ڈاکٹر نعیم چشتی کی غزلیات

غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

نہ اشک نکلےنہ لب سےکوئی صدا نکلی
بس ایک آہ مری بن کے اک دعا نکلی

مجھی پہ اس نے ہر اک بار مدعا ڈالا
کسی نے جرم کیا پر مری خطا نکلی

تمام کارروائی محض دکھاوا تھا
کہ فرد جرم سے پہلے مری سزا نکلی

گناہ میرا تھا کوئی نہ کوئی جرم ہی تھا
فروتنی میری سب سے بڑی خطا نکلی

میں بے قصورتھا پھر بھی قصوروار ہوا
تمام خلق خدا اس کی ہم نوا نکلی

ستم ہوا یہ بھی ظالم کے دور جاتے ہی
ہرایک گھرسےمرےحق میں اک صدا نکلی

وہ زندگی تھی کہ دنیا کہ دلربا کوئی
جسے بھی پیار کیا ہم نے بے وفا نکلی

نجانےبات ہےکیا تجھ سےچوٹ کھا کربھی
مرے لبوں سے ترے واسطے دعا نکلی

ہر ایک چہرے پہ غازہ تھا خوش نمائی کا
خلوص سمجھے جسے ہم وہ اک ادا نکلی

تمہیں نعیم کہا بھی تھا خامشی رکھو
چلی ہے بات تو دیکھو کہاں پہ جا نکلی
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

میری وحشت کا سبب زلف گرہ گیر نہ تھی
میرے پاؤں میں یہی ایک تو زنجیر نہ تھی

آتش غم میں جلا شمع کی مانند مدام
جز فنا پاس مرے کوئی بھی تدبیر نہ تھی

قتل کرنے کی مجھے اس نے بہت کی کوشش
اسے معلوم نہ تھا یہ مری تقدیر نہ تھی

زہے قسمت نہ کوئی تیر نشانے پہ لگا
میرے صیاد کی اس میں کوئی تقصیر نہ تھی

ایک لمحے میں غرور اسکا ہوا راکھ کا ڈھیر
آگ میں بھی تپش نالۂ شبگیر نہ تھی

ایک سے ایک حسیں چہرہ تھا بتخانے میں
پر ترے جیسی وہاں ایک بھی تصویر نہ تھی

تجھ سے بچھڑا تو بنی زیست مری آیت غم
اور کسی شخص کو بھی حاجت تفسیر نہ تھی

دل مرا تھا مگر اس پر تھی حکومت اسکی
میں جسے سمجھا تھا اپنا مری جاگیر نہ تھی

ہو نہ ہو یہ ہے نئی چال مرے دشمن کی
بزم یاراں میں مری اتنی تو توقیر نہ تھی

رب نے کب ساتھ دیا ہے کسی ظالم کا نعیم
آہ میں میری ہی شاید کوئی تاثیر نہ تھی
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

معجزے سارے کے سارے مرے دلدار کے تھے
میری غزلوں میں ہنر سارے مرے یار کے تھے

ایسے محسوس ہوا جیسے کوئی گلشن ہے
اب کے زنداں میں مناظر مرے گلزار کے تھے

شاید اس شہر میں ہو اپنا خریدار کوئی
ہم دل و جان لئے بیچ میں بازار کے تھے

تاکہ طعنہ نہ ہمیں دے کوئی بدحالی کا
ہم بنے سنورے ہوئے سامنے اغیار کے تھے

مسئلہ ایک ہی تھا کیسے جئیں ہم اس بن
ورنہ باقی کے سبھی مسئلے بے کار کے تھے

زیست مشکل سہی ہمت نہیں ہاری میں نے
میرے ہمراہ ہمہ وقت سخن یار کے تھے

ڈگمگاتا رہا طوفاں میں سفینۂ حیات
حوصلے پھر بھی بلند اپنے دل زار کے تھے

ہر طرف پھیل گئے قصے مری الفت کے
یہ کرم سارے مرے محرم اسرار کے تھے

اسکی محفل میں سدا پہنچا میں خوش باش نعیم
رخ پہ آثار تھکن کے نہ نشاں ہار کے تھے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

مایوس ہو گئے ہیں بہت زندگی سے ہم
تنگ آ گئے ہیں روز کی اس بے بسی سے ہم

کب تک رہیں گے مہر بہ لب تیرے عشق میں
کب تک سہیں گے دل پہ ستم خامشی سے ہم

کیسا ہے اپنا حال کچھ اس کی خبر نہیں
اب پوچھتے ہیں حال ترا ہر کسی سے ہم

بکھرےکچھ ایسےخواب کہ ہم خود بکھر گئے
ملتے ہیں دوستوں سے بھی بیگانگی سے ہم

دیکھیں جو آئینہ بھی تو آتا نہیں یقیں
لگتا ہے مل رہے ہیں کسی اجنبی سے ہم

چہلم کیا تھا ہم نے خود اپنے ہی پیار کا
سوچا تھا اب کبھی نہ ملیں گے کسی سے ہم

اپنے ہی ہاتھوں اپنی ہوئی پھر شکست فاش
کرنے لگے ہیں پیار دوبارہ اسی سے ہم

سج دھج کے ایک روز بڑی دھوم دھام سے
بارات لےکےگزریں گے تیری گلی سے ہم

پیوستہ ہے تمہی سے ہماری ہر اک خوشی
ملتےہیں ہر کسی سےتمہاری خوشی سےہم

آیا ہے پیش حادثہ ایسا کوئی نعیم
رہتےہیں ہر جگہ ہی بڑی بے دلی سے ہم
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

کر لیا فیصلہ تو دیر ہے کیا بسم اللہ
ہم سدا رہتے ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ

ہم نے شکوہ کیا تم سے نہ شکایت کوئی
تمہیں پھر بھی ہے اگر ہم سے گلہ بسم اللہ

ہم تو چپ چاپ ہر اک زخم وفا سہتے رہے
ایک ہی لب سے نکلتی تھی صدا بسم اللہ

کوئی بھی حکم دو تعمیل کریں گے اس کی
جان بھی پیش ہے اے جان وفا بسم اللہ

تم کہو گر تو چلیں ساتھ تمہارے ہم بھی
اور اب سوچنا کیا پوچھنا کیا بسم اللہ

فرض تھا ہم پہ کہ اک بار تجھے سمجھا دیں
پھر بھی اے دل تجھے جانا ہے تو جا بسم اللہ

اب بھی گر ساتھ ہیں ہم تو اسی بسم اللہ سے
ہم نے ہر بات پہ ہی اس سے کہا بسم اللہ

حسن کافر نے بھری بزم میں رکھا جو قدم
دیر تک کہتی رہی خلق خدا بسم اللہ

رقص کرتے ہوئے الفاظ چلے آتے ہیں
شعر کہنے میں بھلا حرج ہے کیا بسم اللہ

زخم کھا کے میں نے قاتل کو جو دیکھا تو نعیم
میرے دل نے اسے خوش ہو کے کہا بسم اللہ
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

شاعری میرے لئے سطوت ارژنگ ہوئی
سن کے اشعار مرے دنیا بڑی دنگ ہوئی

اس نے وہ جرأت پرواز مجھے بخشی ہے
آسماں پھیل گیا اور زمیں تنگ ہوئی

یہ ترے حسن کا جادو ہے کہ اس کا ہے کرم
مری دشمن تھی جو دنیا وہ مرے سنگ ہوئی

میں نے جب نام لیا اس کا ملا کانٹوں کا تاج
عاشقی میرے لئے تمغۂ اورنگ ہوئی

میں نے سوچا بھی نہ تھا اتنا بہادر ہے وہ
اسکی جرأت پہ مری عقل بھی کچھ دنگ ہوئی

پھر شہیدوں کا لہو وادی میں لایا ہے بہار
پھر سے کشمیر کی دھرتی بڑی گل رنگ ہوئی

ہم بھی آئیں گے نئے سال میں تم سے ملنے
اگر اس بار نہ پھر کوئی نئی جنگ ہوئی

کیا گلستاں سے ملے گا ہمیں کانٹوں کے سوا
سیر گل اب تو عنادل کے لئے ننگ ہوئی

بڑی بھرپور نعیم اس سے ملی داد وفا
تہمتیں سن کے طبیعت مری بے ڈھنگ ہوئی
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

زہے نصیب تمہارا پیام آیا ہے
ہمارے نام بھی کوئی سلام آیا ہے

طلوع ہونے کو ہے دوستو نیا سورج
شب الم کا قریب اختتام آیا ہے

خدا نے کر لی ہیں شاید مری دعائیں قبول
وہ مجھ سے ملنے بصد اہتمام آیا ہے

یہ مہربانئ قسمت ہے یا کوئی سازش
کہ ساقی میرے لئے لے کے جام آیا ہے

کسی کو آج ترس آیا ہے غریبوں پر
کوئی تو ہے جو ہمارے بھی کام آیا ہے

گری تھی برق تجلی جہاں پہ موسیٰ پر
الٰہی خیر کہ پھر وہ مقام آیا ہے

نظر اٹھا کے ہماری طرف بھی دیکھو تو
کہ تم سے ملنے تمہارا غلام آیا ہے

فسانے میری وفا کے زبان خلق پہ ہیں
سنا ہے ان میں تمہارا بھی نام آیا ہے

کسی کےدر پہ بھی جھکتی نہیں جبیں میری
تمہارا عہد وفا میرے کام آیا ہے

نعیم کرنے چلا تھا وہ بلبلوں کو شکار
شکاری آپ ہی اب زیر دام آیا ہے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

دنیا ہے ایک بحر تو ہستی حباب ہے
اک نقش ہے یہ زیست جو بر روئے آب ہے

طوطی اسی کا بولتا ہے کائنات میں
گو پرتو جمال پہ اس کے نقاب ہے

بلبل جو گا رہے ہیں گلستاں میں صبح وشام
یہ بھی اسی کا نغمۂ چنگ و رباب ہے

یہ ذہن ہے کہ اب بھی تذبذب میں مبتلا
لیکن یہ دل شروع سے پا در رکاب ہے

اس کے سبب ہی دہر میں ہیں خون ریزیاں
جڑ ہر فساد کی دل خانہ خراب ہے

دن رات تم اکڑتے ہو جس کے غرور سے
دو چار روز اور وہ عہد شباب ہے

ہو سکتی ہے کہیں بھی ملاقات موت سے
یعنی بہت قریب ہی یوم الحساب ہے

ہوتے ہیں سارے کام اسی کی رضا کے ساتھ
کب کوئی اپنے بس میں گناہ و ثواب ہے

کہتے ہیں لوگ موت جسے وہ ہے زںدگی
یہ زںدگی نعیم حقیقت میں خواب ہے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

تو نے جس پر بھی بس اک نظر عنایت کر دی
اس نے افلاک پہ تحریر حکایت کر دی

اس نے پرکھا مرے ایمان کو برسوں پہلے
بعد میں اس نے عنایات کی کثرت کر دی

اب تو ملتا ہوں میں دشمن سے بھی اٹھ کر یارو
عشق نے ختم مری ساری رعونت کر دی

کوئی مارے مجھے پتھر تو دعا دیتا ہوں
تو نے تبدیل مری برسوں کی عادت کر دی

زرد ہے رنگ مرا حال دوانوں جیسا
تو نے اے دوست! یہ کیسی میری حالت کر دی

آئینہ دیکھوں تو پہچان نہ پاؤں خود کو
تو نے تبدیل مری شکل و شباہت کر دی

اس کے دل پر بھی قیامت کوئی گزری ہو گی
جس نے اف بھی نہ کبھی کی تھی شکایت کر دی

ہم بھی نادان تھے کیسے کہ سمجھ کر اپنا
تیری خاطر پوری دنیا سے بغاوت کر دی

اب تو کرتا ہوں ترا ذکر بھری دنیا میں
تو نے پیدا مرے دل میں ایسی جرأت کر دی

یاد کرتا ہے زمانہ اسی انساں کو نعیم
جس نے تبدیل زمانے کی روایت کر دی
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

تمہاری انجمن سے یوں پریشاں حال ہم نکلے
کہ جیسے بزم یاراں سے فسردہ شمع غم نکلے

صدائیں ہم نے جتنی دیں وہ سب واپس پلٹ آئیں
جنہیں ہم نے خدا سمجھا وہ پتھر کے صنم نکلے

بھنور میں چھوڑ کر کشتی وہ خود ساحل پہ جا بیٹھے
ہمارے ناخدا بیگانۂ رنج و الم نکلے

خطا حوا نے کی جو کھا گئی ابلیس سے دھوکہ
گنہ شیطان ہی کا تھا مگر جنت سے ہم نکلے

حدیثیں سن چکے کتنی ریاکاری کے بارے میں
جناب شیخ کے پھر بھی نہ لیکن پیچ و خم نکلے

جوانی واعظ و ناصح کی گزری دیر میں لیکن
قریب المرگ جب پہنچے تو وہ سوئے حرم نکلے

گنے جب اشک میں نے جو بہائے تھے تری خاطر
ستارے آسماں کے میرے اشکوں سے بھی کم نکلے

خدایا موت آئے جب کہ سجدے میں مرا سر ہو
زباں پر ذکر ہو تیرا ہی جب بھی میرا دم نکلے

کبھی ہم نے جھکایا ہی نہیں سر ظلم کے آگے
یزیدوں کے مقابل حق کا ہم لے کر علم نکلے

نعیم اس سے مرا رشتہ اگر ہے بھی تو رسمی ہے
نہیں پرواہ جس کو میں جیؤں یا میرا دم نکلے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

تم سے ملائی آنکھ تو ہم دربدر ہوئے
کل تک جو باخبر تھے وہ اب بےخبر ہوئے

آپس کے فاصلے تھے کہ بڑھتے چلے گئے
نزدیک آئے اتنے کہ ہم دور تر ہوئے

برباد زندگی میں تھے پہلے بھی ہم مگر
لیکن ملے جو تم سے تو برباد تر ہوئے

آیا نہ ایک بار بھی موسم بہار کا
پیغام سب ہواؤں کے نا معتبر ہوئے

دل پر تمام زخم تھے تیرے ہی نام کے
حیران مجھ کو دیکھ کے سب چارہ گر ہوئے

منزل قریب آئی تو وہ ہو گئے جدا
جو میرے ہم خیال نہ تھے ہم سفر ہوئے

جن کو جہاں میں کوئی کبھی پوچھتا نہ تھا
تہمت لگا کے ہم پہ وہ اب معتبر ہوئے

شاید ہمیں بھی شوق تھا اونچی اڑان کا
کنج قفس سے نکلے تو بے بال و پر ہوئے

لکھی تھی سنگساری ہی اپنے نصیب میں
ہم لوگ اپنے عہد کے آئینہ گر ہوئے

پہلے بھی اپنی رکھتے تھے پہچان ہم نعیم
جب سے سخن شناس ہوئے معتبر ہوئے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

پتھر سے بت تراش کے بت کو خدا کیا
پھر اس سے میں نے سنگ دلی کا گلہ کیا

وہ دیکھتا رہا مجھے شک کی نگاہ سے
میں با وفا تھا اس نے مجھے بے وفا کیا

اسکی نظر سے زیست میں آئے سب انقلاب
اچھا کیا مجھے کبھی اس نے برا کیا

آیا تو ایک پل بھی نہ ٹھہرا وہ میرے پاس
گھر میں نے جس کے واسطے آراستہ کیا

پھر بھی گناہگار میں ٹھہروں تو کیا کروں
اس نے مرے نصیب میں جو لکھ دیا کیا

لگتا ہے آدمی نہیں بلکہ ہوں دیوتا
اس نے بلند میرا بڑا مرتبہ کیا

وعدہ خلافی مجھ سے اگر تم نے کی تو کیا
تم نے کسی کے ساتھ تو وعدہ وفا کیا

میرے عدو نے قرض دیا تھا کبھی مجھے
واپس اسی کے سکے میں میں نے ادا کیا

آساں نہیں تھا اتنا بھی ترک تعلقات
مشکل سے میں نے چھوڑنے کا فیصلہ کیا

وہ بولتا تھا اور ہی کوئی زباں نعیم
میں نے لگا کے سال کئی ترجمہ کیا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

اہل جنوں کے دل میں نئی اک ترنگ ہے
اہل خرد کے چہرے کا پھر زرد رنگ ہے

اپنی یہ جنگ ہے حق و باطل کے درمیاں
دولت کی جنگ ہے نہ حکومت کی جنگ ہے

اک تہلکہ سا مچ گیا نکلے جو سربکف
ظالم بھی سوچتا ہے کہ کیسا یہ ڈھنگ ہے

چلتی نہیں ہے ظلم کی داداگری سدا
کچھ کور باطنوں کی نظر پھر بھی تنگ ہے

دائم نہیں رہے گی سیاہی یہ رات کی
آئے گی صبح جس کا لہو جیسا رنگ ہے

رکھتے نہیں کسی سے بھی ذاتی عناد ہم
گر ہے کسی سے اپنی اصولوں کی جنگ ہے

وقت جہاد آیا تو ڈر کے کھسک گیا
چرچا تھا شیخ کا کہ بڑا وہ دبنگ ہے

سانسوں کی ڈور رہتی ہے اسکی گرفت میں
یہ زندگی بھی گویا کہ کوئی پتنگ ہے

ہر شعر سے نعیم جھلکتی ہے میری فکر
میری غزل پہ میرے تفکر کا رنگ ہے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

اک حشر ہے بپا دل حسرت مآب میں
ممکن نہیں سکون جہان خراب میں

الجھا ہوا ہے ذہن مسائل کے درمیاں
جیسے کہ زلف یار رہے پیچ و تاب میں

بیکار ہے امید وفا اہل حسن سے
یہ مضمون اختیاری ہے ان کے نصاب میں

لکھا ہےکیا شراب کےبارے میں اسمیں شیخ
رشوت تو اب حلال ہے تیری کتاب میں

واعظ ہمیں ڈرا نہ تو اتنا عذاب سے
کچھ لغزشیں تو ہوتی ہیں عہد شباب میں

لکھا تھا میں نے آخری وقت اب قریب ہے
بھیجی ہےاسنے پھولوں کی چادر جواب میں

ظالم کے ظلم پہنچے ہیں اپنے عروج پر
باقی ہے وقت تھوڑا ہی اب انقلاب میں

جلتا ہےاپنےشعلوں میں ہرروز صبح وشام
پنہاں ہے درد کوئی دل آفتاب میں

کیوںکر کروں بلںد نہ کلمۂ حق نعیم
میں نے پڑھا ہے درس بغاوت کتاب میں
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

اک جھلک دیکھ کےتیری سدا خوابوں میں رہے
جیسے میکش کوئی ہر وقت شرابوں میں رہے

تم سے اک بار ملے تو ہمیں احساس ہوا
جب تلک دور رہے تم سے عذابوں میں رہے

اور کسی روپ میں ہو جاتا ہے جلوہ افروز
حسن چھپتا ہی نہیں چاہے حجابوں میں رہے

حاکم شہر ہے جس نعرے پہ ناراض بہت
کیا خبر کل کو وہ مضمون نصابوں میں رہے

اصلی چہرے کبھی ان کے نظر آئے ہی نہیں
مہرباں میرے پراسرار نقابوں میں رہے

جمع کرتے رہے اپنی نیکیوں کے اعداد
حضرت شیخ تو تا عمر حسابوں میں رہے

تم سےبچھڑےتو بھٹکتےرہےہم دشت بہ دشت
کوئی پیاسا جیسےصحرا کےسرابوں میں رہے

یہ بھی کیا کم ہےکہ زندہ ہیں ابھی تک پیارے
ہم گناہوں میں رہے یا کہ ثوابوں میں رہے

راس آئی نہ ہمیں رونق دنیا بھی نعیم
ہم رہے یاں جیسے درویش خرابوں میں رہے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

اشک یوں بہتے ہیں ساون کی جھڑی ہو جیسے
شب ہجراں غم دوراں سے بڑی ہو جیسے

ہاں مجھے یاد ہے اب تک وہ جدائی کا سماں
ایسے بچھڑے کہ قیامت کی گھڑی ہو جیسے

نہ کوئی رنگ‘ نہ خوشبو‘ نہ بہاروں کا سراغ
زیست سوکھے ہوئے پھولوں کی لڑی ہو جیسے

بے سبب آج یہ دل میرا ہے ڈوبا ڈوبا
آنے والی کوئی مشکل کی گھڑی ہو جیسے

خوش ہیں یوں لوٹ کے ہم گوشۂ تنہائی میں
سانس لینے کی یہ فرصت بھی بڑی ہو جیسے

چند سکے لئے ہاتھوں میں وہ یوں نکلے ہیں
جنس الفت کسی رستے میں پڑی ہو جیسے

رات دن لوگ گناہوں میں لگے رہتے ہیں
توبہ کرنے کے لئے عمر پڑی ہو جیسے

فاصلہ تھوڑا سا طے کر کے میں رک جاتا ہوں
کوئی دیوار سی رستے میں کھڑی ہو جیسے

کامیابی کا سفر اتنا بھی دشوار نہیں
میرے پاؤں میں ہی زنجیر پڑی ہو جیسے

اسے دیکھا تو خدا آیا مجھے یاد نعیم
بت کافر سے مری آنکھ لڑی ہو جیسے
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

ہزار قتل کئے اور طبیب شہر ہوا
مرا رقیب بالآخر رقیب شہر ہوا

فریب کاری میں ظالم وہ ایسا یکتا ہے
حسیب شہر جو تھا اب حبیب شہر ہوا

تمام رستوں پہ اس نے لگا دئیے ناکے
مرے نصیب میں جو تھا نصیب شہر ہوا

خدا کےنام پہ اس نے لڑایا خلقت کو
خدا کی بستی کا دشمن خطیب شہر ہوا

وہ پیڑ جس کی سدا ہم نے آبیاری کی
ہمارے واسطے وہ ہی صلیب شہر ہوا

فلک پہ دعویٰ کسی کا زمین پر دعویٰ
یہ شہر یار بھی اب تو عجیب شہر ہوا

کہیں یہ شہر بھی جنگل نہ کوئی بن جائے
بہت زیادہ جو جنگل قریب شہر ہوا

ترےکرم سے روانی ہے میرےشعروں میں
تری نظر جو ہوئی میں ادیب شہر ہوا

ہرایک شخص کو تجھ تک کہاں رسائی ہے
ترے قریب جو ہے خوش نصیب شہر ہوا

نہ سیل غم ہے نہ موج نشاط گیتوں میں
چمن میں حادثہ کیا عندلیب شہر ہوا

نہ آشنا ہے مرا اور نہ کوئی دوست نعیم
دیار غیر میں آ کر غریب شہر ہوا
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

ہجرت پرندے شہر سے کرنے لگے ہیں اب
لالہ و گل بھی درد سے مرنے لگے ہیں اب

جس کے بغیر کٹتا نہ تھا ایک دن کبھی
اس کے بغیر سال گزرنے لگے ہیں اب

آئی غموں کی دھوپ تو نیندیں ہی اڑ گئیں
دیکھے تھے جتنے خواب بکھرنے لگے ہیں اب

احسان مجھ پہ کوئی ںیا کر اے میرے دوست
تو نے دئے تھے زخم جو بھرنے لگے ہیں اب

ہو کے رہے گا تم سے کسی روز سامنا
ہم رہ گزر سے تیری گزرنے لگے ہیں اب

آیا ہے خوش نصیب مسافر کوئی نیا
رستے خود اپنے آپ سنورنے لگے ہیں اب

آنے لگی ہے پھر سے صدائے جرس ہمیں
پھر قافلے وفا کے گزرنے لگے ہیں اب

دیوانگی نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے یہ
باتیں ہم اپنے آپ سے کرنے لگے ہیں اب

پوچھا نہ اس نے حال بھی گزرا جو پاس سے
لگتا ہے سارے نشے اترنے لگے ہیں اب

آئی ہے پھر سے ٹوٹ کے رونے کی رت نعیم
پھر زخم میرے دل کے نکھرنے لگے ہیں اب
 
غزل - ڈاکٹر نعیم چشتی

نہ ہمیں عشق کسی سے نہ ہی دیوانے ہیں
لوگ جو کہتے ہیں سب جھوٹ ہے افسانے ہیں

ہم کہاں اور کہاں عشق کی باتیں توبہ
ہم نے جو شعر کہے وہ سبھی افسانے ہیں

ہم جہاں رہتے ہیں وہ اور ہی دنیا ہے کوئی
ہم گلستاں جنہیں کہتے ہیں وہ ویرانے ہیں

ہم نے گر تجھ کو کہا پیر مغاں ٹھیک نہیں
نین ہیں نین ہی تیرے نہ کہ میخانے ہیں

پارساؤں کو مناسب نہیں مے کی باتیں
ہوںٹ بھی ہوںٹ ہیں تیرے نہ کہ پیمانے ہیں

ہم غلط تھے جو صنم خانہ بنایا دل کو
جو دھڑکتے ہیں وہ دل ہیں نہ کہ بتخانے ہیں

شمع مجبور تھی جلنے پہ سو جلتی ہی رہی
مرمٹے ہیں تو خطا وار یہ پروانے ہیں

کل تلک ساتھ جو رہتے تھے شبستانوں میں
آج وہ ملتے ہیں یوں جیسے کہ انجانے ہیں

ہم ہی پاگل تھے سمجھتے رہے پاگل ان کو
ہم نے دیوانہ کہا جن کو وہ فرزانے ہیں

نہ کوئی دوست ہمارا نہ کوئی یار نعیم
ہم جنہیں سمجھے کہ اپنے ہیں وہ بیگانے ہیں
 
Top