جگر چیر رہا ہے مگر بے بسی دیکھیں ہماری کہ ہم کشمیر کے لئے کچھ نا کر سکے۔ جو ہمارے انتظار میں آج بھی راہ تک رہے ہیں ۔ فلسطین تو جغرافیائی لحاظ سے بہت دور ہے۔ یہ الگ بات کہ ہمارے دل مسجد اقصی میں سجدے کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ ہر مسلمان کے دل کی آرزو ہے اس ارض مقدس پر جانے کی۔ ہمارا قبلہ اول ہے انبیاء کرام کی سرزمین ہے اور ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج کا ایک پڑاو بھی ہے۔ ہماری عقیدتوں کی تفصیل طویل ہے۔ کچھ سال پہلے کی بات ہے، میری بیٹی جو اس وقت چھ ماہ کی تھی بیمار ہو گئی، تو اسے ہم ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ اکثر ڈاکٹرز کے کمروں میں بہت سے بیماریوں کے بارے اور خفاظتی سٹیکر والے پیغام لگے ہوتے ہیں ۔ ان ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں بھی کچھ ہدایات تھیں مگر جس چیز نے میرے دل کی دھڑکن تیز کی وہ ان ڈاکٹر صاحب کے کمرے میں لگی عربی عبارت تھی جس کا ترجمہ ہے

*" ایک دن ہم مسجد اقصی میں نماز پڑھیں گے ان شاء اللہ"*

اہل فلسطین اپنی ہی سرزمین سے بےدخل کر دیئے جائیں گے ۔ فلسطینی مائیں اپنے بیٹے قربان کئے جا رہی ہیں۔ ہماری معالمہ نے ہمیں ایک واقعہ سنایا تھا۔ کہتی ہیں ایک فلسطینی خاتون سے میری دوستی تھی۔ ان کے ہاں آٹھویں بیٹے کی پیدائش ہوئی میں نے ازراہ مذاق زیادہ بچوں کی بات کی، سنجیدہ ہو گئیں کہنے لگیں تمہیں نہیں معلوم *الاقصی* کو بیٹوں کی ضرورت ہے۔
اہل فلسطین صلاح الدین ایوبی کے منتظر ہیں۔ جو اس ظلم استبداد سے ان کو آزاد کرائے۔ مگر امت شاید بانجھ ہو گئی ہے ایسے مرد مجاہد پیدا کرنے سے۔۔۔

✒️ *حمیرا حیدر*
 

جاسم محمد

محفلین
یکم جولائی کی تاریخ جوں جوں قریب آ رہی ہے، تجزیہ کاروں کے مطابق، فلسطینی علاقوں اور بعض عرب ملکوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لئے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ اس دن مغربی کنارے کے تقریباً تیس فیصد حصے کو ضم کر لیا جائے گا۔
فی الحال ایسا کچھ نہیں ہو رہا کیونکہ اسرائیلی وزیر اعظم کی سب سے بڑی اتحادی جماعت اس کے حق میں نہیں۔
Netanyahu’s annexation plan in disarray as Gantz calls for delay
 
Top