نبی اکرمﷺ نے مباہلے کا چیلنج کس کو دیا تھا؟

ابن آدم

محفلین
ہر کسی کی اپنی سوچ ہوتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ ہر کسی کو اپنی سوچ کی بدہضمی ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر وقت اور ہر جگہ آپ اپنی سوچ کی قے کرتے پھریں، جیسے کہ یہ والی قے:


آج تک ہر کسی نے یہی کہا، حتی کہ انہوں نے بھی یہی کہا کہ جو حضرت امام حسین کو خلیفۃ المسلمین اور امیر المومنین کا باغی کہتے ہیں، کہ امام حسین، یزید اور ابنِ زیاد کی فوج کے ہاتھوں جس کا کمانڈر ابنِ سعد تھا، کربلا کے دشت میں اپنے عزیز و اقارب اور رفقا کے ساتھ مقتول ہوئے۔ ایسی بدبو یا تو پرویزیوں کی "ذاتی سوچ" کے قے میں تھی یا آپ کے اوپر والے جملے میں ہے کہ امام حسین صرف اکیلے مقتول ہوئے تھے وہ بھی غیر مسلموں کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے، لعنت اللہ علی الکاذبین!


جب انسان کے پاس دلیل کا جواب نہ ہو تو ایسے ہی الزامات دوسروں پر لگانا شروع کر دیتا ہے.
حضرت زین العابدین کا نام علی بن حسین ہے، کربلا کی ابو مخنف کے قصہ میں بھی علی اکبر اور علی اصغر کا ذکر ہے، کیا امام حسین نے سب بچوں کا نام علی ہی رکھا تھا، تو زین العابدین کا نام علی منجھلا تھا؟ اسی طرح کربلا کے ایک اور کردار سکینہ بھی مکہ میں رہتی تھیں اور ان کے مکان کی چھت گر گئی تھی تو کربلا کے بہت سے کردار کے ہم نام انہی کے دور میں مکہ اور مدینہ میں مل جاتے ہیں. اسی طرح زین العابدین کے بیٹے کی کتاب مسند زید بن علی بن حسین میں جنگ نہروان کا ذکر ہے لیکن کربلا کا نہیں. ابو مخنف کے ١٧٠ ہجری میں اس فرضی قصہ کے لکھنے سے پہلے آپ کو کربلا کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا.

آج آپ عیسائیوں سے کہیں کہ حضرت عیسیٰ (ع) تو صرف انسان اور الله کے رسول ہیں تو وہ بھی ایسے ہی سیخ پا ہوں گے لیکن کیا ان کا مجھے برا بھلا کہنے سے حقیقت بدل جائے گی.
 

الف نظامی

لائبریرین
آیتِ مباہلہ کا مخاطب گروہ یہودی کیسے ہو سکتا ہے جب آپ اس سے قبل دو آیات پڑھ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ مخاطب عیسائی ہی ہیں جیسا کہ فمن حاجک میں" ک" کی ضمیر کا مرجع پچھلی آیات سےواضح ہوتاہے۔
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿آل عمران:54﴾
بے شک عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے کہ اس کو مٹی سے بنایا پھر اس سے کہا کہ ہوجا وہ ہوگیا
(یہ بات کہ آدم کو بلا ماں باپ کے اور عیسی کو بلا باپ کے پیدا کیا ، حق ہے یعنی اللہ جیسا چاہتا ہے وہ کرتا ہے)

الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿آل عمران:60﴾
یہ حق (بات) تو تیرے پروردگار کی طرف سے ہے (کہ عیسی آدم کی طرح انسان ہیں) پس تو ہر گز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو (کسی شک میں نہ جا)
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر شک سے بالا تر ہیں یہاں خطاب آپ کی امت کے ہر فرد اور قرآن کی تلاوت کرنے والے سے ہے ، قرآن میں جہاں کسی اہم حقیقت کا بیان کیا گیا ہے وہاں امت کو اسی معجزانہ انداز میں خطاب کیا گیا ہے)

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّ۔هِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿آل عمران:61﴾
(اے رسول) پھر جو کوئی آپ سے اس (مسیح کی عبدیت اور اللہ کی ربوبیت) کے بارے میں حجت کرے اس کے بعد کہ آپ کے پاس سچی خبر آ چکی ہے تو کہدیجئے (کہ اب فیصلہ اللہ پر چھوڑ دو) آو ہم اپنے بیٹوں کو بھی بُلائیں اور تمہارے بیٹوں کو بھی اور اپنی عورتوں کو بھی، اور تمہاری عورتوں کو بھی ، اور اپنے آپ کو اور تم کو بھی (یعنی ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آو) پھر ہم نہایت عاجزی سے (اللہ کے حضور) دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں (تا کہ اللہ تعالےٰ کی لعنت جھوٹوں پر پڑے اور حق و باطل کا ابھی فیصلہ ہو جائے، یہ آیت مباہلہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مباہلہ کا حکم دیا)

اس مباہلہ کےلیے جب سرکارِ دوعالم ﷺ تشریف لے چلے تو انوارِ جلال و جمال کا ایک عجیب سماں تھا۔ آپ کے جسمِ اطہر پر سیاہ چادر تھی جو آفتابِ رسالت کی شعاوں کو اپنے آغوش میں لیے تھی اور خود سرورِ کائنات ﷺ اپنے آغوش مبارک میں اپنے معصوم نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو لیے اپنے سینے سے چمٹائے ہوئے تھے کہ دنیا دیکھ لے کہ حق کا یہ معصوم پاسبان ہی وقت پڑنے پر آگے ہوگا۔ اور حضور ، حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے ۔ جگر گوشہ رسول ، حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنھا حضور کے پیچھے پیچھے گویا حضور ﷺ کے نقشِ قدم پر چل رہی تھیں اور مولائے کائنات اس نورِ محمدی ﷺ کے پیچھے تھے۔ حسنِ ادب کے یہ نظارے جس درجہ پُر وقار تھے اسی قدر تابناک۔ حضور ﷺ فرما رہے تھے کہ جب میں دعا کروں تم سب آمین کہنا۔ جب اس حلقہ نور پر نجران کے لاٹ پادری کی نظر پڑی تو وہ گھبرا کر بول اٹھا اے نصرانیو! میں آج وہ معصوم نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے کہیں کہ پہاڑ کو ہٹا دے تو پہاڑ ہٹا دیے جائیں گے۔ لہذا تم ان سے مباہلہ کی ہمت مت کرو ورنہ سب ہلاک ہو جاو گے اور قیامت کے دن تک کسی عیسائی کا نام و نشان باقی نہ رہے گا۔ چنانچہ وہ مباہلہ کی تاب نہ لا سکے اور سب واپس چلے گئے۔
(بحوالہ : فیوض القرآن صفحہ 125)
 
آخری تدوین:

ابن آدم

محفلین
آیتِ مباہلہ کا مخاطب گروہ یہودی کیسے ہو سکتا ہے جب آپ اس سے قبل دو آیات پڑھ لیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ مخاطب عیسائی ہی ہیں
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿آل عمران:54﴾
بے شک عیسی کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے کہ اس کو مٹی سے بنایا پھر اس سے کہا کہ ہوجا وہ ہوگیا
(یہ بات کہ آدم کو بلا ماں باپ کے اور عیسی کو بلا باپ کے پیدا کیا ، حق ہے یعنی اللہ جیسا چاہتا ہے وہ کرتا ہے)

الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ ﴿آل عمران:60﴾
یہ حق (بات) تو تیرے پروردگار کی طرف سے ہے (کہ عیسی آدم کی طرح انسان ہیں) پس تو ہر گز شک کرنے والوں میں سے نہ ہو (کسی شک میں نہ جا)
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر شک سے بالا تر ہیں یہاں خطاب آپ کی امت کے ہر فرد اور قرآن کی تلاوت کرنے والے سے ہے ، قرآن میں جہاں کسی اہم حقیقت کا بیان کیا گیا ہے وہاں امت کو اسی معجزانہ انداز میں خطاب کیا گیا ہے)

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّ۔هِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿آل عمران:61﴾
(اے رسول) پھر جو کوئی آپ سے اس (مسیح کی عبدیت اور اللہ کی ربوبیت) کے بارے میں حجت کرے اس کے بعد کہ آپ کے پاس سچی خبر آ چکی ہے تو کہدیجئے (کہ اب فیصلہ اللہ پر چھوڑ دو) آو ہم اپنے بیٹوں کو بھی بُلائیں اور تمہارے بیٹوں کو بھی اور اپنی عورتوں کو بھی، اور تمہاری عورتوں کو بھی ، اور اپنے آپ کو اور تم کو بھی (یعنی ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آو) پھر ہم نہایت عاجزی سے (اللہ کے حضور) دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں (تا کہ اللہ تعالےٰ کی لعنت جھوٹوں پر پڑے اور حق و باطل کا ابھی فیصلہ ہو جائے، یہ آیت مباہلہ ہے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو مباہلہ کا حکم دیا)

اس مباہلہ کےلیے جب سرکارِ دوعالم ﷺ تشریف لے چلے تو انوارِ جلال و جمال کا ایک عجیب سماں تھا۔ آپ کے جسمِ اطہر پر سیاہ چادر تھی جو آفتابِ رسالت کی شعاوں کو اپنے آغوش میں لیے تھی اور خود سرورِ کائنات ﷺ اپنے آغوش مبارک میں اپنے معصوم نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو لیے اپنے سینے سے چمٹائے ہوئے تھے کہ دنیا دیکھ لے کہ حق کا یہ معصوم پاسبان ہی وقت پڑنے پر آگے ہوگا۔ اور حضور ، حضرت امامِ حسن رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے ۔ جگر گوشہ رسول ، حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنھا حضور کے پیچھے پیچھے گویا حضور ﷺ کے نقشِ قدم پر چل رہی تھیں اور مولائے کائنات اس نورِ محمدی ﷺ کے پیچھے تھے۔ حسنِ ادب کے یہ نظارے جس درجہ پُر وقار تھے اسی قدر تابناک۔ حضور ﷺ فرما رہے تھے کہ جب میں دعا کروں تم سب آمین کہنا۔ جب اس حلقہ نور پر نجران کے لاٹ پادری کی نظر پڑی تو وہ گھبرا کر بول اٹھا اے نصرانیو! میں آج وہ معصوم نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے کہیں کہ پہاڑ کو ہٹا دے تو پہاڑ ہٹا دیے جائیں گے۔ لہذا تم ان سے مباہلہ کی ہمت مت کرو ورنہ سب ہلاک ہو جاو گے اور قیامت کے دن تک کسی عیسائی کا نام و نشان باقی نہ رہے گا۔ چنانچہ وہ مباہلہ کی تاب نہ لا سکے اور سب واپس چلے گئے۔
(بحوالہ : فیوض القرآن صفحہ 125)

جناب ان تمام باتوں کا جواب تحریر میں مفصل انداز میں دیا گیا ہے. اور ان جیسی بہت سی تحریروں کو پڑھ کر اور سمجھ اور قرآن سے رہنمائی لے کر ہی تحریر لکھی ہے. آپ اگر اس تحریر کو ایک دفعہ پھر پڑھیں گے تو شاید آپ کو بات بہتر سمجھ آ جائے.

باقی مجھے کسی سے اپنی بات منوانی نہیں بلکہ بتانی ہے. ہر انسان اپنے اعمال اور عقائد کا خود ذمہ دار ہے.

تحریر پڑھنے کا شکریہ.
 

ابن آدم

محفلین
ان آیات کے باے میں تفصیل فرمادیجئے تعداد اور وہ کون کون سی آیات ہیں۔ پلیز
ویسے مزے کی بات نہیں کہ کلام الله کا اور ان کو منسوخ کرنے کا اختیار مخلوق کو. ایک دور میں منسوخ آیات کی تعداد ٥٠٠ تک پہنچ گئی تھی.. اور کیا مختلف ادوار میں مختلف تعداد منسوخ آیات قرآن میں اختلاف نہیں دکھاتا جب کہ الله کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی اختلاف نہیں.
 
ویسے مزے کی بات نہیں کہ کلام الله کا اور ان کو منسوخ کرنے کا اختیار مخلوق کو. ایک دور میں منسوخ آیات کی تعداد ٥٠٠ تک پہنچ گئی تھی.. اور کیا مختلف ادوار میں مختلف تعداد منسوخ آیات قرآن میں اختلاف نہیں دکھاتا جب کہ الله کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی اختلاف نہیں.
میرا ایمان ہے کہ قرآنِ عظیم الشان میں کچھ بھی منسوخ نہیں ۔سوال صرف حصولِ علم کی خاطر کیا تھا
 

ابن آدم

محفلین

سید ذیشان

محفلین
ان آیات کے باے میں تفصیل فرمادیجئے تعداد اور وہ کون کون سی آیات ہیں۔ پلیز
(١٠٦البقرہ) مَا نَنسَخۡ مِنۡ ءَايَةٍ أَوۡ نُنسِهَا نَأۡتِ بِخَيرٍ۬ مِّنهَآ أَوۡ مِثلِهَآ‌ۗ أَلَمۡ تَعلَمۡ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ


[Yusufali 2:106] None of Our revelations do We abrogate or cause to be forgotten, but We substitute something better or similar: Knowest thou not that Allah Hath power over all things?

تفصیل/تفسیر کے لئے یہاں دیکھیں۔
 

ابن آدم

محفلین
(١٠٦البقرہ) مَا نَنسَخۡ مِنۡ ءَايَةٍ أَوۡ نُنسِهَا نَأۡتِ بِخَيرٍ۬ مِّنهَآ أَوۡ مِثلِهَآ‌ۗ أَلَمۡ تَعلَمۡ أَنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىۡءٍ۬ قَدِيرٌ


[Yusufali 2:106] None of Our revelations do We abrogate or cause to be forgotten, but We substitute something better or similar: Knowest thou not that Allah Hath power over all things?

تفصیل/تفسیر کے لئے یہاں دیکھیں۔
یہاں پر پہلی بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ الله نے کہا کہ ہم اگر کسی آیت کو
یعنی کہ اگر کے ساتھ یہ جملہ ہے نہ کہ لازم کے طور پر کہ ہم نے یہ آیت منسوخ کر دی ہیں.

دوسری بات یہ کہ آیت کہہ رہی ہے کہ ہم اگر کسی آیت کو منسوخ کریں تو یا بھلا دیں تو ہم اس کی جگہ اس سے بہتر لے آئیں گے. الله نے یہ حق کسی نبی کو بھی نہیں دیا کہ وہ اس کی آیات کو منسوخ کرے تو ہم مسلمان، فقہہ، محدثین، مفسرین کیسے کسی آیت کو منسوخ کر سکتے ہیں؟ اور اگر کسی آیت کو منسوخ کیا ہے تو پھر بتائیں کہ کس آیت کے نزول کے وقت الله نے کہا ہے کہ اب فلاں آیت منسوخ ہے؟

اگر آپ نے مختلف مفسرین اور علما کو پڑھا ہو گا تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کوئی ١٣ آیتوں کو منسوخ کہتا ہے کوئی ٥ کو، کوئی ٤٠٠ سے زیادہ. تو کیا ہم اس کا فیصلہ کریں گے کہ کونسی آیت منسوخ ہے اور کونسی نہیں؟

آخری بات کہ الله کا کلام ہے اور الله نے یہی کہا ہے کہ آخر تم اس پر غور کیوں نہیں کرتے. تو آپ خود اس آیت پر ١٥ منٹ غور کریں کیونکہ ہر انسان نے اپنا حساب خود ہی دینا ہے. الله ہمیں اپنے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے. آمین
 

سید ذیشان

محفلین
یہاں پر پہلی بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ الله نے کہا کہ ہم اگر کسی آیت کو
یعنی کہ اگر کے ساتھ یہ جملہ ہے نہ کہ لازم کے طور پر کہ ہم نے یہ آیت منسوخ کر دی ہیں.

دوسری بات یہ کہ آیت کہہ رہی ہے کہ ہم اگر کسی آیت کو منسوخ کریں تو یا بھلا دیں تو ہم اس کی جگہ اس سے بہتر لے آئیں گے. الله نے یہ حق کسی نبی کو بھی نہیں دیا کہ وہ اس کی آیات کو منسوخ کرے تو ہم مسلمان، فقہہ، محدثین، مفسرین کیسے کسی آیت کو منسوخ کر سکتے ہیں؟ اور اگر کسی آیت کو منسوخ کیا ہے تو پھر بتائیں کہ کس آیت کے نزول کے وقت الله نے کہا ہے کہ اب فلاں آیت منسوخ ہے؟

اگر آپ نے مختلف مفسرین اور علما کو پڑھا ہو گا تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کوئی ١٣ آیتوں کو منسوخ کہتا ہے کوئی ٥ کو، کوئی ٤٠٠ سے زیادہ. تو کیا ہم اس کا فیصلہ کریں گے کہ کونسی آیت منسوخ ہے اور کونسی نہیں؟

آخری بات کہ الله کا کلام ہے اور الله نے یہی کہا ہے کہ آخر تم اس پر غور کیوں نہیں کرتے. تو آپ خود اس آیت پر ١٥ منٹ غور کریں کیونکہ ہر انسان نے اپنا حساب خود ہی دینا ہے. الله ہمیں اپنے کلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق دے. آمین
یعنی اللہ نے نعوذ باللہ قرآن میں نسخ والی آیت بلا وجہ اتاری ہے؟ جب آیات منسوخ نہیں ہوئیں تو ان کا ذکر کرنا کیا اللہ کے کلام کی شان کے لائق ہے یا یہ لغو گفتگو میں آئے گا۔ استغفر اللہ۔ اس پر آپ گھنٹوں بیٹھ کر غور کریں۔ باقی آپ لنک پر کلک کریں اس میں تمام جوابات موجود ہیں۔

غور آپ کو کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ جن باتوں پر امت کا اجماع ہے اور ان کے بارے میں متواتر روایات موجود ہیں اور آیات بھی واضح ہیں۔ اس کے بعد کوئی اٹھ کر ان باتوں پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دے تو اس کو ثبوت بھی اسی پائے کا لانا پڑتا ہے۔ افسوس اب تک آپ کی کسی بھی بات میں کوئی بھی وزن نہیں ہے۔
 
مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰیَۃٍ اَوۡ نُنۡسِہَا نَاۡتِ بِخَیۡرٍ مِّنۡہَاۤ اَوۡ مِثۡلِہَا ؕ اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ

اُردو
جو آیت بھی ہم منسوخ کر دیں یا اُسے بھلا دیں، اُس سے بہتر یا اُس جیسی ضرور لے آتے ہیں۔ کیا تُو نہیں جانتا کہ اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے؟

اگر یہاں آیت سے مراد قرآنِ پاک کی آیات ہیں تو بھلانے سے کیا مراد ہے؟
 

ابن آدم

محفلین
یعنی اللہ نے نعوذ باللہ قرآن میں نسخ والی آیت بلا وجہ اتاری ہے؟ جب آیات منسوخ نہیں ہوئیں تو ان کا ذکر کرنا کیا اللہ کے کلام کی شان کے لائق ہے یا یہ لغو گفتگو میں آئے گا۔ استغفر اللہ۔ اس پر آپ گھنٹوں بیٹھ کر غور کریں۔ باقی آپ لنک پر کلک کریں اس میں تمام جوابات موجود ہیں۔

غور آپ کو کرنے کی زیادہ ضرورت ہے کہ جن باتوں پر امت کا اجماع ہے اور ان کے بارے میں متواتر روایات موجود ہیں اور آیات بھی واضح ہیں۔ اس کے بعد کوئی اٹھ کر ان باتوں پر انگلیاں اٹھانا شروع کر دے تو اس کو ثبوت بھی اسی پائے کا لانا پڑتا ہے۔ افسوس اب تک آپ کی کسی بھی بات میں کوئی بھی وزن نہیں ہے۔
میری اگر آپ نے باقی تحریریں بھی پڑھی ہوتیں تو آپ کو معلوم ہوتا کہ میں قرآن کی سورت کے نظم کا قائل ہوں. اگرچہ یہ تحریر اس موضوع پر نہیں ہے لیکن آپ نے اس کو چھیڑا ہے تو اس پر میں اپنی رائے دے دیتا ہوں.

سوره بقرہ مسلمانوں کو یہودیوں کو ان کے مقام سے ہٹا کر امت وسط کا مقام عطا کرنے والی سورت ہے تو اس میں بنیادی خطاب یہودیوں سے ہے کہ انھوں نے کیا کیا غلطیاں کیں. اور سورت کی بیشتر باتیں انہی کے ریفرنس سے ہو رہی ہیں. جیسے مسلمانوں کو رمضان کا بھی حکم دیا تو کہا کہ جیسے تم سے پہلے امت کو روزے عطا کیے. ایک مقام پر آیا کہ رکوع رنے والوں کے ساتھ رکوع کروں، یہودیوں کی بیشتر نمازوں میں رکوع نہیں ہوتا تو وہ حکم بھی ایک طرح سے یہودیوں کے تناظر میں ہے.

پھر قرآن میں ہی آتا ہے کہ حضرت عیسیٰ تورات کی ان کی چیزوں کی تعلیم دینے ائے تھے جو حصے یہودیوں میں باقی رہ گئے تھے. یعنی حضرت عیسیٰ کے انے تک ایک تو تورات میں تبدیلی ہو چکی تھی دوسرا کچھ حصہ گم بھی چکا تھا. اور یہاں پر اسی بات کا ریفرنس ہے کہ یہودیوں کو بتایا جا رہا ہے کہ تورات جو الله کا کلام تھا جس کا کچھ حصہ گم چکا تھا حضرت عیسیٰ کے مبعوث ہونے تک ہی اب الله اس سے بہتر احکامات لے آیا ہے اور وہ ہے قرآن مجید. اسی موضوع کی ایک اور آیت سوره ال عمران میں بھی اتی ہے. اور سوره مائدہ میں بھی آتی ہیں.

الله نے توفیق دی تو انشااللہ اس پر مکمل تحریر لکھنے کی کوشش کروں گا.
آپ کا میری بات سے راضی ہونا ضروری نہیں. باقی الله سے دعا ہے کہ الله میرا خاتمہ بالایمان کرے اور قیامت کے دن قرآن کو میری شفاعت کا ذریعہ بنائے. امین
 
گوگل بابا سے تلاش کے مطابق


قرآن پاک میں ناسخ و منسوخ آیات کی تعداد کیا ہے؟
قرآن پاک میں ناسخ ومنسوخ آیات کے بارے میں علما میں اختلاف ہے۔ امام جلال الدین السیوطی نے الاتقان فی علوم القرآن میں 20 آیات بتائی ہیں اور حضرت شاہ ولی اللہ نے الفوز الکبیر فی اصول تفسیر میں 5 آیات بتائی ہیں اور بعض کے نزدیک ناسخ ومنسوخ آیات کی تعداد اس سے بھی کم بتائی ہے۔

میرا ایمان ہے کہ قرآنِ عظیم الشان میں کچھ بھی منسوخ نہیں ۔سوال صرف حصولِ علم کی خاطر کیا تھا

جو بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ پر بطور قرآن نازل ہوا اس میں ایک سوشہ بھی تبدیل یا منسوخ نہیں ہوا۔
 

ابن آدم

محفلین
گوگل بابا سے تلاش کے مطابق


قرآن پاک میں ناسخ و منسوخ آیات کی تعداد کیا ہے؟
قرآن پاک میں ناسخ ومنسوخ آیات کے بارے میں علما میں اختلاف ہے۔ امام جلال الدین السیوطی نے الاتقان فی علوم القرآن میں 20 آیات بتائی ہیں اور حضرت شاہ ولی اللہ نے الفوز الکبیر فی اصول تفسیر میں 5 آیات بتائی ہیں اور بعض کے نزدیک ناسخ ومنسوخ آیات کی تعداد اس سے بھی کم بتائی ہے۔



جو بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ پر بطور قرآن نازل ہوا اس میں ایک سوشہ بھی تبدیل یا منسوخ نہیں ہوا۔

یہی بات میں نے کی تھی کہ شروع کے علماء تو اس تعداد کو ٥٠٠ تک لے گئے ہیں. تو یا تو ذیشان صاحب بتا دیں کہ کونسی آیات منسوخ ہیں. ورنہ یہ بات خود قرآن میں اختلاف نہیں پیدا کر رہی کہ کتنی آیات منسوخ ہیں
علمِ ناسخ ومنسوخ
 
قرآن کریم کا عظیم مقام ومرتبہ، اعلیٰ و ا رفع عظمت وشان اور بزرگی وہم وگمان سے برتر ہے۔
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ، کامل کتاب،آخری اور ابدی شریعت ہے اس کا ہر حرف اورہر لفظ غیر متبدل اور قیامت تک قائم رہنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اور ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِیْن قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ھٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّ مَوْعِظَۃٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ
یہ لوگوں کے لئے (کھوٹے کھرے میں تمیز کردینے والا) ایک بیان ہے اور ہدایت اور نصیحت ہے متقیوں کے لئے۔

یہ ساری دنیا کے تمام لوگوں کے لئے کتاب ہدایت ہے اسی لئے فرمایا کہ فَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا
(ترجمہ) پس کافروں کی پیروی نہ کر اور اس (قرآن) کے ذریعہ اُن سے ایک بڑا جہاد کر۔

لَا رَیْبَ فِیہِ کہ اس میں کسی قسم کا کوئی عیب اور شک وشبہ اور اسی طرح کوئی کمی، کجی اور کمزوری نہیں ہے کیونکہ اس کا تو نزول ہی ایسے تمام شکوک، اندھیروں، ظلمات اور تاریکیوں کو دور کرنے کے لئے اور انسانی قلوب کو یقین کامل اور محبت وقرب الہٰی کے نور سے معمور کرنے کے لئے ہوا ہے۔یہ اپنی تفسیر آپ کرتا ہے اور اَلْقُرْاٰنُ یُفَسِّرُبَعْضُہٗ بَعْضًا کا مصداق ہے۔ قرآن کریم زندہ اور زندگی بخش کتاب ہے۔ اس کی ہر بات، ہر حکم اور ہر تعلیم واضح ، روشن اور ابہام سے پاک اور روشنی اور نور عطا کرنے والی ہے اور یہ کتاب حق کل عالم میں شکوک و شبہات کی تاریک وادیوں میں بھٹکنے والی تمام نسل ِ انسانی کے لئے حق وصداقت کا آفتاب ِ عالمتاب ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
یہی بات میں نے کی تھی کہ شروع کے علماء تو اس تعداد کو ٥٠٠ تک لے گئے ہیں. تو یا تو ذیشان صاحب بتا دیں کہ کونسی آیات منسوخ ہیں. ورنہ یہ بات خود قرآن میں اختلاف نہیں پیدا کر رہی کہ کتنی آیات منسوخ ہیں
علمِ ناسخ ومنسوخ
مزید اس کے بارے میں جاننے کے لئے آپ تفسیر کے لنک پر جائیں۔ اس سے ہی آپ حضرات کی سنجیدگی ظاہر ہو رہی ہے کہ اوپر لنک پڑھے بغیر وہی سوالات کئے جا رہے ہیں۔ سپون فیڈنگ کرنے کا مجھے کوئی شوق نہیں ہے اور نہ ہی اتنا فارغ وقت ہے۔ اس لڑی میں یہ میرا آخری مراسلہ ہے۔
 
قرآن عظیم کی طرف ناسخ ومنسوخ کا عیب اور کمزوری منسوب کرنے کی بجائے اس کی عظمت وشان کے آگے اپنے سر جھکا دینے چاہئیں۔ اس کی ہدایات وتعلیمات کے نور سے اپنے سینوں کو منور کرکے اس کی برکتوں سے اپنی جھولیاں بھرنی چاہئیں۔

کیا قرآنِ عظیم میں کوئی ایک یا ایک سے زیادہ ایسی آیات ہیں جن سے منسوخ ہونے والی قرآنی آیت یا آیات کی نشاندہی کی گئی ہو۔



(1) جناب مفتی محمد شفیع کے فرزند شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دارالعلوم کراچی اپنی کتاب ’’علوم القرآن‘‘ طبع جدید نومبر 2004ء میں قرآن کریم میں ناسخ ومنسوخ کا پرزور اثبات کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں۔’’جمہور اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ قرآن کریم میں ایسی آیات موجود ہیں جن کا حکم منسوخ ہوچکا ہے۔‘‘

مزید لکھتے ہیں۔

’’قرآن کریم کی آیتوں میں نسخ کا وجود کوئی عیب نہیں ہے جس سے قرآن کریم کو خالی دکھانے کی کوشش کی جائے …لہٰذا کسی آیت کی کسی تفسیرکو محض اس بنا پر ردّ نہیں کرنا چاہئے جس کے مطابق قرآن میں نسخ لازم آتا ہے۔‘‘

(علوم القرآن صفحہ 172)

(2) اسی آیت کریمہ کی تفسیر کے تحت ڈاکٹر اسرار احمد تحریر کرتے ہیں کہ
’’پھر ناسخ ومنسوخ کا مسئلہ قرآن میں بھی ہے۔قرآن میں بھی تدریج کے ساتھ شریعت کی تکمیل ہوئی ہے …تو یہ ناسخ ومنسوخ کا مسئلہ صرف سابقہ شریعتوں اور شریعت محمدیؐ کے مابین ہی نہیں بلکہ خود شریعت محمدیؐ ( عَلیٰ صَاحِبِہَاالصّلوٰۃ وَالسّلَام )۔ میں بھی زمانی اعتبار سے ارتقاء ہوا ہے۔‘‘

(بیان القرآن حصہ اول از ڈاکٹر اسراراحمد۔ شائع کردہ انجمن خدام القرآن سرحد، پشاور، اشاعت سوم اگست 2009ء صفحہ 315-314)
 
Top