لداخ میں چین اور بھارتی فوج میں جھڑپ، متعدد بھارتی اہلکار گرفتار

جاسم محمد

محفلین
لداخ میں چین اور بھارتی فوج میں جھڑپ، متعدد بھارتی اہلکار گرفتار
ویب ڈیسک پير 25 مئ 2020
2044485-chinaindiax-1590388444-970-640x480.jpg

چینی فوج نے بھارتی فوجی دستے کا اسلحہ بھی قبضے میں لے لیا تاہم مذاکرات کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔

نئی دہلی: چینی اور بھارتی افواج کے درمیان متنازع علاقے لداخ میں جھڑپ کے بعد کشیدگی میں اضافہ ہوگیا ہے۔

بھارتی اور غیر ملکی میڈیا کے مطابق مشرقی مداخ میں جھیل پینگانگ سو کے قریب دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جس کے بعد چینی فوج نے بھارتی فوجی دستے کو گرفتار کرلیا اور ان کا اسلحہ بھی اپنے قبضے میں لے لیا۔ تاہم بھارتی فوج کی ہائی کمان کی جانب سے بات چیت کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔

یہ معاملہ اتنا سنگین تھا کہ بھارتی آرمی چیف نے وزیراعظم مودی کو اس پر بریفنگ دیتے ہوئے اسے شدید جھٹکا قرار دیا۔

دوسری جانب بھارتی فوجی ترجمان نے اپنے فوجیوں کی گرفتاری کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ جب میڈیا اس طرح کی خبریں شائع کرتا ہے تو اس سے ہماری قومی مفادات کو ٹھیس پہنچی ہے۔

بھارتی میڈیا نے کہا ہے کہ دونوں ممالک کی افواج لداخ میں اپنی نفری میں اضافہ کررہی ہے اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر کئی مقامات پر خیمے نصب کردیے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان حالیہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب بھارتی فوج نے لداخ کے علاقے گالوان میں ایک سڑک اور پل کی تعمیر شروع کی جس پر چین نے سخت ناراضی کا اظہار کیا۔

5 اور 9 مئی کو بھی دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جس میں دونوں طرف سے اسلحہ کی بجائے مکوں اور آہنی سلاخوں کا استعمال کیا گیا تھا جس میں مئی اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔

سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں جن میں دونوں افواج کے درمیان تکرار دیکھی جاسکتی ہے۔

بھارت کا چین کے ساتھ سرحدی جھگڑے کے ساتھ نیپال کے ساتھ بھی سرحدی تنازعہ بڑھتا جارہا ہے۔ نیپالی وزیر اعظم کے پی اولی نے نیپال کا نیا نقشہ جاری کیا ہے جس میں کالا پانی، لمپیا دھورا، لیپو لیکھ کے علاقے کو نیپال کا حصہ قرار دیا جس پر بھارت اپنا دعوی کرتا ہے۔ انہوں نے نیپال میں کورونا وائرس پھیلنے کا ذمہ دار بھی بھارت کو قرار دیا۔
 
یہ چینیوں نے کیا کام شروع کر دیا ہے؟


کوئی ان کے وزیر اعظم کو بتائے کہ اگر بھارتی لداخ کا سٹیٹس تبدیل کر رہے تھے تو ان کے فوجی نہیں پکڑنے تھے، نا لڑائی کرنی تھی۔ بلکہ پوری قوم کو بروز جمعہ آدھے گھنٹے کے لیے سڑک پر کھڑا کرنا تھا، بس۔
 

زیک

مسافر
یہ چینیوں نے کیا کام شروع کر دیا ہے؟


کوئی ان کے وزیر اعظم کو بتائے کہ اگر بھارتی لداخ کا سٹیٹس تبدیل کر رہے تھے تو ان کے فوجی نہیں پکڑنے تھے، نا لڑائی کرنی تھی۔ بلکہ پوری قوم کو بروز جمعہ آدھے گھنٹے کے لیے سڑک پر کھڑا کرنا تھا، بس۔
مذاق اور عارف ٹرول جاسم ایک طرف لیکن چین کا لداخ میں یہ ایکشن ایسی سرحد پار کرنا ہے جسے وہ تسلیم کرتا ہے۔ یہ ایکشن چین اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقے میں نہیں۔ پھر یہ ایکشن کیوں لیا گیا؟
 

جاسم محمد

محفلین
چین کا لداخ میں یہ ایکشن ایسی سرحد پار کرنا ہے جسے وہ تسلیم کرتا ہے۔ یہ ایکشن چین اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقے میں نہیں۔ پھر یہ ایکشن کیوں لیا گیا؟
The Chinese action is seen as a reaction to India’s decision to split Jammu & Kashmir state to create Ladakh as an independent Union Territory. China has earlier taken up the issue at the United Nations saying the decision is interference in its own territory. India and China are involved in a dispute over Aksai Chin, a largely barren area extending from Ladakh to the Xinjiang region of China
All You Need To Know About India-China Stand-off In Ladakh
مودی سرکار اگر یکطرفہ طور پر مقبوضہ کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے کی کوشش نہ کرتی تو آج حالات اس نہج تک نہ پہنچتے
 
مذاق اور عارف ٹرول جاسم ایک طرف لیکن چین کا لداخ میں یہ ایکشن ایسی سرحد پار کرنا ہے جسے وہ تسلیم کرتا ہے۔ یہ ایکشن چین اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقے میں نہیں۔ پھر یہ ایکشن کیوں لیا گیا؟
ایسا نہیں ہے۔

اقسائی چن کا علاقہ تقریباً 38000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ معلوم تاریخ میں شاید دو تین بار ڈوگرہ راجہ اور سرکار انگلیشہ نے چین کے ساتھ سرحدی حد بندی ( ڈی مارکیشن) کی کوشش کی جو مختلف وجوہات کی وجہ سے ممکن نا ہو پائی۔ بعد ازاں ڈوگرہ راجہ و سرکار انگلیشہ کے سروئیرز نے جو نقشے بنائے تھے انھیں ہی یکطرفہ طور پر صحیح مان لیا۔

کشمیر پر قبضے کے بعد بھارتیوں نے اس جگہ کو اپنے پاس موجود نقشوں کی وجہ سے اپنا حصہ سمجھا اور ابھی تک اس کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔

تقریباً غیر آباد علاقہ اور فی الحال تک کسی قسم کی معدنیات و جنگلات وغیرہ سے خالی ہونے کی وجہ سے بھارتیوں کے لیے اس کی کوئی خاص وقعت نہیں ہے، البتہ چین کے لیے اس کی اہمیت ہے کہ تبت تک رسائی کا ایک بڑا راستہ اس سے گزر کر جاتا ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
کوئی ان کے وزیر اعظم کو بتائے کہ اگر بھارتی لداخ کا سٹیٹس تبدیل کر رہے تھے تو ان کے فوجی نہیں پکڑنے تھے، نا لڑائی کرنی تھی۔ بلکہ پوری قوم کو بروز جمعہ آدھے گھنٹے کے لیے سڑک پر کھڑا کرنا تھا، بس۔
پورا ملک بقول آپ کی جماعت کے جنرل باجوہ چلا رہے ہیں( وزیر اعظم تو محض سلیکٹڈ ہے)۔ تو ان کے پاس بھارت سے جنگ کا وقت کہاں سے آنا تھا؟ اب عمران خان بھارتی فوجیوں کے ساتھ بارڈر پر کرکٹ کھیلنے سے تو رہے۔ اس لئے فقط دعاؤں کے چورن پر گزارہ کریں۔
Whats-App-Image-2019-08-29-at-00-31-49.jpg
 

زیک

مسافر
ایسا نہیں ہے۔

اقسائی چن کا علاقہ تقریباً 38000 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ معلوم تاریخ میں شاید دو تین بار ڈوگرہ راجہ اور سرکار انگلیشہ نے چین کے ساتھ سرحدی حد بندی ( ڈی مارکیشن) کی کوشش کی جو مختلف وجوہات کی وجہ سے ممکن نا ہو پائی۔ بعد ازاں ڈوگرہ راجہ و سرکار انگلیشہ کے سروئیرز نے جو نقشے بنائے تھے انھیں ہی یکطرفہ طور پر صحیح مان لیا۔

کشمیر پر قبضے کے بعد بھارتیوں نے اس جگہ کو اپنے پاس موجود نقشوں کی وجہ سے اپنا حصہ سمجھا اور ابھی تک اس کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔

تقریباً غیر آباد علاقہ اور فی الحال تک کسی قسم کی معدنیات و جنگلات وغیرہ سے خالی ہونے کی وجہ سے بھارتیوں کے لیے اس کی کوئی خاص وقعت نہیں ہے، البتہ چین کے لیے اس کی اہمیت ہے کہ تبت تک رسائی کا ایک بڑا راستہ اس سے گزر کر جاتا ہے۔
1962 کی جنگ میں فتح کے بعد چین نے اکسائی چن پر اپنے دعوے کے مطابق لائن آف ایکچول کنٹرول تک کا علاقہ لے کر جنگ بندی کی تھی۔ کیا کوئی نقشہ ہے جو یہ دکھائے کہ لائن آف ایکچول کنٹرول کے پار چین کن علاقوں پر دعوی رکھتا ہے
 

جاسم محمد

محفلین
1962 کی جنگ میں فتح کے بعد چین نے اکسائی چن پر اپنے دعوے کے مطابق لائن آف ایکچول کنٹرول تک کا علاقہ لے کر جنگ بندی کی تھی۔ کیا کوئی نقشہ ہے جو یہ دکھائے کہ لائن آف ایکچول کنٹرول کے پار چین کن علاقوں پر دعوی رکھتا ہے
Aksai_Chin_Sino-Indian_border_map.png
 
گرین لائین والا (بھارتی) دعویٰ مستند نہیں ہے، چائنہ نے کبھی بھی برطانوی حد بندیوں کو دو طرفہ طور پر قبول نہیں کر رکھا۔ بھارتیوں کے دعویٰ کی اصل بھی یہی حد بندی نقشے ہیں۔

اس علاقے کے جغرافیائی خدوخال کا جائزہ لیا جائے تو چائینز کلیم قراقرم کے پہاڑی سلسلوں کی چائنیز سائڈ تک ہے۔ جنھیں وہ زمانہ قدیم سے قدرتی سرحد سمجھتے/ مانتے رہے ہیں۔
 

آورکزئی

محفلین
ائے ہائے۔۔ لداخ چائنا کا شہہ رگ بھی نہیں اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے صبر کرلیں ہم مزید نغمے تیار کر لیں گے پھر دیکھنا کیسے ازاد کراتے ہیں اپنے شہہ رگ کو۔۔۔۔۔ توبہ
 
پڑھیے اور سر دھنیے۔

After the Chinese reconquered Turkestan in 1878, renaming it Xinjiang, they again reverted to their traditional boundary. By now, the Russian Empire was entrenched in Central Asia, and the British were anxious to avoid a common border with the Russians. After creating the Wakhan corridor as the buffer in the northwest of Kashmir, they wanted the Chinese to fill out the "no man's land" between the Karakoram and Kunlun ranges. Under British (and possibly Russian) encouragement, the Chinese occupied the area up to the Yarkand River valley (called Raskam), including Shahidulla, by 1890.[26] They also erected a boundary pillar at the Karakoram pass by about 1892.[27]These efforts appear half-hearted. A map provided by Hung Ta-chen, a senior Chinese official at St. Petersburgh, in 1893 showed the boundary of Xinjiang up to Raskam. In the east, it was similar to the Johnson line, placing Aksai Chin in Kashmiir territory]
 
Top