ایک کہانی (شیخ اسلامیہ کالج ) - قسط 31

سید رافع

محفلین
شیخ اسلامیہ کالج - ایک کہانی


بعض سفر کئی منزلیں لاتے ہیں۔

بعض سفر لا محدود ہوتے ہیں کبھی ختم نہیں ہوتے۔

بعض سفر بالآخر حیرت پر منتہج ہوتے ہیں۔

لڑکا جان چکا تھا کہ یہ انسانوں کے درمیان یکسانیت تلاش کرنے کا سفر ایسا ہی ایک سفر ہے۔

اگر ذات لامحدود ہے تو اسکو پہچاننے کے مسافر اور راستے جدا جدا ہو سکتے ہیں۔

بس انہی مخلص سفر کرنے والوں میں یکسانیت تلاش کر کے انکو ایک جتھا بنانا تھا تاکہ سفر کے مخالفین ایک طرف اور سفر کرنے والے دوسرے طرف ہوں۔

توجہ سفر پر ہو جائے۔

سفر کرنے والوں کی جان محفوظ ہو جائے۔

سفر کرنے والوں کے مال امان میں آ جائیں۔

سفر کرنے والوں کی عزتیں یکساں محترم ہو جائے۔

ہاں جو سفر کے مخالف ہیں وہ خوف کے مارے ڈرے رہیں۔

سفر کرنے والے اپنی اپنی کیفیت اپنی اپنی داستان ایک دوسرے کو سناتے رہیں اور سفر کو پر لطف بناتے رہیں۔

لڑکا چاہتا تھا کہ سفر کرنے والوں کی ایک حکومت بن جائے تاکہ سفر کرنے والوں کو کوئی دشواری پیش نہ آئے۔

حکومت سفر کے مخالفین کو ڈرا کر رکھے اور ہر اس انتظام کو جاری کرے جو اس سے پہلے پرلطف مسافروں کے احوال میں ملتا ہے۔

لڑکا اسلامیہ کالج کے سامنے بنے گلوب کے سامنے سے گزرتا ہے اور کچھ ہی فاصلے پر ایک گلی میں مڑ جاتا ہے۔

اب لڑکا ایک قدیم طرز کے بنے بنگلے میں داخل ہوتا ہے جو آج بھی طارق روڈ کے اطراف و اکناف میں کہیں کہیں دیکھے جا سکتے ہیں۔

لڑکا استقبالیہ پر موجود لڑکے کو بتاتا ہے کہ وہ ایک خاص وجوہ کی بنا پر اس ادارے کے انچارج سے ملنا چاہتا ہے۔

لڑکا سیدھے جا کر دائیں مڑنے کا اشارہ کرتا ہے۔

اب لڑکا ایک کمرے کے دروازے پر ہوتا ہے۔

اندر ایک نفیس انسان مانند ایک پرنسپل کے نشست کیے ہوتے ہیں۔

لڑکا سلام کرتا ہے اور جواب کے ساتھ سامنے موجود کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہیں۔

لڑکا شیخ سے عرض کرتا ہے کہ وہ حنفی علماء کو ایک کرنے کی سعی کر رہا ہے۔

شیخ خوش ہو کر اس کو اتحاد بین المسلمین کی سعی کہتے ہیں۔

لڑکا سود سے متعلق پمفلٹ انکو دکھاتا ہے تو وہ فرماتے ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کے لیے ان بنکوں سے وابستہ ہیں۔

انکا مطلب تھا کہ مجبوری کی وجہ سے معذوری ہے سو آپ اسقدر شدت سے کام نہ لیں کہ کہیں کہ سودی بینکوں سے رقم نکالیں اور تجارت میں لگائیں۔

شیخ پوچھتے ہیں کہ آپ کن کن حضرات سے مل لیے؟

لڑکا جن لوگوں سے ملا ہوتا ہے انکے نام گناتا ہے۔

شیخ لڑکے کو شیخ آرام باغ سے ملنے کا بھی کہتے ہیں جن کے کئی ساتھی دسیوں لوگوں کے ساتھ نشتر پارک میں محفل میلاد کے خود کش دھماکے میں ہلاک ہوئے۔

لڑکا بعد میں شیخ آرام باغ سے ایک دن ملنے جاتا بھی ہے لیکن ان کے صاحبزادے ان کی غیر موجودگی اور سفر کی اطلاع دیتے ہیں۔

شیخ گارڈن سے ملنے کا بھی کہتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ شیخ پرانی سبزی منڈی کےمقابلے میں وہ عالم دین ہیں۔

حقیت یہ ہے کہ شیخ گارڈن اور ان کے شیخ بالآخر مجددی سلسلے کو پسند کرنے کے باعث ایک دوسرے سے قدرے نزدیک تھے۔ جبکہ شیخ پرانی سبزی منڈی قادری سلسلے سے تھے۔

حالانکہ دونوں قادری اور مجددی سلسلے بالآخر جناب علی المرتضی علیہ السلام سے جا ملتے ہیں۔

نبوت کے علوم اسقدر کثیر اور لامحدود ہیں کہ ہر سلسلہ جو حصہ سنبھالے ہوئے ہےاسی علم کے گنجینے میں غرق ہے۔

حال یہ ہے کہ ہر سلسلے کے علوم سیلاب کی مانند ہیں ۔ اسی سے اندازہ کر لیں کہ اصل منبع کسقدر وسیع اور شدید ہو گا۔

جب وہ شیخ احسن رب میڈیکل کا سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمارے اسی ادارے نے نایاب قرآن کریم کے نسخوں کی نمائش کا اہتمام کیا ہے۔ کیا آپ انکو ہمارا دعوت نامہ پہنچا سکتے ہیں۔

لڑکا حامی بھر لیتا ہے اور ایک کارڈ شیخ لڑکے کو عنایت کرتے ہیں۔

شیخ احسن رب میڈیکل ان سے نظریاتی اور تفسیری اختلاف رکھتے تھے اور ان کی محافل میں نہ شریک ہوتے۔

شیخ لڑکے کو بھی اس نمائش میں مدعو کرتے ہیں۔

شیخ عامر لیاقت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بلاوجہ لوگ انکے پیچھے لگ گئے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا فون نمبر بھی دیتے ہیں۔

لڑکا میسج کے ذریعے عامر لیاقت کو ملنے کا کہتا ہے جس کا وہ مثبت جواب دیتے ہیں لیکن بوجوہ لڑکا ان سے نہیں مل پاتا۔

لڑکا نمائش کے دن اس ادارے پہنچتا ہے تو واقعی قرآن پاک کے قدیم نسخے دنیا بھر سے جمع کر کے نمائش میں رکھے گئے تھے۔

شیخ نےاپنی کراچی جماعت کے ایک سرکردہ سیاسی لیڈراور رکن اسمبلی سے ملاقات کرائی۔

وہ لڑکے کو ٹی وی شو میں آنے کا مشورہ دیتے ہیں جو لڑکے کو کسی طور اپنے مقصد سے متعلق نظر نہیں آتا۔

بہرحال مغرب بعد لڑکا واپس آ جا تا ہے۔

شیخ اسلامیہ کالج سے لڑکے کی کئی ملاقاتیں ہوتیں ہیں۔ وہ بہت صحیح مشورہ دینے والے، مخلص انسان تھے۔

دستاویز کو کمپیوٹر ٹائپنگ میں لانے کا مشورہ بھی انہی کا تھا۔

ایک دفعہ ان کے کمرے میں ایک صاحب اور نشست رکھتے تھے۔ وہ کسی اخبار سے تعلق رکھتے تھے۔

لڑکے نے بینک کے پیسے کو سونے میں تبدیل کرنے کا تذکرہ کیا تو کہنے لگے یعنی آپ سناروں کا فائدہ کرانا چاہتے ہیں۔

لڑکے نے کہا وہ کسی کے لیے یہ کام نہیں کر رہا۔ وہ یہ اس لیے کر رہا ہے کہ اسکی اپنی شخصیت کی تکمیل کے لیے ان مراحل سے گزرنا ضروری ہے۔

وہ صاحب کہنے لگے آپ کچھ کر لیں آپ کمپیوٹر والے صاحب کے نام سے ہی مشہور ہو جائیں گے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ حنفی علماء کو ایک کر تے کرتے آپ ایک اور گروہ بنا جائیں گے۔

اپنے والد صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ انہوں نے عالم دین کے علوم پڑھے اور بالآخر اپنی ہی قائم کردہ مسجد میں نماز پڑھاتے جس میں 200 سو نمازی ہوتے۔

شیخ نے کئی دفعہ کال کر کر کے لڑکے کی خیریت پوچھی وہ چاہتے تھے کہ لڑکا انکی جماعت میں شامل ہو جائے۔

لڑکے نے انکو اپنے کام میں شامل ہونے کے لیے کہا تو ذرا توقف کے بعد فرمایا ہمارا آدمی جھک تو سکتا ہے توڑا نہیں جا سکتا۔

ایک صاحب جو خود پی ایچ ڈی تھے ان سے شیخ نے لڑکے کے کام کا تذکرہ کیا کہ وہ اتحاد بین المسلمین کے لیے کام کر رہے ہیں تو ان کا فون آیا اور ملنے کی درخواست کی لیکن یہ ملاقات نہ ہو پائی۔

رفتہ رفتہ شیخ سے تعلق ختم ہوتا گیا کہ لڑکے کو اندازہ ہو گیا تھا کہ دنیا کا انتظام اس وقت انسانوں کو تقسیم کرنے والے گروہ کے ہاتھوں میں ہے۔

علم محصور ہے اور اس گروہ نے بزور ہتھیار انسانوں کو تقسیم کر کے رکھا ہوا ہے۔



منظر تبدیل ہوتا لڑکا دستاویز کے سلسلے میں شیخ بیت المکرم کے خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔


میاں ظہوری-
 
آخری تدوین:

سید رافع

محفلین
بہترین کاوش بہت خوب صورت پیرائے میں بیان کی گئ ہے اللہ آپکی مدد فرمائے آمین

آپ کی ہمت افزائی سے دل بہت خوش ہوا۔ دل سے دعا ہے کہ آپ کو اللہ صحت اور عافیت سے رکھے۔ اللہ سے یہ بھی دعا ہے کہ کل محفلین اور کل مومنین و مومنات کے لیے بھی یہی دعا قبول فرمائے۔ آمین۔
 
Top