کیا جسٹس عیسیٰ پاکستانی عوام کے مجرم ہیں؟

کیا جسٹس عیسیٰ پاکستانی عوام کے مجرم ہیں؟
عفت حسن رضوی | کیا جسٹس عیسیٰ پاکستانی عوام کے مجرم ہیں؟

جسٹس صاحب کے خود مختار بیٹے، شادی شدہ بیٹی اور بیگم نے جب لندن میں تین جائیدادیں خریدیں تو ان کی مالیت لگ بھگ 11 کروڑ روپے بنتی تھی۔ ویسے اتنے میں تو اسلام آباد کے ایف سیکٹر میں بنگلہ بھی نہیں ملتا۔

عفت حسن رضوی
مصنفہ، صحافی
جمعرات 18 جون 2020 6:15
facebook.svg

twitter.svg

whatsapp.svg

sharethis.svg

92276-1023444515.jpg



اس وقت دو ججز ایسے ہیں جنہوں نے حکومت سے ملنے والے قیمتی پلاٹس لینے سے انکار کر رکھا ہے۔ ایک سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور دوسرے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (سوشل میڈیا)

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ نام لکھنے کی دیر ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا پر جملے کسنے والے یہاں وہاں سے جمع ہو جاتے ہیں۔ ان افراد میں کچھ سیاست دان ہوتے ہیں، کچھ سیاسی کارکن، کچھ انجان گمنام اکاؤنٹس اور کچھ نام نہاد صحافی۔

سوال ہوتا ہے کہ رسیداں کڈو، جج صاحب بہانے نہ بناؤ (رسیدیں دکھاؤ)۔ یہ جملہ بھی پھینکا جاتا ہے کہ باپ ہوگا محسن پاکستان مگر بیٹا چوری کرے تو پکڑنا بنتا ہے۔ آئیں ذرا آج ہم وہ غلط فہمیاں دور کر لیں جو سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف ہونے والے تاریخی ریفرنس کو سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔

کیا جسٹس عیسیٰ کرپشن میں ملوث ہیں؟

عمومی تاثر یہ ابھرتا ہے کہ لندن میں جائیدادیں بنائی ہیں توکرپشن ضرور کی ہوگی، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ سال بھر سے جسٹس عیسیٰ کا کیس چل رہا ہے، صدارتی ریفرنس تک میں یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ ماضی قریب یا ماضی بعید میں کسی کرپٹ کام میں ملوث رہے ہوں۔

کیا جسٹس عیسیٰ نے بطور جج عوامی عہدے کا غلط استعمال کیا؟

اس سوال کا مختصر جواب ہے ’نہیں‘۔ یہ میرا گمان ہے، نہ کوئی تُکے بازی۔ وفاقی حکومت کے وکلا کے اب تک کے دلائل اٹھا کر کھنگال لیں۔ صدارتی ریفرنس تسلی سے پڑھ لیں۔ اب تک ایک بار بھی یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ نامی پاکستانی شہری نے بطور جج اپنے اثر رسوخ اور عہدے کا غلط استعمال کر کے لندن میں جائیدادیں بنائیں۔

کیا جسٹس عیسیٰ نے منصف کے حلف کو توڑا؟

جسٹس صاحب سپریم کورٹ کے جج ستمبر 2014 میں بنے جبکہ زیر بحث معاملہ اس سے قبل کا ہے۔ اس لیے حلف توڑنے کا معاملہ نہیں۔

کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بے نامی جائیداد بنانے کے مرتکب ہوئے؟

سپریم کورٹ میں جج صاحب کے جمع کرائے گئے تمام جوابات اور صدارتی ریفرنس میں لگائے گئے الزامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ لندن میں تین جائیدادیں ان کے بیٹے، بیٹی اور بیوی کے نام پر ہیں۔ یہ جائیدادیں جن کے نام پر خریدی گئیں وہی اس کے رہائشی ہیں۔

کیا جسٹس عیسیٰ کا معاملہ پانامہ کیس کی طرز کا ہے؟

ہرگز نہیں۔ پانامہ کیس میں ملک کے وزیر اعظم کے بچوں پر آف شور کمپنیاں بنانے، ٹیکس ہیون میں پیسے پارک کرنے، ٹرسٹ کے ذریعے جائیدادیں خریدنے اور اس تمام عمل میں پیسے کے ذرائع نہ بتانے کا الزام تھا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کے بچوں پر اب تک یہ الزام بھی نہیں کہ انہوں نے کسی دوسرے تیسرے ذرائع سے جائیدادیں خریدیں، کوئی جعلی کمپنی بنائی یا کسی ٹیکس ہیون میں پیسے پارک کیے۔

یہ اتنا پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا؟

یہ بڑا دلچسپ سوال ہے۔ اول بات تو یہ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پاکستان میں موجود ملکیتی جائیدادیں، خاندانی ذرائع آمدن، بطور جج، سرکاری ملازم ڈکلئیرڈ ذرائع آمدن کل ملا کر اتنی ہے کہ وہ باآسانی لندن میں جائیدادیں خرید سکتے ہیں۔ دوسری بات کہ اگر بقول جج صاحب کہ یہ جائیدادیں ان کی نہیں ان کے بچوں اور بیگم کی ہیں تو کھوج لگانے والوں کو خوب علم ہے کہ جسٹس صاحب کی بیگم اور اہل خانہ کے اپنے اپنے علیحدہ، ڈکلیئرڈ ذرائع آمدن بھی ہیں۔

کیا جسٹس عیسیٰ ٹیکس چور ہیں؟

یہ 2004 کی بات ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا نجی ادارہ ایک قانونی فرم تھی جسے صدر پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔ یہ قانونی فرم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے پارٹنر کی تھی۔ اب یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ براہ راست جج صاحب پر ٹیکس ادا نہ کرنے یا اثاثے چھپانے کا کوئی کیس نہیں، نہ ہی ان کے خلاف فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں کبھی کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی کبھی کوئی نوٹس بھیجا گیا۔

کیا جسٹس عیسیٰ کے بیوی بچے ابا کے مال پر عیش کر رہے ہیں؟

جسٹس عیسیٰ کے بیٹے ارسلان عیسیٰ کھوسو لندن کی یونیورسٹی سے ایم اے ہیں، لندن میں کنٹریکٹر کا کام کرتے رہے ہیں جبکہ بہو ایک فنانس کمپنی میں بطور کنلسلٹنٹ ملازم رہیں۔ دونوں لندن میں کما رہے تھے۔


جج صاحب کی بیٹی سحرعیسیٰ کھوسو بیرسٹر اور لندن میں قانون کی پریکٹس کرتی رہیں۔ یہ بلوچستان کی پہلی بیٹی ہیں جو کہ بیرسٹر بنیں۔ تین بچوں کی ماں ہیں جبکہ داماد بھی بیرسٹر ہیں۔ یہ دونوں بھی کماتے ہیں۔

جسٹس عیسیٰ کی بیگم زرینہ کھوسو کریرا برطانوی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں۔ زرینہ کھوسو کراچی امریکن سکول میں بطور ٹیچر کئی دہائیوں تک پڑھاتی رہیں۔ زرینہ کھوسو کے والد عبدالحق کھوسو بلوچ ہیں جبکہ والدہ پیلیسا کریرا سپین سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور آخری اہم بات۔ جسٹس صاحب کی بیگم سندھ اور بلوچستان میں سینکڑوں ایکڑ پر محیط خاندانی زرعی زمین کی مالک ہیں۔

اب یہ تو ہونے سے رہا کہ کوئی جج بن گیا تو اس کے گھر والے خود کچھ نہیں کماتے یا پھر ساری عمر ان ہی کے پیسوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ یہ وہ اثاثے ہیں جو کہ جج صاحب کے گھر والوں کے ہیں۔

کیا جسٹس عیسیٰ نے لندن میں محل نما گھر خریدے؟

آپ جسٹس صاحب کے خود مختار بیٹے، شادی شدہ بیٹی اور بیگم کی لندن میں موجود تینوں جائیدادوں کی مالیت کا تخمینہ لگائیں۔ جب وہ خریدی گئیں تب ان کی مالیت پاکستانی کرنسی میں لگ بھگ 11 کروڑ روپے بنتی ہے۔ ویسے ہلکی پھلکی بات ہے اتنے میں اسلام آباد کے ایف سیکٹر میں بنگلہ بھی نہیں ملتا۔

اب ذرا حکومتی ٹیم کی بدنیتی ملاحظہ ہو کہ انہوں نے جج صاحب پر الزام لگاتے ہوئے ان جائیدادوں کی مارکیٹ ویلو 2019 کے حساب سے لگائی ہے جوکہ 26 کروڑ روپے بنتی ہے۔ اندازہ کیجیے کہ اس وقت اسلام آباد کی وی آئی پی رہائشی عمارات میں اپارٹمنٹ کی قیمت 10 سے 50 کروڑ روپے کے درمیان چل رہی ہے۔

بات جائیدادوں کی چل نکلی ہے تو یہ بھی بتاتی چلوں کہ اس وقت عدلیہ میں دو ججز ایسے ہیں جنہوں نے حکومت سے ملنے والے قیمتی پلاٹس لینے سے انکار کر رکھا ہے۔ ایک ہیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور دوسرے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ یہ انکار صدراتی ریفرنس آنے کے بعد نہیں کیا۔ یہ قصہ اس سے پہلے کا ہے۔

کیا سپریم جوڈیشل کونسل جج کے احتساب میں ہمیشہ اتنی ہی متحرک رہی؟

جی نہیں۔ جسٹس عیسیٰ کے ریفرنس سے پہلے دیگر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف شکایات کے درجنوں معاملات اس کونسل کے سامنے موجود تھے۔ تاہم ان سب سے پہلے جسٹس عیسیٰ کے کیس کو آؤٹ آف ٹرن کیوں اٹھایا گیا؟ ان کے کیس کو فوقیت کیوں دی گئی؟ اور اس کونسل نے اب تک کتنے ججز کے خلاف کارروائی کی یا پھر ججز کو دباؤ میں لینے کے لیے جھوٹے الزام لگانے والے کتنے افراد کے خلاف ایکشن لیا گیا اس پر ایک چپ ہے اور سو سکھ۔

آخری سوال۔ اور بھی جج ہیں آخر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی کیوں؟

اتنے جواب دے دیے، ان کی تیز روشنی میں اس سوال کا جواب آپ خود تلاش کریں۔ خدا ہم سب کو حق سچ کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

جاسم محمد

محفلین
کیا جسٹس عیسیٰ پاکستانی عوام کے مجرم ہیں؟
عفت حسن رضوی | کیا جسٹس عیسیٰ پاکستانی عوام کے مجرم ہیں؟

جسٹس صاحب کے خود مختار بیٹے، شادی شدہ بیٹی اور بیگم نے جب لندن میں تین جائیدادیں خریدیں تو ان کی مالیت لگ بھگ 11 کروڑ روپے بنتی تھی۔ ویسے اتنے میں تو اسلام آباد کے ایف سیکٹر میں بنگلہ بھی نہیں ملتا۔

عفت حسن رضوی
مصنفہ، صحافی
جمعرات 18 جون 2020 6:15
facebook.svg

twitter.svg

whatsapp.svg

sharethis.svg

92276-1023444515.jpg



اس وقت دو ججز ایسے ہیں جنہوں نے حکومت سے ملنے والے قیمتی پلاٹس لینے سے انکار کر رکھا ہے۔ ایک سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور دوسرے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ (سوشل میڈیا)

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ نام لکھنے کی دیر ہوتی ہے کہ سوشل میڈیا پر جملے کسنے والے یہاں وہاں سے جمع ہو جاتے ہیں۔ ان افراد میں کچھ سیاست دان ہوتے ہیں، کچھ سیاسی کارکن، کچھ انجان گمنام اکاؤنٹس اور کچھ نام نہاد صحافی۔

سوال ہوتا ہے کہ رسیداں کڈو، جج صاحب بہانے نہ بناؤ (رسیدیں دکھاؤ)۔ یہ جملہ بھی پھینکا جاتا ہے کہ باپ ہوگا محسن پاکستان مگر بیٹا چوری کرے تو پکڑنا بنتا ہے۔ آئیں ذرا آج ہم وہ غلط فہمیاں دور کر لیں جو سپریم کورٹ کے ایک جج کے خلاف ہونے والے تاریخی ریفرنس کو سمجھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔

کیا جسٹس عیسیٰ کرپشن میں ملوث ہیں؟

عمومی تاثر یہ ابھرتا ہے کہ لندن میں جائیدادیں بنائی ہیں توکرپشن ضرور کی ہوگی، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ سال بھر سے جسٹس عیسیٰ کا کیس چل رہا ہے، صدارتی ریفرنس تک میں یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ ماضی قریب یا ماضی بعید میں کسی کرپٹ کام میں ملوث رہے ہوں۔

کیا جسٹس عیسیٰ نے بطور جج عوامی عہدے کا غلط استعمال کیا؟

اس سوال کا مختصر جواب ہے ’نہیں‘۔ یہ میرا گمان ہے، نہ کوئی تُکے بازی۔ وفاقی حکومت کے وکلا کے اب تک کے دلائل اٹھا کر کھنگال لیں۔ صدارتی ریفرنس تسلی سے پڑھ لیں۔ اب تک ایک بار بھی یہ الزام نہیں لگایا گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ نامی پاکستانی شہری نے بطور جج اپنے اثر رسوخ اور عہدے کا غلط استعمال کر کے لندن میں جائیدادیں بنائیں۔

کیا جسٹس عیسیٰ نے منصف کے حلف کو توڑا؟

جسٹس صاحب سپریم کورٹ کے جج ستمبر 2014 میں بنے جبکہ زیر بحث معاملہ اس سے قبل کا ہے۔ اس لیے حلف توڑنے کا معاملہ نہیں۔

کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بے نامی جائیداد بنانے کے مرتکب ہوئے؟

سپریم کورٹ میں جج صاحب کے جمع کرائے گئے تمام جوابات اور صدارتی ریفرنس میں لگائے گئے الزامات یہ ثابت کرتے ہیں کہ لندن میں تین جائیدادیں ان کے بیٹے، بیٹی اور بیوی کے نام پر ہیں۔ یہ جائیدادیں جن کے نام پر خریدی گئیں وہی اس کے رہائشی ہیں۔

کیا جسٹس عیسیٰ کا معاملہ پانامہ کیس کی طرز کا ہے؟

ہرگز نہیں۔ پانامہ کیس میں ملک کے وزیر اعظم کے بچوں پر آف شور کمپنیاں بنانے، ٹیکس ہیون میں پیسے پارک کرنے، ٹرسٹ کے ذریعے جائیدادیں خریدنے اور اس تمام عمل میں پیسے کے ذرائع نہ بتانے کا الزام تھا جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا ان کے بچوں پر اب تک یہ الزام بھی نہیں کہ انہوں نے کسی دوسرے تیسرے ذرائع سے جائیدادیں خریدیں، کوئی جعلی کمپنی بنائی یا کسی ٹیکس ہیون میں پیسے پارک کیے۔

یہ اتنا پیسہ ان کے پاس کہاں سے آیا؟

یہ بڑا دلچسپ سوال ہے۔ اول بات تو یہ کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی پاکستان میں موجود ملکیتی جائیدادیں، خاندانی ذرائع آمدن، بطور جج، سرکاری ملازم ڈکلئیرڈ ذرائع آمدن کل ملا کر اتنی ہے کہ وہ باآسانی لندن میں جائیدادیں خرید سکتے ہیں۔ دوسری بات کہ اگر بقول جج صاحب کہ یہ جائیدادیں ان کی نہیں ان کے بچوں اور بیگم کی ہیں تو کھوج لگانے والوں کو خوب علم ہے کہ جسٹس صاحب کی بیگم اور اہل خانہ کے اپنے اپنے علیحدہ، ڈکلیئرڈ ذرائع آمدن بھی ہیں۔

کیا جسٹس عیسیٰ ٹیکس چور ہیں؟

یہ 2004 کی بات ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا نجی ادارہ ایک قانونی فرم تھی جسے صدر پاکستان نے ستارہ امتیاز سے نوازا تھا۔ یہ قانونی فرم جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے پارٹنر کی تھی۔ اب یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ براہ راست جج صاحب پر ٹیکس ادا نہ کرنے یا اثاثے چھپانے کا کوئی کیس نہیں، نہ ہی ان کے خلاف فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں کبھی کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی کبھی کوئی نوٹس بھیجا گیا۔

کیا جسٹس عیسیٰ کے بیوی بچے ابا کے مال پر عیش کر رہے ہیں؟

جسٹس عیسیٰ کے بیٹے ارسلان عیسیٰ کھوسو لندن کی یونیورسٹی سے ایم اے ہیں، لندن میں کنٹریکٹر کا کام کرتے رہے ہیں جبکہ بہو ایک فنانس کمپنی میں بطور کنلسلٹنٹ ملازم رہیں۔ دونوں لندن میں کما رہے تھے۔


جج صاحب کی بیٹی سحرعیسیٰ کھوسو بیرسٹر اور لندن میں قانون کی پریکٹس کرتی رہیں۔ یہ بلوچستان کی پہلی بیٹی ہیں جو کہ بیرسٹر بنیں۔ تین بچوں کی ماں ہیں جبکہ داماد بھی بیرسٹر ہیں۔ یہ دونوں بھی کماتے ہیں۔

جسٹس عیسیٰ کی بیگم زرینہ کھوسو کریرا برطانوی یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل ہیں۔ زرینہ کھوسو کراچی امریکن سکول میں بطور ٹیچر کئی دہائیوں تک پڑھاتی رہیں۔ زرینہ کھوسو کے والد عبدالحق کھوسو بلوچ ہیں جبکہ والدہ پیلیسا کریرا سپین سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور آخری اہم بات۔ جسٹس صاحب کی بیگم سندھ اور بلوچستان میں سینکڑوں ایکڑ پر محیط خاندانی زرعی زمین کی مالک ہیں۔

اب یہ تو ہونے سے رہا کہ کوئی جج بن گیا تو اس کے گھر والے خود کچھ نہیں کماتے یا پھر ساری عمر ان ہی کے پیسوں پر گزارہ کرتے ہیں۔ یہ وہ اثاثے ہیں جو کہ جج صاحب کے گھر والوں کے ہیں۔

کیا جسٹس عیسیٰ نے لندن میں محل نما گھر خریدے؟

آپ جسٹس صاحب کے خود مختار بیٹے، شادی شدہ بیٹی اور بیگم کی لندن میں موجود تینوں جائیدادوں کی مالیت کا تخمینہ لگائیں۔ جب وہ خریدی گئیں تب ان کی مالیت پاکستانی کرنسی میں لگ بھگ 11 کروڑ روپے بنتی ہے۔ ویسے ہلکی پھلکی بات ہے اتنے میں اسلام آباد کے ایف سیکٹر میں بنگلہ بھی نہیں ملتا۔

اب ذرا حکومتی ٹیم کی بدنیتی ملاحظہ ہو کہ انہوں نے جج صاحب پر الزام لگاتے ہوئے ان جائیدادوں کی مارکیٹ ویلو 2019 کے حساب سے لگائی ہے جوکہ 26 کروڑ روپے بنتی ہے۔ اندازہ کیجیے کہ اس وقت اسلام آباد کی وی آئی پی رہائشی عمارات میں اپارٹمنٹ کی قیمت 10 سے 50 کروڑ روپے کے درمیان چل رہی ہے۔

بات جائیدادوں کی چل نکلی ہے تو یہ بھی بتاتی چلوں کہ اس وقت عدلیہ میں دو ججز ایسے ہیں جنہوں نے حکومت سے ملنے والے قیمتی پلاٹس لینے سے انکار کر رکھا ہے۔ ایک ہیں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اور دوسرے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ۔ یہ انکار صدراتی ریفرنس آنے کے بعد نہیں کیا۔ یہ قصہ اس سے پہلے کا ہے۔

کیا سپریم جوڈیشل کونسل جج کے احتساب میں ہمیشہ اتنی ہی متحرک رہی؟

جی نہیں۔ جسٹس عیسیٰ کے ریفرنس سے پہلے دیگر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف شکایات کے درجنوں معاملات اس کونسل کے سامنے موجود تھے۔ تاہم ان سب سے پہلے جسٹس عیسیٰ کے کیس کو آؤٹ آف ٹرن کیوں اٹھایا گیا؟ ان کے کیس کو فوقیت کیوں دی گئی؟ اور اس کونسل نے اب تک کتنے ججز کے خلاف کارروائی کی یا پھر ججز کو دباؤ میں لینے کے لیے جھوٹے الزام لگانے والے کتنے افراد کے خلاف ایکشن لیا گیا اس پر ایک چپ ہے اور سو سکھ۔

آخری سوال۔ اور بھی جج ہیں آخر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہی کیوں؟

اتنے جواب دے دیے، ان کی تیز روشنی میں اس سوال کا جواب آپ خود تلاش کریں۔ خدا ہم سب کو حق سچ کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اتنی ٹیکنیکل باتوں میں کیس کو ایک سال سے زائد عرصہ الجھانے کی بجائے اگر جسٹس فائز عیسی ان برطانیہ جائیدادوں کی منی ٹریل لے کر عدالت کے منہ پر دے مارتے تو آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔
یاداشت کی تازگی کیلئے بتاتا چلوں کہ جب نواز شریف کے خلاف پاناما ٹرائل شروع ہوا تو ان کی جماعت نے بدلہ لینے کیلئے عمران خان اور جہانگیر ترین پر ناجائز ذرائع سے اثاثے بنانے کا الزام لگا دیا۔ وہ چاہتے تو جسٹس فائز عیسی قبیل کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا رونا رو کر ٹیکنیکل بنیادوں کے پیچھے چھپ کر اس کیس کو لڑتے۔ مگر عمران خان نے اپنی سابق اہلیہ جمائمہ خان سے ۱۵ سال پرانا بینک ریکارڈ منگوا کر عدالت کے منہ پر دے مارا۔
اور یوں صادق و امین کا لقب پا کر سر خرو ہو گئے۔ جبکہ یہی منی ٹریل جہانگیر ترین، نواز شریف نہ دے سکنے کی وجہ سے نااہل ہو گئے۔
اب جج صاحب سے بھی منی ٹریل مانگی جا رہی ہے اور وہ کل کہیں جا کر یہ دینے پر راضی ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں وہ منی ٹریل عمران خان کی جمع کرائی گئی بینک اسٹیٹ منٹ ہوگی یا نواز شریف کی طرح کا کوئی قطری خط۔
 
محکمہٗ زراعت اور اس کے گماشتے ( سیلیکٹڈ وغیرہ) تو اس جج کے دشمن ہیں ہی! بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ محکمہ تو دشمن بنا ہے لیکن سیلیکٹڈ حقِ نمک ادا کررہا ہے۔
 

ابن آدم

محفلین
جناب فارن فنڈنگ کیس بھی چل رہا ہے.
اسی طرح بنی گالا کی جعلی این او سی کا بھی معاملہ ہے.
اور یہ منی ٹریل تو عمران کے انٹرویوز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے... لیکن جب کوئی حقائق سے انکاری ہو تو پھر وقت نہیں ضائع کرنا چاہیے
کیونکہ ٢ سال کی کارکردگی سب کے سامنے ہے کہ عوام کو گالیوں میں خود کفیل کرنے کے علاوہ کوئی ایسا قابل قدر کام مکمل ہوا نہیں جس کو خود تحریک انصاف والے بیان کر سکیں
 

جاسم محمد

محفلین
محکمہٗ زراعت اور اس کے گماشتے ( سیلیکٹڈ وغیرہ) تو اس جج کے دشمن ہیں ہی! بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ محکمہ تو دشمن بنا ہے لیکن سیلیکٹڈ حقِ نمک ادا کررہا ہے۔
یہ ایک ٹویٹ پورے مضمون کا خلاصہ ہے
سوال سپریم کورٹ کے جج کی جائیدادوں کا ہو رہا ہے اور اس کی وکالت اپوزیشن، لبرل، لفافے کر رہے ہیں۔ کیا یہ بتانا پسند کریں گے کہ جب عمران خان پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس بنا جب ابھی وہ پبلک آفس ہولڈر بھی نہیں تھے۔ اور ان کو اپنے دفاع میں ۷ ماہ تک ۶۰ سے زائد دستاویزات جمع کروانی پڑی۔ اس وقت کسی کو یہ خیال کیوں نہ آیا کہ یہ کیس عمران خان کے ورلڈ کپ جیتنے، شوکت خانم ہسپتال، نمل یونیورسٹی بنانے اور سیاسی مافیا سے ٹکر لینے کی وجہ سے بنایا گیا ہے؟
جج صاحب پر آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس ہے تو عمران خان کی طرح منی ٹریل دے کر سر خرو ہو جائیں۔ وزیر اعظم، صدر پاکستان، شہزاد اکبر، فروغ نسیم، فوج پر جوابا الزامات لگا دینے سے کیا وہ با عزت بری ہو جائیں گے؟
 

جاسم محمد

محفلین
کیونکہ ٢ سال کی کارکردگی سب کے سامنے ہے کہ عوام کو گالیوں میں خود کفیل کرنے کے علاوہ کوئی ایسا قابل قدر کام مکمل ہوا نہیں جس کو خود تحریک انصاف والے بیان کر سکیں
پاکستان میں حکومت کو جج کرنے کی عمر ۲ نہیں ۵ سال ہوتی ہے۔ باقی اگر اس حکومت نے بھی پچھلی حکومتوں کی طرح قومی خزانے میں ریکارڈ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کر کے ہی ملک میں عارضی معاشی کارکردگی دکھانی ہے تو پھر عمران خان کو اقتدار میں لانے کی کیا ضرورت تھی؟
 

جاسم محمد

محفلین
ظاہری سی بات ہے کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ جج صاحب منی ٹریل دینے کی بجائے ٹیکنیکل بنیادوں پر کیس کو لڑنا چاہ رہے تھے۔ مگر اب منی ٹریل دیے بغیر جان چھوٹتی نظر نہیں آرہی۔ کیونکہ اب جج صاحب کی اہلیہ نے خود منی ٹریل دینے کی حامی بھر لی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ظاہری سی بات ہے کہ یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔
۳۰ جنوری: جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ جائیدادوں سے متعلق FBR کے سامنے بیان دینے کو تیار ہیں۔

‏۱۷ جون: اہلیہ FBR کو کچھ نہیں بتائیں گی، عدالت کے سامنے تفصیلات رکھیں گی۔

‏۱۸ جون: تحریری بیان بھی جمع نہیں کروائیں گی۔ صرف زبانی کلامی بات ہو گی۔

‏اور بدنیت حکومت ہے۔
 
۳۰ جنوری: جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ جائیدادوں سے متعلق FBR کے سامنے بیان دینے کو تیار ہیں۔

‏۱۷ جون: اہلیہ FBR کو کچھ نہیں بتائیں گی، عدالت کے سامنے تفصیلات رکھیں گی۔

‏۱۸ جون: تحریری بیان بھی جمع نہیں کروائیں گی۔ صرف زبانی کلامی بات ہو گی۔

‏اور بدنیت حکومت ہے۔
ظاہر ہے جب محکمہٗ زراعت کی جانب سے جج صاحب سے متعلق ایک فیصلہ کرلیا گیا ہے تو انہیں اب منی ٹریل دینے اور مقدمہ بازی سے باز آکر سیدھے گھر جانا چاہیے، کہ یہی سیلیکٹڈ کا بھی فیصلہ ہے( نمک کھایا ہے آخر۔۔۔۔)
 

جاسم محمد

محفلین
ظاہر ہے جب محکمہٗ زراعت کی جانب سے جج صاحب سے متعلق ایک فیصلہ کرلیا گیا ہے تو انہیں اب منی ٹریل دینے اور مقدمہ بازی سے باز آکر سیدھے گھر جانا چاہیے، کہ یہی سیلیکٹڈ کا بھی فیصلہ ہے( نمک کھایا ہے آخر۔۔۔۔)
اب میڈیا میں یہ پراپگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ جج صاحب کی اہلیہ نے منی ٹریل جمع کروا کر سب کا منہ بند کر دیا ہے۔ جبکہ انہوں نے ویڈیو لنک پر صرف منی ٹریل بتائی ہے جیسے عمران خان کی بہن علیمہ خان نے سوال پوچھنے پر کپڑے کا بزنس، شہباز شریف کی بیگم نے چمڑے کا کاروبار، شہباز شریف نے بھینسوں کا کاروبار، جبکہ نواز شریف نے اسٹیل کا بزنس بتایا تھا۔
منی ٹریل جمع کروانے کا مطلب وہ بینک اسٹیٹ منٹ یا ان جائیدادوں کے کاغذات ہیں جہاں سے معلوم ہو سکے کہ ان اثاثہ جات کی خریداری کے وقت اصل ذرائع آمدن کیا تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس فائز عیسی کے حق میں وہی لوگ پراپگنڈہ کر رہے ہیں جو نواز شریف کے قطری خط کو منی ٹریل قرار دے کر سرخرو کیا کرتے تھے
 

جاسم محمد

محفلین
لفافی طلعت حسین کو کوئی بتائے گا کہ ملک کی طاقتور ترین شخصیت آرمی چیف جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کو بھی اسی طرح کسی گمنام سے وکیل نے سپریم کورٹ میں پٹیشن ڈال کر ایک دن میں معطل کروا دیا تھا۔ اس وقت تو آپ سب نے اس عمل پر مٹھائیاں بانٹی تھی۔ اب وہی گمنام پٹیشنر برے لگ رہے ہیں کیونکہ آپ کے پسندیدہ ترین جج پھنس گئے ہیں
 
ن لیگ نے انصاف کے حصول کیلئے ۲۰۲۳ میں اپنا چیف جسٹس کیا ہوا ہے۔ اللہ مبارک کرے۔

یہ جج کسی کا نہیں ہے بھلے حمایت کریں یا مخالفت۔ ویسے کبھی کے دن بڑے، کبھی کی راتیں۔ پی ٹی ائی کا برا وقت بھی تو آنا ہے۔
پی ٹی آئی نے بظاہر خاکیان کی خواہشات کے کالے بوٹوں میں ریفرنس نما تسمے ڈالے ہیں، لیکن دراصل یہ ان کے اپنے مکافات عمل (مستقبل) کو کچھ اور دیر ٹالے رکھنے کی ناکام کوشش ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ جج کسی کا نہیں ہے بھلے حمایت کریں یا مخالفت۔ ویسے کبھی کے دن بڑے، کبھی کی راتیں۔ پی ٹی ائی کا برا وقت بھی تو آنا ہے۔
پی ٹی آئی نے بظاہر خاکیان کی خواہشات کے کالے بوٹوں میں ریفرنس نما تسمے ڈالے ہیں، لیکن دراصل یہ ان کے اپنے مکافات عمل (مستقبل) کو کچھ اور دیر ٹالے رکھنے کی ناکام کوشش ہے۔
غیر ملکی جائیدادیں منظر عام پر آنے کے بعد قاضی فائز عیسی کے ساتھ دو اور ججز کے خلاف بھی ریفرنس گیا تھا۔ جن میں سے ایک نے استعفی اور باقی دو کا ٹرائل جاری ہے۔ البتہ اپوزیشن، لبرل، لفافے جس طرح صرف جسٹس فائز عیسی کی وکالت کر رہے ہیں اس سے مشرف دور کے جسٹس افتخار چوہدری یاد آجاتے ہیں۔ جنہوں نے عوامی دباؤ کے تحت بحال ہونے کے بعد جو کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
 
غیر ملکی جائیدادیں منظر عام پر آنے کے بعد قاضی فائز عیسی کے ساتھ دو اور ججز کے خلاف بھی ریفرنس گیا تھا۔ جن میں سے ایک نے استعفی اور باقی دو کا ٹرائل جاری ہے۔ البتہ اپوزیشن، لبرل، لفافے جس طرح صرف جسٹس فائز عیسی کی وکالت کر رہے ہیں اس سے مشرف دور کے جسٹس افتخار چوہدری یاد آجاتے ہیں۔ جنہوں نے عوامی دباؤ کے تحت بحال ہونے کے بعد جو کیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
اپوزیشن، لبرل، لفافے قاضی کی حمایت کیوں کر رہے ہیں، دنیا باخوبی جانتی ہے۔ البتہ یوتھیے، ففتھیے اور نام نہاد قدامت پرست اس حمایت کی اصل جانتے ہوئے بھی مخالفت کیوں کر رہے ہیں یہ زیادہ بڑا سوال ہے اور اس کا ممکنہ جواب، شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار یا پھر ۔۔
پی ٹی آئی نے بظاہر خاکیان کی خواہشات کے کالے بوٹوں میں ریفرنس نما تسمے ڈالے ہیں، لیکن دراصل یہ ان کے اپنے مکافات عمل (مستقبل) کو کچھ اور دیر ٹالے رکھنے کی ناکام کوشش ہے۔
 
Top