سنتوں پر عمل
کیا آپ نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جسے کھانے کیلئے روٹی اور سالن میسر ہو لیکن وہ صرف سوکھی روٹی کھانے پر اکتفا کرے اور سالن کو ہاتھ بھی نہ لگائے۔ جب اسے سالن کھانے کو کہا جائے تو کہے: بس پیٹ بھرنے کیلئے روٹی کافی ہے۔
آپ ایسے شخص کو کیا کہیں گے؟
آج کل ایسے ہی کچھ لوگ (خاص کر نوجوان) ہیں جو صرف فرض نمازیں پڑھتے ہیں اور جب انہیں سنت مؤکدہ پڑھنے کو کہا جاتا ہے تو اپنی فلسفہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔
عرب ممالک سے آئے ہوئے لوگ سنت مؤکدہ کو چھوڑنے میں پیش پیش ہیں کونکہ انہوں نے بعض عرب نوجوانوں کو سنت چھوڑتے دیکھا ہے یا عربوں کو مسجد میں سنت پڑھتے نہیں دیکھا، بس لگے انکی تقلید کرنے۔ حالانکہ عربوں میں دیندار لوگ بھی سنت مؤکدہ پڑھنے کا پوری اہتمام کرتے ہیں۔
ایسے بھائیوں سے گزارش ہے کہ یہ تقلید چھوڑ دیں، ہمیں تو حکم دیا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللَّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ
’’اے ایمان والو ! اﷲ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو‘‘۔
سنت مؤکدہ چھوڑ کر صرف فرض نمازیں ادا کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ سالن سامنے رکھی ہو اور سوکھی روٹی کھائی جائے۔ زیادہ تر سنتیں تو ہماری زندگی سے نکل چکی ہیں، اب جو باقی ہیں انہیں تو کم از کم ادا کیا جائے۔
شیطان نہایت ہی حاسد دشمن ہے۔ وہ اسی طرح مومنوں کو نیکیوں سے دور کرتا ہے، پہلے ایک نیکی چھڑاتا ہے پھر دوسری پھر تیسری۔ جو لوگ آج سنت مؤکدہ چھوڑ رہے ہیں، کیا بعید کہ کل ان سے فرض نمازیں بھی چھوٹنے لگے۔ پھر باقی کیا بچے گا ہمیں اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کیلئے۔
علما کہتے ہیں کہ سنت مؤکدہ کا چھوڑنا برا ہے، جب کہ اس کے چھوڑنے کی عادت بنا لینا گناہ ہے، نیز میدان حشر میں نبی کریم ﷺ کی شفاعت سے محروم ہونے کا ڈر ہے۔ شفاعت پانے کیلئے شفاعت کا مستحق ہونا ضروری ہے جو کہ سنت پر عمل کرکے ہی ممکن ہے۔ لہذا سنت پر عمل کیجئے تاکہ کل حشر میں آپ ﷺ کی شفاعت نصیب ہو۔
یاد رکھئے حدیث شریف میں ہے کہ:
جنت کی مٹی بڑی عمدہ ہے، یہاں کا پانی بہت میٹھا ہے، لیکن یہ چٹیل میدان ہے، اس میں کاشت کرنے (درخت لگانے) کی ضرورت ہے اور اس کی کاشت کاری ’’سُبحَانَ اللہِ، وَالحَمدُ لِلّٰہِ، وَلاَ اِلٰہَ اِلاّ اللہُ وَاللہُ اَکبر اور لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کا ورد ہے۔ (سلسله احاديث صحيحه، حدیث نمبر: 2965)
اور سنت مؤکدہ نمازیں ادا کرنے سے جنت میں گھر تیار ہوتا ہے:
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص دن میں (فرض نمازوں کے علاوہ) بارہ رکعتیں (سنت موکدہ) پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیتا ہے۔“ (مسلم، سنن ابوداود، سنن نسائي، مسند احمد)۔ [یہ ترتیب کچھ اسطرح ہے کہ فجر کی دو (2)، ظہر کی چھہ (6)، مغرب کی دو (2) اور عشاء کی دو (2) یعنی کل بارہ (12) رکعتیں]
اور
‏‏‏‏آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”فجر کی دو رکعتیں دنیا سے اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہیں‘‘۔ ( صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1688)
کتنی بڑی فضیلت ہے ان سنتوں کی۔ اس کے بعد بھی اگر ہم سنتوں کو ترک کرتے رہے تو یہ ہماری بڑی بد نصیبی ہوگی۔ ان سنتوں کو ادا کرنے میں کتنی محنت لگتی ہے یا کتنا وقت لگتا ہے؟ اصل بات محنت یا وقت کی نہیں ہے بلکہ ہماری منفی سوچ کی ہے۔ سنت مؤکدہ چھوڑنے والوں کے اذہان میں منفی سوچ کارفرما ہے جو کہ پیارے نبی کریم ﷺ سے محبت میں کمی کا نتیجہ ہے۔ لِلہ! اس منفی سوچ کو اپنی ذہن سے نکالئے۔ ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی نبی کریم ﷺ کی ذات بابرکات سے ہی ہے، آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہے، آپ ﷺ سے محبت میں ہے۔ پیارے نبی کریم ﷺ سے محبت میں کمی ہماری لئے دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی کا باعث ہے۔ اس محبت میں کمی واقع ہونے نہ دیجئے اور نہ صرف سنت مؤکدہ بلکہ ہر سنت پر مکمل عمل کیجئے۔
اصول: سنتوں کو ترک کرنا منفی سوچ کی وجہ کر ہے۔ سنتوں پر عمل کرکے اپنی سوچ کو مثبت بنائیے۔
تحریر: محمد اجمل خان
 

سیما علی

لائبریرین
سنتوں پر عمل
کیا آپ نے کسی ایسے شخص کو دیکھا ہے جسے کھانے کیلئے روٹی اور سالن میسر ہو لیکن وہ صرف سوکھی روٹی کھانے پر اکتفا کرے اور سالن کو ہاتھ بھی نہ لگائے۔ جب اسے سالن کھانے کو کہا جائے تو کہے: بس پیٹ بھرنے کیلئے روٹی کافی ہے۔
آپ ایسے شخص کو کیا کہیں گے؟
آج کل ایسے ہی کچھ لوگ (خاص کر نوجوان) ہیں جو صرف فرض نمازیں پڑھتے ہیں اور جب انہیں سنت مؤکدہ پڑھنے کو کہا جاتا ہے تو اپنی فلسفہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔
عرب ممالک سے آئے ہوئے لوگ سنت مؤکدہ کو چھوڑنے میں پیش پیش ہیں کونکہ انہوں نے بعض عرب نوجوانوں کو سنت چھوڑتے دیکھا ہے یا عربوں کو مسجد میں سنت پڑھتے نہیں دیکھا، بس لگے انکی تقلید کرنے۔ حالانکہ عربوں میں دیندار لوگ بھی سنت مؤکدہ پڑھنے کا پوری اہتمام کرتے ہیں۔
ایسے بھائیوں سے گزارش ہے کہ یہ تقلید چھوڑ دیں، ہمیں تو حکم دیا گیا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللَّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ
’’اے ایمان والو ! اﷲ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی بھی اطاعت کرو‘‘۔
سنت مؤکدہ چھوڑ کر صرف فرض نمازیں ادا کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ سالن سامنے رکھی ہو اور سوکھی روٹی کھائی جائے۔ زیادہ تر سنتیں تو ہماری زندگی سے نکل چکی ہیں، اب جو باقی ہیں انہیں تو کم از کم ادا کیا جائے۔
شیطان نہایت ہی حاسد دشمن ہے۔ وہ اسی طرح مومنوں کو نیکیوں سے دور کرتا ہے، پہلے ایک نیکی چھڑاتا ہے پھر دوسری پھر تیسری۔ جو لوگ آج سنت مؤکدہ چھوڑ رہے ہیں، کیا بعید کہ کل ان سے فرض نمازیں بھی چھوٹنے لگے۔ پھر باقی کیا بچے گا ہمیں اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے کیلئے۔
علما کہتے ہیں کہ سنت مؤکدہ کا چھوڑنا برا ہے، جب کہ اس کے چھوڑنے کی عادت بنا لینا گناہ ہے، نیز میدان حشر میں نبی کریم ﷺ کی شفاعت سے محروم ہونے کا ڈر ہے۔ شفاعت پانے کیلئے شفاعت کا مستحق ہونا ضروری ہے جو کہ سنت پر عمل کرکے ہی ممکن ہے۔ لہذا سنت پر عمل کیجئے تاکہ کل حشر میں آپ ﷺ کی شفاعت نصیب ہو۔
یاد رکھئے حدیث شریف میں ہے کہ:
جنت کی مٹی بڑی عمدہ ہے، یہاں کا پانی بہت میٹھا ہے، لیکن یہ چٹیل میدان ہے، اس میں کاشت کرنے (درخت لگانے) کی ضرورت ہے اور اس کی کاشت کاری ’’سُبحَانَ اللہِ، وَالحَمدُ لِلّٰہِ، وَلاَ اِلٰہَ اِلاّ اللہُ وَاللہُ اَکبر اور لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کا ورد ہے۔ (سلسله احاديث صحيحه، حدیث نمبر: 2965)
اور سنت مؤکدہ نمازیں ادا کرنے سے جنت میں گھر تیار ہوتا ہے:
آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص دن میں (فرض نمازوں کے علاوہ) بارہ رکعتیں (سنت موکدہ) پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنا دیتا ہے۔“ (مسلم، سنن ابوداود، سنن نسائي، مسند احمد)۔ [یہ ترتیب کچھ اسطرح ہے کہ فجر کی دو (2)، ظہر کی چھہ (6)، مغرب کی دو (2) اور عشاء کی دو (2) یعنی کل بارہ (12) رکعتیں]
اور
‏‏‏‏آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”فجر کی دو رکعتیں دنیا سے اور جو کچھ دنیا میں ہے ان سب سے بہتر ہیں‘‘۔ ( صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1688)
کتنی بڑی فضیلت ہے ان سنتوں کی۔ اس کے بعد بھی اگر ہم سنتوں کو ترک کرتے رہے تو یہ ہماری بڑی بد نصیبی ہوگی۔ ان سنتوں کو ادا کرنے میں کتنی محنت لگتی ہے یا کتنا وقت لگتا ہے؟ اصل بات محنت یا وقت کی نہیں ہے بلکہ ہماری منفی سوچ کی ہے۔ سنت مؤکدہ چھوڑنے والوں کے اذہان میں منفی سوچ کارفرما ہے جو کہ پیارے نبی کریم ﷺ سے محبت میں کمی کا نتیجہ ہے۔ لِلہ! اس منفی سوچ کو اپنی ذہن سے نکالئے۔ ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی نبی کریم ﷺ کی ذات بابرکات سے ہی ہے، آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہے، آپ ﷺ سے محبت میں ہے۔ پیارے نبی کریم ﷺ سے محبت میں کمی ہماری لئے دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی کا باعث ہے۔ اس محبت میں کمی واقع ہونے نہ دیجئے اور نہ صرف سنت مؤکدہ بلکہ ہر سنت پر مکمل عمل کیجئے۔
اصول: سنتوں کو ترک کرنا منفی سوچ کی وجہ کر ہے۔ سنتوں پر عمل کرکے اپنی سوچ کو مثبت بنائیے۔
تحریر: محمد اجمل خان
جزاک اللہ
اے مالک ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما
آمین ثم آمین
 
Top